کچھ دن قبل عورت مارچ ہوا اور پاکستان کی باشعور خواتین نے باہر نکل کر پاکستانی کی قدامت پرست عوام کو جھنجھوڑنے کی کوشش کی تو اس کو کاؤنٹر کرنے کیلئے کچھ خواتین جو سر سے پاؤں تک کالےبرقعوں میں لپٹی ہوئی تھیں،بھی اپنے اپنے مردوں کی اجازت لے کر سڑکوں پر نکل آئیں اور ان کے ہاتھوں میں کچھ اس طرح کے پوسٹرز تھے، "تم کس اسلام سے آزادی چاہتی ہو، وہ اسلام جس نے تمہیں زندہ دفن ہونے سے نجات دی"۔۔ یا پھر "یاد کرو وہ وقت جب تمہیں پیدا ہوتے ہی زندہ زمین میں گاڑ دیا جاتا تھا، پھر اسلام آیا اور اس نے تمہیں حقوق دیئے"۔۔اسی طرح جب آپ سوشل میڈیا پر عورت کی آزادی اور حقوق وغیرہ کی بات کریں تو قدامت پرست لوگ ایسی ہی دلیلیں دینا شروع کردیتے ہیں کہ جی اسلام سے قبل تو لڑکیوں کو زندہ دفن کردیا جاتا تھا، اسلام آیا تو اس نے یہ ریت ختم کی۔۔
ہمارے ہاں چونکہ سوچنے سمجھنے اور عقل استعمال کرنے کا رواج نہیں ہے، بچپن سے جو کچھ سماج، والدین اور مولوی پڑھا سکھا دیتے ہیں، بس اسی کی جگالی کرتے ہوئے ساری عمر گزار دی جاتی ہے اور وفات کے بعد جب بندہ دفن ہوتا ہے تو اس کے سر کے اوپر والے حصے میں موجود مغز زیرومیٹر کا زیرو میٹر ہوتا ہے، اس لئے ابھی تک ہمارے سماج میں ایسی بودی اور احمقانہ باتیں بڑے اعتماد کے ساتھ کی جاتی ہیں۔ حالانکہ ذرا سا آپ اسلام کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو پتا چلتا ہے کہ اسلام کے اس دور میں عرب میں ایک ایک مرد متعدد شادیاں کرتا تھا، لونڈیاں اور باندیاں ا سکے علاوہ ہوتی تھیں۔ شاید کوئی ایک آدھ مرد ہی ایسا ہوتا ہوگا جو صرف ایک شادی پر اکتفا کرتا ہوگا، وگرنہ مرد کی ایک سے زیادہ شادیاں تو عام بات تھی۔ خود نامور اسلامی شخصیات نے ایک سے زائد شادیاں کررکھی تھیں۔ اگر اس لاجک کو مان لیا جائے کہ قبلِ از اسلام عرب دور میں لڑکیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ دفنا دیا جاتا تھا تو چلو لڑکیوں کا کال نہ بھی پڑے تب بھی مردوں سے تو عورتوں کی تعداد کم ہی ہونی چاہئے تھی، مگر اُس معاشرے میں تو عورتوں کی بہتات تھی۔ اتنی بہتات تھی کہ مردوں کو عورتوں کی کمی ہی کوئی نہیں تھی۔ تو کیا وہ عورتیں آسمان سے ٹپکتی تھیں یا درختوں پر لگتی تھیں؟ ظاہر ہے وہ اسی معاشرے میں پیدا ہوئی اور پلی بڑھی عورتیں تھیں۔
اب ذرا اس بات پر غور کرتے ہیں کہ اس حقیقت کے باجود کہ قبل از اسلام کے عرب معاشرے میں لڑکیوں کے زندہ دفن کرنے جیسی کوئی بھی رسم یا ریت نہ تھی، پھر کیسے اس سفید جھوٹ کو گھڑ کر اس قدر پھیلا دیا گیا کہ ہر مسلمان یہی سمجھے پھرتا ہے کہ اسلام سے پہلے عرب میں تو شاید ہر گھرانہ لڑکیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کرنے کیلئے دوڑ پڑتا تھا۔۔ تو اس کی وجہ میرے خیال میں یہ ہے کہ اس دور میں بھی لڑکی کو زندہ دفن کرنے کا کوئی اکا دکا واقعہ ہوا ہوگا، جیسا کہ ہر دور میں ہوتا رہا ہے اور آج بھی ایسا ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ ہمارے اسلامی معاشرے پاکستان میں بھی ایسا ہورہا ہے۔
ذرا ملاحظہ کیجئے یہ خبر۔۔ ایدھی فاؤنڈیشن نے 2019 میں نومولود بچوں کی 305 لاشیں دریافت کیں جن میں سے اکثریت لڑکیوں کی تھی۔
ہمارے ہاں چونکہ سوچنے سمجھنے اور عقل استعمال کرنے کا رواج نہیں ہے، بچپن سے جو کچھ سماج، والدین اور مولوی پڑھا سکھا دیتے ہیں، بس اسی کی جگالی کرتے ہوئے ساری عمر گزار دی جاتی ہے اور وفات کے بعد جب بندہ دفن ہوتا ہے تو اس کے سر کے اوپر والے حصے میں موجود مغز زیرومیٹر کا زیرو میٹر ہوتا ہے، اس لئے ابھی تک ہمارے سماج میں ایسی بودی اور احمقانہ باتیں بڑے اعتماد کے ساتھ کی جاتی ہیں۔ حالانکہ ذرا سا آپ اسلام کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو پتا چلتا ہے کہ اسلام کے اس دور میں عرب میں ایک ایک مرد متعدد شادیاں کرتا تھا، لونڈیاں اور باندیاں ا سکے علاوہ ہوتی تھیں۔ شاید کوئی ایک آدھ مرد ہی ایسا ہوتا ہوگا جو صرف ایک شادی پر اکتفا کرتا ہوگا، وگرنہ مرد کی ایک سے زیادہ شادیاں تو عام بات تھی۔ خود نامور اسلامی شخصیات نے ایک سے زائد شادیاں کررکھی تھیں۔ اگر اس لاجک کو مان لیا جائے کہ قبلِ از اسلام عرب دور میں لڑکیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ دفنا دیا جاتا تھا تو چلو لڑکیوں کا کال نہ بھی پڑے تب بھی مردوں سے تو عورتوں کی تعداد کم ہی ہونی چاہئے تھی، مگر اُس معاشرے میں تو عورتوں کی بہتات تھی۔ اتنی بہتات تھی کہ مردوں کو عورتوں کی کمی ہی کوئی نہیں تھی۔ تو کیا وہ عورتیں آسمان سے ٹپکتی تھیں یا درختوں پر لگتی تھیں؟ ظاہر ہے وہ اسی معاشرے میں پیدا ہوئی اور پلی بڑھی عورتیں تھیں۔
اب ذرا اس بات پر غور کرتے ہیں کہ اس حقیقت کے باجود کہ قبل از اسلام کے عرب معاشرے میں لڑکیوں کے زندہ دفن کرنے جیسی کوئی بھی رسم یا ریت نہ تھی، پھر کیسے اس سفید جھوٹ کو گھڑ کر اس قدر پھیلا دیا گیا کہ ہر مسلمان یہی سمجھے پھرتا ہے کہ اسلام سے پہلے عرب میں تو شاید ہر گھرانہ لڑکیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کرنے کیلئے دوڑ پڑتا تھا۔۔ تو اس کی وجہ میرے خیال میں یہ ہے کہ اس دور میں بھی لڑکی کو زندہ دفن کرنے کا کوئی اکا دکا واقعہ ہوا ہوگا، جیسا کہ ہر دور میں ہوتا رہا ہے اور آج بھی ایسا ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ ہمارے اسلامی معاشرے پاکستان میں بھی ایسا ہورہا ہے۔
ذرا ملاحظہ کیجئے یہ خبر۔۔ ایدھی فاؤنڈیشن نے 2019 میں نومولود بچوں کی 305 لاشیں دریافت کیں جن میں سے اکثریت لڑکیوں کی تھی۔
Edhi Foundation found 375 bodies of newly born babies in 2019
KARACHI: The Edhi Foundation recovered over 300 bodies of newly born babies, mostly of girls, in different parts of the city during 2019 which were later on buried properly in graveyards, according to charity officials.تو یہ تو آج بھی ہورہا ہے۔ اب اگر اس بنیاد پر میں یا کوئی بھی شخص یہ کہنا شروع کردے کہ جی پاکستان میں تو لڑکیوں کو پیدا ہوتے ہی دفن کردیا جاتا ہے یا کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دیا جاتا ہے تو کیا فیکچلی یہ بات درست ہوگی۔۔؟؟ بالکل ایسا ہی عرب میں کوئی اکا دکا واقعہ ہوا ہوگا اور اس کو پکڑ کر مسلمانوں نے اتنا جھوٹ پھیلایا، اتنا جھوٹ پھیلایا کہ ہٹلر کا پروپیگنڈا وزیر گوئبلز بھی کہیں پیچھے رہ گیا۔۔۔