کیاایسا ہو سکتا ہے کہ کوئی میٹرک پاس آدمی اٹھےکیمرہ پکڑے اورصحافی بن جائے؟

9lahorohicouurtjshd.png

ذرائع کے مطابق میڈیا کے نمائندوں کی طرف سے پولیس حراست میں موجود ملزمان کے انٹرویو کرنے والے حوالے سے مقدمے کی سماعت آج لاہور ہائیکورٹ میں ہوئی، عدالت میں پراسیکیوٹر جنرل، ڈی آئی جی آپریشنز کے علاوہ صحافیوں کے نمائندے بھی موجود تھے۔

جسٹس علی ضیاء باجوہ نے دوران سماعت ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ کوئی میٹرک پاس آدمی اٹھے کیمرہ پکڑے اور صحافی بن جائے؟ اور سوال اٹھایا کہ ایک وکیل ٹک ٹاک ویڈیوز کیوں بنا رہا ہے؟

کچھ عرصہ پہلے لاہور ہائیکورٹ نے احکامات جاری کیے تھے کہ پولیس حراست میں ملزمان کا انٹرویو کرنے کی اجازت نہیں ہو گی تاہم وشال شاکر نامی وکیل نے درخواست دائر کی کہ عدالتی احکامات پر عملدرآمد نہیں ہو رہا۔ وشال شاکر نے درخواست میں موقف اختیار کیا کہ پولیس افسران میڈیا کے نمائندوں کو انٹرویو کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔

دوران سماعت پراسیکیوٹر جنرل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ توہین عدالت کی درخواست عدالت میں دائر کریں گے جس پر جسٹس علی ضیاء باجوہ نے کہا توہین عدالت کی درخواست پولیس عملے کے ساتھ ساتھ بڑے افسران کیخلاف بھی ہونی چاہیے۔ عدالت نے پوچھا کہ پیمرا نے کو کو پکڑا بھی ہے یا نہیں؟ جس پر وکیل پیمرا نے بتایا ٹی وی پروگراموں بارے شکایات پر انہیں بین کر کے ٹی وی چینلز کو جرمانہ بھی کیا گیا۔

عدالت نے سوال پوچھا کہ کیا کسی سے زبردستی انٹرویو کیا جا سکتا ہے؟ جس پر عدالتی معاون صحافیوں نے بتایا ایسا نہیں کیا جا سکتا؟ عدالت نے پوچھا کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ کوئی میٹرک پاس آدمی اٹھے، کیمرہ پکڑے اور صحافی بن جائے؟ جس پر سینئر صحافی منیر باجوہ نے کہا ایسا نہیں ہو سکتا۔

درخواست گزار کا کہنا تھا کہ ڈاکٹرز، وکلاء کا ریگولیٹری سسٹم ہے مگر صحافیوں کا نہیں جس پر عدالت نے کہا کیا ایسا ہونا نہیں چاہیے؟ جس پر منیر باجوہ نے کہا بالکل ایسا ہونا چاہیے، امریکہ میں بھی صحافتی اداروں نے کوڈ آف کنڈکٹ بنایا ہے۔ جسٹس علی ضیاء نے کہا معاملہ لارجر بینچ کو بھیجوں گا تاکہ اس کا کوئی حل نکالا جائے۔

ایڈووکیٹ علی حیدر نے بتایا کہ صحافیوں کی حفاظت کے قانون میں لکھا گیا ہے کہ روزانہ خبریں فراہم کرنے والا شخص صحافی ہے، بڑے ٹی وی چینلز کی ممبرشپ لینا مشکل کام ہے۔

درخواست گزار نے کہا صحافیوں کیلئے پریس کلب اور پی ایف یو جے موجود ہیں جس پر عدالت نے کہا اگلی سماعت پر صحافیوں بارے تمام قوانین عدالت کو فراہم کیے جائیں۔

عدالت نے پوچھا کہ متین نامی وکیل ٹک ٹاک ویڈیوز کیوں بنا رہا ہے؟ جس پر ایس پی پولیس نے کہا وہ عدالتی بیلف کے ساتھ آئے تھے جس پر عدالت نے کہا پھر کیا ہوا؟ آپ نے اس کی اجازت کیسے دے دی؟ ایڈووکیٹ علی حیدر نے کہا یہ وکلاء عدالتوں میں جا سکتے ہیں، چھاپے مارتے ہیں جس پر عدالت نے وکلاء کے ٹک ٹاک ویڈیوز بنانے اور پولیس اہلکاروں سے بدتمیزی پر برہمی کا اظہار کیا۔

عدالت نے کہا ایسا نہیں ہو سکتا کہ کوئی وکیل تھانے کا کر کہے کہ میں تھانے کا آڈٹ کرنا ہے، پراسیکیوٹر جنرل پنجاب نے کہا چند وکلاء نوجوانوں کو غلط گائیڈ کر رہے ہیں۔ پنجاب بار کونسل کے وائس چیئرمین نے بتایا کہ ادارے کے قواعد کے مطابق کوئی وکیل اپنی تشہیر نہیں کر سکتا، گزٹ نوٹیفکیشن لا رہے ہیں کہ وکیل یونیفارم میں ٹک ٹاک نہیں ویڈیو نہیں بنا سکتا۔

ڈی آئی جی علی ناصر رضوی نے عدالت کو بتایا کہ عدالت کے احکامات کے بعد پولیس حراست میں ملزمان کی صرف 3 ویڈیو بنیں مگر پہلے ہر ہفتے میں ایسے 5 سے 7 واقعات ہوتے تھے۔ جسٹس علی ضیاء باجوہ نے کہا آپ کے اہلکار اخلاقی طور پر کمزور لگتے ہیں اس لیے وکلاء کے سامنے کھڑے نہیں ہو سکتے۔
 

Citizen X

President (40k+ posts)
Yes its possible and the term is citizen reporter and that is one of the reasons why social media has taken over the world, these old dinosaurs need to get out of the past and come into the present. But then again when Pakistani courts don't accept video as evidence, this is a bit too much to expect from them
 

Husaink

Prime Minister (20k+ posts)
9lahorohicouurtjshd.png

ذرائع کے مطابق میڈیا کے نمائندوں کی طرف سے پولیس حراست میں موجود ملزمان کے انٹرویو کرنے والے حوالے سے مقدمے کی سماعت آج لاہور ہائیکورٹ میں ہوئی، عدالت میں پراسیکیوٹر جنرل، ڈی آئی جی آپریشنز کے علاوہ صحافیوں کے نمائندے بھی موجود تھے۔

جسٹس علی ضیاء باجوہ نے دوران سماعت ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ کوئی میٹرک پاس آدمی اٹھے کیمرہ پکڑے اور صحافی بن جائے؟ اور سوال اٹھایا کہ ایک وکیل ٹک ٹاک ویڈیوز کیوں بنا رہا ہے؟

کچھ عرصہ پہلے لاہور ہائیکورٹ نے احکامات جاری کیے تھے کہ پولیس حراست میں ملزمان کا انٹرویو کرنے کی اجازت نہیں ہو گی تاہم وشال شاکر نامی وکیل نے درخواست دائر کی کہ عدالتی احکامات پر عملدرآمد نہیں ہو رہا۔ وشال شاکر نے درخواست میں موقف اختیار کیا کہ پولیس افسران میڈیا کے نمائندوں کو انٹرویو کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔

دوران سماعت پراسیکیوٹر جنرل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ توہین عدالت کی درخواست عدالت میں دائر کریں گے جس پر جسٹس علی ضیاء باجوہ نے کہا توہین عدالت کی درخواست پولیس عملے کے ساتھ ساتھ بڑے افسران کیخلاف بھی ہونی چاہیے۔ عدالت نے پوچھا کہ پیمرا نے کو کو پکڑا بھی ہے یا نہیں؟ جس پر وکیل پیمرا نے بتایا ٹی وی پروگراموں بارے شکایات پر انہیں بین کر کے ٹی وی چینلز کو جرمانہ بھی کیا گیا۔

عدالت نے سوال پوچھا کہ کیا کسی سے زبردستی انٹرویو کیا جا سکتا ہے؟ جس پر عدالتی معاون صحافیوں نے بتایا ایسا نہیں کیا جا سکتا؟ عدالت نے پوچھا کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ کوئی میٹرک پاس آدمی اٹھے، کیمرہ پکڑے اور صحافی بن جائے؟ جس پر سینئر صحافی منیر باجوہ نے کہا ایسا نہیں ہو سکتا۔

درخواست گزار کا کہنا تھا کہ ڈاکٹرز، وکلاء کا ریگولیٹری سسٹم ہے مگر صحافیوں کا نہیں جس پر عدالت نے کہا کیا ایسا ہونا نہیں چاہیے؟ جس پر منیر باجوہ نے کہا بالکل ایسا ہونا چاہیے، امریکہ میں بھی صحافتی اداروں نے کوڈ آف کنڈکٹ بنایا ہے۔ جسٹس علی ضیاء نے کہا معاملہ لارجر بینچ کو بھیجوں گا تاکہ اس کا کوئی حل نکالا جائے۔

ایڈووکیٹ علی حیدر نے بتایا کہ صحافیوں کی حفاظت کے قانون میں لکھا گیا ہے کہ روزانہ خبریں فراہم کرنے والا شخص صحافی ہے، بڑے ٹی وی چینلز کی ممبرشپ لینا مشکل کام ہے۔

درخواست گزار نے کہا صحافیوں کیلئے پریس کلب اور پی ایف یو جے موجود ہیں جس پر عدالت نے کہا اگلی سماعت پر صحافیوں بارے تمام قوانین عدالت کو فراہم کیے جائیں۔

عدالت نے پوچھا کہ متین نامی وکیل ٹک ٹاک ویڈیوز کیوں بنا رہا ہے؟ جس پر ایس پی پولیس نے کہا وہ عدالتی بیلف کے ساتھ آئے تھے جس پر عدالت نے کہا پھر کیا ہوا؟ آپ نے اس کی اجازت کیسے دے دی؟ ایڈووکیٹ علی حیدر نے کہا یہ وکلاء عدالتوں میں جا سکتے ہیں، چھاپے مارتے ہیں جس پر عدالت نے وکلاء کے ٹک ٹاک ویڈیوز بنانے اور پولیس اہلکاروں سے بدتمیزی پر برہمی کا اظہار کیا۔

عدالت نے کہا ایسا نہیں ہو سکتا کہ کوئی وکیل تھانے کا کر کہے کہ میں تھانے کا آڈٹ کرنا ہے، پراسیکیوٹر جنرل پنجاب نے کہا چند وکلاء نوجوانوں کو غلط گائیڈ کر رہے ہیں۔ پنجاب بار کونسل کے وائس چیئرمین نے بتایا کہ ادارے کے قواعد کے مطابق کوئی وکیل اپنی تشہیر نہیں کر سکتا، گزٹ نوٹیفکیشن لا رہے ہیں کہ وکیل یونیفارم میں ٹک ٹاک نہیں ویڈیو نہیں بنا سکتا۔

ڈی آئی جی علی ناصر رضوی نے عدالت کو بتایا کہ عدالت کے احکامات کے بعد پولیس حراست میں ملزمان کی صرف 3 ویڈیو بنیں مگر پہلے ہر ہفتے میں ایسے 5 سے 7 واقعات ہوتے تھے۔ جسٹس علی ضیاء باجوہ نے کہا آپ کے اہلکار اخلاقی طور پر کمزور لگتے ہیں اس لیے وکلاء کے سامنے کھڑے نہیں ہو سکتے۔
کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ اوتھ کمشنر سے بھی کم عقل رکھنے والا ایک وکیل سیدھا پاکستان کا چیف جسٹس بن جائے ؟
 

patwari_sab

Chief Minister (5k+ posts)
aur is criteria kee sub say bari shart hey k gernail bahut bara gando shoukeeen khasee aur khusra hona be zarooreee hay.
is me koyi shaq nahi jis tara ka saloq inho ne in 2 sal me awam k sat kiya.. logo k karabor taba kr diya.. masom logo ko jan se mar diya.. chadar chardiwari ko apne Boot talay rond diya..sharab gashtiya in madarchodo ko supply ki jati hein.. gayism khusraism yeh sab koch krte hein.