ڈرون حملوں کے خلاف گواہی دینے کا جرم
کریم خان کو آخری مرتبہ اس کے گھر کے باہر ٥ فروری کی صبح کو دیکھا گیا، جس کے بعد انہیں پولیس کی وردیوں میں ملبوس ١٥ سے ٢٠ نوجوانوں نے اغوا کر کے نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا. کریم خان وہ پہلے پاکستانی ہیں جو عوامی سطح پر ڈرون طیاروں کی کھل کے مخالفت کر رہے ہیں، ان کا اغوا ہونا ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب انہوں نے یورپ میں جا کے ایک ڈرون حملے کے سلسلے میں گواہی دینی ہے جس میں ان کے والد، بھائی اور ایک طالبان لیڈر جاں بحق ہوے تھے
کریم خان کے وکیل شہزاد اکبر کا کہنا ہے کے کریم خان کو دوران حراست نہ صرف شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا بلکہ ان سے اس ڈرون حملے میں ہلاک ہونے والوں کے بارے میں سوالات بھی کئے گۓ- اغواکاروں نے کریم خان کو دھمکی بھی دی کے وہ دوبارہ میڈیا کے قریب نہ جائے ورنہ وہ اس کے پیچھا دوبارہ کریں گے. کریم خان کو جب اغوا کیا گیا تو مقامی پولیس نے اس واقعہ سے لاتعلقی کا اظہار کیا، جب کے عدالت کے حکم پر انھیں چھوڑ دیا گیا
رہائی پانے کے بعد کریم خان کا کہنا تھا کے یہ پاکستان میں کوئی نیا واقعہ نہیں ہے، انہوں نے کہا کے اس واقعے کے بعد ان کے حوصلے مزید بلند ہوے ہیں