
پاکستان کی فوج دنیا بھر کی افواج سے الگ ہے، یہ ملک کی رائے عامہ کا خیال رکھتی ہے: سینئر صحافی وتجزیہ کار
سینئر صحافی وتجزیہ کار سہیل وڑائچ نے نجی ٹی وی چینل دنیا نیوز کے اینکر فہد شہباز کی طرف سے سابق وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی کے گھر پولیس آپریشن کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ میرا خیال ہے کہ اس معاملے کو بلاتبصرہ ہی رہنے دیں۔ 2018ء میں پاکستان تحریک انصاف کے ٹکٹ بھی ہر ضلع میں موجود فوجیوں نے بانٹے۔ عمران خان کے جمہوریت بارے نظریات واضح نہیں، وہ اقتدار میں فوج کا رول بھی چاہتے ہیں جو کسی جمہوری نظام میں نہیں ہوتا۔
انہوں نے انتخابات کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ زیادہ سے زیادہ اکتوبر تک انتخابات ہو جائیں گے کیونکہ اسمبلی کی مدت پوری ہو جائے گی، سب کو لچک دکھانی چاہیے۔ عمران خان کا ہر صورت میں فائدہ ہے، صلح صفائی سے انتخابات ہو جائیں تو اس سے بہتر کوئی راستہ نہیں۔قاضی فائز عیسیٰ پر ریفرنس کے حوالے سے سوال کے جواب میں کہا کہ ان کا اشارہ شاید جنرل باجوہ کی طرف تھا لیکن میرے خیال میں ایسا نہیں ہے۔
https://twitter.com/x/status/1654524897690009600
سٹیبلشمنٹ اس وقت سمجھتی تھی کہ قاضی فائز عیسیٰ ہمارے لیے مسئلے پیدا کریں گے لیکن اب حالات بدل چکے ہیں، سٹیبلشمنٹ و چند ججز ایک پیج پر اور دوسرے ججز دوسری طرف ہیں۔ پاکستان کے بارے میں ایک تصور ہے کہ ملک کو بہت سے خطرات موجود ہیں ایسے میں سویلین کبھی بھی مضبوط نہیں ہو سکتے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہماری سٹیبلشمنٹ اور سیاستدانوں کی سوچ میں اختلاف پایا جاتا ہے۔
پاکستان میں کسی حکمران نے بہتر کام کیا نہ ہو سکتا ہے یہ تنازعہ وقت ہی حل کرے گا۔ میاں محمد نوازشریف کا جنرل ضیاء الدین بٹ کو آرمی چیف بنانے کا فیصلہ درست تھا اگر ایسا ہو جاتا تو ملک کے سیاسی حالات بدل جاتے۔ عمران خان نے کوئی ایسا جرات مندانہ فیصلہ نہیں کیا، عمران خان نے ابھی تک یہ بھی تسلیم نہیں کیا کہ وہ جنرل باجوہ کو ہٹانا چاہتے تھے، حالات تو تھے لیکن پھر پریزنر وین پہنچنے پر فیصلہ ہو گیا۔
ارشد شریف شہید اور جنرل فیض کے اختلافات بارے کہا کہ اسلام آباد کے ان حالات سے واقف نہیں لیکن شہید ارشد شریف کو ملکی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے پاکستان سے باہر جانے پر مجبور کیا اور بھگانے میں فیض حمید کا رول ضرور تھا۔ اس معاملے کا کوئی انجام نہیں نکلے گا کیونکہ ہمارا ملک سکیورٹی سٹیٹ بن چکا ہے۔ پاکستان کی فوج دنیا بھر کی افواج سے الگ ہے، یہ ملک کی رائے عامہ کا خیال رکھتی ہے۔
پاکستانی فوج رائے عامہ کے ساتھ مل کر چلتی اور چلاتی بھی ہے اور بعض دفعہ رائے عامہ ہموار بھی کرتی ہے اسی لیے سیاسی فیصلے بھی کر لیتی ہے۔ 2 سے 3 کروڑ افراد کا روزگار پاک فوج سے وابستہ ہے، یہی ووٹرز ملکی سیاست کا نقشہ بدل دیتے ہیں۔ انتخابات پر آئندہ بھی سوال اٹھتے رہیں گے، ہمارے ہاں تصور ہے کہ الیکشن والے دن مداخلت نہ ہو تو الیکشن فری اینڈ فیئر ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ 2023ء میں ایسا نہیں ہو گا، اس بار سیاسی جماعتیں اپنے ٹکٹس خود دے رہی ہیں۔ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ والے تجربہ کار ہیں، ان کو حکومت چلانا آتی ہے۔ حکومت میں ان کا دوبارہ سے حکم چلا رہے ہے اس لیے وہ اپنے آپ کو مضبوط تصور کر رہے ہیں ۔ میاں محمد نوازشریف واپس پاکستان آگئے تو پھر پاکستان تحریک انصاف کو فری ہینڈ نہیں ملے گا۔