پاکستان کے بجٹ کا 84 فیصد حصہ قرض اور سود ادائیگیوں کی نذر:رپورٹ

pakistan-economy-84.jpg


اکنامک سروے رپورٹ کے مطابق بجٹ کے 95 فیصد اخراجات کا بڑا حصہ عوام کی سروس پر خرچ کیا جاتا ہے تاہم مالی سال 21-2020 کے دوران قرضوں اور سود کی ادائیگی پر کل 21 ہزار 837 ارب روپے میں سے 18 ہزار 486 بلین روپے یعنی کل بجٹ کا 84.65 فیصد انہی ادائیگیوں پر نکل گیا۔

دوسری جانب وفاقی حکومت نے عوامی خدمات کے علاوہ سماجی واقتصادی کاموں کے اخراجات کیلئے کل 13.99 فیصد (3150.65 بلین روپے) مختص کیے حالانکہ یہ گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں نسبتاً زیادہ ہے 7.81 فیصد (3846.443 ارب روپے) ہے۔

دستاویز ظاہر کرتی ہے کہ فیڈرل آڈٹ کے دائرہ اختیار کے مطابق کل اخراجات میں سے دفاعی امور اور خدمات کا 0.03 فیصد (5.98 بلین روپے) تھا، امن عامہ اور حفاظت کے امور کیلئے 0.86 فیصد (187.95 بلین روپے) جبکہ اقتصادی امور کیلئے 1.20 فیصد (262 ارب روپے) رکھا گیا تھا۔

اسی طرح ماحولیاتی تحفظ کیلئے 0.03 فیصد (6.38 بلین روپے)، ہاؤسنگ اور کمیونٹی سہولیات کیلئے 0.04 فیصد (8.59 بلین روپے)، صحت کیلئے 0.23 فیصد (51.21 بلین روپے)، تفریح، ثقافت اور مذہب کیلئے 0.05 فیصد (11.68 روپے) رکھے گئے تھے۔

جبکہ تعلیم کیلئے 0.57 فیصد (124 بلین روپے) اور سماجی تحفظ کے شعبے کیلئے 1.24 فیصد (271.09 بلین روپے) مختص کیے گئے تھے۔

گزشتہ پانچ سالوں کے دوران گھریلو قرضوں میں 14.13 ٹریلین روپے سے 13.81 ٹریلین روپے تک بتدریج کمی آئی ہے۔ تاہم اس سال گھریلو قرضوں کی وصولی میں معقول کمی آئی جو کہ گزشتہ سال کی 14.13 ٹریلین روپے کی وصولی کے مقابلے میں گھٹ کر 13.81 ٹریلین روپے رہ گئی ہے۔

ڈومیسٹک ڈیٹ بھی گزشتہ سال کے 1.23 ٹریلین روپے کے مقابلے میں 0.96 ٹریلین روپے اور غیر ملکی قرضہ گزشتہ سال 1.36 ٹریلین روپے سے کم ہو کر 0.96 ٹریلین روپے رہ گیا ہے۔

اکنامک سروے آف پاکستان کے مطابق 1149.95 بلین روپے ٹیکس اخراجات کے طور پر رکھا گیا تھا یہ رقم 1314.273 ارب روپے تھی جو ٹیکس وصولی کا 37.85 فیصد تھی۔

دوسری جانب حکومت کو دفاعی خدمات اور دیگر نان ٹیکس وصولیوں کی وصولی میں کمی کا سامنا ہے۔ قرضوں پر انحصار کم کرنے کے لیے حکومت کی غیر ٹیکس وصولیوں کے ساتھ ساتھ ٹیکس وصولیوں کو بڑھانے کے لیے سخت کوششوں کی ضرورت ہے۔
 

Shahid Abassi

Chief Minister (5k+ posts)
پاکستان کے بجٹ کا ۸۴ فیصد نہی بلکہ فیڈرل بجٹ کا ۸۴ فیصد سود اور دفاع میں جا رہا ہے۔
مثلا اگر فیڈرل ٹوٹل بجٹ دس ہزار ارب ہو تو اس میں سے ۵۲۰۰ ارب تو صوبوں کو چلے جائیں گے اور اس کے بعد جو ۴۸۰۰ ارب بچیں گے اس کا ۸۴ فیصد سود اور دفاع پر لگ رہا ہے۔ اسی لئے اب آرمی یہ چاہتی ہے کہ اٹھارویں ترمیم ختم کی جائے یا اس میں ترمیم کی جائے تاکہ صوبوں کے اخراجات کم کئے جائیں اور وفاق کے پاس زیادہ پیسہ ہو۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ بڑے اخراجات سود قسطوں اور دفاع میں صوبے اپنا حصہ نہی ڈالتے۔ ہماری فوج اپنا بجٹ ڈالر کے حساب سے بناتی ہے۔ کیونکہ روپئے کی قیمت گر رہی ہے اس لئے وہ بھی بجٹ میں اسی حساب سے اضافہ چاہتے ہیں۔ لیکن باجوہ صاحب نے اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑی مار لی ہے اور آئی ایس پی آر کا رجیم چینج پر پہلا بیان کہ روپئہ اور سٹاک ایکسچینج مستحکم ہیں اب ان کے گلے پڑ گیا ہے۔ پانچ ماہ میں روپئہ ڈالر کے مقابل ۵۲ روپئے گر چکا ہے اور ابھی مزید گرے گا۔ روپئے کی قدر میں ۳۰ فیصد کمی کے بعد دفاعی بجٹ ۳۰ تو کیا ۱۵ فیصد بھی بڑھانے کی گنجائش نہی ہے۔
 

sangeen

Minister (2k+ posts)
نیوٹرلستان۔۔۔ کاش ڈرامہ بازیوں کے ساتھ ساتھ ان کو تھوڑی سے قومی غیرت اور حب الوطنی بھی سکھائی جاتی۔۔۔ مگر نہیں۔۔