چیف جسٹس، سٹیل مل، ماتم زدہ قوم

mehwish_ali

Chief Minister (5k+ posts)
PoPupwindow.aspx


1100577457-1.jpg

1100577457-2.gif


سٹیل مل مشرف صاحب کے 8 سال مسلسل منافع میں رہی۔ جبکہ اس نئی جمہوری حکومت کے ایک سال کے دوران یہی سٹیل مل منافع سے نکل کر 51 ارب روپے کے خسارے میں پہنچ گئی ہے۔

سٹیل مل کی آج ایک سال گذر جانے کے بعد کی حالت کے متعلق مکمل تفصیلی مضمون یہاں پر پڑھیں اور کف افسوس ملتے جائیں۔


اپوزیشن اور میڈیا کا مشرف حکومت پر بدعنوانی کے تحت سٹیل مل بیچنے کا الزام


میڈیا مستقبل کا "بادشاہ گر" ہے۔ اور جس کے یہ خلاف ہو گیا اُس کے ہر ہر کام کو مٹی کرتا چلا جائے گا۔

سٹیل مل مشرف صاحب کے دور میں
کیا آپ کو پتا ہے کہ آپکی جمہوری حکومتوں کے تمام تر ادوار میں سٹیل مل زبردست خسارے میں تھی؟

اور یہ مشرف صاحب ہیں، کہ جن کے دور میں سٹیل مل کسی نہ کسی طرح اس خسارے سے باہر آئی۔ تو کم از کم سب سے پہلے آپ اسکا کریڈٹ تو مشرف صاحب کو دینے میں کنجوسی نہ دکھائیں۔


اور یہ کارنامہ تھا کرنل محمد افضال صاحب کا۔ یہ جنرل قیوم سے قبل چیئرمین بنے اور پھر انکا انتقال ہو گیا]۔


یاد رکھئیے، صدر مشرف سے پچھلی حکومت کے دور تک سٹیل مل 20 ارب روپے کی مقروض تھی اور ہر سال ایک ارب روپے سے زیادہ حکومت کو خرچ کرنے ہوتے تھے تاکہ سٹیل مل زندہ رہے۔


جنرل قیوم کی غلط بیانی اور عالمی حالات سے ناآگاہی

جنرل قیوم نے سب سے پہلے سٹیل مل کی زمین کے متعلق غلط بیانی سے کام لیا ہے اور مکمل سچ عوام تک نہیں پہنچایا۔ اور اسکے بعد میڈیا کو تو کبھی مکمل سچ عوام تک پہنچانے کی کبھی توفیق ہی نہیں ہوئی۔


سٹیل مل کا کل رقبہ 19,088 ایکڑ ہے [بمع پلانٹ اور رہائشی علاقے وغیرہ وغیرہ]۔


مگر حکومت نے سعودی توقیری گروپ سے جو ڈیل کی ہے، اس کے مطابق:



۱۔ توقیری گروپ کو صرف وہ رقبہ دیا گیا ہے جہاں پلانٹ واقع ہے۔ اور یہ رقبہ صرف 4,547 ایکڑ بنتا ہے۔

۲۔ مگر اس رقبے کے ساتھ بہت سی شرائط ساتھ لگی ہوئی ہیں جن کی وجہ سے کبھی بھی زمین کی قیمت وہ نہیں ہو سکتی جو کہ جنرل قیوم بیان کر رہے ہیں۔
اسکی مثال یوں دی جا سکتی ہے کہ اسلام کے وسط میں ایک بڑا کھیت ہے اور آس پاس اسلام آباد کے انتہائی مہنگے رہائشی پلاٹ وغیرہ۔ لیکن حکومت اگر اس بڑے کھیت کو اس شرط کے ساتھ بیچتی ہے کہ خریدنے والے پر لازم ہے کہ وہ اس کھیت کو کمرشل پلازہ یا رہائشی علاقے میں تبدیل نہیں کر سکتا، بلکہ یہاں صرف کھیتی باڑی ہی ہو گی، تو کبھی بھی اس کھیت کی زمین کی ویلیو آس پاس کے رہائشی پلاٹوں کی قیمت کے برابر نہیں ہو سکتی۔

اب جو شرائط اس ڈیل میں ملوث ہیں، وہ اس مثال سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہیں اور جب بھی بین الاقوامی لیول پر اس قسم کی ڈیل ہوتی ہے، وہاں اثاثوں کی کبھی وہ ویلیو نہیں ملتی، کیونکہ شرائط ایسی ہوتی ہیں کہ جتنا کام کرنے والا عملہ موجود ہے، وہ بھی خریدنے والے کی ذمہ داری ہے، اور وہ اس زمین اور اثاثوں کو بیچ نہیں سکتا بلکہ اسے ہر صورت میں اس پلانٹ پر کام کر کے ہی منافع بنانا ہے۔


اثاثوں کی جو ویلیو ایسی بین الاقوامی ڈیلوں میں ساتھ لگی شرائط کی وجہ سے صفر ہو جاتی ہے، اور صرف اور صرف اس چیز کو مد نظر رکھا جاتا ہے کہ خریدنے والا انویسٹمنٹ کر کے اُس پر کتنے فیصد منافع حاصل کر سکتا ہے۔


مثال کے طور پر:


Bear Sterns was bought for "Free" after US central bank (I can't recall what they call their state bank) financed (gave away) JP Morgan's purchase of Bear Sterns for pennies against its $80+/share in Feb 2008.


http://finance.google.com/finance?q=NYSE:BSC



اور دوسری مثال ING Bank کی ہے جو کڑوڑوں اثاثوں کے باوجود صرف ایک گلڈر میں بیچا گیا۔ [اور وجہ یہی تھی کہ خریدنے والا ایک ایک بلین ڈالر کی انویسٹمنٹ کرنے کے باوجود اس سے ۱۰ فیصد سالانہ منافع ہی حاصل کر سکتا تھا۔


سٹیل مل کا مسئلہ آسان الفاظ میں


۱۔ اس سٹیل مل کے 75 فیصد شیئرز 375 ملین روپے میں بیچے گئے ہیں جبکہ 25 فیصد شیئرز حکومت کے پاس ہیں۔


۲۔ اس لحاظ سے سٹیل مل کے ۱۰۰ فیصد قیمت بین الاقوامی مارکیٹ میں ۵۰۰ ملین ڈالر بنتی ہے۔ [میں آگے تمام گفتگو اس ۱۰۰ فیصد اثاثوں کے حوالے سے کر رہی ہوں تاکہ چیزیں آسانی سے سمجھ میں آ سکیں]

لہذا اگر انویسٹر ۵۰۰ ملین ڈالر کا رسک لے رہا ہے تو تو وہ یقینا ۱۰۰ ملین ڈالر تک کا منافع چاہے گا۔
۳۔ اب توقیری گروپ جو ۵۰۰ ملیں ڈالر [سو فیصدی شیئر کے حساب سے] انویسٹ کر رہا ہے، تو کیا وہ اس قابل ہے کہ ہر سال اس سٹیل مل سے ۱۰۰ ملین ڈالر کا منافع کما سکے؟ [ ہر انویسٹر ۱۵ تا ۲۰ فیصد کا مارجن رکھتا ہے، کیونکہ ۵۰۰ ملین کو اگر بینک میں ہی رکھ دیا جائے تو 40 تا 50 ملین ڈالر تو انویسٹر کو ایسے ہی حاصل ہو جاتے۔

یہی وجہ ہے کہ انیس سو ستر کی دھائی سے لیکر آج تک اس کی کیپسٹی کبھی ۱ ملین ٹن سے زیادہ نہ ہو سکی۔ اور اگر اسے بڑھانا مقصود ہو تو انتہائی ہیوی انوسٹمنٹ کر کے پوری مشینری ریپلیس کرنا پڑے گی۔
4۔ سٹیل مل کی مشینری بہت ہی پرانی روسی مشینری ہے، اور یہ تمام تر ٹیکنالوجی انتہائی بوسیدہ اور آوٹ دیٹڈ ہو چکی ہے اور اس ٹیکنالوجی اور مشینری کا کوئی مستقبل نہیں۔

5۔ سٹیل مل کا اس سے بڑا مسئلہ اس کا بہت ہی بڑا عملہ ہے جو کہ ناکارہ کی حد تک کارآمد ہے۔ کئی ہزار کام کرنے والے سیاسی بنیادوں پر نوکری کا کارڈ رکھتے ہیں اور کام پر آئے بغیر تنخواہ پا رہے ہیں۔
توقیری گروپ کے ساتھ ڈیل میں اب یہ شامل ہے کہ وہ اسی پرانی بوسیدہ مشینری کو خریدیں [جسے جلد از جلد انہیں پھینک کر نئی مشینری لینا ہو گی] اور ان ہزاروں کے عملے میں سے ایک فرد کو بھی وہ نوکری سے نہیں نکال سکتے۔


انٹرنیشنل مارکیٹ میں سٹیل مل جیسے اداروں کی قیمت


جنرل قیوم نے زمین کے اثاثوں کے حوالے سے غلط بیانی سے کام لیا اور یہ نہیں بتایا کہ پوری زمین کا سودا نہیں ہوا ہے اور نہ ہی زمین کی یوں آزادانہ قیمت لگائی جا سکتی ہے جیسا کہ وہ لگا رہے ہیں۔ دوسری غلطی جنرل قیوم کی یہ ہے کہ انہیں ایسے اداروں کی پرائیوٹائزیشن عمل کا کچھ علم نہیں، مگر پھر بھی انہیں بولنے کا بہت شوق ہے۔


پہلی مثال:

Luxembourg-based ArcelorMittal claims that Esmark breached its August 2007 agreement to purchase the Sparrows Point plant for $1.35 billion. The proposed sale fell through in December because of financing problems
http://www.businessweek.com/ap/finan.../D90I7RV00.htm



یاد رکھئیے:



۱۔ یہ Sparrows point plane میں عملے کی تعداد صرف اور صرف 2500 ہے [پاکستان کی سٹیل مل سے کہیں کہیں زیادہ کم] ۲۔ اور اس پلانٹ کی پروڈکشن سٹیل مل کی املین ٹن کے مقابلے میں 3٫5 ٹن سٹیل ہے۔ یعنی ساڑھے تین گنا زیادہ۔ 3۔ یاد رکھئیے اس پلانٹ کی زمین کی فی ایکڑ قیمت پاکستان کی سٹیل مل سے کہیں زیادہ ہے۔
اس لحاظ سے پاکستان سٹیل مل کی قیمت ۵۰۰ ملین بین الاقوامی مارکیٹ کے حساب سے بالکل صحیح [بلکہ بہتر ہے]۔


دوسری مثال:

http://www.nytimes.com/2005/10/25/bu...rssnyt&emc=rss



مگر اس کے متعلق یاد رکھئیے:
یوکرائنا کی یہ سٹیل مل 4٫8 بلین کی بکی ہے۔




۱۔ اس کی پروڈکشن سٹیل مل کی ۱ ملین ٹن کے مقابلے میں 8 ملین ٹن سے بھی زیادہ ہے۔ ۲۔ عملے کی تعداد نسبتا تعداد پاکستان سٹیل مل کے عملے کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ ۳۔ زمین کی فی ایکڑ قیمت بہت زیادہ ہے۔ ۴۔ اس قیمت میں نہ صرف پلانٹ شامل ہے بلکہ ایک ہزار million tons of iron ore کی مائنز کی زمین بھی اس قیمت میں شامل ہیں۔

اور اس قیمت پر یہ پلانٹ حاصل کرنے کے بعد بھی یہ کہا جا رہا ہے کہ اس گروپ نے اس پلانٹ کی بہت زیادہ قیمت ادا کر دی ہے جبکہ عالمی منڈی میں اسکی قیمت ہرگز اتنی نہیں ہے۔


پاکستان کی نسبت یوکرائنا یورپ ہے، امن امان کا ہرگز ہرگز کوئی مسئلہ نہیں، زمین کی قیمتیں انتہائی زیادہ ہیں، انویسٹر تو بمشکل ہی پاکستان کر رخ کرتا ہے، مگر یورپین یونین میں انویسٹرز کی کوئی کمی نہیں۔۔۔۔ ان تمام حالات کو دیکھتے ہوئے سٹیل مل کی مجموعی قیمت اگر ۵۰۰ ملین ڈالر لگائی گی ہے تو یہ ہرگز بُری ڈیل نہیں۔


مگر کیا ہے کہ جنرل قیوم اور ہمارا میڈیا ان عالمی حالات اور ایسی ڈیلز میں شرائط کے باعث اثاثوں کی قیمت کے صحیح تعین کے بارے میں غلط بیانی سے کام لیتے رہے ہیں اور یہ پروپیگنڈہ کرنے کا بہت اچھا طریقہ ہے تاکہ چیزوں کو Sensational بنایا جائے۔


اب میرا چیلنج ہے کہ عالمی مارکیٹ میں بے تحاشہ ایسی ڈیلز ہوئی ہیں،۔۔۔ ثابت کریں کہ کسی ایسی ڈیل میں اثاثوں کی قیمت آزادانہ طور پر متعین کر کے دی گئی ہو۔

میں نے اوپر دو سٹیل ملز کا ذکر کیا ہے۔ انکے علاوہ بھی اور سٹیل ملز کا سودا ہوا ہے، اور چیلنج ہے کہ ثابت کیا جائے کہ اُنکی قیمت سٹیل مل سے زیادہ ادا کی گئی ہے۔ اس معاملے میں آپ لوگ خود ریسرچ کر سکتے ہیں۔

حکومتِ پاکستان نے اپنا موقف اس لنک میں مکمل طور پر پیش کیا ہے:


http://www.privatisation.gov.pk/indu...2027-09-05.pdf



میڈیا کا مشرف حکومت کے خلاف آواز اٹھانا بالمقابل آج سٹیل مل کے متعلق عوام کو آگاہ کرنا


آپ کو یاد ہو گا کہ مشرف دور میں میڈیا نے سٹیل مل کو کوریج دے دے کر انتہا کی ہوئی تھی اور یہ وہ ٹھوس ثبوت تھا جو مشرف صاحب اور شوکت عزیز صاحب کے خلاف مسلسل پیش ہوتا تھا۔

لیکن آج جب سٹیل مل 51 ارب روپے کے خسارے میں جا چکی ہے، تو بھی اس بات پر میڈیا حکومت کے پیچھے 1 فیصد بھی ایسے نہیں پڑا ہوا جیسا کہ مشرف حکومت کے پیچھے پڑا رہتا تھا۔

کیوں؟

یاد رکھئیے یہ ہلکی پھلکی کر کے خبر دے دینا کہ سٹیل مل 51 ارب روپے کے خسارے میں ہے، اور ہاتھ دھو کر پیچھے پڑ جانے میں بہت فرق ہے۔

اگر شوکت عزیز صاحب دور میں سٹیل مل کی نجکاری ہو چکی ہوتی تو آج قوم کو یہ 51 ارب روپے کا خسارہ نہ اٹھانا پڑتا، آج 22 ہزار افراد کو اپنی ملازمت جانے کا خوف نہ ہوتا، آج ملکی دفاع کے لیے سٹیل مل سے جو مال خریدا جاتا تھا، اُسے کے ختم ہونے کا خطرہ نہ رہتا۔

افسوس کہ ملکی حکومت کی باگ دوڑ ہی نہیں بلکہ میڈیا کی باگ دوڑ بھی ایسے بے وقوفوں کے ہاتھوں میں ہے جو اپنے نمبرز بنانے کے چکر میں پاکستان کا بیڑہ غرق کرنے سے بھی اجتناب کرنے والے نہیں۔


آرٹیکل کا لنک ّ(ایم کیو ایم پاکستانی ڈاٹ آرگ)۔



 
Last edited:

moazzamniaz

Chief Minister (5k+ posts)
lagta ha Chief Justice nay Zardari k saath saath is jiyalay key ****h main bhee danda diya ha.

ڈنڈا اسکے نہیں بلکہ اسکے مالک سلطان علی لاکھانی کے منہ پر پڑا ہوا ھے.
سلطان اور اسکے بھائی امین لاکھانی کو سن دو ہزار میں نیب نے سات ارب قرضہ کی نادہندگی کے الزام میں گرفتار کیا. نو ماہ جیل میں رہنے کے بعد اس نے صرف ڈیڑھ ارب دینے کا وعدہ کر کے پلی بار گیننگ کے تحت رہائی حاصل کی اور صرف بیس کروڑ دیکر دو ہزار دو میں باہر امریکہ بھاگ گیا. تین سال بعد واپس آ کر باقی ایک ارب تیس کروڑ کی دس سال کی قسطیں بنوایں اور پھر ایکسپریس اخبار اور چینل کھول لیا. چانچہ زرداری جیسے لوگ رہیں تو یہ معاملہ دبا رہیگا . ویسے بھی پچھلے ہفتے چیف جسٹس نے ایک بار پھر معاف شدہ قرضوں کا معاملہ دوبارہ اٹھایا ھے اور لسٹیں منگوای ہیں. یہ بینظیر کے دونوں ادوار میں سینیٹر بھی رہ چکا ھے . اور دوسرے دور میں جنگ والے میر شکیل کو بھتہ دینے کیلئے بطور سینیٹر بلیک میل بھی کر چکا ھے
 
Last edited:

Killthecorrupts

Senator (1k+ posts)
His first paragraph says it all, where he writes " One of my friends, who always speaks the truth"..

Mr Lifafa, Your friend and speaks the truth ????????
 

gazoomartian

Prime Minister (20k+ posts)
Whether this story is fully true or not, I always and still hold view that our Chief Justice enjoys undue and undeserved respect and love.

In British democracy, 'contempt of court' must have been designed in old days so that this kings,queens,lords can deliver any judgement or make any ruling w/o fear of public backlash.

Look at it right now, CJ is causing immense amount problems because of delays over delays on rulings (or lack of) against article 248 (immunity), NRO (now he has set Oct 13th, it will be moved again to NovXX).

He is useless and just as corrupt as other bureaucrats.
 

moazzamniaz

Chief Minister (5k+ posts)
KARACHI: Privatisation of Pakistan Steel termed biggest scam
local01.jpg
KARACHI, May 28:
Speakers on the occasion pointed out that the Rs300 billion worth concern had been handed over to the private sector parties at a throw-away price of Rs21.75 billion.
They pointed out that it was only a day before the auction was held, that a $130 million steel factory, Al-Tuwairqi Steel Mills, was inaugurated and a piece of 220-acre land was obtained on rent from the PS for the new concern. They added that 45 million cubic feet gas and 180 megawatt electricity was also sanctioned for the group.

They said that only two days before the auction, the Al-Tuwairqi Group had signed Head of Terms (HoT) with the Sui Southern Gas Company for the supply of 45 million cubic feet natural gas for 10 years and the contract was extendable for another 10 years. They feared that with the PS in its ownership, the group might establish its monopoly on the whole steel industry in Pakistan which would ultimately result in a sharp increase in the prices of iron and steel products, dealing a blow to a large number of local industrial concerns.

They said that until 1999, the mill was burdened under Rs19 billion loans and its annual loss stood at Rs9.326 billion. Later, it was administratively handed over to retired military officers who started sacking workers to curtail the losses. In 2000, the PS had a workforce of 20,533 which had shrunk to 13,080 now.

The speakers said that according to the PS finance director, the mills had generated Rs26.1 billion revenue in 2000 and its pre-tax profit stood at Rs 4.85 billion. They recalled that on Oct 25, 2005, PS chairman Gen Abdul Qayoom addressed factory workers and announced that in the year 2004-05, the mills had generated Rs 31 billion revenues and its pre-tax profit was Rs10 billion. He had quoted the tax amount paid to the government at Rs8.9 billion.

The labour leaders pointed out that present value of the PS land, at the current rate of Rs 20 million per acre, was around Rs92 billion whereas the mills’ other assets had been estimated at more than Rs150 billion. Furthermore, they added, that the new owners had been given an inventory of Rs7 billion kept ready in stores, besides finished products worth more or less the same amount.

They said that besides the precious land on the coastal belt near Port Qasim, the other assets of the mills include Steel Ore Plant in Thatta district, water supply plant of 110-mgd, thermal power plant, oxygen power plant, 72-km railway line, 14 locomotives of 800 horsepower each and more than 100 railway wagons. They claimed that only these assets were worth more than Rs150 billion.
The labour leaders deplored that the PS had been sold for an amount which made just two and half years’ tax it paid annually. Quoting a statement of the PS finance director, they said the mills had a cash and bank balance of Rs12 billion. They revealed that just one month before of the privatization, as many as 80 brand new vehicles were purchased for the mills.

They said that on April 28, 2006, the privatisation commission had announced a package of Rs16.6 billion for Pakistan Steel workers. Considering the package and the cash in hand amounting to Rs10 billion, it could be determined that the mills had actually been sold at a loss of Rs5 billion.
 
Last edited:

Raaz

(50k+ posts) بابائے فورم
ڈنڈا اسکے نہیں بلکہ اسکے مالک سلطان علی لاکھانی کے منہ پر پڑا ہوا ھے.
سلطان اور اسکے بھائی امین لاکھانی کو سن دو ہزار میں نیب نے سات ارب قرضہ کی نادہندگی کے الزام میں گرفتار کیا. نو ماہ جیل میں رہنے کے بعد اس نے صرف ڈیڑھ ارب دینے کا وعدہ کر کے پلی بار گیننگ کے تحت رہائی حاصل کی اور صرف بیس کروڑ دیکر دو ہزار دو میں باہر امریکہ بھاگ گیا. تین سال بعد واپس آ کر باقی ایک ارب تیس کروڑ کی دس سال کی قسطیں بنوایں اور پھر ایکسپریس اخبار اور چینل کھول لیا. چانچہ زرداری جیسے لوگ رہیں تو یہ معاملہ دبا رہیگا . ویسے بھی پچھلے ہفتے چیف جسٹس نے ایک بار پھر معاف شدہ قرضوں کا معاملہ دوبارہ اٹھایا ھے اور لسٹیں منگوای ہیں. یہ بینظیر کے دونوں ادوار میں سینیٹر بھی رہ چکا ھے . اور دوسرے دور میں جنگ والے میر شکیل کو بھتہ دینے کیلئے بطور سینیٹر بلیک میل بھی کر چکا ھے
true, good info.
Thats why, Only Express is printing this kind of stuff...

mostly channels belong to No 2 personalities.
 
Last edited:

zaigham

Senator (1k+ posts)
i have read this artical ... which is a bit teqnical ... but my question is what benefit was there for cheif justice to review on this matter .. and second question is .. if pervaiz musharaf is saying this chief justice was not a right opointment for the post why the hell he realize after 8 years.. if we accpet the above said bull shit even than musharf and u r criminal for opointing such person .. if musharaf says zardari was innocent thats why he gave nro .. ... why the hell musharaf didnot address and changed this judiciary system who if cant give justice to a person who is having say and volum in the country what will be happing to common man to get justice than ,, that means thay only did it for there personel benefits .. there is nothing wrong in cheif justice .. and by the way missing person .. lal masjid ..wana war .. 12 may .. killing air cheif marshil mushaf ali meer for not offering ports to america .. if musharaf can do it why the hell he was singing song of kalabagh dam and dint place a stone in 9 years .. and beghirat phir se keh raha hay mujhey vote do i will f...k pakistan more
 

Star Gazer

Chief Minister (5k+ posts)
Matam zada kaum? kiss nay kaha? Yes we are in deep waters but what has matam to do with it? This sounds like a ploy to demoralize us as a kaum. We do not need people who create confusion to meet their own ends.
There is a better way to handle everything, Democracy! Use that.
 

mehwish_ali

Chief Minister (5k+ posts)
سٹیل مل مشرف صاحب کے 8 سال مسلسل منافع میں رہی۔ جبکہ اس نئی جمہوری حکومت کے ایک سال کے دوران یہی سٹیل مل منافع سے نکل کر 51 ارب روپے کے خسارے میں پہنچ گئی ہے۔
سٹیل مل کی آج ایک سال گذر جانے کے بعد کی حالت کے متعلق مکمل تفصیلی مضمون یہاں پر پڑھیں اور کف افسوس ملتے جائیں۔

اپوزیشن اور میڈیا کا مشرف حکومت پر بدعنوانی کے تحت سٹیل مل بیچنے کا الزام

میڈیا مستقبل کا "بادشاہ گر" ہے۔ اور جس کے یہ خلاف ہو گیا اُس کے ہر ہر کام کو مٹی کرتا چلا جائے گا۔
سٹیل مل مشرف صاحب کے دور میں
کیا آپ کو پتا ہے کہ آپکی جمہوری حکومتوں کے تمام تر ادوار میں سٹیل مل زبردست خسارے میں تھی؟

اور یہ مشرف صاحب ہیں، کہ جن کے دور میں سٹیل مل کسی نہ کسی طرح اس خسارے سے باہر آئی۔ تو کم از کم سب سے پہلے آپ اسکا کریڈٹ تو مشرف صاحب کو دینے میں کنجوسی نہ دکھائیں۔


اور یہ کارنامہ تھا کرنل محمد افضال صاحب کا۔ یہ جنرل قیوم سے قبل چیئرمین بنے اور پھر انکا انتقال ہو گیا]۔


یاد رکھئیے، صدر مشرف سے پچھلی حکومت کے دور تک سٹیل مل 20 ارب روپے کی مقروض تھی اور ہر سال ایک ارب روپے سے زیادہ حکومت کو خرچ کرنے ہوتے تھے تاکہ سٹیل مل زندہ رہے۔


جنرل قیوم کی غلط بیانی اور عالمی حالات سے ناآگاہی

جنرل قیوم نے سب سے پہلے سٹیل مل کی زمین کے متعلق غلط بیانی سے کام لیا ہے اور مکمل سچ عوام تک نہیں پہنچایا۔ اور اسکے بعد میڈیا کو تو کبھی مکمل سچ عوام تک پہنچانے کی کبھی توفیق ہی نہیں ہوئی۔


سٹیل مل کا کل رقبہ 19,088 ایکڑ ہے [بمع پلانٹ اور رہائشی علاقے وغیرہ وغیرہ]۔


مگر حکومت نے سعودی توقیری گروپ سے جو ڈیل کی ہے، اس کے مطابق:



۱۔ توقیری گروپ کو صرف وہ رقبہ دیا گیا ہے جہاں پلانٹ واقع ہے۔ اور یہ رقبہ صرف 4,547 ایکڑ بنتا ہے۔

۲۔ مگر اس رقبے کے ساتھ بہت سی شرائط ساتھ لگی ہوئی ہیں جن کی وجہ سے کبھی بھی زمین کی قیمت وہ نہیں ہو سکتی جو کہ جنرل قیوم بیان کر رہے ہیں۔
اسکی مثال یوں دی جا سکتی ہے کہ اسلام کے وسط میں ایک بڑا کھیت ہے اور آس پاس اسلام آباد کے انتہائی مہنگے رہائشی پلاٹ وغیرہ۔ لیکن حکومت اگر اس بڑے کھیت کو اس شرط کے ساتھ بیچتی ہے کہ خریدنے والے پر لازم ہے کہ وہ اس کھیت کو کمرشل پلازہ یا رہائشی علاقے میں تبدیل نہیں کر سکتا، بلکہ یہاں صرف کھیتی باڑی ہی ہو گی، تو کبھی بھی اس کھیت کی زمین کی ویلیو آس پاس کے رہائشی پلاٹوں کی قیمت کے برابر نہیں ہو سکتی۔

اب جو شرائط اس ڈیل میں ملوث ہیں، وہ اس مثال سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہیں اور جب بھی بین الاقوامی لیول پر اس قسم کی ڈیل ہوتی ہے، وہاں اثاثوں کی کبھی وہ ویلیو نہیں ملتی، کیونکہ شرائط ایسی ہوتی ہیں کہ جتنا کام کرنے والا عملہ موجود ہے، وہ بھی خریدنے والے کی ذمہ داری ہے، اور وہ اس زمین اور اثاثوں کو بیچ نہیں سکتا بلکہ اسے ہر صورت میں اس پلانٹ پر کام کر کے ہی منافع بنانا ہے۔


اثاثوں کی جو ویلیو ایسی بین الاقوامی ڈیلوں میں ساتھ لگی شرائط کی وجہ سے صفر ہو جاتی ہے، اور صرف اور صرف اس چیز کو مد نظر رکھا جاتا ہے کہ خریدنے والا انویسٹمنٹ کر کے اُس پر کتنے فیصد منافع حاصل کر سکتا ہے۔


مثال کے طور پر:


Bear Sterns was bought for "Free" after US central bank (I can't recall what they call their state bank) financed (gave away) JP Morgan's purchase of Bear Sterns for pennies against its $80+/share in Feb 2008.


http://finance.google.com/finance?q=NYSE:BSC



اور دوسری مثال ING Bank کی ہے جو کڑوڑوں اثاثوں کے باوجود صرف ایک گلڈر میں بیچا گیا۔ [اور وجہ یہی تھی کہ خریدنے والا ایک ایک بلین ڈالر کی انویسٹمنٹ کرنے کے باوجود اس سے ۱۰ فیصد سالانہ منافع ہی حاصل کر سکتا تھا۔

سٹیل مل کا مسئلہ آسان الفاظ میں

۱۔ اس سٹیل مل کے 75 فیصد شیئرز 375 ملین روپے میں بیچے گئے ہیں جبکہ 25 فیصد شیئرز حکومت کے پاس ہیں۔


۲۔ اس لحاظ سے سٹیل مل کے ۱۰۰ فیصد قیمت بین الاقوامی مارکیٹ میں ۵۰۰ ملین ڈالر بنتی ہے۔ [میں آگے تمام گفتگو اس ۱۰۰ فیصد اثاثوں کے حوالے سے کر رہی ہوں تاکہ چیزیں آسانی سے سمجھ میں آ سکیں]

لہذا اگر انویسٹر ۵۰۰ ملین ڈالر کا رسک لے رہا ہے تو تو وہ یقینا ۱۰۰ ملین ڈالر تک کا منافع چاہے گا۔
۳۔ اب توقیری گروپ جو ۵۰۰ ملیں ڈالر [سو فیصدی شیئر کے حساب سے] انویسٹ کر رہا ہے، تو کیا وہ اس قابل ہے کہ ہر سال اس سٹیل مل سے ۱۰۰ ملین ڈالر کا منافع کما سکے؟ [ ہر انویسٹر ۱۵ تا ۲۰ فیصد کا مارجن رکھتا ہے، کیونکہ ۵۰۰ ملین کو اگر بینک میں ہی رکھ دیا جائے تو 40 تا 50 ملین ڈالر تو انویسٹر کو ایسے ہی حاصل ہو جاتے۔

یہی وجہ ہے کہ انیس سو ستر کی دھائی سے لیکر آج تک اس کی کیپسٹی کبھی ۱ ملین ٹن سے زیادہ نہ ہو سکی۔ اور اگر اسے بڑھانا مقصود ہو تو انتہائی ہیوی انوسٹمنٹ کر کے پوری مشینری ریپلیس کرنا پڑے گی۔
4۔ سٹیل مل کی مشینری بہت ہی پرانی روسی مشینری ہے، اور یہ تمام تر ٹیکنالوجی انتہائی بوسیدہ اور آوٹ دیٹڈ ہو چکی ہے اور اس ٹیکنالوجی اور مشینری کا کوئی مستقبل نہیں۔

5۔ سٹیل مل کا اس سے بڑا مسئلہ اس کا بہت ہی بڑا عملہ ہے جو کہ ناکارہ کی حد تک کارآمد ہے۔ کئی ہزار کام کرنے والے سیاسی بنیادوں پر نوکری کا کارڈ رکھتے ہیں اور کام پر آئے بغیر تنخواہ پا رہے ہیں۔
توقیری گروپ کے ساتھ ڈیل میں اب یہ شامل ہے کہ وہ اسی پرانی بوسیدہ مشینری کو خریدیں [جسے جلد از جلد انہیں پھینک کر نئی مشینری لینا ہو گی] اور ان ہزاروں کے عملے میں سے ایک فرد کو بھی وہ نوکری سے نہیں نکال سکتے۔


انٹرنیشنل مارکیٹ میں سٹیل مل جیسے اداروں کی قیمت


جنرل قیوم نے زمین کے اثاثوں کے حوالے سے غلط بیانی سے کام لیا اور یہ نہیں بتایا کہ پوری زمین کا سودا نہیں ہوا ہے اور نہ ہی زمین کی یوں آزادانہ قیمت لگائی جا سکتی ہے جیسا کہ وہ لگا رہے ہیں۔ دوسری غلطی جنرل قیوم کی یہ ہے کہ انہیں ایسے اداروں کی پرائیوٹائزیشن عمل کا کچھ علم نہیں، مگر پھر بھی انہیں بولنے کا بہت شوق ہے۔


پہلی مثال:

Luxembourg-based ArcelorMittal claims that Esmark breached its August 2007 agreement to purchase the Sparrows Point plant for $1.35 billion. The proposed sale fell through in December because of financing problems
http://www.businessweek.com/ap/finan.../D90I7RV00.htm



یاد رکھئیے:



۱۔ یہ Sparrows point plane میں عملے کی تعداد صرف اور صرف 2500 ہے [پاکستان کی سٹیل مل سے کہیں کہیں زیادہ کم] ۲۔ اور اس پلانٹ کی پروڈکشن سٹیل مل کی املین ٹن کے مقابلے میں 3٫5 ٹن سٹیل ہے۔ یعنی ساڑھے تین گنا زیادہ۔ 3۔ یاد رکھئیے اس پلانٹ کی زمین کی فی ایکڑ قیمت پاکستان کی سٹیل مل سے کہیں زیادہ ہے۔
اس لحاظ سے پاکستان سٹیل مل کی قیمت ۵۰۰ ملین بین الاقوامی مارکیٹ کے حساب سے بالکل صحیح [بلکہ بہتر ہے]۔


دوسری مثال:

http://www.nytimes.com/2005/10/25/bu...rssnyt&emc=rss



مگر اس کے متعلق یاد رکھئیے:
یوکرائنا کی یہ سٹیل مل 4٫8 بلین کی بکی ہے۔




۱۔ اس کی پروڈکشن سٹیل مل کی ۱ ملین ٹن کے مقابلے میں 8 ملین ٹن سے بھی زیادہ ہے۔ ۲۔ عملے کی تعداد نسبتا تعداد پاکستان سٹیل مل کے عملے کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ ۳۔ زمین کی فی ایکڑ قیمت بہت زیادہ ہے۔ ۴۔ اس قیمت میں نہ صرف پلانٹ شامل ہے بلکہ ایک ہزار million tons of iron ore کی مائنز کی زمین بھی اس قیمت میں شامل ہیں۔

اور اس قیمت پر یہ پلانٹ حاصل کرنے کے بعد بھی یہ کہا جا رہا ہے کہ اس گروپ نے اس پلانٹ کی بہت زیادہ قیمت ادا کر دی ہے جبکہ عالمی منڈی میں اسکی قیمت ہرگز اتنی نہیں ہے۔


پاکستان کی نسبت یوکرائنا یورپ ہے، امن امان کا ہرگز ہرگز کوئی مسئلہ نہیں، زمین کی قیمتیں انتہائی زیادہ ہیں، انویسٹر تو بمشکل ہی پاکستان کر رخ کرتا ہے، مگر یورپین یونین میں انویسٹرز کی کوئی کمی نہیں۔۔۔۔ ان تمام حالات کو دیکھتے ہوئے سٹیل مل کی مجموعی قیمت اگر ۵۰۰ ملین ڈالر لگائی گی ہے تو یہ ہرگز بُری ڈیل نہیں۔


مگر کیا ہے کہ جنرل قیوم اور ہمارا میڈیا ان عالمی حالات اور ایسی ڈیلز میں شرائط کے باعث اثاثوں کی قیمت کے صحیح تعین کے بارے میں غلط بیانی سے کام لیتے رہے ہیں اور یہ پروپیگنڈہ کرنے کا بہت اچھا طریقہ ہے تاکہ چیزوں کو Sensational بنایا جائے۔


اب میرا چیلنج ہے کہ عالمی مارکیٹ میں بے تحاشہ ایسی ڈیلز ہوئی ہیں،۔۔۔ ثابت کریں کہ کسی ایسی ڈیل میں اثاثوں کی قیمت آزادانہ طور پر متعین کر کے دی گئی ہو۔

میں نے اوپر دو سٹیل ملز کا ذکر کیا ہے۔ انکے علاوہ بھی اور سٹیل ملز کا سودا ہوا ہے، اور چیلنج ہے کہ ثابت کیا جائے کہ اُنکی قیمت سٹیل مل سے زیادہ ادا کی گئی ہے۔ اس معاملے میں آپ لوگ خود ریسرچ کر سکتے ہیں۔

حکومتِ پاکستان نے اپنا موقف اس لنک میں مکمل طور پر پیش کیا ہے:


http://www.privatisation.gov.pk/indu...2027-09-05.pdf


میڈیا کا مشرف حکومت کے خلاف آواز اٹھانا بالمقابل آج سٹیل مل کے متعلق عوام کو آگاہ کرنا

آپ کو یاد ہو گا کہ مشرف دور میں میڈیا نے سٹیل مل کو کوریج دے دے کر انتہا کی ہوئی تھی اور یہ وہ ٹھوس ثبوت تھا جو مشرف صاحب اور شوکت عزیز صاحب کے خلاف مسلسل پیش ہوتا تھا۔
لیکن آج جب سٹیل مل 51 ارب روپے کے خسارے میں جا چکی ہے، تو بھی اس بات پر میڈیا حکومت کے پیچھے 1 فیصد بھی ایسے نہیں پڑا ہوا جیسا کہ مشرف حکومت کے پیچھے پڑا رہتا تھا۔
کیوں؟
یاد رکھئیے یہ ہلکی پھلکی کر کے خبر دے دینا کہ سٹیل مل 51 ارب روپے کے خسارے میں ہے، اور ہاتھ دھو کر پیچھے پڑ جانے میں بہت فرق ہے۔
اگر شوکت عزیز صاحب دور میں سٹیل مل کی نجکاری ہو چکی ہوتی تو آج قوم کو یہ 51 ارب روپے کا خسارہ نہ اٹھانا پڑتا، آج 22 ہزار افراد کو اپنی ملازمت جانے کا خوف نہ ہوتا، آج ملکی دفاع کے لیے سٹیل مل سے جو مال خریدا جاتا تھا، اُسے کے ختم ہونے کا خطرہ نہ رہتا۔
افسوس کہ ملکی حکومت کی باگ دوڑ ہی نہیں بلکہ میڈیا کی باگ دوڑ بھی ایسے بے وقوفوں کے ہاتھوں میں ہے جو اپنے نمبرز بنانے کے چکر میں پاکستان کا بیڑہ غرق کرنے سے بھی اجتناب کرنے والے نہیں۔
 

Back
Top