ابھی تازہ ترین اطلاعات کے مطابق وزیر اعظم عمران خان نے نیا قانون بنانے کی بات کی ہے کہ اس وحشیانہ جرم میں سب سے پہلے درجہ بندی کی جائے اور پہلے درجے کے مجرموں کو کیمیائی طریقہ سے یا سرجری کر کے نامرد بنا دیا جائے۔
لیکن میرا سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے پاس پہلے سے اس جرم کی سزا اسلام میں موجود نہیں؟ بلکل ہے اور وہ اس سے زیادہ پر اثر ہے۔
یہاں اس نئی اختراع کے بارے میں کچھ عرض کروں، لیکن اس سے زیادہ موافق الفاظ میری نظر سے نہیں گزرے
جی ہاں، اس طرح کی سزا دینے سے پہلے اس کے نتائج سوچ لیں۔ ایسی کسی سزا کے بعد اگر کوئی مجرم رِہا کر دیا جائے تو وہ مزید درندہ بن جائے گا۔ اپنی اس نئی درندگی میں وہ عورتوں پر تیزاب پھینکنے سے لے کر اور ایسی کئی حرکتیں کر سکتا ہے جن کا احاطہ کرنا یہاں ممکن نہیں۔
بے شک، ہمیں کسی نئے قانون کی ضرورت ہوتی، اگر ہمارا پہلے سے موجود قانون اس سلسلے میں ناکافی ہوتا یا اس میں کوئی ثْقم موجود ہوتے۔ مسئلہ قانون نہیں، مسئلہ انصاف کا ہے۔
انصاف چاہیئے۔ ایک عورت کے لیئے ایسے کسی جرم کو ثابت کرنے کے لیئے اور اسی طرح مردوں کو بھی کسی بدکردار عورت کے شر سے بچانے کے لیئے۔ جی ہاں، بد قسمتی سے ہمارے یہاں صرف عورتیں ہی اس شر کا شکار نہیں، بلکہ بہت سارے مرد بھی پھانسے جاتے ہیں اور پھر ایسے الزامات ان پر لگتے ہیں کہ جرم ثابت ہو یا نہ ہو، ان کی اور ان کے گھر والوں کی زندگی ہمیشہ کے لیئے بدکرداری کی سیاہ چادر میں لپیٹ دی جاتی ہے اور ان کو لوگ کسی آبادی میں رہنے والے کوڑھی سے زیادہ نہیں سمجھتے۔
جناب عرض ہے کہ نئے قانون سے اس ملک میں کچھ نہیں ہونے والا، جب تک قانون شکنی کا یہاں راج ہے۔
مختصر یہ، کہ پہلے اپنے مجوزّہ قانون کا احاطہ کریں، اگر اس میں کوئی کمی ہے تو ٹھیک، نہیں تو جو اسلامی سزا ہے وہی سنائیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ہر بات مکمّل ہے اور اسکی حکمت کا کوئی ثانی نہیں۔
ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ دیکھا جائے کہ یہ قانون شکنی کہاں، کب، اور کیسے ہوتی ہے۔ ان چور دروازوں کو بند کریں۔ اپنے نظام کو ٹھیک کریں، جس کی اشہد ضرورت ہے۔
لیکن میرا سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے پاس پہلے سے اس جرم کی سزا اسلام میں موجود نہیں؟ بلکل ہے اور وہ اس سے زیادہ پر اثر ہے۔
یہاں اس نئی اختراع کے بارے میں کچھ عرض کروں، لیکن اس سے زیادہ موافق الفاظ میری نظر سے نہیں گزرے
جی ہاں، اس طرح کی سزا دینے سے پہلے اس کے نتائج سوچ لیں۔ ایسی کسی سزا کے بعد اگر کوئی مجرم رِہا کر دیا جائے تو وہ مزید درندہ بن جائے گا۔ اپنی اس نئی درندگی میں وہ عورتوں پر تیزاب پھینکنے سے لے کر اور ایسی کئی حرکتیں کر سکتا ہے جن کا احاطہ کرنا یہاں ممکن نہیں۔
بے شک، ہمیں کسی نئے قانون کی ضرورت ہوتی، اگر ہمارا پہلے سے موجود قانون اس سلسلے میں ناکافی ہوتا یا اس میں کوئی ثْقم موجود ہوتے۔ مسئلہ قانون نہیں، مسئلہ انصاف کا ہے۔
انصاف چاہیئے۔ ایک عورت کے لیئے ایسے کسی جرم کو ثابت کرنے کے لیئے اور اسی طرح مردوں کو بھی کسی بدکردار عورت کے شر سے بچانے کے لیئے۔ جی ہاں، بد قسمتی سے ہمارے یہاں صرف عورتیں ہی اس شر کا شکار نہیں، بلکہ بہت سارے مرد بھی پھانسے جاتے ہیں اور پھر ایسے الزامات ان پر لگتے ہیں کہ جرم ثابت ہو یا نہ ہو، ان کی اور ان کے گھر والوں کی زندگی ہمیشہ کے لیئے بدکرداری کی سیاہ چادر میں لپیٹ دی جاتی ہے اور ان کو لوگ کسی آبادی میں رہنے والے کوڑھی سے زیادہ نہیں سمجھتے۔
جناب عرض ہے کہ نئے قانون سے اس ملک میں کچھ نہیں ہونے والا، جب تک قانون شکنی کا یہاں راج ہے۔
مختصر یہ، کہ پہلے اپنے مجوزّہ قانون کا احاطہ کریں، اگر اس میں کوئی کمی ہے تو ٹھیک، نہیں تو جو اسلامی سزا ہے وہی سنائیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ہر بات مکمّل ہے اور اسکی حکمت کا کوئی ثانی نہیں۔
ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ دیکھا جائے کہ یہ قانون شکنی کہاں، کب، اور کیسے ہوتی ہے۔ ان چور دروازوں کو بند کریں۔ اپنے نظام کو ٹھیک کریں، جس کی اشہد ضرورت ہے۔