یونانی کوسٹ گارڈز کا مدد کرنے کا دعویٰ جھوٹا ہے، شہریوں کو بچانے کیلئے کوئی کوشش نہیں ہوئی: برطانوی نشریاتی ادارہ
لیبیا سے اٹلی جاتے ہوئے یونان کے ساحل پر ڈوبنے والی کشتی میں زندہ بچنے والے بھانو پنڈی کے رہائشی پاکستانی شہری رانا حسنین کے والد رانا نصیر نے نجی ٹی وی چینل اے آر وائے نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے خوفناک سانحے سے متعلق بڑے انکشافات کر دیئے ہیں۔
پاکستانی شہری رانا حسنین کی ویڈیو بھی سامنے آئی ہے جس میں وہ اپنے والد کو اپنے بارے میں بتا رہا ہے، گفتگو کے دوران پیچھے سے متعدد افراد کے کھانسنے کی آوازٰ بھی سنائی دے رہی ہیں۔
رانا حسنین کے والد رانا نصیر نے نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میرے بیٹے نے بتایا کہ جہاں ہمیں رکھا گیا ہے وہاں 10 کی جگہ 100 لوگوں کو ایک کمرے میں رکھا گیا ہے، سب کا حال برا ہو چکا ہے۔ کشتی میں کھانا بھی ختم ہو گیا ہے، پینے کیلئے صاف پانی موجود نہیں جس سے صحت خراب ہو چکی ہے جبکہ کھانا 2 دن بعد دیا جاتا ہے۔
رانا حسنین نے اپنے والد کو بتایا کہ مجھ سمیت زندہ بچنے والے افراد کو کسی ہسپتال میں لے جانے کے بجائے حراستی کیمپ میں رکھا گیا ہے اور وہیں ادویات دی جا رہی ہیں۔ رانا نصیر نے خوفناک حادثے پر گفتگو کرتے ہوئے پاکستانی شہریوں سے اپیل کی کہ والدین اپنے بچوں کو غیرقانونی طریقوں سے ملک سے باہر نہ بھجوائیں، انسانی سمگلرز ہمارے بچوں کی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں۔
یونان کشتی حادثے میں زندہ بچنے والے پاکستانی نوجوانوں کی طرف سے بھی تہلکہ خیز انکشاف سامنے آئے جس میں ان کا کہنا تھا کہ کشتی سانحے میں لوگوں کو جان بوجھ کر ڈوبنے دیا گیا جبکہ یونانی کوسٹ گارڈز ان کے مرنے کا تماشا دیکھتے رہے۔ متاثرین نے بتایا کہ لوگ مدد کیلئے پکارتے رہے لیکن کئی گھنٹوں تک کوسٹ گارڈز والے مدد کے بجائے لوگوں کو ڈوبتے ہوئے دیکھتے رہے۔
ایاد (شامی پناہ گزین ) نے انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ ہم ڈوب رہے تھے اور کوسٹ گارڈ دیکھتے رہے اور مارتے رہے کہ منہ بند رکھو، سانحے میں اتنی بڑی تعداد میں اموات کی بڑی وجہ کوسٹ گارڈز تھے۔ برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے انکشاف کیا کہ کشتی 7 گھنٹے تک ایک جگہ پر کھڑی تھی، یونانی کوسٹ گارڈز کا مدد کرنے کا دعویٰ جھوٹا ہے، شہریوں کو بچانے کیلئے کوئی کوشش نہیں ہوئی۔
شواہد سامنے آئے تو کوسٹ گارڈ حکام جو پہلے لوگوں کو بچانے کی کوشش کرنےکا دعویٰ کرتے رہے تھے اپنا موقف تبدیل کر لیا اور کہا کہ کشتی میں موجود لوگوں کی طرف رسی پھینکی لیکن انہوں نے مدد لینے سے انکار کیا۔ ڈائریکٹر ایف آئی اے سرفراز ورک نے بتایا کہ بچنے والے 12 پاکستانی شہریوںمیں سے 10 سے رابطہ ہوا ہے جن سے ملی معلومات کے بعد 47 خاندانوں سے رابطہ کیا ہے۔
ڈائریکٹر ایف آئی اے کا کہنا تھا کہ خوفناک سانحے میں ملوث ایجنٹس پر 6 ایف آئی آرز درج کی گئی ہیں جن میں سے 4 ایجنٹس گرفتار کیے گئے ہیں اور ماسٹرمائنڈ پہلے سے جیلوں میں قید ہیں۔ لوگوں کو کشتی کے ذریعے براستہ دبئی، لیبیا اور پھر اٹلی بھیجا جاتا ہے، لوگ پاکستان، دبئی سے ڈائریکٹر ویزا لیکر لیبیا پہنچتے ہیں جہاں سے اٹلی جاتے ہیں۔
زمین کا راستہ مشکل ہونے کی وجہ سے سمندری راستہ استعمال کیا جاتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ایجنٹس لوگوں سے اٹلی بھجوانے کا 5 سے7 ہزار ڈالر لیتے ہیں، نیٹ ورک کے دیگر عناصر کو گرفتار کرنے کیلئے انٹرپول سے رابطہ کیا گیا ہے۔ خوفناک سانحہ 14 جون کو پیش آیا تھا جس میں 78 افراد جاں بحق ہو گئے تھے جبکہ 104 بچ گئے تھے۔ حادثے کا کی شکار کشتی میں پاکستانی شہریوں کے علاوہ شامی، مصری ودیگر ممالک کے 750 تارکین وطن سوار تھے، سانحے پر آج پاکستان میں قومی سطح پر یوم سوگ منایا گیا۔