گنوار
Citizen
ایک تو جہالت کی اتھاہ گہرائی میں گری ہوئی یہ قوم، اور اوپر سے انھیں مل گیا سوشل میڈیا یہ تو گویا بندر کے ہاتھ میں کلاشنکوف تھما دی کسی نے اور وہ بھی بھری ہوئی اب یہ ٹھاہ ٹھاہ بھی کرتا ہے اور ٹھمکے بھی لگاتا ہے معزز صحافی برادری کے تو ہر سوراخ میں دم کر رکھا ہے ان گنواروں نے نہ کسی کی شرم نہ لحاظ، بس منہ اٹھایا، کی بورڈ پر ہاتھ چلایا اور جو دماغ میں آیا اگل دیا بھلا مہذب معاشروں میں ایسے ہوتا ہے؟ کارپوریٹ میڈیا ہمیشه یک رخی ہوتا ہے عوام کے کانوں کے پردے پھاڑ کر ان کے دماغوں میں گھستا ہے اور ان کے بولنے سے قبل زبان تالو سے کھینچ لیتا ہے- پھر ان میں اپنے تخلیق کردہ صوتی اثرات کی عکس بندی کرتا ہے جو ایک طرح کی ذہنی نس بندی ہوتی ہے کہ جس کے بعد عوام تخلیقی صلاحیت سے بے بہرہ ہو جائیں اور پیر ٹی وی سائیں کا دیا ہوا پتر ہی گود لیں پھر ساری عوام ہیر کی طرح صرف اسی رانجھے کا راگ الاپیں جو سکرینیں پھاڑ پھاڑ کر گھر گھر پہنچایا جاۓ اب آپ ہی بتائیں کہ اتنے طاقتور میڈیا کو، کہ جو صرف حکم دینے کا عادی ہو اور جس کے سامنے کبھی کروڑوں بیوقوفوں کو چوں کرنے کی بھی جرات نہ ہوئی ہو، بھلا کیونکر یہ گستاخیاں گوارا ہوں گی
میرا تعلق بھی چونکہ جہلا کی ہی قماش سے ہے تو تھوڑا حق مجھے بھی دیجیے کہ میں اپنی پوزیشن واضح کر سکوں کہ آخر ہماری ایسی تربیت کیسے ہوئی اس واقعہ کو زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب حضرت علامہ مشرف نے اس قوم کو مشرف با روشن خیالی کے پیکج تقسیم کرنے کیلئے اعلی نسل کے میڈ ان یو ایس اے دانشوروں کی ایک فوج امپورٹ کی ان احباب کے گراں قدر پٹھے مشوروں سے دھڑادھڑ ٹی وی چینلز ایسے کھولے گئے جیسے گاؤں میں بارات آنے پر پیپسی کی بوتلیں کھلتی ہیں اور ہر کونے کھدرے سے ٹھاہ ٹھاہ کی آوازیں آتی ہیں ریٹنگ کے کیڑے نے کم و بیش ہر اینکر کو ایسی ایسی انگل دی کہ اختلاف راۓ پر شرکاء کا دست و گریباں ہونا کامیاب شو کی ضمانت ٹھہرا - ہم تو پہلے ہی پنجابی تھیٹر دیکھنے والے ان پڑھ پینڈو تھے، چھوٹی سکرین نے یہ تفریح ہماری دہلیز پر پہنچا کر جوق در جوق کمائی کی روزانہ رات کو سیاسی تھیٹر دیکھ دیکھ کر ہمارا بھی دل مچلنے لگا کہ ہم بھی حسن نثار کی طرح اپنے مد مقابل سے بھڑ جایئں اور اس کا حشر نشر کر دیں، نذیر ناجی اور مشاہد اللہ خان کی طرح ننگی گالیاں بکیں، نون لیگ کے قابل فخر مجددین کو ہیرو مان کر کسی ماروی کی شلوار کا نقشہ کھینچیں (اس سے آگے کی تو ہم سوچ بھی نہیں سکتے)، اچکزئی صاحب اور فیصل رضا صاحب کی طرح جوش خطابت میں کسی قصوری کو چوتڑوں سے گھاس کاٹنے پر مجبور کر دیں- ہمیں تو کچی شراب بھی میسر نہیں، تو کم از کم ایک پکا سیگرٹ لگا کر عالم نیم مدہوشی میں حضرت نصرت جاوید اور قبلہ طاہر اشرفی کے نقش قدم پر چل کر اپنے جہالت سے لتھڑے کپڑے اتار پھینکیں اور اعلی پاۓ کا ننگا بادشاہ بن کر معززین کی فہرست میں شامل ہوجائیں -
پھر نیا زمانہ آیا، اپنے ساتھ انٹرنیٹ لایا اور ہمیں اپنے ہیروز کے سٹائل اپنانے کا راستہ نظر آیا- اینکرز نے جو بویا، وہ ہم سے کٹوایا- مگر مگر مگر ------ آج جب ہم اپنے انہی سٹائل آئی کونز کو فالو کرتے ہوۓ انہی کی سکھائی ہوئی طرز میں ان سے ہم کلام ہوتے ہیں تو اپنی ذات میں آپ مفکر محترم طلعت بھائی، دو ٹکے سے ذرا مہنگے عزت ماب جاوید چوہدری، سیاپا کرنے والی آنٹی نصرت، عالم الجہلا ابصار عالم، گھات گھات کی پارٹی سونگھنے والے فواد چوہدری اور گالم گلوچ کے زیر سایہ پلنے والے سلیم صافی ہمیں کیوں کوستے ہیں؟
شائد ہم کل بھی جاہل زندہ تھے، ہم آج بھی جاہل زندہ ہیں-
میرا تعلق بھی چونکہ جہلا کی ہی قماش سے ہے تو تھوڑا حق مجھے بھی دیجیے کہ میں اپنی پوزیشن واضح کر سکوں کہ آخر ہماری ایسی تربیت کیسے ہوئی اس واقعہ کو زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب حضرت علامہ مشرف نے اس قوم کو مشرف با روشن خیالی کے پیکج تقسیم کرنے کیلئے اعلی نسل کے میڈ ان یو ایس اے دانشوروں کی ایک فوج امپورٹ کی ان احباب کے گراں قدر پٹھے مشوروں سے دھڑادھڑ ٹی وی چینلز ایسے کھولے گئے جیسے گاؤں میں بارات آنے پر پیپسی کی بوتلیں کھلتی ہیں اور ہر کونے کھدرے سے ٹھاہ ٹھاہ کی آوازیں آتی ہیں ریٹنگ کے کیڑے نے کم و بیش ہر اینکر کو ایسی ایسی انگل دی کہ اختلاف راۓ پر شرکاء کا دست و گریباں ہونا کامیاب شو کی ضمانت ٹھہرا - ہم تو پہلے ہی پنجابی تھیٹر دیکھنے والے ان پڑھ پینڈو تھے، چھوٹی سکرین نے یہ تفریح ہماری دہلیز پر پہنچا کر جوق در جوق کمائی کی روزانہ رات کو سیاسی تھیٹر دیکھ دیکھ کر ہمارا بھی دل مچلنے لگا کہ ہم بھی حسن نثار کی طرح اپنے مد مقابل سے بھڑ جایئں اور اس کا حشر نشر کر دیں، نذیر ناجی اور مشاہد اللہ خان کی طرح ننگی گالیاں بکیں، نون لیگ کے قابل فخر مجددین کو ہیرو مان کر کسی ماروی کی شلوار کا نقشہ کھینچیں (اس سے آگے کی تو ہم سوچ بھی نہیں سکتے)، اچکزئی صاحب اور فیصل رضا صاحب کی طرح جوش خطابت میں کسی قصوری کو چوتڑوں سے گھاس کاٹنے پر مجبور کر دیں- ہمیں تو کچی شراب بھی میسر نہیں، تو کم از کم ایک پکا سیگرٹ لگا کر عالم نیم مدہوشی میں حضرت نصرت جاوید اور قبلہ طاہر اشرفی کے نقش قدم پر چل کر اپنے جہالت سے لتھڑے کپڑے اتار پھینکیں اور اعلی پاۓ کا ننگا بادشاہ بن کر معززین کی فہرست میں شامل ہوجائیں -
پھر نیا زمانہ آیا، اپنے ساتھ انٹرنیٹ لایا اور ہمیں اپنے ہیروز کے سٹائل اپنانے کا راستہ نظر آیا- اینکرز نے جو بویا، وہ ہم سے کٹوایا- مگر مگر مگر ------ آج جب ہم اپنے انہی سٹائل آئی کونز کو فالو کرتے ہوۓ انہی کی سکھائی ہوئی طرز میں ان سے ہم کلام ہوتے ہیں تو اپنی ذات میں آپ مفکر محترم طلعت بھائی، دو ٹکے سے ذرا مہنگے عزت ماب جاوید چوہدری، سیاپا کرنے والی آنٹی نصرت، عالم الجہلا ابصار عالم، گھات گھات کی پارٹی سونگھنے والے فواد چوہدری اور گالم گلوچ کے زیر سایہ پلنے والے سلیم صافی ہمیں کیوں کوستے ہیں؟
شائد ہم کل بھی جاہل زندہ تھے، ہم آج بھی جاہل زندہ ہیں-