پہلے ہماری ریاست نے عمران خان کے کرپشن کے خلاف بیانیے کو سالوں سپورٹ کیا(عجیب ات تھی ویسے ساتھ ہی جج جرنیل بیوروکریسی سیاستدان سب دبا کر کرپشن کر رہے تھے جس کی نشانیاں ان کی شاہی زندگی کی صورت اظہر من الشس ہیں)
اور اس کے لئے ارشد شریف جیسے عمران ریاض جیسے محب وطن لوگوں کو وہ ثبوت وڈیوز دستاویزات دکھائے گئے جو ہماری آئ ایس آئ نے یا ایم آئ نے کبھی عدالتوں میں پیش نہیں ہونے دئے تاکہ ان پر کوئ فیصلہ نہ آ سکے۔
وہ صرف لوگوں کا ایمان پکا کرنے کو ہیں۔
اب آڈیوز وڈیوز کا زکر ہم نے دو ہی اشخاص کے بارے میں سنا ہے جنہوں نے اعتراف کیا ایک مریم نواز دوسرا باجوہ کہ ہمارے پاس آڈیوز وڈیوز ہیں۔لیکن یہ ایک غیر قانونی دھندا ہے اس لئے ریلیز کر رہے ہیں جہاں سے جی چاہے بیانیے بنا کر لیکن یہ کبھی کسی کیس میں بطور گواہ یہ دونوں قانونی طریقے سے پیش نہیں کریں گے اور عدالتیں شریف خاندان کے بارے میں کہہ چکی ہیں باقی لوگ اپنے منہ سے اعتراف نہ بھی کریں انہیں جھوٹےمقدمات میں سزا بھی دیں گے لیکن شریف فیملی کو دس دن پہلے سے بتایا جائے گا تاکہ وہ ضمانتیں یا ٹکٹیں جو چاہے لے لیں۔جرم وہ کریں گے لیکن انہیں ثابت وہ بے چارے افسران کریں گے جنہیں نہ تو ثبوت اکٹھے کرنے کی طاقت دی جائے گی نہ بجٹ ۔نہ ہی ریاست کی اجازت۔
خیر جب شریف خاندان کو جی ایچ کیو بلایا جانے لگا اور تاثر دیا جانے لگا مریم نواز کی فوج کے خلاف نعروں میں بڑی طاقت ہے اور نواز شریف کی گالیوں اور قومی راز کھولنے کی دھمکیوں سے فوج ڈر رہی ہے مجبور ہو رہی ہے اس لئے انہیں این آر او دیا جارہا ہے ۔تو ہر ٹی وی پر یہ بیانیہ بیچا جانے لگا کہ عمران خان کرپشن کرپشن نہ کریں بلکہ کارکردگی پر توجہ دیں انہوں نے وہ بھی دے کر دکھائی لیکن سودا نہ ٹوٹ سکا۔بلکہ یہ تک کہا جانے لگا کہ عمران خان کے زمانے میں تو پاکستان میں کرپشن کی شرح بڑھ گئی۔اور ہم نے یقین کیا۔کیونکہ عمران خان کے ہی دور حکومت میں جہانگیر ترین پر نون لیگ نے گلا پھاڑا پی پی پی نے بھی اور ان کا سکینڈل بے نقاب ہوا۔شہباز شریف کی ٹی ٹیاں بھی اربوں کی پکڑی گئیں اور تحریک انصاف کے لوگوں کی بھی خبریں آنے لگیں پرویز خٹک عثمان بزدار علی زیدی وغیرہ کرپشن کر رہے ہیں۔چونکہ پی ٹی آئ کا ووٹر پاکستان سے زیادہ محبت کرتا ہے تو سپورٹروں ووٹروں نے کارکنوں نے بھی یقین کیا کچھ ہو رہا ہو گا ۔
اور رجیم چینج کے بعد ہمیں پکا یقین تھا ان کے خلاف کیسز ہونگے اور ان کو کرپشن کا پیسہ واپس کرنا پڑے گا اور ووٹر ورکر اس کے لئے تیار بھی تھے لیکن نون لیگ کو اور پی یڈی ایم کو تو این آر او لینے میں خاصی محنت کرنا پڑی سالوں لگے اور پاپڑ بھی کافی بیلنے پڑے
لیکن تحریک انصاف کا تو جیک پاٹ لگا کچھ بھی نہیں کرنا پڑا۔اور ایک سال تک تحریک انصاف کے پیٹرن دیکھے گئے لوگوں کی انوالومنٹ عمران خان سے نوجوانوں کی دیوانہ وار محبت اور عمران خان کا پورے ملک پر کنٹرول اس قدر کہ اس سے بڑے جلسے پاکستان میں اتنی بڑی تعداد میں کسی نے نہ کئے لیکن ان میں کوئ پتہ نہ ہلتا تھا۔اور عمران خان کو اس سیاست کو ڈسپلن سے نکالنے پر مجبور نہ کیا جاسکا۔حتی کہ اس کو گولیاں لگنے پر بھی اس نے فورا ہیبہادری سے صورتحال کو کنٹرول کیا اور موقع پر بھی کوئ بدنظمی پیدا نہیں ہونے دی۔پھر ہماری ریاست کے بہترین دماغوں کی پھٹیچر سی سازش جسے بچہ بچہ جانتا ہے تیار کی گئی اور وہ پولیس اور وہ رانا جو لوگوں کو صرف جلسوں میں جانے سے روکنے کو کنٹینروں کے مینار لگایا کرتا تھا۔اور وہ پولیس جو لوگوں کے گھروں میں بغیر وارنٹ کے ایک دن پہلے آدھی رات کو گھسی ہوتی تھی جس کے لئے نہ کوئ قانون تھا اور نہ کوئی عدالت نہ ہی آئین اور نہ ہی اخلاقیات۔
عمران خان کو پلان کے تحت جان بوجھ کر غیر قانونی طریقے سے گرفتار کیا گیا اس کے باوجود لوگ عدالت کی طرف دیکھتے رہے اور اس سارے واقعے کا ایک مین کردار اب اللہ جانے اس کی آڈیو ہے وڈیو ہے یا کرپشن کی فایل ان دو بلیک میلرز کے پاس جسٹس عامر فاروق اس جان بوجھ کر ایک غیر قانونی گرفتاری کو قانونی قرار دے دیا۔جس پر سمجھدار لوگ تو ایک جمہوری حد سے آگے نہیں بڑھے لیکن کچھ ناسمجھ نوجوانوں کو اشتعال دلا کر ان عمارتوں کے دروازے کھول کر گھیر کر ان عمارتوں میں بھیجھا گیا جہاں جانا تو درکنار جس علاقے سے بھی عام آدمی نہیں گزر سکتے تھے اور وہ کس نے کیا کس نے کروایا یہ جاننے کی اجازت کسی کو نہیں ملے گیسوائے ان لوگوں کے جن سے کروایا گیا اگر وہ خود اسے ڈسکلوز کریں یا کسی غیر جانبدار سے اس کی تحقیق ہو سکے۔
لیکن اس بہانے سے کیونکہ باقی سارا ملک تو پہلے ہی این آر او پاچکا تھا۔تحریک انصاف کے ساتھ بھی انصاف ہوا ۔انہیں بھی این آر او دیا گیا اور مزے کی بات اس پر سالوں بولنے والے سب گونگے ہیں اب پاکستان سارے کا سارا کرپشن فری ہو چکا ہے کوئ کرپٹ ہے نہ ملزم ہے نہ مجرم ہے۔بلکہ وہ چند لوگ جو کرپشن کے بیانیے کو سچ جانتے ہیں عمران خان کے ساتھ تھے اور اب تک کھڑے ہیں مزے کی بات ہے اب صرف وہ ہی ملزم ہیں مجرم ہیں اور عمران خان پر کرپشن کے کیسز چلانے پڑ رہے ہیں۔لیکن فرق یہ ہے جس جس کو کرپٹ کہا گیا عوام نے دل وجان سے یقین کیا۔جیالے نے بھی تردید نہیں کی کہا عدالت لے جائیں اگر کرپشن کی ہے۔اور ہمارے پٹواری بھائ تو صاف کہتے تھے کہ کھاتا ہے تو لگاتا بھی ہے ۔یعنی وہ بھی یقین کرتے تھے ۔
لیکن اب کی بار پورے ملک کو اس پر قایل نہیں کیا جاسک رہا ہے کہ این آر او زدہ لوگ ایماندار ہیں اور عمران خان نے کرپشن کی ہے لیکن دنیا گول ہے اور مجبوری ہے اور ہماری ریاست اتنی زہین ہوتی تو اس وقت ہم ترقی یافتہ نہ سہی ترقی پذیر ملک تو ہوتے یوں سیاستدانوں سے کھیلتے کھیلتے ڈیفالٹ کے قریب نہ ہوتے کہ پھر سے ایک غلط بندے کو کرپٹ ثابت کرنے کے بیانئے کے سوا چارہ نہیں اس دایرے کے سفر میں جسے عوام کرپٹ سمجھتی ہی نہیں۔جسے سزا دینے کے پلان بن رہے ہیں مشتہر ہو رہے ہیں جبکہ لوگ اس پر چلنے والے ایک کیس کو بھی صحیح سمجھتے ہیں نہ سمجھیں گے۔اتنا تو قوم کر ہی سکتی ہے کہ جس نے عزت کمائی ہو اسے دل سے عزت دے رہی ہے
اور اس کے لئے ارشد شریف جیسے عمران ریاض جیسے محب وطن لوگوں کو وہ ثبوت وڈیوز دستاویزات دکھائے گئے جو ہماری آئ ایس آئ نے یا ایم آئ نے کبھی عدالتوں میں پیش نہیں ہونے دئے تاکہ ان پر کوئ فیصلہ نہ آ سکے۔
وہ صرف لوگوں کا ایمان پکا کرنے کو ہیں۔
اب آڈیوز وڈیوز کا زکر ہم نے دو ہی اشخاص کے بارے میں سنا ہے جنہوں نے اعتراف کیا ایک مریم نواز دوسرا باجوہ کہ ہمارے پاس آڈیوز وڈیوز ہیں۔لیکن یہ ایک غیر قانونی دھندا ہے اس لئے ریلیز کر رہے ہیں جہاں سے جی چاہے بیانیے بنا کر لیکن یہ کبھی کسی کیس میں بطور گواہ یہ دونوں قانونی طریقے سے پیش نہیں کریں گے اور عدالتیں شریف خاندان کے بارے میں کہہ چکی ہیں باقی لوگ اپنے منہ سے اعتراف نہ بھی کریں انہیں جھوٹےمقدمات میں سزا بھی دیں گے لیکن شریف فیملی کو دس دن پہلے سے بتایا جائے گا تاکہ وہ ضمانتیں یا ٹکٹیں جو چاہے لے لیں۔جرم وہ کریں گے لیکن انہیں ثابت وہ بے چارے افسران کریں گے جنہیں نہ تو ثبوت اکٹھے کرنے کی طاقت دی جائے گی نہ بجٹ ۔نہ ہی ریاست کی اجازت۔
خیر جب شریف خاندان کو جی ایچ کیو بلایا جانے لگا اور تاثر دیا جانے لگا مریم نواز کی فوج کے خلاف نعروں میں بڑی طاقت ہے اور نواز شریف کی گالیوں اور قومی راز کھولنے کی دھمکیوں سے فوج ڈر رہی ہے مجبور ہو رہی ہے اس لئے انہیں این آر او دیا جارہا ہے ۔تو ہر ٹی وی پر یہ بیانیہ بیچا جانے لگا کہ عمران خان کرپشن کرپشن نہ کریں بلکہ کارکردگی پر توجہ دیں انہوں نے وہ بھی دے کر دکھائی لیکن سودا نہ ٹوٹ سکا۔بلکہ یہ تک کہا جانے لگا کہ عمران خان کے زمانے میں تو پاکستان میں کرپشن کی شرح بڑھ گئی۔اور ہم نے یقین کیا۔کیونکہ عمران خان کے ہی دور حکومت میں جہانگیر ترین پر نون لیگ نے گلا پھاڑا پی پی پی نے بھی اور ان کا سکینڈل بے نقاب ہوا۔شہباز شریف کی ٹی ٹیاں بھی اربوں کی پکڑی گئیں اور تحریک انصاف کے لوگوں کی بھی خبریں آنے لگیں پرویز خٹک عثمان بزدار علی زیدی وغیرہ کرپشن کر رہے ہیں۔چونکہ پی ٹی آئ کا ووٹر پاکستان سے زیادہ محبت کرتا ہے تو سپورٹروں ووٹروں نے کارکنوں نے بھی یقین کیا کچھ ہو رہا ہو گا ۔
اور رجیم چینج کے بعد ہمیں پکا یقین تھا ان کے خلاف کیسز ہونگے اور ان کو کرپشن کا پیسہ واپس کرنا پڑے گا اور ووٹر ورکر اس کے لئے تیار بھی تھے لیکن نون لیگ کو اور پی یڈی ایم کو تو این آر او لینے میں خاصی محنت کرنا پڑی سالوں لگے اور پاپڑ بھی کافی بیلنے پڑے
لیکن تحریک انصاف کا تو جیک پاٹ لگا کچھ بھی نہیں کرنا پڑا۔اور ایک سال تک تحریک انصاف کے پیٹرن دیکھے گئے لوگوں کی انوالومنٹ عمران خان سے نوجوانوں کی دیوانہ وار محبت اور عمران خان کا پورے ملک پر کنٹرول اس قدر کہ اس سے بڑے جلسے پاکستان میں اتنی بڑی تعداد میں کسی نے نہ کئے لیکن ان میں کوئ پتہ نہ ہلتا تھا۔اور عمران خان کو اس سیاست کو ڈسپلن سے نکالنے پر مجبور نہ کیا جاسکا۔حتی کہ اس کو گولیاں لگنے پر بھی اس نے فورا ہیبہادری سے صورتحال کو کنٹرول کیا اور موقع پر بھی کوئ بدنظمی پیدا نہیں ہونے دی۔پھر ہماری ریاست کے بہترین دماغوں کی پھٹیچر سی سازش جسے بچہ بچہ جانتا ہے تیار کی گئی اور وہ پولیس اور وہ رانا جو لوگوں کو صرف جلسوں میں جانے سے روکنے کو کنٹینروں کے مینار لگایا کرتا تھا۔اور وہ پولیس جو لوگوں کے گھروں میں بغیر وارنٹ کے ایک دن پہلے آدھی رات کو گھسی ہوتی تھی جس کے لئے نہ کوئ قانون تھا اور نہ کوئی عدالت نہ ہی آئین اور نہ ہی اخلاقیات۔
عمران خان کو پلان کے تحت جان بوجھ کر غیر قانونی طریقے سے گرفتار کیا گیا اس کے باوجود لوگ عدالت کی طرف دیکھتے رہے اور اس سارے واقعے کا ایک مین کردار اب اللہ جانے اس کی آڈیو ہے وڈیو ہے یا کرپشن کی فایل ان دو بلیک میلرز کے پاس جسٹس عامر فاروق اس جان بوجھ کر ایک غیر قانونی گرفتاری کو قانونی قرار دے دیا۔جس پر سمجھدار لوگ تو ایک جمہوری حد سے آگے نہیں بڑھے لیکن کچھ ناسمجھ نوجوانوں کو اشتعال دلا کر ان عمارتوں کے دروازے کھول کر گھیر کر ان عمارتوں میں بھیجھا گیا جہاں جانا تو درکنار جس علاقے سے بھی عام آدمی نہیں گزر سکتے تھے اور وہ کس نے کیا کس نے کروایا یہ جاننے کی اجازت کسی کو نہیں ملے گیسوائے ان لوگوں کے جن سے کروایا گیا اگر وہ خود اسے ڈسکلوز کریں یا کسی غیر جانبدار سے اس کی تحقیق ہو سکے۔
لیکن اس بہانے سے کیونکہ باقی سارا ملک تو پہلے ہی این آر او پاچکا تھا۔تحریک انصاف کے ساتھ بھی انصاف ہوا ۔انہیں بھی این آر او دیا گیا اور مزے کی بات اس پر سالوں بولنے والے سب گونگے ہیں اب پاکستان سارے کا سارا کرپشن فری ہو چکا ہے کوئ کرپٹ ہے نہ ملزم ہے نہ مجرم ہے۔بلکہ وہ چند لوگ جو کرپشن کے بیانیے کو سچ جانتے ہیں عمران خان کے ساتھ تھے اور اب تک کھڑے ہیں مزے کی بات ہے اب صرف وہ ہی ملزم ہیں مجرم ہیں اور عمران خان پر کرپشن کے کیسز چلانے پڑ رہے ہیں۔لیکن فرق یہ ہے جس جس کو کرپٹ کہا گیا عوام نے دل وجان سے یقین کیا۔جیالے نے بھی تردید نہیں کی کہا عدالت لے جائیں اگر کرپشن کی ہے۔اور ہمارے پٹواری بھائ تو صاف کہتے تھے کہ کھاتا ہے تو لگاتا بھی ہے ۔یعنی وہ بھی یقین کرتے تھے ۔
لیکن اب کی بار پورے ملک کو اس پر قایل نہیں کیا جاسک رہا ہے کہ این آر او زدہ لوگ ایماندار ہیں اور عمران خان نے کرپشن کی ہے لیکن دنیا گول ہے اور مجبوری ہے اور ہماری ریاست اتنی زہین ہوتی تو اس وقت ہم ترقی یافتہ نہ سہی ترقی پذیر ملک تو ہوتے یوں سیاستدانوں سے کھیلتے کھیلتے ڈیفالٹ کے قریب نہ ہوتے کہ پھر سے ایک غلط بندے کو کرپٹ ثابت کرنے کے بیانئے کے سوا چارہ نہیں اس دایرے کے سفر میں جسے عوام کرپٹ سمجھتی ہی نہیں۔جسے سزا دینے کے پلان بن رہے ہیں مشتہر ہو رہے ہیں جبکہ لوگ اس پر چلنے والے ایک کیس کو بھی صحیح سمجھتے ہیں نہ سمجھیں گے۔اتنا تو قوم کر ہی سکتی ہے کہ جس نے عزت کمائی ہو اسے دل سے عزت دے رہی ہے