
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں قانون سازی کے حوالےسے پیپلزپارٹی کے رہنما بلاول بھٹو زرداری کے ایک بیان کے بعد ملک میں نئی آئینی و قانونی بحث چھڑ گئی ہے۔
تفصیلات کے مطابق آج پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں حکومت نے انتخابی اصلاحات کے حوالے سے بل اکثریت ووٹوں سے منظور کروالیے جس پر اپوزیشن کی جانب سے قانونی و آئینی نکات کو بنیاد بنا کر تنقید شروع ہوگئی ہے۔
چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے اپنے بیان میں کہا کہ جوائنٹ سیشن کے الگ رولز ہوتے ہیں ، پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں قانون سازی کیلئے221 ووٹ ہونا لازمی ہیں۔
صدر پاکستان مسلم لیگ ن میاں شہباز شریف نے بھی قانون سازی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کردیا ہے۔
دوسری جانب حکومتی ترجمانوں اور قانونی و آئینی ماہرین نے اپوزیشن کے اس نکتے کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ آج ہونے والی قانون سازی کسی بھی طرح سپریم کورٹ میں چیلنج نہیں ہوسکتی ہے۔
وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات فرخ حبیب نے اپنے بیان میں آئین پاکستان کے آرٹیکل 72(4) کی نقل شیئر کرتے ہوئے کہا کہ بلاول بھٹو زرداری نے جو اعتراض اٹھایا وہ جھوٹ اور گمراہ کرنے کی ایک کوشش تھی، آئین کہتا ہے کہ مشترکہ اجلاس کے تمام فیصلے ایوان میں حاضر ممبران کی اکثریتی ووٹ سے ہوں گے۔
https://twitter.com/x/status/1460945501461917700
سینئر صحافی و اینکر پرسن کامران خان نے بھی اسی آرٹیکل کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ چوٹی کے ماہرین و قانون دانوں کی رائے ہے کہ آج کی قانون سازی سپریم کورٹ میں چیلنج نہیں ہوسکتی، بلاول صاحب کو کسی نے بتایا نہیں کہ مشترکہ اجلاس میں بلز منظور ی کیلئے ایوان میں موجود اراکین کی اکثریت درکار ہوتی ہے۔
https://twitter.com/x/status/1460959083616419842
خبررساں ادارے "سیاست ڈاٹ پی کے" کے اینکر پرسن عبیر خان نے بھی شہباز شریف اور بلاول بھٹو کے الزام کو غلط قرار دیتے ہوئے کہا کہ آئین میں واضح طور پر لکھا کہ ایوان میں موجود اراکین کی اکثریت کسی بھی قانون کو منظور یا مسترد کرسکتی ہے۔
https://twitter.com/x/status/1460939344940871680
- Featured Thumbs
- https://www.siasat.pk/data/files/s3/5pabilvot.jpg