کیا پاکستان دہشتگردی کو شکست دے سکتا ہے؟

moazzamniaz

Chief Minister (5k+ posts)
کیا پاکستان دہشتگردی کو شکست دے سکتا ہے؟؟؟
ڈاکٹر طارق رحمٰن

Published: April 16, 2011

Dr-Tariq-Rahman-New-640x480.jpg

The writer is an HEC distinguished national professor and Professor Emeritus at the National Institute of Pakistan Studies, Quaid-i-Azam University, Islamabad [email protected]
"درحقیقت، حکومت پاکستان نے اپنے ہی شہریوں سے اس قدر جھوٹ بولا ہے کہ اب یہ دہشتگردی کے خلاف کوئی فیصلہ کن قدم نہیں اٹھا سکتی"

مورخہ سات اپریل کو ہمارے محکمہ خارجہ کے ترجمان نے امریکی کانگریس کی انسداد دہشتگردی رپورٹ کو ناقابل قبول قرار دے دیا کہ جسمیں کہا گیا تھا کہ پاکستان کے پاس دہشتگردی ختم کرنے کا کوئی واضح منصوبہ نہیں ہے.یا کہ دوسرے الفاظ میں "پاکستان اپنی سر زمین سے سرگرم عمل دہشت گرد گروہوں کے بارے میں دوغلی پالیسی پر عمل پیرا ہے. جسکے مطابق کچھ گروپوں کے خلاف لڑا جاتا ہے ہے جبکہ کچھ کو نہیں چھیڑا جاتا". یہ دنیا کی کوئی نئی شکایت یا ہماری نئی پالیسی نہیں بلکہ سن دوہزارایک میں طالبان حکومت پر امریکی حملے اور پرویز مشرف کے اس جنگ میں امریکی اتحادی بننے کے بعد مشرف کی جانب سے بنائی گئی اسی پالیسی کا تسلسل ہے. دراصل مشرف دوہرا فائدہ اٹھانا چاہتے تھے یعنی "امریکی پیسے لیکر کچھ طالبان کے خلاف لڑائی کرو اور باقی دہشتگردوں مثلاّ کوئٹہ شوریٰ، حقانی نیٹ ورک کو بچا کر رکھو تا کہ امریکہ کے جانے کے بعد ان گروپوں کو افغانستان میں 'تزویراتی گہرائی' کے مقاصد کیلیے استعمال کیا جا سکے". اسی طرح پنجاب میں فرقہ ورانہ قتل عام میں مصروف دہشتگرد گروپوں کو بھی کھلی چھٹی دی گئی تا کہ انکو انڈیا کے خلاف استعمال کیا جائے. آرمی اور اسکی جاسوس ایجنسیاں ان دہشتگرد گروپوں کو اپنی 'بھارت مرکوز' پالیسی کی وجہ سے اپنا تزویراتی اثاثہ خیال کرتی ہیں. مگر شاید وہ یہ سوچنا بھول گئے کہ یہ دہشتگرد تنظیمیں اسلحہ، طاقت اور زور زبردستی سے عوام پر اپنے نظریات مسلط کرتے ہیں، انسانی و خواتین کے حقوق کو پامال کرنے پر یقین رکھتے ہیں اور سب سے بڑھکر ہمارے پاکستانی معاشرے میں انارکی کو فروغ دیتے ہیں. اور اوپر بیان کی گئی چیزیں کسی طرح بھی پاکستان کے مفاد میں نہیں

اس دوہری،خود غرضانہ اور منافقانہ پالیسی کے مندرجہ ذیل نتائج سامنے آے ہیں
١- اس پالیسی سے امریکیوں کو کبھی بھی بیوقوف نا بنایا جا سکا اور امریکی اسی لیے ہمیشہ سے 'ڈو- مور' کہتے آ رہے ہیں
٢- کچھ دہشگرد گروپ پاکستان کے جانی دشمن بن گئے اور پولیس، فوج، آئ ایس آئ اور عوام پر خوفناک حملوں کا نا ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا
٣- پاکستان اور بھارت کے درمیاں امن نا ہو سکا کیونکہ کچھ گروپس نے حکومت کی سرپرستی کے تحت اور کچھ نے بغیر کسی سر پرستی کے انڈیا پر حملے جاری رکھے. اور یہ آج بھی دونوں ملکوں کے درمیاں کسی بھی امن کے مخالف ہیں
٤- اس دوغلی پالیسی نے پاکستانی عوام کو اس قدرچکرا کررکھ دیا ہے کہ اب اکثر عجیب و غریب اور ماوراے عقل "سازشی تھیوریز" پر یقین کرنے لگے ہیں مثلاّ پاکستان میں ہر دہشت گردی کے پیچھے امریکہ اور انڈیا کا ہاتھ ہے. عوام کی اس بے یقینی کی کیفیت کی وجہ سے دہشتگردوں کے خلاف کسی بھی فیصلہ کن قدم یا لڑائی کیلیے نا تو راے عامہ ہموار ہو سکی اور نا ہی ایسا کوئی قدم اٹھایا جا سکا. البتہ سوات آپریشن ایک واحد نظیر ہے جب زبردست عوامی دباؤ کے تحت مولوی فضل اللہ کے خلاف اگرچہ دیر سے ہی سہی لیکن کامیاب آپریشن کیا گیا

میڈیا میں بار بار یہ حقائق آ چکے ہیں کہ زیادہ تر پکڑے جانے والے دہشت گرد پاکستانی اور کچھ افغانی ہیں. مثلاّ تین اپریل کو صوفی ولی سخی سرور کے مزار پر دھماکہ کرتے ہوے گرفتار ہونے والے
پندرہ سالہ فدائی فدا حسین نے بتایا ہے کہ شمالی وزیرستان میں اس جیسے تین سو کے قریب نوجوانوں کو فدائی تربیت دی جا رہی ہے. اس حملے کی ذمہ داری طالبان کے ترجمان احسان اللہ احسان نے قبول کی ہے. اسکے باوجود میڈیا نے اس بات کو چھپانے کی کوشش کی اور عوام یہی سمجھتے ہیں کہ یہ سب دہشت گردی امریکہ کی خفیہ ایجنسیاں کروا رہی ہیں. پاک آرمی حقانی نیٹ ورک کو افغانستان میں مفادات کے حصول کیلیے بچانے کیلیے مسلسل شمالی وزیرستان میں کاروائی کیلیے آمادہ نہیں


درحقیقت، حکومت پاکستان نے اپنے ہی شہریوں سے اس قدر جھوٹ بولا ہے کہ اب یہ دہشتگردی کے خلاف کوئی فیصلہ کن قدم نہیں اٹھا سکتی. کراچی میں فرقہ ورانہ دہشتگردی میں ملوث درجنوں قاتلوں کو انکے اعترافات کے باوجود کوئی سزا نہیں دی جا سکتی، کیونکہ انکی متعلقہ تنظیمیں بھارت مخالف پالیسی کی وجہ سے ہماری فوج کی منظور نظر ہیں. اس پالیسی کی وجہ سے پاکستان کے بہت سے علاقے طالبان کے قبضہ میں جا چکے ہیں. فروری دو ہزار چھ میں "امارت اسلامیہ وزیرستان" معرض وجود میں آئ اور اسی سال ستمبر میں حکومت نے 'امارت اسلامیہ وزیرستان' سے امن معاہدہ پر دستخط کر دیے. اس وقت سے ہم ایک مسلسل جنگ کی کیفیت میں ہیں اور کوئی بھی عام پاکستانی اس 'جنگی علاقے' میں آ جا نہیں سکتا. حتیّٰ کہ گیارہ ستمبر سے بہت پہلے سن دو ہزار میں ہم بہت سا علاقہ طالبان کے ہاتھوں کھو چکے تھے، اور چودہ سے زیادہ بم دھماکے ہو چکے تھے. ٹیلیویزن سیٹس کو نظر آتش کیا جاتا تھا اور موسیقی کی دکانوں کو بم کے دھماکوں سے اڑایا دیا جاتا تھا. المختصر، حکومت پاکستان بہت پہلے اپنے شہریوں کو ان دہشتگردوں کے رحم و کرم پر چھوڑ چکی تھی، جو پھر بزور طاقت نہتی عوام پر اپنا طرز زندگی مسلط کرتے تھے

جب تک حکومت پاکستان اپنی اس دوغلی پالیسی کو ترک نہیں کرے گی، یہ دہشت گردی ختم نہیں ہو سکتی. اس پالیسی کے مندرجہ ذیل دو متبادل ہیں
١- پاکستان پورے خلوص اور دل جمعی سے ہر قسم کے طالبان کے خلاف لڑائی کی پالیسی بناے اور ساتھ ساتھ ہتھیار ڈالنے والے جنگجوؤں کو انعامات سے نوازا جاۓ. راہ راست پر آنے والے طالبان کیلیے باعزت روز گار کا بندوبست کیا جاے اور دلائل سے انکو صحیح اور پر امن اسلام سے روشناس کروایا جاۓ. اس لڑائی میں بھی میں ڈرون حملوں کی حمایت نہیں کروں گا کیونکہ اس میں بے گناہ شہری بھی مارے جاتے ہیں. بلکہ اسکے بجاۓ پاکستانی اور امریکی افواج مل کر انفنٹری، آرٹلری یعنی زمینی فوج وغیرہ استعمال کریں. اور ذہنی طور تیار رہا جاۓ کہ اس سے بہت سے تابوت امریکہ اور ہمارے پاکستانی شہروں میں واپس آئینگے
٢- دوسری طریقہ افغانستان میں امریکہ کی دہشتگردوں کے خلاف جنگ سے بطور اتحادی باہر نکلنا ہے. ہم اپنی پالیسی بناتے ہوے فاٹا میں موجود دہشتگردوں سے مذاکرات کریں. اس سے مراد فاٹا میں انکے زیر اثر علاقوں کو ان دہشگردوں کے حوالے کرنا ہو گا ، اور یہ تمام علاقہ پاکستان اور افغانستان کے درمیاں ایک 'بفر-سٹیٹ' کا کام دے گا. اور یہ بھی یاد رکھا جاۓ کہ اس قدم سے ہم وہاں کے تمام پاکستانی شہریوں کو عملا ان دہشتگردوں کے حوالے کر رہے ہونگے. ظاہر ہے کہ یہ ایک شکست ہو گی لیکن شاید اس سے ہم وہ امن حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں کہ جس کی ہمیں اسوقت اشد ضرورت ہے. اسکے بعد حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ باقی پاکستان کو ان جیسے باقی دہشتگردوں اور انکے ہمدردگان سے بالکل پاک کر دے، دلائل اور ذرایع ابلاغ کی مدد سے انکی بیوقوفانہ آئیڈیالوجی اور جھوٹے پراپیگنڈے کی دھجیاں اڑائی جائیں. اسی طرح لوگوں کے ناانصافی اور غربت کی وجہ سے ایسے تشدد پسند گروپوں میں جانے کا سدباب بھی کیا جاۓ. پنجاب میں موجود دہشت گرد گروہوں کا خاتمہ کیا جاۓ. کسی بھی جواز کے تحت پنجاب یا کسی بھی دوسرے علاقے میں موجود دہشتگردوں کی سر پرستی اور مدد نا کی جاۓ. انڈیا اور افغانستان میں 'پراکسی جہاد' کی پشت پناہی ترک کی جاۓ اور تعلقات کو ایک اچھے ہمساۓ کی نوعیت میں ڈھالا جاۓ. المختصر، "بھارت مرتکز" پالیسی کو بدلہ جاۓ. ظاہر ہے کہ اسکے خلاف مزاحمت ہو گی لیکن فاٹا میں جنگ کی غیر موجودگی میں اس مزاحمت سے نپٹنا ممکن ہے

بہرحال اوپر بیان کی گئی دونوں میں سے جو بھی پالیسی بھی اپنائی جاۓ، وہ واضح، پر خلوص اور شفاف ہونی چاہیے تا کہ اس پریشان حال ملک میں امن قائم ہو سکے. اور سب سے بڑھکر اس پالیسی کو بغیر کسی ہیر پھیر اور لگی لپٹی کے واضح طور پر عوام کو بتایا جاۓ تا کہ عوام ان سازشی تھیوریز سے باہر نکلے اور صحیح سوچتے ہوے اپنے برے بھلے کا خود فیصلہ کر سکیں

Published in The Express Tribune, April 17th, 2011.
English version can be read on this link
http://tribune.com.pk/story/150741/can-pakistan-end-terrorism/
 
Last edited:

itsnotme90

Minister (2k+ posts)
I come across people of different countries but i never see them calling themself smart coz they are from particular nationality. But pakistani people & our Army is the only one which claim itslef smart. All we do is just praise ourself.
We will eat uranium when we will not have food to eat but keep fighting with whole world specially with india. These ISI agents think that they are above the law & people are their servant.