یہ حادثہ نہیں قتل ہے،وہ جانتے تھے کہ ان کی جان کوخطرہ ہے،اہلیہ ارشد شریف

14javeriasadiarshad.jpg

پاکستان میرا ملک، میرا جینا مرنا وہیں ہے، کچھ روز بعد پاکستان واپس آ جائوں گا۔

تفصیلات کے مطابق معروف صحافی وتجزیہ نگار ارشد شریف کے اتوار کی رات کینیا کے دارالحکومت نیروبی میں فائرنگ کے واقعے میں شہید ہونے کی خبر سامنے آنے کے بعد جہاں سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر شہری افسوس کا اظہار کر رہے ہیں اور واقعے کی آزادنہ، غیرجانبدارنہ تحقیقات کا مطالبہ کیا جا رہا ہےوہیں ان کے اہل خانہ شدید صدمے سے دوچار ہیں۔

انڈیپینڈنٹ اردو کے مطابق ارشد شریف کی اہلیہ جویریہ صدیق نے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ وہ 10 اگست کو دبئی روانہ ہوئے تھے جہاں ویزا کی معیاد ختم ہونے کے باعث وہ گزشتہ ماہ کینیا چلے گئے، پچھلے 6 ماہ سے ارشد کو قتل کی دھمکیاں دی جا رہی تھیں، انہیں سیاسی پناہ کیلئے درخواست دینے کو کہا تو ارشد نے کہا کہ پاکستان میرا ملک، میرا جینا مرنا وہیں ہے، کچھ روز بعد پاکستان واپس آ جائوں گا۔

جویریہ صدیق نے بتایا میری ان سے آخری بار اتوار کی شب 10 بجے بات ہوئے اس کے بعد میسجز کرنے کے باوجود رابطہ نہیں ہو سکا، سوچا مصروف ہونگے لیکن کچھ دیر بھی ان کا نمبر بند ہو گیا اور رات 2 بجے نیروبی سے ان کے دوست نے بتایا کہ ان کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے، پھر کچھ دیر بعد بتایا کہ انہیں گولی لگی ہے، وہ قتل کر دیئے گئے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ 6 ماہ پہلے طالبان نے قتل کی دھمکیاں دیں جس کے بعد ملک چھوڑنے کا فیصلہ کیا اور دبئی چلے گئے، قاتلوں نے وہاں بھی پیچھا کیا، یہ کوئی حادثہ نہیں قتل ہے اور ارشد کو علم تھا کہ ان کی جان کو خطرہ ہے لیکن انہوں نے کہا کہ کچھ دن بعد پاکستان آ جائونگا، اب وہ واپس آ تو رہے ہیں لیکن کفن میں!

https://twitter.com/x/status/1584342956877570048
سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے پیغام میں جویریہ صدیق نے اپنے پیغام میں لکھا کہ: میں نے آج اپنے دوست، شوہر اور اپنے پسندیدہ صحافی کو کھو دیا، پولیس کے مطابق اسے کینیا میں گولی مار دی گئی! ہماری پرائیویسی کا احترام کریں اور برائے مہربانی ہماری فیملی کی تصویریں، ذاتی تفصیلات اور ہسپتال سے اس کی آخری تصاویر شیئر نہ کریں!ہمیں اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں۔

ارشد نے دبئی میں ویزا ختم ہونے اور قتل کی دھمکیوں کے باعث ویزا دوبارہ حاصل کرنے کیلئے افریقی ملک جانے کا فیصلہ کیاں جہاں ان کا دوست موجود تھا جن کے فارم ہائوس وہ سانحے کی رات جا رہے ہیں!

جویریہ صدیق کا کہنا تھا کہ ہمیں کل تک علم نہیں تھا کہ وہ کینیا میں ہیں، سکیورٹی خدشات کے باعث انہوں نے ہمیں ملک کا نام نہیں بتایا تھا۔ارشد ذمہ دار شوہر، بیٹے اور باپ تھے، گزشتہ ہفتے تک وہ اپنی ساری ذمہ داریاں اچھے طریقے سے نبھا رہے تھے، کبھی کسی معاملے میں کوتاہی نہیں کی، میرا شوہر اور دوست دونوں بچھڑ گئے، انہوں نے سوال اٹھایا کہ آج تک کسی کو انصاف ملا؟ اگر ملا بھی تو دنیا سے جانے والا واپس تو نہیں آ سکتا!

شیخ رشید اور عمران خان سمیت متعدد شخصیات نے ارشد شریف کے گھر جا کر ان کے اہل خانہ سے افسوس کا اظہار کیا۔ ارشد شریف کی 70 سالہ والدہ نے کہا کہ ’گواہ رہنا میرے بچے اس ملک پر قربان ہو گئے۔‘

https://twitter.com/x/status/1584393933299519490
سینئر صحافی بشیر چودھری نے ارشد شریف کی شہادت پر اپنے ٹویٹر پیغام میں لکھا کہ: تعلق تو بہت پہلے سے تھا! ملاقاتیں بھی تھیں! ڈان میں ایک دفعہ انٹرویو بھی لیا میرا لیکن جاب نہ ہوئی! دنیا نیوز کے ڈائریکٹر نیوز بنے تو تین لوگوں نے مجھ سے سی وی لیا کہ ارشد شریف نے مانگا ہے! 13 جنوری 2013ء کی شام آٹھ بجے عیسیٰ کا فون آیا دنیا نیوز کے دفتر آئو! پھر ہماری راہیں جدا ہوئی لیکن کچھ سالوں بعد اے آر وائی میں پھر سے اکٹھے ہگوئے اور آٹھ سال اکٹھے گزارے!

انہوں نے کہا کہ ان کے جانے کا انتہائی دکھ ہے، لفظوں میں بیان نہیں کر سکتا، 22 سالہ رفاقت انجام کو پہنچی، یہ خلا کبھی پر نہیں ہو سکتا۔ ارشد شریف دوستوں کے دوست اور عاجز انسان تھے! ان ٹیم میں کام کرتے رہے لیکن ’کسی خبر پر کسی ایک دن، ایک لمحے کیلئے اپنی ٹیم اور اپنے رپورٹرز تک دباؤ نہیں آنے دیا جبکہ کھانے کی میزبانی کے لیے تیار رہتے تھے!

صحافی عیسی نقوی کا کہنا تھا کہ ’ارشد شریف باس ہونے کے ساتھ ساتھ دوست بھی تھے! 2005ء میں صحافت کا آغاز کیا تو ارشد سے دوستی ہو گئی، خبرپر سمجھوتہ نہ کرنے والے پیشہ ور صحافی تھے، برمنگھم میں ایک تقریب میں منتظمین سے بدمزگی پر انہوں نے جیسے میرا دفاع کیا وہ مناظر آج بھی ذہن میں نقش ہیں! جب چینی صدر کا دورہ پاکستان ملتوی ہونے کی خبر دی تو چینل نے کہا بہت بڑی خبر ہے، آفیشل کمنٹ کے بغیر اتنی بڑی خبر نہیں چلانی چاہیے! معاملہ بیوروچیف ارشد شریف کے سامنے آیا تو انہوں نے پوچھا کہ عیسیٰ خبر پکی ہے نا؟

میں نے کہا ہزار فیصد! پھر ان کے ایک فون پر خبر بریکنگ کے طور پر ٹی وی سکرین پر تھی۔ واقعات بے شمار ہیں لیکن الفاظ مکمل ساتھ نہیں دے رہے۔‘