اس وقت وزیر اعظم کی کرسی پر نواز شریف ہوتا یا زرداری، بلاول جیسی بیماری ہوتی، یا مریم ہوتی بمع اپنی ساری مکاری۔۔(اللہ نہ کرے)۔۔ان کا امریکہ کے نو منتخب صدر کی خدمت میں ٹوئیٹ مبارک و خوش آمد سے زیادہ کا نہ ہوتا۔۔
مگر عمران خان نے جس طرح کا مبارک بادی ٹوئیٹ کیا ہے۔۔ اس سے پڑھ کر بائیڈن تو کیا اس کے سمدھی و سمدھن بھی سوچ میں پڑ گئے ہونگے کہ اس بندے کو ہلکا نہیں لینے کا۔
بظاہر یہ ایک سادہ سی مبارکبادی ٹوئیٹ تھی ، مگر اس سے کپتان نے ایک بار پھر دنیا کو بتادیا اور خاص طور پر پاکستان کی کرپٹ و حرام خور سیاسی پیپلی نونی و خونی مافیہ کے مرض سے بھرے دلوں پر وار کردیا ہے۔
کپتان امریکی صدر اور ان کی نائب کوفتح کی مبارکباد کے فورا بعد لکھتے ہیں کہ؛ عالمی سمٹ کےانعقادکیساتھ کرپٹ رہنماؤں کیجانب سےچوری شدہ قومی دولت چھپانے اورٹیکس چوری کےغیرقانونی ٹھکانوں کے خاتمےکیلئےانکےساتھ کام کرنےکاخواہاں ہوں ، ۔اس کے بعد باقی معاملات کا ذکر کرتے ہیں کہ۔۔افغانستان/خطےمیں امن کیلئےبھی ہم امریکہ کیساتھ کام جاری رکھیں گے۔
اس ایک ٹوئیٹ سے انہوں نے کئی شکار کیئے۔ ایک طرف تو امریکہ کے نومنتخب صدر کو شروع سے ہی اپنے ارادوں سے آگاہ کیا ، تو دوسری طرف ملکی اور مفرور چوروں کو بھی یہ بات بتادی کہ وہ کتنا سیریس ہیں۔۔ ایک طرف بائیڈن کو بتادیا کہ ہم تمہارا کام کریں گے مگر پہلے تم ہمارا کام کروگے ، تو دوسری طرف دیسی ٹھگوں اور ان کے گماشتوں کی دموں پر زور سے پیر پٹخ کر ایک طرف کو بیٹھ گئے ان کا ناچ دیکھنے۔
کہتے ہیں بائیدن شاید پاکستان کے لیئے اچھا نہ ہو۔۔ کیونکہ اس پارٹی والوں نے ہمیشہ پاکستان کے ساتھ برا کیا۔۔ مگر یہاں اہم بات یہ ہے کہ اس وقت ہمارے وزیر اعظم عمران خان نہیں ہوتے تھے۔۔
جیسا کہ ٹرمپ اپنی حکومت کی شروعات میں پاکستان پر چڑھ دوڑتا تھا ، مگر کپتان کے وزیر اعظم بننے کے بعد ٹوئیٹ کے ایک ہی اوور میں ٹرمپ کی ایسی وکٹ اڑائی کہ پھر اس نے کھبی ہمت نہیں کی ان کی بالنگ کا سامنا کرنے کی۔ بلکہ اس کے بعد وہ اچھا بچہ بن کر رہا ، اور کپتان کے امریکہ دورے میں انہیں سر پر بٹھائے پھرتا رہا۔
بات لمبی ہوگئی۔۔ آخر میں بس اتنا کہ کپتان نے بظاہر ایک مبارکبادی ٹوئیٹ پھینکی ہے، مگر حقیقت میں یہ کسی طور ایک خطرناک یارکر سے کم نہ تھی۔۔ جسے احتیاط سے نہ کھیل کر بیٹس مین یا تو اپنی وکٹ اڑا ڈالتا ہے یا پیر۔