وَيَمْكُرُونَ وَيَمْكُرُ اللَّهُ وَاللَّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ
.
اپنی طرف سے گستاخ بلاگرز کے سہولت کاروں نے بہت زبردست سازش رچائی تھی۔ جانے وہ کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتے تھے جس کے لیے انہوں نے پراسرار گمشدگی کا ڈھونگ رچا کر ہماری خفیہ ایجنسیوں پر الزامات کی بوچھاڑ کر دی اور جہموری دورِ حکومت میں فوج کے خلاف نعرے لگوائے۔ لیکن ان کا یہ پلان اس وقت زبردست طریقے سے فیل ہو گیا جب ڈاکٹر عامر لیاقت حسین اس معاملے میں کودے اور اپنے شو کے ذریعے بہت زبردست شعوری مہم کا آغاز کیا۔ اور جب یہ معاملہ بہت زیادہ ہائی لائٹ ہو گیا تو گمشدہ (مبینہ گستاخ) بلاگرز جس پراسرار طریقے سے غائب ہوئے تھے اسی پراسرار طریقے سے واپس اپنے اپنے گھروں کو چلے آئے
.
جبران ناصر جیسے سہولت کاروں نے جیو نیوز اور پیمرا سے مل کر عامر لیاقت کی آواز بند کروا دی لیکن خدا کا کرنا کیا ہوا ہے کہ دوسروں کی آؤاز بند کروانے والوں کی اپنی گھگھی بندھ گئی جب یہ معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں چلا گیا اور اس معاملے میں براہ راست اعلیٰ عدلیہ، وزارت داخلہ اور دیگر ادارے کود پڑے۔
.
ایک اور جھوٹ اس وقت سامنے آیا جب وقاص گورایہ کے ایک سہولت کار ''عاطف توقیر'' نے جرمنی سے وقاص گورایہ کا اپنے کمپیوٹر پر لائیو ویڈیو انٹرویو کیا تو اس میں وقاص نے کسی قسم کے تشدد کا ذکر نہیں کیا اور نہ ہی کوئی تشدد نظر آ رہا تھا۔ جب کہ اج بی بی سی پر وقاص گورایہ کا انٹرویو پڑھا تو وہ کہہ رہا تھا کہ مجھ پر بہت زیادہ تشدد ہوا۔ عاطف توقیر علم و ادب کے لبادے میں چھپا ہوا ایک سانپ ہے جس سے میری پہلے اس موضوع پر بحث چلتی رہتی تھی۔ آج جب اس سے رابطہ کرنے گیا تو معلوم ہوا کہ وہ مجھے بلاک کر کے بھاگ گیا ہے۔ اس کا مطلب ہوا کہ اس کے جھوٹ کا پول کھل چکا تھا
.
ایک اور مبینہ گستاخ بلاگر عاصم سعید جس نے پچیس فروری کو (یعنی رہائی سے ایک مہینہ بعد کی) تصویر شنگھائی ایگزیبیشن سینٹر سے اپلوڈ کی جس میں وہ خوش باش اور تندرست نظر آ رہا تھا، یہ جھوٹ بھی بے نقاب ہو گیا کہ ان پر کسی نے تشدد کیا تھا۔ بلکہ یہ سب اول دن سے رچایا گیا ایک ڈرامہ تھا۔
.
اور اب یہ کیس عدالت میں ہے جس کی وجہ سے لبرل سیکولر طبقعے کی نیندیں حرام ہوئی پڑی ہیں۔ عاصمہ جہانگیر اور ماروی سرمد تو لگتا ہے کسی بھی وقت کسی کو بھی کاٹ سکتی ہیں۔ فرنچ کٹیا دانشور صبح سے اپنی ''دیوارِ گریہ'' پر گریہ و زاری کر رہا ہے۔ انشاءاللہ اس بدمعاش اور گستاخ طبقعے کا وقت قریب آ چکا ہے۔ ہم سب کو چاہیے کہ ہم حکومت پر زور ڈال کر سوشل میڈیا کو پاکستان سے بند کروائیں کیونکہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حرمت سے بڑھ کر ہمارے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔
.
ایک مزے کی بات اس سارے قصے میں یہ تھی کہ جس ممتاز قادری کے خلاف اس لادین طبقعے نے وہ طوفانِ بدتمیزی مچایا ہوا تھا کہ اللہ کی پناہ ۔۔۔۔۔ اور جب تک اس کو پھانسی کے پھندے پر نہ چھولا دیا گیا تب تک ان کے سینوں میں ٹھنڈک نہیں اتری۔ اور اسے محض اتفاق کہہ لیجیے یا پھر اللہ کی کرنی کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی اسی ممتاز قادری کا عاشق ہے جس نے عشق رسول پر جان قربان کر دی۔ یعنی ان کی جان کل بھی ''عشقِ رسول'' میں پھنسی ہوئی تھی اور اج بھی ''عشقِ رسول'' میں ہی پھنسی ہوئی ہے ۔۔۔۔۔۔ کیونکہ ان کا سب سے بڑا مقصد ہی اس ''عشقِ رسول'' کا خاتمہ تھا جو ہر مسلمان کا سرمایہ حیات ہے
.
کتنی سازشیں رچائی تھیں مگر آخر میں خود ہی اپنے جال میں پھنس گئے۔ مجھے قران کے وہ الفاظ یاد آ گئے
.
وَيَمْكُرُونَ وَيَمْكُرُ اللَّهُ وَاللَّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ
ایک چال انہوں نے چلی، اور ایک چال اللہ چلتا ہے اور بے شک اللہ ایک بہترین بہترین چال چلنے والا ہے
.
تحریر: عاشور عاصم
#عاشوربابا
.
اپنی طرف سے گستاخ بلاگرز کے سہولت کاروں نے بہت زبردست سازش رچائی تھی۔ جانے وہ کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتے تھے جس کے لیے انہوں نے پراسرار گمشدگی کا ڈھونگ رچا کر ہماری خفیہ ایجنسیوں پر الزامات کی بوچھاڑ کر دی اور جہموری دورِ حکومت میں فوج کے خلاف نعرے لگوائے۔ لیکن ان کا یہ پلان اس وقت زبردست طریقے سے فیل ہو گیا جب ڈاکٹر عامر لیاقت حسین اس معاملے میں کودے اور اپنے شو کے ذریعے بہت زبردست شعوری مہم کا آغاز کیا۔ اور جب یہ معاملہ بہت زیادہ ہائی لائٹ ہو گیا تو گمشدہ (مبینہ گستاخ) بلاگرز جس پراسرار طریقے سے غائب ہوئے تھے اسی پراسرار طریقے سے واپس اپنے اپنے گھروں کو چلے آئے
.
جبران ناصر جیسے سہولت کاروں نے جیو نیوز اور پیمرا سے مل کر عامر لیاقت کی آواز بند کروا دی لیکن خدا کا کرنا کیا ہوا ہے کہ دوسروں کی آؤاز بند کروانے والوں کی اپنی گھگھی بندھ گئی جب یہ معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں چلا گیا اور اس معاملے میں براہ راست اعلیٰ عدلیہ، وزارت داخلہ اور دیگر ادارے کود پڑے۔
.
ایک اور جھوٹ اس وقت سامنے آیا جب وقاص گورایہ کے ایک سہولت کار ''عاطف توقیر'' نے جرمنی سے وقاص گورایہ کا اپنے کمپیوٹر پر لائیو ویڈیو انٹرویو کیا تو اس میں وقاص نے کسی قسم کے تشدد کا ذکر نہیں کیا اور نہ ہی کوئی تشدد نظر آ رہا تھا۔ جب کہ اج بی بی سی پر وقاص گورایہ کا انٹرویو پڑھا تو وہ کہہ رہا تھا کہ مجھ پر بہت زیادہ تشدد ہوا۔ عاطف توقیر علم و ادب کے لبادے میں چھپا ہوا ایک سانپ ہے جس سے میری پہلے اس موضوع پر بحث چلتی رہتی تھی۔ آج جب اس سے رابطہ کرنے گیا تو معلوم ہوا کہ وہ مجھے بلاک کر کے بھاگ گیا ہے۔ اس کا مطلب ہوا کہ اس کے جھوٹ کا پول کھل چکا تھا
.
ایک اور مبینہ گستاخ بلاگر عاصم سعید جس نے پچیس فروری کو (یعنی رہائی سے ایک مہینہ بعد کی) تصویر شنگھائی ایگزیبیشن سینٹر سے اپلوڈ کی جس میں وہ خوش باش اور تندرست نظر آ رہا تھا، یہ جھوٹ بھی بے نقاب ہو گیا کہ ان پر کسی نے تشدد کیا تھا۔ بلکہ یہ سب اول دن سے رچایا گیا ایک ڈرامہ تھا۔
.
اور اب یہ کیس عدالت میں ہے جس کی وجہ سے لبرل سیکولر طبقعے کی نیندیں حرام ہوئی پڑی ہیں۔ عاصمہ جہانگیر اور ماروی سرمد تو لگتا ہے کسی بھی وقت کسی کو بھی کاٹ سکتی ہیں۔ فرنچ کٹیا دانشور صبح سے اپنی ''دیوارِ گریہ'' پر گریہ و زاری کر رہا ہے۔ انشاءاللہ اس بدمعاش اور گستاخ طبقعے کا وقت قریب آ چکا ہے۔ ہم سب کو چاہیے کہ ہم حکومت پر زور ڈال کر سوشل میڈیا کو پاکستان سے بند کروائیں کیونکہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حرمت سے بڑھ کر ہمارے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔
.
ایک مزے کی بات اس سارے قصے میں یہ تھی کہ جس ممتاز قادری کے خلاف اس لادین طبقعے نے وہ طوفانِ بدتمیزی مچایا ہوا تھا کہ اللہ کی پناہ ۔۔۔۔۔ اور جب تک اس کو پھانسی کے پھندے پر نہ چھولا دیا گیا تب تک ان کے سینوں میں ٹھنڈک نہیں اتری۔ اور اسے محض اتفاق کہہ لیجیے یا پھر اللہ کی کرنی کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی اسی ممتاز قادری کا عاشق ہے جس نے عشق رسول پر جان قربان کر دی۔ یعنی ان کی جان کل بھی ''عشقِ رسول'' میں پھنسی ہوئی تھی اور اج بھی ''عشقِ رسول'' میں ہی پھنسی ہوئی ہے ۔۔۔۔۔۔ کیونکہ ان کا سب سے بڑا مقصد ہی اس ''عشقِ رسول'' کا خاتمہ تھا جو ہر مسلمان کا سرمایہ حیات ہے
.
کتنی سازشیں رچائی تھیں مگر آخر میں خود ہی اپنے جال میں پھنس گئے۔ مجھے قران کے وہ الفاظ یاد آ گئے
.
وَيَمْكُرُونَ وَيَمْكُرُ اللَّهُ وَاللَّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ
ایک چال انہوں نے چلی، اور ایک چال اللہ چلتا ہے اور بے شک اللہ ایک بہترین بہترین چال چلنے والا ہے
.
تحریر: عاشور عاصم
#عاشوربابا