gorgias
Chief Minister (5k+ posts)
کتاب کا زوال۔
ہمیں کتاب سے بچپن سے ہی محبت ہے۔ ہم پشاور شہر کے قریب آباد گلبہار میں رہتے تھے جو کسی زمانے میں مڈل کلاس لوگوں کے لیے ایک اچھی رہائشی کالونی تھی۔ہم سکول جانے لگے۔ کاپی پنسل شارپنر خریدنے کے لیے کوئی دکان نہ تھی سب کچھ سکول سے خریدنا پڑتا تھا۔ پھر گلبہار میں سٹیشنری کی ایک دکان کھلی۔ رؤف سنز کے نام سے کھلنی والی دکان سے نہ صرف درسی کتب، بلکہ فیروز سنز کی چھپی ہوئی کتابیں بھی دستیاب ہونے لگیں۔ فیروز سنز کی خوب صورت اور چھوٹی چھوٹی کتابیں دیکھنے میں بہت بھلی لگتیں اور بے اختیار خریدنے کو جی چاہتا۔قیمت بھی واجبی سے چھے آنے اور آٹھ آنے کی کتاب، جب کہ ہمارا جیب خرچ دو آنے روزانہ۔۔۔۔ معلوم ہوا کہ دکان کے مالک عبد الرشید صاحب فیروز سنز میں کیشئر ہیں۔ وہاں سے کتابیں لاتے ہیں اور اپنی دکان پر فروخت کرتے ہیں۔یہ اس زمانے کی بات ہے جب پشاور میں بھی فیروز سنز موجود تھا۔
عبد الرشید صاحب کی دکان پر نہ صرف بچوں کی کہانیوں کی کتابیں دستیاب تھیں بلکہ اعلیٰ ادبی کتب اور تاریخی کتب بھی برائے فروخت تھیں۔ ہم نے اس عمر میں فانی بدایونی، نذیر اکبر آبادی، غالب، جیسے شعرا کی کتابیں پڑھیں۔ ٹیپو سلطان، حیدر علی، اورنگ زیب عالمگیر،شیر شاہ سوری،نور الدین زنگی اور اس قبیل کی بہت سی کتابیں زیر مطالعہ رہیں ۔ کچھ ہی عرصے میں ایک اور دکان افغان جنرل سٹور اینڈ سٹیشنری مارٹ کے نام سے کھلی۔ یہاں نہ صرف کتابیں دستیاب تھیں بلکہ آنہ لائبریری ٹائب سلسلہ بھی چلتا تھا۔ آپ کوئی بھی کتاب لیں۔ چوبیس گھنٹے رکھیں ، پڑھیں، اگلے دن واپس کریں اور فقط چار آنے کرایہ دیں۔یہاں ہم نے ٹارزن ،داستان امیر حمزہ، طلسم ہوش ربا، ابن صفی کی عمران سیریز اور جاسوسی دنیا پڑھی۔ کوئی کتاب اچھی لگتی تو ابّا جی سے فرمائش کر کے خرید لیتے۔اس کے علاوہ اخبار فروش سے نونہال، تعلیم و تربیت اور بچوں کی دنیا ہمارے گھر باقاعدگی سے آتے ۔
وقت کے ساتھ ساتھ ہمارا شوق بڑھتا رہا۔ لیکن پشاور میں موجود فیروز سنز بند ہوگیا۔جس کے نتیجے میں روف سنز میں کتابوں کی تعداد کم ہونے لگی۔ اور کچھ ہی عرصے میں یہ دکان صرف درسی کتابوں اور کاپیوں پنسلوں تک محدود ہوگئی۔لیکن اب ہمارے ذوق کی تسکین کے لیے یونیورسٹی بک ایجنسی موجود تھی۔یہاں سے ہم نے شفیق الرحمان کی کتاب حماقتیں سے اپنی خریداری شروع کی پھر ابن انشا کے سفر ناموں کی طرف گئے،احمد فراز،فیض احمد فیض پروین شاکر کی کتابوں سے شناسائی بنی،مصطفیٰ زیدی کی شاعری پڑھی۔اس کے ساتھ ساتھ ہم نے لندن بک ایجنسی اور پشاور صدر کےگورا بازار کے اندر سمیع بک ایجنسی سے بھی کتابوں کی خریداری شروع کی۔
اللہ کے فضل سے بےئ شمار کتابیں پڑھیں۔ پھر شعبۂ اردو میں داخلہ لیا۔تو مزید ذوق و شوق سے ناول، داستانیں، افسانے، تنقیدو تحقیق کی کتابیں خریدیں۔شعبہ کی طرف سے لاہور کے ٹور پر گئے تو وہاں بھی اُردو بازار سے اچھی خاصی کتابیں خریدیں۔
ملازمت شروع ہوئی تو ابتدائی چند سال ہاتھ تنگ رہا،چونکہ شادی ہوگئی تھی اس لیے اب والدین سے مانگنا کچھ عجیب لگتا تھا کہ اب امّی کو حساب دینا پڑتا تھا اور بچی کچھی رقم بیوی کے ہاتھ میں رکھ دیتے۔ لیکن اسی دور میں گل بہار میں چند نوجوانوں نے شبان المسلمین کے نام سے ایک انجمن بنائی اس انجمن سے یہاں ایک لائبریری بنائی تو ہماری طرح کی تشنوں کی آبیاری کرتی تھی۔
کچھ عرصہ پہلے بی بی سی اُردو پر ایک سوال کیا گیا تھا کہ برصغیر میں سب سے زیادہ کتب بینی کس شہر میں ہوتی ہے۔ ہمارے لیے یہ حیرت کی بات تھی کہ اس لسٹ میں پشاور پہلے نمبر پر تھا۔اس وقت پشاور میں آنہ لائبریوں کی بھر مار تھی۔ہر گلی محلےمیں ایک لائبریری تھی جہاں ایک آنہ کرایہ پر آپ کوئی بھی کتاب ایک دن کے لیے حاصل کر سکتے تھے۔
ہم نے کتابوں کی خریداری کیا موقوف کی لگنے لگا کہ اہلیان پشاور کے ذوقِ کتب بینی کو کسی کی نظر لگ گئی۔ روف سنز بند ہوگئی۔ افغان جنرل سٹور اینڈ سٹیشنری مارٹ اب افغان جنرل سٹور اینڈ کھلونا سینٹر بن گیا۔ گورا بازار میں موجود سمیع ایجنسی تو اب کسی کو یاد بھی نہیں رہی۔ فیروز سنز پہلے سے ہی بند ہو چکا تھا۔یونیورسٹی بک ایجنسی دو حصوں میں تقسیم ہوگئی۔اور اب دوسرا حصہ ختم ہو چکا ہے۔ ایم جے بکس، سعید بک بینک اور بے شمار چھوٹی کتابوں کی دکانیں ختم ہو گئیں اور اب وہاں جنرل سٹور، کلاتھ سٹور یا فوڈ پوائنٹ بن چکے ہیں۔آنہ لائبریریاں بھی ختم ،اب وہاں مرغی کے انڈے یاچکن کارن سوپ بکتا ہے۔
دوران ملازمت جب کچھ فراغت ملنے لگی اور پیسے بچنے لگے تو دوبارہ کتابوں کی خریداری شروع کی۔ اس بار یونیورسٹی روڈ پر موجود شاہین بکس ہماری توجہ اور خریداری کا مرکز بن گئی۔گزشتہ بیس سالوں سے وہاں سے کتابوں کی خریداری کرتے رہے ہیں دکان کے مالک ریاض گل سے ہماری اچھی خاصی دوستی ہوگئی۔
چند روز پہلے شاہین بکس سے کچھ کتابیں خریدے گیے تو شاہین بکس کو غیر موجود پایا۔ وہاں میڈیس کی دکان کھل گئی تھی۔ شدید حیرت اور صدمے سے دوچار ہوئے۔ اگر چہ دکان میں سامان بدل گیا لیکن دکان دار وہی تھا۔ ریاض گل سے پوچھا یہ کیا۔ بوجھل آواز سے کہا،کیا کریں سر! گزشتہ پینتیس سال سے چلنے والے بزنس کو ختم کرنا آسان نہیں تھا۔لیکن دنیا داری بھی تو کرنی ہے۔اب کاروبار چل رہا ہے۔ذہنی امراض کی دوائیاں سب سے زیادہ بکتی ہیں۔
جب لوگ کتابیں پڑھنی بند کریں تو پھر ڈپریشن کی دوائیاں کھانی پڑتی ہیں۔
ہمیں کتاب سے بچپن سے ہی محبت ہے۔ ہم پشاور شہر کے قریب آباد گلبہار میں رہتے تھے جو کسی زمانے میں مڈل کلاس لوگوں کے لیے ایک اچھی رہائشی کالونی تھی۔ہم سکول جانے لگے۔ کاپی پنسل شارپنر خریدنے کے لیے کوئی دکان نہ تھی سب کچھ سکول سے خریدنا پڑتا تھا۔ پھر گلبہار میں سٹیشنری کی ایک دکان کھلی۔ رؤف سنز کے نام سے کھلنی والی دکان سے نہ صرف درسی کتب، بلکہ فیروز سنز کی چھپی ہوئی کتابیں بھی دستیاب ہونے لگیں۔ فیروز سنز کی خوب صورت اور چھوٹی چھوٹی کتابیں دیکھنے میں بہت بھلی لگتیں اور بے اختیار خریدنے کو جی چاہتا۔قیمت بھی واجبی سے چھے آنے اور آٹھ آنے کی کتاب، جب کہ ہمارا جیب خرچ دو آنے روزانہ۔۔۔۔ معلوم ہوا کہ دکان کے مالک عبد الرشید صاحب فیروز سنز میں کیشئر ہیں۔ وہاں سے کتابیں لاتے ہیں اور اپنی دکان پر فروخت کرتے ہیں۔یہ اس زمانے کی بات ہے جب پشاور میں بھی فیروز سنز موجود تھا۔
عبد الرشید صاحب کی دکان پر نہ صرف بچوں کی کہانیوں کی کتابیں دستیاب تھیں بلکہ اعلیٰ ادبی کتب اور تاریخی کتب بھی برائے فروخت تھیں۔ ہم نے اس عمر میں فانی بدایونی، نذیر اکبر آبادی، غالب، جیسے شعرا کی کتابیں پڑھیں۔ ٹیپو سلطان، حیدر علی، اورنگ زیب عالمگیر،شیر شاہ سوری،نور الدین زنگی اور اس قبیل کی بہت سی کتابیں زیر مطالعہ رہیں ۔ کچھ ہی عرصے میں ایک اور دکان افغان جنرل سٹور اینڈ سٹیشنری مارٹ کے نام سے کھلی۔ یہاں نہ صرف کتابیں دستیاب تھیں بلکہ آنہ لائبریری ٹائب سلسلہ بھی چلتا تھا۔ آپ کوئی بھی کتاب لیں۔ چوبیس گھنٹے رکھیں ، پڑھیں، اگلے دن واپس کریں اور فقط چار آنے کرایہ دیں۔یہاں ہم نے ٹارزن ،داستان امیر حمزہ، طلسم ہوش ربا، ابن صفی کی عمران سیریز اور جاسوسی دنیا پڑھی۔ کوئی کتاب اچھی لگتی تو ابّا جی سے فرمائش کر کے خرید لیتے۔اس کے علاوہ اخبار فروش سے نونہال، تعلیم و تربیت اور بچوں کی دنیا ہمارے گھر باقاعدگی سے آتے ۔
وقت کے ساتھ ساتھ ہمارا شوق بڑھتا رہا۔ لیکن پشاور میں موجود فیروز سنز بند ہوگیا۔جس کے نتیجے میں روف سنز میں کتابوں کی تعداد کم ہونے لگی۔ اور کچھ ہی عرصے میں یہ دکان صرف درسی کتابوں اور کاپیوں پنسلوں تک محدود ہوگئی۔لیکن اب ہمارے ذوق کی تسکین کے لیے یونیورسٹی بک ایجنسی موجود تھی۔یہاں سے ہم نے شفیق الرحمان کی کتاب حماقتیں سے اپنی خریداری شروع کی پھر ابن انشا کے سفر ناموں کی طرف گئے،احمد فراز،فیض احمد فیض پروین شاکر کی کتابوں سے شناسائی بنی،مصطفیٰ زیدی کی شاعری پڑھی۔اس کے ساتھ ساتھ ہم نے لندن بک ایجنسی اور پشاور صدر کےگورا بازار کے اندر سمیع بک ایجنسی سے بھی کتابوں کی خریداری شروع کی۔
اللہ کے فضل سے بےئ شمار کتابیں پڑھیں۔ پھر شعبۂ اردو میں داخلہ لیا۔تو مزید ذوق و شوق سے ناول، داستانیں، افسانے، تنقیدو تحقیق کی کتابیں خریدیں۔شعبہ کی طرف سے لاہور کے ٹور پر گئے تو وہاں بھی اُردو بازار سے اچھی خاصی کتابیں خریدیں۔
ملازمت شروع ہوئی تو ابتدائی چند سال ہاتھ تنگ رہا،چونکہ شادی ہوگئی تھی اس لیے اب والدین سے مانگنا کچھ عجیب لگتا تھا کہ اب امّی کو حساب دینا پڑتا تھا اور بچی کچھی رقم بیوی کے ہاتھ میں رکھ دیتے۔ لیکن اسی دور میں گل بہار میں چند نوجوانوں نے شبان المسلمین کے نام سے ایک انجمن بنائی اس انجمن سے یہاں ایک لائبریری بنائی تو ہماری طرح کی تشنوں کی آبیاری کرتی تھی۔
کچھ عرصہ پہلے بی بی سی اُردو پر ایک سوال کیا گیا تھا کہ برصغیر میں سب سے زیادہ کتب بینی کس شہر میں ہوتی ہے۔ ہمارے لیے یہ حیرت کی بات تھی کہ اس لسٹ میں پشاور پہلے نمبر پر تھا۔اس وقت پشاور میں آنہ لائبریوں کی بھر مار تھی۔ہر گلی محلےمیں ایک لائبریری تھی جہاں ایک آنہ کرایہ پر آپ کوئی بھی کتاب ایک دن کے لیے حاصل کر سکتے تھے۔
ہم نے کتابوں کی خریداری کیا موقوف کی لگنے لگا کہ اہلیان پشاور کے ذوقِ کتب بینی کو کسی کی نظر لگ گئی۔ روف سنز بند ہوگئی۔ افغان جنرل سٹور اینڈ سٹیشنری مارٹ اب افغان جنرل سٹور اینڈ کھلونا سینٹر بن گیا۔ گورا بازار میں موجود سمیع ایجنسی تو اب کسی کو یاد بھی نہیں رہی۔ فیروز سنز پہلے سے ہی بند ہو چکا تھا۔یونیورسٹی بک ایجنسی دو حصوں میں تقسیم ہوگئی۔اور اب دوسرا حصہ ختم ہو چکا ہے۔ ایم جے بکس، سعید بک بینک اور بے شمار چھوٹی کتابوں کی دکانیں ختم ہو گئیں اور اب وہاں جنرل سٹور، کلاتھ سٹور یا فوڈ پوائنٹ بن چکے ہیں۔آنہ لائبریریاں بھی ختم ،اب وہاں مرغی کے انڈے یاچکن کارن سوپ بکتا ہے۔
دوران ملازمت جب کچھ فراغت ملنے لگی اور پیسے بچنے لگے تو دوبارہ کتابوں کی خریداری شروع کی۔ اس بار یونیورسٹی روڈ پر موجود شاہین بکس ہماری توجہ اور خریداری کا مرکز بن گئی۔گزشتہ بیس سالوں سے وہاں سے کتابوں کی خریداری کرتے رہے ہیں دکان کے مالک ریاض گل سے ہماری اچھی خاصی دوستی ہوگئی۔
چند روز پہلے شاہین بکس سے کچھ کتابیں خریدے گیے تو شاہین بکس کو غیر موجود پایا۔ وہاں میڈیس کی دکان کھل گئی تھی۔ شدید حیرت اور صدمے سے دوچار ہوئے۔ اگر چہ دکان میں سامان بدل گیا لیکن دکان دار وہی تھا۔ ریاض گل سے پوچھا یہ کیا۔ بوجھل آواز سے کہا،کیا کریں سر! گزشتہ پینتیس سال سے چلنے والے بزنس کو ختم کرنا آسان نہیں تھا۔لیکن دنیا داری بھی تو کرنی ہے۔اب کاروبار چل رہا ہے۔ذہنی امراض کی دوائیاں سب سے زیادہ بکتی ہیں۔
جب لوگ کتابیں پڑھنی بند کریں تو پھر ڈپریشن کی دوائیاں کھانی پڑتی ہیں۔
- Featured Thumbs
- http://pingway.ketabeomidan.ir/images/The_Book/book.jpg