عمر عطا بندیال صاحب کے لاہور ہائیکورٹ میں جج بننے سے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بننے تک کے عدالتی کریئر کو دیکھا جائے تو ایک چیز جو سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ ایک دھیمے مزاج کے حامل انسان ہیں اور ہر مقدمہ سننے کے دوران اور فیصلہ دیتے وقت خواہ ان پر کتنی ہی تنقید ہو صبر کا دامن کبھی نہیں چھوڑتے . اب کچھ لوگ انکی اس صفت سے اتفاق کرتے ہیں اور کچھ لوگ اختلاف
اسی تناظر میں، میں آپ کے جذبات کو بخوبی سمجھ رہا ہوں . صبر کے اس موضوع پر پرانے وقتوں کی ایک کہانی گوش گزار کرنے کی جسارت کروں گا تاکہ صبر کی اہمیت واضح ہو سکے
تهوڑا صبر کر لیتا تو
ایک صاحب سفر میں تھے کہ راستے میں نماز کاوقت ہو گیا ایک آبادی میں داخل ھوئے اور نماز کے لئے مسجد کا پتا کیا تو قریب ہی مسجد مل گئی . جب نماز کے لئے مسجد میں جانے لگے تو خیال آیا کہ اپنی سواری یعنی گھوڑا کس کے حوالے کروں کہیں ایسا نہ ھو کہ میری غیر موجودگی میں کوئی میری سواری اور اس پر لگی بیش قیمت زین (جو کہ گھوڑے کی کمر پر باندھتے ھیں) چوری کر لے
ابھی وہ اسی شش و پنج میں تھے کہ ان کی نظر ایک نوجوان پر پڑی جو ان کی ہی طرف دیکھ رہا تھا لڑکے کو اشارہ کر کے بلایا اور کہا کہ بیٹا میں مسافر ھوں نماز کا وقت ھو رہا ھے کیا میرے نماز ادا کرنے تک تم میرے سامان اور سواری کی حفاظت کر سکتے ھو ؟
لڑکے نے کہا: کیوں نہیں آپ بے فکر ھو کر نماز کے لئے جائیں میں آپ کے سامان کے پاس کھڑا ھوں . وہ صاحب بہت خوش ھوئے اور نماز کے لئے مسجد میں چلے گئے
جب نماز پڑھ کر باہر آئے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ۔۔۔۔۔ نا صرف وہ لڑکا غائب تھا بلکہ گھوڑے کی زین بھی غائب تھی . خیر صبر کر کے بازار کا رخ کیا کہ نئی زین خرید لوں، ایک دکان پر رکے تو دیکھا کہ ان کی وہی زین اس دکاندار کی دکان میں لٹکی ھوئی ھے انھوں نے دکاندار سے کہا کہ یہ زین تمھارے پاس کہاں سے آئی؟
اس نے جواب دیا کہ "ابھی ایک لڑکا 2 درہم میں بیچ کر گیا ھے" ان صاحب نے اپنا ماتھا پیٹ لیا اور بولے۔۔۔۔ ارے اللہ کے بندے تھوڑا صبر کر لیتا تو یہ 2 درہم حرام نہ ھوتے... دکاندار نے پوچھا تو بتایا کہ میں نے نماز میں ہی سوچ لیا تھا کہ نماز پڑھ کر اس لڑکے کو 2 درہم دوںگا مگر افسوس
جلد بازی کی وجہ سے اس نے اپنی کمائی حرام کر لی، اگر صبر کر لیتا تو یہی 2 درہم اسے ملتے مگر جائز طریقے سے ملتے . انسان کو رزق اتنا ہی ملتا ھے جو اللہ نے نصیب میں لکھ دیا
حرام یا حلال طریقہ سےحاصل کرنا ہمارے اختیار میں ھے... اللہ اکبر
بصد احترام ۔۔۔کتابی حد تک تو میں آپ سے مکمل متفق ہوں ۔ لیکن جس قسم کے واہیات ججوں اور لوگو ں سے پالا پڑا ہے ۔ وہ کسی قسم اخلاقیات پر ایمان نہیں رکھتے۔ اور انتہائی معذرت کے ساتھ، اگر آپ کی مذکورہ ہدایت پر عمل کیا گیا تو مجھ ناچیز کا یہ حیال ہے کہ پی ٹی آئی کا کریا کرم ہونے میں دیر نہیں لگے گی
وہ جیسے ایک گرو کا چیلا گرو پر اندھا اعتقاد کرتے ہوئے اور اسکی ہر بات مانتے ہوئے سولی تک جا پہنچا اور یہی سمجھتا رہا کہ گرو مجھے بچا لے گا ۔جبکہ آخر میں گرو نے کہا کہ جا بچہ سولی پہ چڑھ جا رام بھلا کرے گا ۔
پچھلے ایک سال سے جو پورے ملک میں ترتھلی مچی ہوئی ہے۔کیا ججوں کو نظر نہیں آرہی ؟ کیا کسی مہذب تو کیا غیر مہذب معاشرے میں بھی ایسا ہوتا ہے کسی کی جان و مال عزت و آبرو محفوظ نہیں اور محترم جج صاحب اپنی حلیم الطبی اور تدبر دکھانے میں محو ہیں۔۔۔۔۔
۔۔
آئین شکنی جیسے سنگین جرم کے سرزد ہونے کے باوجود فرما رہے ہیں کہ میں کوئی سخت ایکشن نہیں لوں گا بلکہ دھیمے ،دھیمےسروں میں میٹھا میٹھا راگ الاپ کرقوم کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا ھوا ہے۔
جج کا کام ہے قانون اور آئین کے مطابق فیصلہ کرے۔ کوئی عمل کرتا ہے یا نہیں، یہ بعد کےمعاملات ہیں ۔
موجودہ صورتحال میں میٹھے اور دھیمےفیصلوں کی کوئی آپشن۔ جج صاحب کے پاس موجود نہیں ۔