Night_Hawk
Siasat.pk - Blogger
[h=1]نادرا ،نادرہ : فخرالدین کیفی
[/h]
by Saqib Malik December 5, 2016
نادرہ سے ہماری واقفیت ۱۹۵۰ کی دہائی سے ہے جب ڈائریکٹر محبوب کی فلم آن پاکستان کے سینیمائوںمیں ریلیز ہوئی تھی۔ریلیز کے وقت کم عمری کے باعث فلم دیکھنے کی اجازت نہ تھی اس لیئے کافی عرصے بعد ۔۔۔ تقریباً چھ سات سال بعد فلم دیکھنے کا موقع ملا۔
اس وقت تک اسکول میں ڈراموں میں حصہ لینے کے علاوہ کورس میں شامل شیکسپیر کے ڈراموں کے پڑھنے اور ان پر تنقیدی مضامین لکھنے کی وجہ سے کافی سوجھ بوجھ پیدا ہو چلی تھی۔اس لیئے فلم وغیرہ ہمیشہ تنقیدی نظروں سے ہی دیکھتے رہے۔
آن میں فلم اسٹار نادرہ کو دیکھنے کے بعد ہمارا یہ ہی خیال تھا کہ ڈائریکٹر نے نادرہ کو ذہن میں رکھ کر فلم کا اسکرپٹ لکھوایا ہوگا۔ہمارا خیال اتنا غلط بھی نہ تھا کیونکہ آن کے علاوہ نادرہ کی کوئی فلم کامیاب نہ ہوسکی۔
آن میں ایک مغرور رانی کے کردار میں واقعی خوب جچی ورنہ شکل صورت میں ہیروئین والی کوئی بات نہ تھی۔اداکاری بھی غرور اور تکبر میں چھپ کر رہ گئی تھی ۔اگر اس کا کردار غرور کا آئینہ دار نہ ہوتا تو شائد فلم صرف نادرہ ہی کی وجہ سے باکس آفس پر ناکام ہوجاتی۔یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ اگر فلمسٹار نرگس یہ رول کرنے سے انکار نہ کرتی تو نہ نادرہ کو یہ کردار ملتا اور نہ ہماری اس سے واقفیت ہوتی ۔
دوسری بار نادرہ سے اس وقت پالا پڑا جب حکمرانوں نے ایک ایسے ادارے کی
۲
داغ بیل ڈالی جس کے نام کا مخفف نادرہ (N.A.D.R.A ) ٹہرا۔محکمے کا نام نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی ہے ۔ جس کا مخفف کسی طرح بھی نادرہ نہں بنتا ۔انگریزی میں بھی National Data-base And Registration Authority ـ
کا مخفف مروجہ اصولوں کے تحت N. D. A. R. A یا نڈارا ہو نا چاہیئے تھا لیکن ارباب اختیارنے شائد رنگین مزاج غاصب کی خوشنودی کی خاطر کھینچ تان کر اسے نسوانیت سے ہمکنار کردیا۔حالانکہ نسوانیت تو فلم اسٹار نادرہ میں بھی صرف نام کی ہی مرہونِ منت تھی۔
کہتے ہیں ناموں کا اثر چال چلن پر بھی پڑتا ہے شائد یہ ہی وجہ ہے کہ اس محکمے کی سوچ میں بھی کافی زنانہ پن غالب ہے۔
ورنہ جس ملک کے وسائل محدود ہوں وہاں اسراف کا کیا کام۔ہمارے ملک میں ابھی تمام آبادی کے شناختی کارڈ بن نہ پائے تھے کہ نادرہ کا ظہور ہوگیا جس نے یکلخت نئے سرے سے کارڈز بنانے کا کام شروع کردیا۔
ہم نے بھی پہلے فرصت میں پوری فیملی کے کارڈز یہ سوچ کر بنوالیئے کہ یہ الیکٹرانک کارڈز ہیں بس عمر بھر کی فرصت ہو جائے گی۔
لیکن پہلا جھٹکا اس وقت لگا۔جب پاسپورٹ بھی الیکٹرانک درکار ہوئے اور ہم بیگم کے ساتھ نئے پاسپورٹ کے حصول کے لیئے پاسپورٹ آفس پہنچ گئے وہاں معلوم ہوا کہ صرف بیگم کا الیکٹرانک شناختی کارڈ ایکسپائر ہو چکا ہے ۔
یہ ہمارے گمان میں بھی نہ تھا کہ شناختی کارڈ بھی ایکسپائر ہوسکتے ہیں۔ اپنے اور بیوی کے کارڈز کا بغور مطالعہ کیا تو حیرت ہوئی۔۔ واقعی اجر ا کی تاریخ ایک ہونے کے باوجود دونوں کی ایکسپائری ڈیٹس میں فرق تھا۔خدا جانے کونسے فارمولے کے تحت ایسا کیا گیا تھا۔ہمارے لیئے تو یہ ہی عجیب تھا کہ شناخت بھی ایکسپائر ہوسکتی ہے ۔ ہمارا خیال ہےکہ شناخت تو مرنے کے بعد بھی ایکسپائرنہیں ہوتی ۔
( یہاں ہماری مراد جسمانی نہیں، بلکہ ولدیت ، سرنیم ، تاریخ و جائے پیدائش وغیرہ سے ہے)۔
دوئم یہ بات بھی تعجب خیز تھی کہ جس ملک میں لوگ پہلی بار ہی کارڈ بنوانے سے گریزاں ہیں وہاں ان سے یہ امید کیسے رکھی گئی کہ وہ ایکسپائری پر بھی توجہ دیں گے۔ہاں کسی مجبوری کے تحت اور بات ہے۔
ہمارا خیال ہے یہ سب اس زنانہ نام کا ہی اثر ہے کہ محکمے نے کمائی کا یہ گھمائو پھرائو کا طریقہ اپنایا ہے۔
کمائی کے لیئے اس سے تو یہ بہتر ہوتا کہ کارڈ رینیو (Renew) کرانے کے لیئے ہر سال کارڈ پر ڈاکخانے سے ٹکٹ لگوانے کا اہتمام کردیا جاتا۔نادرہ نے یہ نہیں سوچا کہ اٹھارہ کروڑ کے کارڈ بنتے بنتے آبادی میں قابل قدر اضافہ ہو جائے گا۔اس لیئے حاملِ کارڈ کو دوبارہ زحمت دینے سے فائدہ !!
لیکن ٹہریئے ہوسکتا ہے نادرہ کو یہ فکر دامن گیر ہو کہ حکومت کہیں افزائش نسل پر پابندی نہ لگا دے یا بچوں کی پیدائش پر کوئی ٹیکس لگا کر گروتھ ریٹ نہ کم کردے۔ ہوسکتا ہے اسے یہ خوف ہو کہ اس صورت میں اسکے ( نادرہ کے) محکمے کے مستقبل کا کیا ہوگا۔اس ہی لیئے یہ ایکسپائری سسٹم بنا دیا گیا کہ ہر دو چار سال بعد ہر شخص دوبارہ نادرہ سے رجوع کرتا رہے گا۔نیا گاہک نہیں تو پرانا ہی سہی۔
نادرہ کے اس انداز فکر میں تو ہمیں اس خاتون کی سوچ کا پر تو نظر آرہا ہے جس نے اپنے شوہر کے پیر دباتے ہوئے ٹسوے بہانے شروع کر دیئے تھے۔
شوہر کے استفسار پر بڑی مشکل سے گویا ہوئی سرتاج مجھے تو یہ سوچ کر رونا آگیا کہ آپ کے بعد میرا کیا ہوگا۔سادہ لوح شوہر کا دل پسیج گیا کہ کتنی وفا
شعار اور محبت کرنے والی بیوی ملی ہے۔بیچارے کو ایکبا ر بھی یہ خیال نہیں آیا کہ بیگم یہ طے کیئے بیٹھی ہے کہ جانا پہلے خاوند ہی کو ہے
ارباب اختیا ر نے بھی شائد نادرہ کے بہتر مستقبل کے لیے یہ اہتمام کیا ہے کہ ایکسپائری کی صورت میں نادرہ کے لیئے ایک مستقل آمدنی کا بندوبست ہو جائے۔اور گلشن کا کروبار چلتا رہے۔
Source
[/h]

نادرہ سے ہماری واقفیت ۱۹۵۰ کی دہائی سے ہے جب ڈائریکٹر محبوب کی فلم آن پاکستان کے سینیمائوںمیں ریلیز ہوئی تھی۔ریلیز کے وقت کم عمری کے باعث فلم دیکھنے کی اجازت نہ تھی اس لیئے کافی عرصے بعد ۔۔۔ تقریباً چھ سات سال بعد فلم دیکھنے کا موقع ملا۔
اس وقت تک اسکول میں ڈراموں میں حصہ لینے کے علاوہ کورس میں شامل شیکسپیر کے ڈراموں کے پڑھنے اور ان پر تنقیدی مضامین لکھنے کی وجہ سے کافی سوجھ بوجھ پیدا ہو چلی تھی۔اس لیئے فلم وغیرہ ہمیشہ تنقیدی نظروں سے ہی دیکھتے رہے۔
آن میں فلم اسٹار نادرہ کو دیکھنے کے بعد ہمارا یہ ہی خیال تھا کہ ڈائریکٹر نے نادرہ کو ذہن میں رکھ کر فلم کا اسکرپٹ لکھوایا ہوگا۔ہمارا خیال اتنا غلط بھی نہ تھا کیونکہ آن کے علاوہ نادرہ کی کوئی فلم کامیاب نہ ہوسکی۔
آن میں ایک مغرور رانی کے کردار میں واقعی خوب جچی ورنہ شکل صورت میں ہیروئین والی کوئی بات نہ تھی۔اداکاری بھی غرور اور تکبر میں چھپ کر رہ گئی تھی ۔اگر اس کا کردار غرور کا آئینہ دار نہ ہوتا تو شائد فلم صرف نادرہ ہی کی وجہ سے باکس آفس پر ناکام ہوجاتی۔یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ اگر فلمسٹار نرگس یہ رول کرنے سے انکار نہ کرتی تو نہ نادرہ کو یہ کردار ملتا اور نہ ہماری اس سے واقفیت ہوتی ۔
دوسری بار نادرہ سے اس وقت پالا پڑا جب حکمرانوں نے ایک ایسے ادارے کی
۲
داغ بیل ڈالی جس کے نام کا مخفف نادرہ (N.A.D.R.A ) ٹہرا۔محکمے کا نام نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی ہے ۔ جس کا مخفف کسی طرح بھی نادرہ نہں بنتا ۔انگریزی میں بھی National Data-base And Registration Authority ـ
کا مخفف مروجہ اصولوں کے تحت N. D. A. R. A یا نڈارا ہو نا چاہیئے تھا لیکن ارباب اختیارنے شائد رنگین مزاج غاصب کی خوشنودی کی خاطر کھینچ تان کر اسے نسوانیت سے ہمکنار کردیا۔حالانکہ نسوانیت تو فلم اسٹار نادرہ میں بھی صرف نام کی ہی مرہونِ منت تھی۔
کہتے ہیں ناموں کا اثر چال چلن پر بھی پڑتا ہے شائد یہ ہی وجہ ہے کہ اس محکمے کی سوچ میں بھی کافی زنانہ پن غالب ہے۔
ورنہ جس ملک کے وسائل محدود ہوں وہاں اسراف کا کیا کام۔ہمارے ملک میں ابھی تمام آبادی کے شناختی کارڈ بن نہ پائے تھے کہ نادرہ کا ظہور ہوگیا جس نے یکلخت نئے سرے سے کارڈز بنانے کا کام شروع کردیا۔
ہم نے بھی پہلے فرصت میں پوری فیملی کے کارڈز یہ سوچ کر بنوالیئے کہ یہ الیکٹرانک کارڈز ہیں بس عمر بھر کی فرصت ہو جائے گی۔
لیکن پہلا جھٹکا اس وقت لگا۔جب پاسپورٹ بھی الیکٹرانک درکار ہوئے اور ہم بیگم کے ساتھ نئے پاسپورٹ کے حصول کے لیئے پاسپورٹ آفس پہنچ گئے وہاں معلوم ہوا کہ صرف بیگم کا الیکٹرانک شناختی کارڈ ایکسپائر ہو چکا ہے ۔
یہ ہمارے گمان میں بھی نہ تھا کہ شناختی کارڈ بھی ایکسپائر ہوسکتے ہیں۔ اپنے اور بیوی کے کارڈز کا بغور مطالعہ کیا تو حیرت ہوئی۔۔ واقعی اجر ا کی تاریخ ایک ہونے کے باوجود دونوں کی ایکسپائری ڈیٹس میں فرق تھا۔خدا جانے کونسے فارمولے کے تحت ایسا کیا گیا تھا۔ہمارے لیئے تو یہ ہی عجیب تھا کہ شناخت بھی ایکسپائر ہوسکتی ہے ۔ ہمارا خیال ہےکہ شناخت تو مرنے کے بعد بھی ایکسپائرنہیں ہوتی ۔
( یہاں ہماری مراد جسمانی نہیں، بلکہ ولدیت ، سرنیم ، تاریخ و جائے پیدائش وغیرہ سے ہے)۔
دوئم یہ بات بھی تعجب خیز تھی کہ جس ملک میں لوگ پہلی بار ہی کارڈ بنوانے سے گریزاں ہیں وہاں ان سے یہ امید کیسے رکھی گئی کہ وہ ایکسپائری پر بھی توجہ دیں گے۔ہاں کسی مجبوری کے تحت اور بات ہے۔
ہمارا خیال ہے یہ سب اس زنانہ نام کا ہی اثر ہے کہ محکمے نے کمائی کا یہ گھمائو پھرائو کا طریقہ اپنایا ہے۔
کمائی کے لیئے اس سے تو یہ بہتر ہوتا کہ کارڈ رینیو (Renew) کرانے کے لیئے ہر سال کارڈ پر ڈاکخانے سے ٹکٹ لگوانے کا اہتمام کردیا جاتا۔نادرہ نے یہ نہیں سوچا کہ اٹھارہ کروڑ کے کارڈ بنتے بنتے آبادی میں قابل قدر اضافہ ہو جائے گا۔اس لیئے حاملِ کارڈ کو دوبارہ زحمت دینے سے فائدہ !!
لیکن ٹہریئے ہوسکتا ہے نادرہ کو یہ فکر دامن گیر ہو کہ حکومت کہیں افزائش نسل پر پابندی نہ لگا دے یا بچوں کی پیدائش پر کوئی ٹیکس لگا کر گروتھ ریٹ نہ کم کردے۔ ہوسکتا ہے اسے یہ خوف ہو کہ اس صورت میں اسکے ( نادرہ کے) محکمے کے مستقبل کا کیا ہوگا۔اس ہی لیئے یہ ایکسپائری سسٹم بنا دیا گیا کہ ہر دو چار سال بعد ہر شخص دوبارہ نادرہ سے رجوع کرتا رہے گا۔نیا گاہک نہیں تو پرانا ہی سہی۔
نادرہ کے اس انداز فکر میں تو ہمیں اس خاتون کی سوچ کا پر تو نظر آرہا ہے جس نے اپنے شوہر کے پیر دباتے ہوئے ٹسوے بہانے شروع کر دیئے تھے۔
شوہر کے استفسار پر بڑی مشکل سے گویا ہوئی سرتاج مجھے تو یہ سوچ کر رونا آگیا کہ آپ کے بعد میرا کیا ہوگا۔سادہ لوح شوہر کا دل پسیج گیا کہ کتنی وفا
شعار اور محبت کرنے والی بیوی ملی ہے۔بیچارے کو ایکبا ر بھی یہ خیال نہیں آیا کہ بیگم یہ طے کیئے بیٹھی ہے کہ جانا پہلے خاوند ہی کو ہے
ارباب اختیا ر نے بھی شائد نادرہ کے بہتر مستقبل کے لیے یہ اہتمام کیا ہے کہ ایکسپائری کی صورت میں نادرہ کے لیئے ایک مستقل آمدنی کا بندوبست ہو جائے۔اور گلشن کا کروبار چلتا رہے۔
Source