پاکستان میں شاید ٹٹو واحد جانور ہے جو نہ صرف مظلوم اور محکوم ہے بلکہ انتہائ بدنام بھی ہے ۔ لوگ گدھے کو بھی ایک مجبور اور مظلوم جانور سمجھتے ہیں مگر گدھا بھی اپنی استطاعت کے مطابق جب کبھی موقع ملے اپنے مالک کو ایک آدھ دولتی موقع دیکھ کر ضرور جھاڑ دیتا ہے اور دل ہی دل میں ھر ظلم کا حساب کتاب رکھتا ہے جبکہ اس کے برعکس ٹٹو معصوم نہ صرف مالک کی سوٹیاں کھا کر صرف ٹھنڈی آہیں بھرتا ہے بلکہ اپی طاقت سے کئ گناہ زیادہ وزن لے کر اونچی اونچی پہاڑیوں پر بغیر کسی وقفے کے چڑھتا رہتا ہے ۔
یوں تو ٹٹو کے بہت سے فوائد ہیں مگر اس کا سب سے زیادہ فائد ہماری فوج نے اٹھا یا ہے ، کوئ گمان بھی نہیں کرسکتا کہ ہمارے شمال مشرقی علاقے کی دشوار گزار پہاڑیوں پر یہ ٹٹو کس درجے کی اعلی قومی خدمت انجام دے رہے ہیں ۔ھر فوجی کے شانہ بشانہ اگلے محازوں پر راشن پانی کا مسلسل پہچانا ان کے روز مرہ کے کاموں میں سے ایک کام ہے ۔
نہ صرف یہ کہ ٹٹو بہت خدمت گزا، اطاعت گزار اور مجنتی جانور ہے بلکہ اپنے مالک کا حد درجہ وفادار بھی ہے ۔
کارگل کی پہاڑیاں ہو ں یا آزادکشمیر کی پگڈنڈیاں ، یہ صرف اپنی خدمات پیش کرتے ہیں بلکہ کئ ٹٹو تو اپنی جوانی کی عمر میں کشمیری نشیب کی گہرائیوں میں بوجھ لادتے لادتے اپنی جان گنوا بیٹھے ۔ نہ صرف یہ کہ فوج کے لیے یہ نہایت فائدہ مند رہے ہیں بلکہ اب تو کئ ٹٹو اپنے ضروری کاموں کو چھوڑ کر اعلی فوج کے دیگر امور میں بھی اپنا حصہ ڈالنے کی کوشش میں مگن نظر آتے ہیں۔
ہماری آرمی ان کی خدمات کی بہت معترف ہے ، اب تو ایک پلان کے تحت افزائش نسل ٹٹو کی باقائدہ مہم بھی چلائ جا رہی ہے کہ کہیں خداناخواستہ ان ٹٹوں کی مسلسل فراہمی میں مستقبل قریب میں کمی واقع نہ ہو جائے ، ہمارا فوجی شعبہ تعلقات عامہ اس معاملے میں پیش پیش ہے اور تقریبا 3 ھزار نئے ٹٹو ھر سال باقائدہ تربیت کے بعد سرٹیفیکٹ حاصل کرکے قومی فریضہ کی ادائیگی کے لیے میدان عمل میں آتے ہیں ۔ امید کی جاسکتی ہے کہ اگلی دھائ کے آخر تک ٹٹوؤں کی ایک معقول تعداد ھر محاذ پر اپنی مخلصانہ کارکردگی، جان فشاں محنت اور انتھک جدوجہد سے پاکستان کو ٹٹوؤں کی جنت بنانے میں کامیاب ہوگی۔
تمام پاکستانی ٹٹوؤں کو اس مضمون پر تنقید کا پورا حق حاصل ہے ۔
یوں تو ٹٹو کے بہت سے فوائد ہیں مگر اس کا سب سے زیادہ فائد ہماری فوج نے اٹھا یا ہے ، کوئ گمان بھی نہیں کرسکتا کہ ہمارے شمال مشرقی علاقے کی دشوار گزار پہاڑیوں پر یہ ٹٹو کس درجے کی اعلی قومی خدمت انجام دے رہے ہیں ۔ھر فوجی کے شانہ بشانہ اگلے محازوں پر راشن پانی کا مسلسل پہچانا ان کے روز مرہ کے کاموں میں سے ایک کام ہے ۔
نہ صرف یہ کہ ٹٹو بہت خدمت گزا، اطاعت گزار اور مجنتی جانور ہے بلکہ اپنے مالک کا حد درجہ وفادار بھی ہے ۔
کارگل کی پہاڑیاں ہو ں یا آزادکشمیر کی پگڈنڈیاں ، یہ صرف اپنی خدمات پیش کرتے ہیں بلکہ کئ ٹٹو تو اپنی جوانی کی عمر میں کشمیری نشیب کی گہرائیوں میں بوجھ لادتے لادتے اپنی جان گنوا بیٹھے ۔ نہ صرف یہ کہ فوج کے لیے یہ نہایت فائدہ مند رہے ہیں بلکہ اب تو کئ ٹٹو اپنے ضروری کاموں کو چھوڑ کر اعلی فوج کے دیگر امور میں بھی اپنا حصہ ڈالنے کی کوشش میں مگن نظر آتے ہیں۔
ہماری آرمی ان کی خدمات کی بہت معترف ہے ، اب تو ایک پلان کے تحت افزائش نسل ٹٹو کی باقائدہ مہم بھی چلائ جا رہی ہے کہ کہیں خداناخواستہ ان ٹٹوں کی مسلسل فراہمی میں مستقبل قریب میں کمی واقع نہ ہو جائے ، ہمارا فوجی شعبہ تعلقات عامہ اس معاملے میں پیش پیش ہے اور تقریبا 3 ھزار نئے ٹٹو ھر سال باقائدہ تربیت کے بعد سرٹیفیکٹ حاصل کرکے قومی فریضہ کی ادائیگی کے لیے میدان عمل میں آتے ہیں ۔ امید کی جاسکتی ہے کہ اگلی دھائ کے آخر تک ٹٹوؤں کی ایک معقول تعداد ھر محاذ پر اپنی مخلصانہ کارکردگی، جان فشاں محنت اور انتھک جدوجہد سے پاکستان کو ٹٹوؤں کی جنت بنانے میں کامیاب ہوگی۔
تمام پاکستانی ٹٹوؤں کو اس مضمون پر تنقید کا پورا حق حاصل ہے ۔