PAINDO
Siasat.pk - Blogger
مورخہ ٠٨/٠٨/٢٠١١ بروز سوموار سحری ٣:٣٠ بسم الله کی آواز مجھے گہری نیند سے بیدار کر دیتی ہے جو کہ میرے موبائل الارم سے آ رہی تھی میں نید میں الارم بند کرتا ہوں اور پھر آنکھ لگ جاتی ہے
دیکھتا ہوں ایک بہت بڑا سر سبز اور شاداب باغ ہے اور باغ میں میرے دائیں جناب محترمہ بنظیر بھٹو سفید کاٹن کے کپڑوں میں ملبوس تشریف فرما ہیں اور مرے بائیں جانب محترمہ کا کوئی گھریلو ملازم کھڑا ہے چھوٹےسے قد کا شکل اور انداز سے لالچی اور بے صبرا سا سر پر چند بال سجانے ہووے
میں گھاس پر بیٹھا ہوں میرے سامنے لکڑی کی چوٹی سی میز پر ایک لیڈی ہینڈ بیگ رکھا ہوا ہے
محترمہ مجھ سے مخاطب ہو کر کہتی ہیں یہ وہ بیگ ہے جو مرنے سے قبل میرے پاس تھا مجھے مسکراتے ہوے کھولنے کا کہتی ہیں میں بیگ کھولتا ہوں اور اس میں سے تین انتاہی قیمتی گلے کے ہار اور دو انتاہی خوبصورت تسبیاں نکلتی ہیں میں پہلا ہار محترمہ کو دکھاتا ہوں محترمہ کہتی ہیں دوسرا دیکھو میں دوسرا دیکھتا ہوں یہ موتیوں کا انتہائی قیمتی ہار ہوتا ہے اسی طرح میں تیسرا ہار دکھاتا ہوں ہاروں کے بعد میں تسبیاں دکھاتا ہوں یہ دو تسبیاں ایک چاندی کے موتیوں کی اور ایک گہرے کتھئی رنگ کے پتھروں کی ہے محترمہ مسکراتے ہووے مجھے کہتی ہیں یہ تسبیاں تمھارے لئے ہیں تسبیاں میرے بائیں ہاتھ میں ہیں اسی لمحے محترمہ کا وہ ملازم میرے ہاتھ سے تسبیاں لے لیتا ہے مگر محترمہ کہتی ہیں نہیں یہ تمھارے لئے نہیں ہیں مگر ملازم چاندی کی تسبی اپنے پاس رکھ کر مجھے دوسری تسبی لوٹا دیتا ہے اسی لمحے محترمہ دوبارہ ملازم سے کہتی ہیں میں نے کہا نہ یہ تمھارے لیے نہیں ہے ملازم دوسری تسبی بھی مجھے لوٹا دیتا ہے
اور محترمہ مسکراتے ہووے مجھ سے مخاطب ہو کر . تم جانتے ہو نا میں یہ تم کو کیوں دے رہی ہوں میں بھی مقصد کو سمجھتے ہووے ہاں میں سر ہلا دیتا ہوں
میں محترمہ سے پوچھتا ہوں کہ محترمہ کیا امین فہیم بھی روزے رکھتے ہیں ؟
محترمہ بڑی اونچی آواز میں ہنستے ہووے کہتی ہیں میں نے ایک دفعہ مخدوم صاحب سے پوچھا کہ مجھے تو کپڑا بیچنے والا صبح سحری میں اٹھا دیتا ہے جیسے ہی آواز" لگاتا ہے کورا لٹھا لے لو" مخدوم صاحب آپ کتنے بجے اٹھتے ہیں تو مخدوم صاحب کہنے لگے سحری کوئی اٹھنے کا وقت تو نہیں ہوتا وہی تو نیند کا اصل وقت ہوتا ہے اور پھر محترمہ قہقہ لگا کر ہنس دیتی ہیں یہاں تک کہ میں محترمہ کے سامنے کا دو دانتوں کے درمیان کا وقفہ بڑا واضح دیکھتا ہوں
دیکھتا ہوں ایک بہت بڑا سر سبز اور شاداب باغ ہے اور باغ میں میرے دائیں جناب محترمہ بنظیر بھٹو سفید کاٹن کے کپڑوں میں ملبوس تشریف فرما ہیں اور مرے بائیں جانب محترمہ کا کوئی گھریلو ملازم کھڑا ہے چھوٹےسے قد کا شکل اور انداز سے لالچی اور بے صبرا سا سر پر چند بال سجانے ہووے
میں گھاس پر بیٹھا ہوں میرے سامنے لکڑی کی چوٹی سی میز پر ایک لیڈی ہینڈ بیگ رکھا ہوا ہے
محترمہ مجھ سے مخاطب ہو کر کہتی ہیں یہ وہ بیگ ہے جو مرنے سے قبل میرے پاس تھا مجھے مسکراتے ہوے کھولنے کا کہتی ہیں میں بیگ کھولتا ہوں اور اس میں سے تین انتاہی قیمتی گلے کے ہار اور دو انتاہی خوبصورت تسبیاں نکلتی ہیں میں پہلا ہار محترمہ کو دکھاتا ہوں محترمہ کہتی ہیں دوسرا دیکھو میں دوسرا دیکھتا ہوں یہ موتیوں کا انتہائی قیمتی ہار ہوتا ہے اسی طرح میں تیسرا ہار دکھاتا ہوں ہاروں کے بعد میں تسبیاں دکھاتا ہوں یہ دو تسبیاں ایک چاندی کے موتیوں کی اور ایک گہرے کتھئی رنگ کے پتھروں کی ہے محترمہ مسکراتے ہووے مجھے کہتی ہیں یہ تسبیاں تمھارے لئے ہیں تسبیاں میرے بائیں ہاتھ میں ہیں اسی لمحے محترمہ کا وہ ملازم میرے ہاتھ سے تسبیاں لے لیتا ہے مگر محترمہ کہتی ہیں نہیں یہ تمھارے لئے نہیں ہیں مگر ملازم چاندی کی تسبی اپنے پاس رکھ کر مجھے دوسری تسبی لوٹا دیتا ہے اسی لمحے محترمہ دوبارہ ملازم سے کہتی ہیں میں نے کہا نہ یہ تمھارے لیے نہیں ہے ملازم دوسری تسبی بھی مجھے لوٹا دیتا ہے
اور محترمہ مسکراتے ہووے مجھ سے مخاطب ہو کر . تم جانتے ہو نا میں یہ تم کو کیوں دے رہی ہوں میں بھی مقصد کو سمجھتے ہووے ہاں میں سر ہلا دیتا ہوں
میں محترمہ سے پوچھتا ہوں کہ محترمہ کیا امین فہیم بھی روزے رکھتے ہیں ؟
محترمہ بڑی اونچی آواز میں ہنستے ہووے کہتی ہیں میں نے ایک دفعہ مخدوم صاحب سے پوچھا کہ مجھے تو کپڑا بیچنے والا صبح سحری میں اٹھا دیتا ہے جیسے ہی آواز" لگاتا ہے کورا لٹھا لے لو" مخدوم صاحب آپ کتنے بجے اٹھتے ہیں تو مخدوم صاحب کہنے لگے سحری کوئی اٹھنے کا وقت تو نہیں ہوتا وہی تو نیند کا اصل وقت ہوتا ہے اور پھر محترمہ قہقہ لگا کر ہنس دیتی ہیں یہاں تک کہ میں محترمہ کے سامنے کا دو دانتوں کے درمیان کا وقفہ بڑا واضح دیکھتا ہوں