
لاہور پریس کلب کی انتظامیہ کی جانب سے ایک باقاعدہ نوٹیفکیشن جاری کیا گیا ہے جس میں سوشل میڈیا سے منسلک افراد بالخصوص یوٹیوبرز پر میڈیا کے فنکشنز اور پریس کانفرنسز کی کوریج اور شمولیت پر پابندی لگا دی گئی ہے۔
تفصیلات کے مطابق پریس کلب کے سیکرٹری عبدالمجید ساجد نے نوٹیفکیشن جاری کیا جس میں اس مخصوص واقعہ کی جانب اشارہ کیا گیا ہے۔ جس میں نگراں حکومت کے وزیراطلاعات عامر میر سے یوٹیوبرز کے سخت سوالات کا ذکر موجود ہے۔
نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ یوٹیوبرز نے عامر میر کے منع کرنے کے باوجود بھی ان کاانٹرویو کرنے کی کوشش کی اور ویڈیوز بناتے رہے جو کہ پریس کلب انتظامیہ کیلئے باعث شرمندگی تھا۔
لاہور پریس کلب کی جانب سے کہا گیا ہے کہ اب کوئی یوٹیوبر یا سوشل میڈیا سے منسلک شخص انتظامیہ کی اجازت کے بغیر کلب کے مہمانوں کا انٹرویو یا ویڈیو بنانے کی کوشش نہیں کرے گا کیونکہ پریس کلب آزادی اظہار کی پاسداری کا علمبردار ہے اور اس کی حدود کا پاسدار بھی ہے۔
اس معاملے پر تحریک انصاف کے سنٹرل میڈیا کے سربراہ صبغتہ اللہ ورک لکھتے ہیں کہ یہ آزادی صحافت کیلئے ایک تابناک دن ہے شکرگزار ہیں ان نابغہ ہائے صحافت کے جنہوں نےقوم کو سمجھایا کہ ہماری صحافت بھی ”برہمنوں“ اور ”شودروں“ میں بٹی ہوئی ہے اور شودروں کیلئے جائز نہیں کہ وہ ان مراعات پر نگاہ رکھیں جو برہمنوں کیلئے ہی خاص ہیں۔
https://twitter.com/x/status/1622841477033254913
یاد رہے کہ دنیا نیوز سے منسلک اینکر فہد نے عامر میر کی لاہور پریس کلب آمد کے موقع پر سوال کیا تھا کہ کیا وہ شیخ رشید اور فواد چودھری کی گرفتاری کی مذمت کرتے ہیں؟ جواب میں نگراں وزیراطلاعات نے کہا کہ وہ بالکل مذمت نہیں کرتے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ ان بھی گرفتاری ہوئی تھی کیا وہ اس کی مذمت کرتے ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ وہ بالکل وہ تب قابل مذمت تھا۔
https://twitter.com/x/status/1621453622226857984
میڈیا لوگو کے بغیر پریس کلب کی حدود میں ایک سینئر صحافی سے اینکر کا پوچھا گیا سوال کلب انتظامیہ کو ناگوار گزرا اور صدر لاہور پریس کلب نے معاملے میں مداخلت کی جس کے بعد سیکرٹری نے یوٹیوبرز پر پابندی لگا دی حالانکہ سوال پوچھنے والا اینکر دنیا نیوز کا صحافی ہے۔ سوشل میڈیا پر صحافت کرنے والے سوال اٹھا رہے ہیں کہ ہر بدتمیزی کو یوٹیوبرز سے کیوں جوڑ دیا جاتا ہے؟
Last edited by a moderator: