
عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد سوال سامنے آیا تھا کہ کس کس جماعت یا رہنما کو کونسی وزارت یا ذمہ داری سونپی جائے گی، چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو سے متعلق خیال کیا جا رہا تھا کہ وہ وزارت خارجہ سنبھال سکتے ہیں تاہم اس پر انہوں نے خود ہی بتا دیا ہے۔
بی بی سی کو چند روز قبل دیئے گئے انٹرویو میں چیئرمین پی پی بلاول بھٹو نے کہا کہ وزارت عظمیٰ کے انتخاب میں شہباز شریف کی حمایت کریں گے، تحریک عدم اعتماد لانے کا مقصد صرف شہباز شریف کو منتخب کرانا ہی نہیں تھا۔
چیئرمین پیپلز پارٹی نے خود سے متعلق ہونے والی چہ مگوئیوں پر کہا کہ ابھی فی الوقت اپنے وزیر خارجہ بننے کی تصدیق نہیں کر سکتا۔ نئے سیٹ اپ میں میرے وزیرِ خارجہ بننے یا نہ بننے سے متعلق فیصلہ پارٹی کرے گی۔
تحریک عدم اعتماد کا مقصد انتخابی اصلاحات ہیں، جدوجہد کا مقصد جمہوری پاکستان کی جانب آگے بڑھنا ہے، پاکستان کے مسائل صرف جمہوریت میں ہی حل ہوسکتے ہیں۔ عدلیہ کا حالیہ فیصلہ اداروں کو غیر متنازع بنانے کی شروعات ہے، تحریکِ انصاف کے دورِ حکومت میں جمہوریت کو نقصان پہنچا۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ اب الیکٹرونک ووٹنگ مشین آر ٹی ایس پلس ثابت ہو گی، اوورسیز پاکستانیوں کے ووٹنگ کے حق کا مجوزہ قانون سازی میں تحفظ کریں گے۔چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ ایم کیو ایم سے معاہدے میں موجود مطالبات میں میری خواہشات بھی شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ ن سے سیاسی اور نظریاتی اختلافات ہیں اور مستقبل میں بھی رہیں گے۔ بلاول نے کہا کہ میمو گیٹ کمیشن بھی جمہوریت کے خلاف سازش تھا، خط پر کمیشن کا قیام میمو گیٹ ٹو ہے جو ناکام سازش کی کوشش ہے۔
بلاول بھٹی نے کہا حکومت نے مراسلے کے معاملے پر وزارتِ خارجہ اور قومی سلامتی کمیٹی کو متنازع بنانے کی کوشش کی۔ ان کا کہنا تھا جب یوسف رضا گیلانی کو ہٹانے کے لیے فیصلہ آیا تو ہم بھی ڈپلومیٹک کیبل لہرا سکتے تھے۔