ہیروشیما۔ کیا دیکھ کر لگتا ہے کہ کبھی یہاں ایٹم بم گرا تھا۔
ناگا ساکی۔ کیا دیکھ کر لگتا ہے کہ کبھی یہاں پہ کوئی تباہی آئی تھی۔
شہباز شریف کا پیرس دیکھ کر لگتا ہے کہ یہاں پلوٹونیم بم گرا تھا جسکی تباہی آج تک ہم بھگت رہے ہیں جبکہ ہیروشیما اور ناگا ساکی تو کب کے تعمیر بلکہ ترقی یافتہ شہروں میں شمار ہوتے ہیں۔
وہ پلوٹونیم بم اور کوئی نہیں بلکہ شریف خاندان ہی تھا جسکے اثرات آج تک یہ شہر بلکہ پورے پاکستان میں محسوس کیے جاسکتے ہیں۔
سنا ہے ہیروشیما اور ناگا ساکی میں آج تک معزور بچے پیدا ہوتے ہیں مگر لاہور کے معزور افراد پیدائشی نہیں بلکہ نون لیگی ہونا بزات خود ایک بہت بڑی معزوری ہے۔ ایسے یلبللڑ عوام ہیں کہ شریف دور اقتدار میں کسی ایک محکمے سے خوش نہیں تھے بلکہ جوتیاں چٹخاتے یہاں تک کہ چھتر بھی کھاتے تھے مگر یہاں حکومت بدلی اور وہاں ایسا تاثر دیتے ہیں جیسے یورپ کے کسی ملک سے آئے ہوں۔
کوئی آن اور آف کا بٹن نہیں ہے تبدیلی کا۔ یہ ایک صبر آزما جنگ ہے۔ ویسے بھی اللہ نے نتائج نہیں کوشش کا سلہ دینا ہے۔ اور کوشش کس نے کی اور کون کررہا ہے یہ شہباز شریف کا پیرس بتا رہا ہے۔
صرف 27 کلومیٹر کی عوام کے لیے 40 روپے کا اورینج ٹرین کا ٹکٹ جبکہ 210 روپے کی پھکی پورے پنجاب کے کھاتے میں۔ حکومت نہ چلائے تو نقصان اور چلارہی ہے تو زیادہ نقصان۔ اور تعریفیں ہورہی ہیں شریف خاندان کی جو بیچ میں اپنا پیسا بنا گئے جیسے موٹروے میں بنایا تھا۔ اوپر سے اچھا بندوبست کرکے گئے کہ کہیں اگلی حکومت عوام کی حقیقی ضرورتوں پہ نہ لگادے جیسے صاف پانی اور روزگار کے مواقعے۔ تاکہ گالیاں اس حکومت کو پڑیں اور ووٹ واپس شریف مافیا کو۔
ڈیم کی زمین خرید کر کام شروع نہیں کیا اپنے آخری دوسالوں میں کیونکہ مکمل اگلی حکومت میں ہونا تھا۔ اور جس نے کام شروع کیا باوجود یہ سوچے کہ اس حکومت میں پورا نہیں ہوگا مگر اسکی تعریف کرنے کی بجائے صاحب فرماتے ہیں شکریہ نواز شریف ڈیم کی زمین لینے کا۔ جبکہ مندر بنانے کی اجازت دینے پر عمران خان کی مخالفت ضرور کی حالانکہ اسکی زمین بھی نواز شریف نے ہی لی تھی۔
نون لیگیوں کی زہنی حالت پر مجھے رہ رہ کر افسوس ہوتا ہے اور خاص طور پہ انکے ووٹر اور سپوٹرز پر مگر کیا کریں کہ سوچ کی تبدیلی بھی ارتقائی عمل ہے۔ اللہ ہی شریف خاندان کے شر سے پاکستان کو بچائے جن کے نمک خوار آج بھی اتوار کو عدالت لگا کر ضمانتیں دے دیتے ہیں جبکہ غریب آدمی بس جوتیاں کی جٹخاتا رہ جاتا ہے۔
ناگا ساکی۔ کیا دیکھ کر لگتا ہے کہ کبھی یہاں پہ کوئی تباہی آئی تھی۔
شہباز شریف کا پیرس دیکھ کر لگتا ہے کہ یہاں پلوٹونیم بم گرا تھا جسکی تباہی آج تک ہم بھگت رہے ہیں جبکہ ہیروشیما اور ناگا ساکی تو کب کے تعمیر بلکہ ترقی یافتہ شہروں میں شمار ہوتے ہیں۔
وہ پلوٹونیم بم اور کوئی نہیں بلکہ شریف خاندان ہی تھا جسکے اثرات آج تک یہ شہر بلکہ پورے پاکستان میں محسوس کیے جاسکتے ہیں۔
سنا ہے ہیروشیما اور ناگا ساکی میں آج تک معزور بچے پیدا ہوتے ہیں مگر لاہور کے معزور افراد پیدائشی نہیں بلکہ نون لیگی ہونا بزات خود ایک بہت بڑی معزوری ہے۔ ایسے یلبللڑ عوام ہیں کہ شریف دور اقتدار میں کسی ایک محکمے سے خوش نہیں تھے بلکہ جوتیاں چٹخاتے یہاں تک کہ چھتر بھی کھاتے تھے مگر یہاں حکومت بدلی اور وہاں ایسا تاثر دیتے ہیں جیسے یورپ کے کسی ملک سے آئے ہوں۔
کوئی آن اور آف کا بٹن نہیں ہے تبدیلی کا۔ یہ ایک صبر آزما جنگ ہے۔ ویسے بھی اللہ نے نتائج نہیں کوشش کا سلہ دینا ہے۔ اور کوشش کس نے کی اور کون کررہا ہے یہ شہباز شریف کا پیرس بتا رہا ہے۔
صرف 27 کلومیٹر کی عوام کے لیے 40 روپے کا اورینج ٹرین کا ٹکٹ جبکہ 210 روپے کی پھکی پورے پنجاب کے کھاتے میں۔ حکومت نہ چلائے تو نقصان اور چلارہی ہے تو زیادہ نقصان۔ اور تعریفیں ہورہی ہیں شریف خاندان کی جو بیچ میں اپنا پیسا بنا گئے جیسے موٹروے میں بنایا تھا۔ اوپر سے اچھا بندوبست کرکے گئے کہ کہیں اگلی حکومت عوام کی حقیقی ضرورتوں پہ نہ لگادے جیسے صاف پانی اور روزگار کے مواقعے۔ تاکہ گالیاں اس حکومت کو پڑیں اور ووٹ واپس شریف مافیا کو۔
ڈیم کی زمین خرید کر کام شروع نہیں کیا اپنے آخری دوسالوں میں کیونکہ مکمل اگلی حکومت میں ہونا تھا۔ اور جس نے کام شروع کیا باوجود یہ سوچے کہ اس حکومت میں پورا نہیں ہوگا مگر اسکی تعریف کرنے کی بجائے صاحب فرماتے ہیں شکریہ نواز شریف ڈیم کی زمین لینے کا۔ جبکہ مندر بنانے کی اجازت دینے پر عمران خان کی مخالفت ضرور کی حالانکہ اسکی زمین بھی نواز شریف نے ہی لی تھی۔
نون لیگیوں کی زہنی حالت پر مجھے رہ رہ کر افسوس ہوتا ہے اور خاص طور پہ انکے ووٹر اور سپوٹرز پر مگر کیا کریں کہ سوچ کی تبدیلی بھی ارتقائی عمل ہے۔ اللہ ہی شریف خاندان کے شر سے پاکستان کو بچائے جن کے نمک خوار آج بھی اتوار کو عدالت لگا کر ضمانتیں دے دیتے ہیں جبکہ غریب آدمی بس جوتیاں کی جٹخاتا رہ جاتا ہے۔