عدالت نے ایک فیصلہ سنایا ہے جس سے محض یہ ثابت کرنا تھا کہ قانون کی نظر میں سب برابر ہیں، نہ تو مشرف کی واپسی ہونی ہے اور نہ ہی پھانسی کی سزا پر عملدرآمد ، دنیا میں جتنی بھی معزز قومیں ہیں ان میں شامل ہونے کے لئے ایسے فیصلے بہت ہی اہم ہیں
آج عدلیہ کو ہم سب کی سپورٹ اور خود عدلیہ کو عدلیہ کی مکمل حمایت درکار ہے، سب کو عدلیہ کی پشت پر کھڑے ہونا چاہئے نہ کہ ان لوگوں کی پشت پر جو آج اس فیصلے کے بعد سے عدلیہ کی توہین کے مرتکب ہورہے ہیں
فوج سے بھی گزارش ہے کہ اس فیصلے کو انا کا مسئلہ نہ بنائیں، مشرف بستر علالت پر ہے اسے کوی بھی پھانسی نہیں دے گا، ہاں اس فیصلے کو ملک کی عزت کی خاطر قبول کریں کیونکہ سب سے طاقتور بندے کو سزا ملنے کے بعد کسی دوسرے کو چھوڑنےکا سوال ہی پیدا نہیں ہوگا
عدلیہ کو بھی چاہیئے کہ اب اپنی عزت کی خاطروکیلوں کو ان کی ناقابل معافی اور گھناونی حرکت پر کڑی سزا سناے ورنہ عدلیہ کی طرف اٹھنے والی انگلیوں کو روکنا ناممکن ہوگا
لاہور ہائیکورٹ کا یہ کہنا کہ وکیل اور ڈاکٹر مل کر معاملات طے کر لیں یعنی مل کر قوم کو دوبارہ سے لوٹنا شروع کردیں ایک گھناونا کمنٹ ہے ایسے جج کو فوری طور پر فارغ کرکے گھر بھیج دیا جاے، مجرم کو سزا ملنی بہت اہم ہے ورنہ تمام ایسے مجرموں کو موقع دیں کہ وہ دوسرے فریق کے ساتھ بیٹھ کر معاملات نپٹا لیں اور جیل سے رہا ہوجائیں
وکیلوں کو سزا ملنا اب عدلیہ کی اپنی بقا کیلئے بھی بہت ضروری ہے، اگر وکیلوں کو بغیر سزا دئے چھوڑ دیا گیا تو پھر ججز عوام سے بھی چھتر کھائیں گے اورفوج سے بھی رہے سیاستدان تو ان کے ججز کے بارے میں خیالات پہلے ہی کچھ اچھے نہیں ہیں، لہذا بہتر ہوگا کہ انصاف کرکے ایک فریق یعنی وکلا کو ناراض کرلیں اور باقی ملک کی نظر میں سرخرو ہوجائیں
اور ہاں یہ آخری موقع ہے
آج عدلیہ کو ہم سب کی سپورٹ اور خود عدلیہ کو عدلیہ کی مکمل حمایت درکار ہے، سب کو عدلیہ کی پشت پر کھڑے ہونا چاہئے نہ کہ ان لوگوں کی پشت پر جو آج اس فیصلے کے بعد سے عدلیہ کی توہین کے مرتکب ہورہے ہیں
فوج سے بھی گزارش ہے کہ اس فیصلے کو انا کا مسئلہ نہ بنائیں، مشرف بستر علالت پر ہے اسے کوی بھی پھانسی نہیں دے گا، ہاں اس فیصلے کو ملک کی عزت کی خاطر قبول کریں کیونکہ سب سے طاقتور بندے کو سزا ملنے کے بعد کسی دوسرے کو چھوڑنےکا سوال ہی پیدا نہیں ہوگا
عدلیہ کو بھی چاہیئے کہ اب اپنی عزت کی خاطروکیلوں کو ان کی ناقابل معافی اور گھناونی حرکت پر کڑی سزا سناے ورنہ عدلیہ کی طرف اٹھنے والی انگلیوں کو روکنا ناممکن ہوگا
لاہور ہائیکورٹ کا یہ کہنا کہ وکیل اور ڈاکٹر مل کر معاملات طے کر لیں یعنی مل کر قوم کو دوبارہ سے لوٹنا شروع کردیں ایک گھناونا کمنٹ ہے ایسے جج کو فوری طور پر فارغ کرکے گھر بھیج دیا جاے، مجرم کو سزا ملنی بہت اہم ہے ورنہ تمام ایسے مجرموں کو موقع دیں کہ وہ دوسرے فریق کے ساتھ بیٹھ کر معاملات نپٹا لیں اور جیل سے رہا ہوجائیں
وکیلوں کو سزا ملنا اب عدلیہ کی اپنی بقا کیلئے بھی بہت ضروری ہے، اگر وکیلوں کو بغیر سزا دئے چھوڑ دیا گیا تو پھر ججز عوام سے بھی چھتر کھائیں گے اورفوج سے بھی رہے سیاستدان تو ان کے ججز کے بارے میں خیالات پہلے ہی کچھ اچھے نہیں ہیں، لہذا بہتر ہوگا کہ انصاف کرکے ایک فریق یعنی وکلا کو ناراض کرلیں اور باقی ملک کی نظر میں سرخرو ہوجائیں
اور ہاں یہ آخری موقع ہے