چیف جسٹس یا عدلیہ کو کسی قسم کا استثنیٰ حاصل نہیں توہین عدالت کا قانون الگ چیز ہے۔ توہین عدالت کا قانون صرف عدلیہ کے وقار اور اس کے فیصلوں کو تحفظ دیتا ہے۔ اور یہ اس لیے ضروری ہے کہ انصاف کے عمل کو محفوظ بنیا جا سکہ۔ یعنی اگر کوئی فیصلہ مقتدر حلقوں کے خلاف ہو تو کسی بھی انداز میں ایسے ذی اقتدار افراد عدلیہ کو غلط بات پر فورس نہ کرسکیں، اگر توہین عدالت کا قانون نہ ہو توہر صاحب اقتدار مختلف ذرائع اختیار کر کہ اور عدالت کو دھونس دھمکی کے ذریعے اپنی بات منوانے پر مجبور کر سکتا ہے۔
دوسری بات یہ چیف جسٹس یا سپریم کورٹ نے خلاف راشدہ کا نمونہ ہونے کا دعوہ ہی کب کیا ہے یا انصار عباسی کب اس بات کا مدعی ہے کہ موجود چیف جسٹس کسی خلیفہ راشد جیسا انصاف دینا والا شخص ہے؟ موجودہ عدلہ بلاشبہ بہت بہتر ہے لیکن خلافت راشدہ کے پاسنگ بھی نہیں۔
تیسری بات یہ کہ آئین پاکستان کے تحت ہر معاملہ متعین ہے چنانچہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے کسی فرد کو مس کنڈیکٹ پر کوئی استثنیٰ حاصل نہیں ۔ائین کی دفعہ ۲۰۹ اور مابعد کی دفعات میں واضح طور پر سپریم جوڈیشل کونسل کا ذکر ہے جس کے تحت کسی بھی جج کے خلاف کاروائی کی جاسکتی ہے۔ آئین کی کلاز ۲۰۹ سب کلاز ۵ اس کو یوں بیان کرتی ہے
If, on information 2[from any source, the Council or] the President is of the opinion that a Judge of the Supreme Court or of a High Courtدوسری بات یہ چیف جسٹس یا سپریم کورٹ نے خلاف راشدہ کا نمونہ ہونے کا دعوہ ہی کب کیا ہے یا انصار عباسی کب اس بات کا مدعی ہے کہ موجود چیف جسٹس کسی خلیفہ راشد جیسا انصاف دینا والا شخص ہے؟ موجودہ عدلہ بلاشبہ بہت بہتر ہے لیکن خلافت راشدہ کے پاسنگ بھی نہیں۔
تیسری بات یہ کہ آئین پاکستان کے تحت ہر معاملہ متعین ہے چنانچہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے کسی فرد کو مس کنڈیکٹ پر کوئی استثنیٰ حاصل نہیں ۔ائین کی دفعہ ۲۰۹ اور مابعد کی دفعات میں واضح طور پر سپریم جوڈیشل کونسل کا ذکر ہے جس کے تحت کسی بھی جج کے خلاف کاروائی کی جاسکتی ہے۔ آئین کی کلاز ۲۰۹ سب کلاز ۵ اس کو یوں بیان کرتی ہے
(a) may be incapable of properly performing the duties of his office by reason of physical or mental incapacity ; or
(b) may have been guilty of misconduct,
تو اب کوئی بھی جج قانون سے بالاتر کس طرح رہا اور اس کا استثنیٰ کہاں رہا؟
اور اوپر جو جوڈیشل کونسل کے حوالے سے آپ نے معروضات تحریر کی ہیں وہ موضوع سے الگ ہٹ کر دوسری چیز ہیں اور عدلیہ کے طریقہ کار سے متعلق ہیں جن میں بہتری کی گنجائش ہو سکتی ہے لیکن ان کا تعلق استثنی سے نہیں۔ پھر یہ کہ آپ کا دعوہ یہ تھا کہ چیف جسٹس کو استثنیٰ ہے وہ آئین کی روشنی میں غلط ثابت ہوا اور جہاں تک بات اس کی ہے کہ
دوسری بات جو آپ کر رہی ہیں وہ طریقہ کار سے متعلق ہے جیسا کہ میں نے اوپر کہا سو مزید یہ کہ اس پورے معاملے میں یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ جج کے خلاف تحقیقات اگر دیگر جج نہیں کریں گے تو کیا کوئی قصائی یا حکومتی بیوروکریٹ کرے گا جس کو آئین کے نازک معاملات کی خبر ہی نہیں؟ یا وہ اور کون سی اتھارٹی ہو سکتی ہے جو سپریم کورٹ کے ججوں کے خلاف مقدمہ چلا سکے جبکہ انصاف فراہم کرنا خود عدلیہ ہی کی ذمہ داری ہے؟ لہذا آئین اس سلسلے میں بڑا صاف ہے چانچہ کلاز ۲۰۹ سب کلاز ۲ کہتی ہے
The Council shall consist ofاور اوپر جو جوڈیشل کونسل کے حوالے سے آپ نے معروضات تحریر کی ہیں وہ موضوع سے الگ ہٹ کر دوسری چیز ہیں اور عدلیہ کے طریقہ کار سے متعلق ہیں جن میں بہتری کی گنجائش ہو سکتی ہے لیکن ان کا تعلق استثنی سے نہیں۔ پھر یہ کہ آپ کا دعوہ یہ تھا کہ چیف جسٹس کو استثنیٰ ہے وہ آئین کی روشنی میں غلط ثابت ہوا اور جہاں تک بات اس کی ہے کہ
جیوڈیشنل کمیشن حکومتی معاملات ہیں۔ اگر حکومت آپ کی اپنی ہے یا پھر عدلیہ کے ہاتھوں یرغمال ہے یا اسے عدلیہ کے ہاتھوں اپنے مفادات کو زک پہنچنے کا ڈر ہے تو وہ سرے سے چیف جسٹس کے کیس کو ریفر ہی نہیں کرے گی۔
جبکہ انصاف یہ ہے کہ ایک عام آدمی بھی غلط کام کرنے پر چیف جسٹس کو چیلنج کر سکے۔
دوسرا:۔
اور پھر دوسرے ججز بیچ میں آ جاتے ہیں جو کہ کیس کو جیوڈیشنل کمیشن تک جانے ہی نہیں دیں گے۔ کیا آپ کو پتا نہیں کہ مشرف دور میں چیف جسٹس کے خلاف جو کرپشن کی تحقیقات کا ریفرنس بھیجا گیا تھا اسکا حشر کیا ہوا؟
دوسرے ججز نے اس ریفرنس کو یہ کہہ کر ختم کر دیا کہ انہیں اس میں بدنیتی نظر آ رہی ہے۔
تو اوپر واضح ہے کہ آئین کی رو سے جج کے خلاف انفارمیشن کسی بھی سورس سے قابل قبول ہے لیکن اب حکومت ہی ہاتھ پر ہاتھ دہرے بیٹھی رہے تو قصور حکومت کا ہے
دوسری بات جو آپ کر رہی ہیں وہ طریقہ کار سے متعلق ہے جیسا کہ میں نے اوپر کہا سو مزید یہ کہ اس پورے معاملے میں یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ جج کے خلاف تحقیقات اگر دیگر جج نہیں کریں گے تو کیا کوئی قصائی یا حکومتی بیوروکریٹ کرے گا جس کو آئین کے نازک معاملات کی خبر ہی نہیں؟ یا وہ اور کون سی اتھارٹی ہو سکتی ہے جو سپریم کورٹ کے ججوں کے خلاف مقدمہ چلا سکے جبکہ انصاف فراہم کرنا خود عدلیہ ہی کی ذمہ داری ہے؟ لہذا آئین اس سلسلے میں بڑا صاف ہے چانچہ کلاز ۲۰۹ سب کلاز ۲ کہتی ہے
(a) the Chief Justice of Pakistan ;
(b) the two next most senior Judges of the Supreme Court; and
(c) the two most senior Chief Justices of High Courts.
نیز اگر خود کسی کونسل کے کسی ممبر کے خلاف شکایت ہو تو پھر سب کلاز ۳ کے مطابق
If at any time the Council is inquiring into the capacity or conduct of a
Judge who is a member of the Council, or a member of the Council is absent or is unable
to act due to illness or any other cause, then
(a) if such member is a Judge of the Supreme Court, the Judge of the
Supreme Court who is next in seniority below the Judges referred
to in paragraph (b) of clause (2), and
(b) if such member is the Chief Justice of a High Court, the Chief
Justice of another High Court who is next in seniority amongst the
Chief Justices of the remaining High Courts,
سو چیف جسٹس یا کسی جج کا استثنیٰ تو کسی طرح ثابت نہیں ہوتا۔ ہاں اگر طریقہ کار میں کچھ خرابی کسی کو نظر آئے تو یہ ایک الگ معاملہ ہے حکومتی اور عدلیہ کے بہت سارے معاملات ایسے ہیں جن میں بہتری کی بہت گنجائش ہے لیکن پھر کہوں گا کہ یہ چیز دیگر است۔
Last edited: