۳۶ خول تو اگلی صبح میں نے اپنے ہاتھوں اٹھائ

Asad Mujtaba

Chief Minister (5k+ posts)
نومبر ۲۰۲۲ میں عمران خان پر قاتلانہ حملہ کے بعد بنی گالہ کے باہر لگے جانثاران کیمپ زمان پارک شفٹ ہوچکے تھے اس لیے ہمارا بھی زیادہ تر وقت لاہور گزرتا تھا۔

پنجاب میں انتخابی طبل بجا تو سیاسی سرگرمیاں شروع ہوئیں، تحریک انصاف کی جانب سے پہلی ہی ریلی کے انقعاد پر دھاوا بول دیا گیا۔ درجنوں کارکنان کو گرفتار کرلیا گیا۔ شام تک ظلِ شاہ کی تشدد زدہ لاش سڑک پر پھنکی ملی۔۔

یہ ۸ مارچ ۲۰۲۲ کا واقعہ ہے۔ مارچ سال کا تیسرا مہینہ ہے اور مئی پانچواں!۱۴ مارچ کو خود پر درج ان گنت جعلی ایف آئی آرز میں سے ایک کی ضمانت کے لیے اسلام آباد آیا ہوا تھا، حالات کی نزاکت کے پیشِ نظر، عدالت میں حاضری کے بعد لاہور واپسی کے لیے نکلا ہی تھا کہ ہمارے ایم این اے جنید اکبر نے اطلاع دی کہ بڑی تعداد میں پنجاب پولیس کے اہلکار عمران خان کی ۱۸ مارچ کی عدالتی پیشی کے وارنٹ پر عملدرآمد کرانے پہنچ گئے ہیں۔ دن کے وقت عموماً کیمپوں پر مقامی لوگ کم ہوتے تھے صرف دور دراز سے آئے کارکن موجود تھے۔ نہتے کارکن کسی مسلح جنگ کے لیے تو ٹرین ہوئے نہ تھے، نہ پولیس کی طرح ہتھیاروں سے لیس تھے، نہ ریاستی اہلکاروں کی طرح monopoly of violence کا گھمنڈ تھا۔ عمران خان کی محبت میں ڈنڈوں، آنسو گیس کے سامنے ڈٹے رہے لیکن کتنا کوئی وقت ڈٹے رہتے؟ اس لیے پبلک کال دی اور قریب کے علاقوں سے کارکنان کو فوراً زمان پارک پہنچنے کا کہا۔

ہم اس بات سے بخوبی واقف تھے کہ چند گھنٹے سے زیادہ شاید ہی ہم اس معاملے کو کھینچ سکیں، مگر امید تھی کہ اس دوران وکلاء عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹا کر اُس شتر بے مہار کو کوئی لگام ڈال سکیں کہ جو اپنی منشاء سے آئین و قانون کی ناک اور بازو مروڑ کر اپنے گھناؤنے عزائم پر عملدرآمد کراتے آرہے تھے۔

سچ کہوں تو ظلِ شاہ کی موت نے کسی کے دل میں ایسا کوئی گمان بھی نہ رہنے دیا تھا کہ سامنے والے یہ سمجھیں گے کہ ہم ایک ہی ملک کے باشندے فقط آئین و قانون کی عملداری کے لیے برسرِ احتجاج ہیں پھر بھی سب سر پر کفن باندھ کر کھڑے رہے کیونکہ سب جانتے تھے کہ ۴ نومبر پہلا موقع نہیں تھا جو عمران خان کی جان لینے کی کوشش کی گئی تھی۔ نومبر سال کا گیارواں مہینہ ضرور ہے مگر یہ نومبر بھی اُس مئی سے پہلے ہی آیا تھا۔ اگلے ۲۴ گھنٹے کیا کیا ہوا، عمران خان کی قوم نے کیسے عمران خان کی حفاظت کی وہ کہانی تو تاریخ کے لیے لکھی جانی ہے، تین مرتبہ عمران خان نے باہر نکل کر ہمیں سمجھانے کی کوشش کی کہ انہوں نے بہر صورت لندن پلان پر عملدرآمد کرنا ہے۔ لیکن سب کی رائے یہی تھی کہ یہ تماشہ فقط گرفتاری کے لیے نہیں لگایا گیا۔

تمام رات اور اگلی صبح زمان پارک میں واقع ملک کے سابق وزیر اعظم، دنیا میں پاکستان کی پہچان، پچاس سال سے پاکستان کے سب سے قابلِ فخر بیٹے کے گھر پر سامنے سے اور ایچیسن کی جانب جانے والی سڑک سے فائیرنگ ہوتی رہی۔ ۳۶ خول تو اگلی صبح میں نے اپنے ہاتھوں اٹھائے۔ آنسو گیس کے شیلوں کی تعداد تو شاید گنتی سے ہی باہر تھی۔ گھر کے دروازوں اور دیواروں کو کرینوں اور بکتر بند گاڑیوں سے توڑنے کی کوششیں ہوئیں۔ اپنے لوگوں پر گولیاں چلائیں گئیں تشدد ہوا۔ یہ سب سال کی تیسرے مہینے میں ہورہا تھا، وہ مہینہ جو مئی سے پہلے آتا ہے!
 

Ozmate

Politcal Worker (100+ posts)
نومبر ۲۰۲۲ میں عمران خان پر قاتلانہ حملہ کے بعد بنی گالہ کے باہر لگے جانثاران کیمپ زمان پارک شفٹ ہوچکے تھے اس لیے ہمارا بھی زیادہ تر وقت لاہور گزرتا تھا۔

پنجاب میں انتخابی طبل بجا تو سیاسی سرگرمیاں شروع ہوئیں، تحریک انصاف کی جانب سے پہلی ہی ریلی کے انقعاد پر دھاوا بول دیا گیا۔ درجنوں کارکنان کو گرفتار کرلیا گیا۔ شام تک ظلِ شاہ کی تشدد زدہ لاش سڑک پر پھنکی ملی۔۔

یہ ۸ مارچ ۲۰۲۲ کا واقعہ ہے۔ مارچ سال کا تیسرا مہینہ ہے اور مئی پانچواں!۱۴ مارچ کو خود پر درج ان گنت جعلی ایف آئی آرز میں سے ایک کی ضمانت کے لیے اسلام آباد آیا ہوا تھا، حالات کی نزاکت کے پیشِ نظر، عدالت میں حاضری کے بعد لاہور واپسی کے لیے نکلا ہی تھا کہ ہمارے ایم این اے جنید اکبر نے اطلاع دی کہ بڑی تعداد میں پنجاب پولیس کے اہلکار عمران خان کی ۱۸ مارچ کی عدالتی پیشی کے وارنٹ پر عملدرآمد کرانے پہنچ گئے ہیں۔ دن کے وقت عموماً کیمپوں پر مقامی لوگ کم ہوتے تھے صرف دور دراز سے آئے کارکن موجود تھے۔ نہتے کارکن کسی مسلح جنگ کے لیے تو ٹرین ہوئے نہ تھے، نہ پولیس کی طرح ہتھیاروں سے لیس تھے، نہ ریاستی اہلکاروں کی طرح monopoly of violence کا گھمنڈ تھا۔ عمران خان کی محبت میں ڈنڈوں، آنسو گیس کے سامنے ڈٹے رہے لیکن کتنا کوئی وقت ڈٹے رہتے؟ اس لیے پبلک کال دی اور قریب کے علاقوں سے کارکنان کو فوراً زمان پارک پہنچنے کا کہا۔

ہم اس بات سے بخوبی واقف تھے کہ چند گھنٹے سے زیادہ شاید ہی ہم اس معاملے کو کھینچ سکیں، مگر امید تھی کہ اس دوران وکلاء عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹا کر اُس شتر بے مہار کو کوئی لگام ڈال سکیں کہ جو اپنی منشاء سے آئین و قانون کی ناک اور بازو مروڑ کر اپنے گھناؤنے عزائم پر عملدرآمد کراتے آرہے تھے۔

سچ کہوں تو ظلِ شاہ کی موت نے کسی کے دل میں ایسا کوئی گمان بھی نہ رہنے دیا تھا کہ سامنے والے یہ سمجھیں گے کہ ہم ایک ہی ملک کے باشندے فقط آئین و قانون کی عملداری کے لیے برسرِ احتجاج ہیں پھر بھی سب سر پر کفن باندھ کر کھڑے رہے کیونکہ سب جانتے تھے کہ ۴ نومبر پہلا موقع نہیں تھا جو عمران خان کی جان لینے کی کوشش کی گئی تھی۔ نومبر سال کا گیارواں مہینہ ضرور ہے مگر یہ نومبر بھی اُس مئی سے پہلے ہی آیا تھا۔ اگلے ۲۴ گھنٹے کیا کیا ہوا، عمران خان کی قوم نے کیسے عمران خان کی حفاظت کی وہ کہانی تو تاریخ کے لیے لکھی جانی ہے، تین مرتبہ عمران خان نے باہر نکل کر ہمیں سمجھانے کی کوشش کی کہ انہوں نے بہر صورت لندن پلان پر عملدرآمد کرنا ہے۔ لیکن سب کی رائے یہی تھی کہ یہ تماشہ فقط گرفتاری کے لیے نہیں لگایا گیا۔

تمام رات اور اگلی صبح زمان پارک میں واقع ملک کے سابق وزیر اعظم، دنیا میں پاکستان کی پہچان، پچاس سال سے پاکستان کے سب سے قابلِ فخر بیٹے کے گھر پر سامنے سے اور ایچیسن کی جانب جانے والی سڑک سے فائیرنگ ہوتی رہی۔ ۳۶ خول تو اگلی صبح میں نے اپنے ہاتھوں اٹھائے۔ آنسو گیس کے شیلوں کی تعداد تو شاید گنتی سے ہی باہر تھی۔ گھر کے دروازوں اور دیواروں کو کرینوں اور بکتر بند گاڑیوں سے توڑنے کی کوششیں ہوئیں۔ اپنے لوگوں پر گولیاں چلائیں گئیں تشدد ہوا۔ یہ سب سال کی تیسرے مہینے میں ہورہا تھا، وہ مہینہ جو مئی سے پہلے آتا ہے!
This is so sad and shows how cruel the state can be on his own people....this happened in 1971 and happening in 2023-24. May Allah save people from the cruelty of muneer and Gang