پاکستان میں خواتین، نابالغ بچوں اور بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتیوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے، آئے روز کوئی نہ کوئی بچہ یا کوئی نہ کوئی خاتون کسی نہ کسی جنسی درندے کی ہوس کا شکار بنی ہوتی ہے۔ لاہور میں موٹروے پر کھڑی گاڑی سے اتار کر خاتون کو اسکے بچوں کے سامنے جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا واقعہ تو انتہائی اندوہناک ہے۔ حسبِ سابق کم عقل پاکستانی قوم ایک ہی گردان کررہی ہے، سرعام پھانسی پرلٹکادو، سنگسار کردو۔۔ یہ طریقہ غصے کو ٹھنڈا کرنے کے کام تو آسکتا ہے، لیکن اس سے مسئلہ حل ہونے والا نہیں۔ ہمیں مسئلے کی جڑ پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ جنسی فعل بھوک اور پیاس کی طرح انسان کی فطری ضرورت ہے اور اس کو دبانے سے ویسے ہی مسائل پیدا ہوتے ہیں جیسے اگر کسی معاشرے پر بھوک اور پیاس مسلط کردی جائے تو وہ بغاوت پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔
سیکس ایک حیوانی جذبہ ہے اور انسان پر جب جنسی جذبات کا غلبہ ہوتا ہے تو اس وقت وہ انسان نہیں ایک جانور ہوتا ہے۔ اگرکسی معاشرے پر اس کی جنسی ضرورت پورا کرنے کی راہ میں رکاوٹیں حائل کی جائیں اور غیر ضروری پابندیاں عائد کی جائیں تو لامحالہ طور پر اس معاشرے کے لوگ حیوانی حرکات پر اتر آتے ہیں۔ پاکستان میں انسان کی جنسی ضرورت کو غیر ضروری طور پر دبایا جاتا ہے، بغیر شادی کے سیکس کو انتہائی غلط سمجھا جاتا ہے، نہ صرف معاشرہ، بلکہ ریاست بھی مرد اور عورت کے ذاتی تعلقات کے بیچ میں مداخلت کرتی ہے، حدود آرڈنینس جیسے جاہلانہ قوانین اس معاشرے پر مسلط کئے ہوئے ہیں۔ اگر کوئی مرد اور عورت، لڑکا لڑکی اپنی مرضی سے ایک دوسرے سے جنسی تعلقات قائم کرتے ہیں تو کسی بھی دوسرے تیسرے شخص کو یا ریاست کو اس سے سروکار نہیں ہونا چاہیے۔ پولیس کو یا کسی بھی محکمے کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی گاڑی میں، کسی پارک میں یا کسی ہوٹل میں داخل ہوکر لوگوں کے ذاتی معاملات میں دخل دیں۔ مغربی ممالک نے اس مسئلے کو بہت پہلے سمجھ کر اس کا حل نکال لیا تھا کہ لوگوں کو انفرادی اور ذاتی معاملات میں آزاد چھوڑ دیا، لوگوں کے مذہب کو پرائیوٹ مان لیا، لوگوں کے جنسی تعلقات کو ان کی جائز اور ناگزیر ضرورت مان کر اس پر عائد غیر ضروری پابندیاں ختم کردیں اور اب صورتحال یہ ہے کہ امریکہ، کینیڈا اور یوکے میں تو میں عورت اکیلی باہر نکلنے پر خود کو غیر محفوظ محسوس نہیں کرتی، جبکہ پاکستان میں عورت باہر نکلے تو پورے معاشرے کی نظریں اس کے بدن کا طواف کرتی ہیں، عورت تو چھوڑیئے، اب تو چھوٹے چھوٹے بچے بھی اس معاشرے میں غیر محفوظ ہیں۔ ذرا اس چودہ پندرہ سالہ لڑکے کا انٹرویو ملاحظہ کریں، اس نے سات سالہ بچی کا ریپ کرکے اس کو قتل کردیا۔
کیا یہ شکل سے کوئی درندہ لگتا ہے؟ ہم اسے پتھر مار مار کر یا سرعام پھانسی پرلٹکا کر اپنے غصیلے جذبات کو راحت پہنچا بھی لیں، مگر کیا اس سے مسئلہ حل ہوجائے گا؟ کتنوں کو پھانسی پر لٹکائیں گے؟ ہمیں مسئلے کا روٹ کاز سمجھنے کی ضرورت ہے۔ جنسی گھٹن کی وجہ سے پورا معاشرہ نفسیاتی مریض بنتا جارہا ہے، لوگ انسانوں سے حیوان بنتے جارہے ہیں۔ اگر اس چودہ پندرہ سالہ لڑکے کو اپنی ہم عمر لڑکی سے آزادانہ جنسی اختلاط کی سہولت میسر ہوتی تو کیا یہ اپنے حیوانی جذبات سے مغلوب ہوکر اس معصوم بچی کو اپنی ہوس کا نشانہ بناتا؟ ہمیں خود کو فرسودہ سوچ سے نکالنا ہوگا، سیکس انسان کی بنیادی اور اہم ضرورت ہے، اس کو شادی کے ساتھ نتھی کرنا انتہائی احمقانہ اور خطرناک رویہ ہے۔
ایک اور غلط فہمی ہے جس کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے ہاں یہ سمجھا جاتا ہے کہ جس کی شادی ہوجائے اس کی جنسی ضرورت پوری ہونے کا سامان ہوگیا۔ ایسا بالکل نہیں ہے، کیونکہ ہمارے ہاں جوائنٹ فیملی سسٹم ، چھوٹے گھروں اور بے دریغ آبادی کی وجہ سے شادی شدہ جوڑے بھی پوری طرح اپنی جنسی طلب پوری نہیں کرپاتے۔ جنسی ضرورت پوری کرنے ذہنی سکون اور خاموش ماحول ضروری ہے۔ جب پانچ مرلے کے گھر میں کمرے کے ساتھ کمرہ ٹھکا ہو اور گھر میں تین چار شادی شدہ جوڑے رہتے ہیں، ہر جوڑا خوف اور جلد بازی کے عالم میں دم سادھ کر اپنی جنسی ضرورت پوری کرے، ایک سال بعد بچوں کی آمد ہوجائے اور پھر یہ جائز ضرورت بھی چوری چھپے کا کھیل بن جائے تو ایسے میں جنسی تسکین کیا خاک ملے گی۔ ہم نے انسان کی اس اہم ضرورت کو اتنا دبا دیا ہے کہ ذہنی طور پر ہمارا معاشرہ پوری طرح انتشار اور خلفشار کا شکار ہوچکا ہے، ہم پر تحقیق، جستجو اور تخلیق کے دروازے بند ہوچکے ہیں، کیونکہ ہم نے اپنے معاشرے کو بنیادی انسانی ضروریات کے چکر سے ہی نہیں نکلنے دیا، جس شخص کو جنسی تسکین حاصل نہ ہو، اسکا ذہن کسی قسم کے تخلیقی کام کے قابل نہیں رہتا، اس کے ذہن پر ہر وقت عورت سوار رہتی ہے۔ کیا وجہ ہے کہ ہر قسم کے نئے آئیڈیاز، دریافتیں اور ایجادات یورپ اور ان معاشروں سے آرہی ہیں جہاں لوگوں کو جنسی اور فکری آزادی میسر ہے۔۔ سوچیے اور بار بار سوچیے کہ سوچنے پر پابندی نہیں۔
سیکس ایک حیوانی جذبہ ہے اور انسان پر جب جنسی جذبات کا غلبہ ہوتا ہے تو اس وقت وہ انسان نہیں ایک جانور ہوتا ہے۔ اگرکسی معاشرے پر اس کی جنسی ضرورت پورا کرنے کی راہ میں رکاوٹیں حائل کی جائیں اور غیر ضروری پابندیاں عائد کی جائیں تو لامحالہ طور پر اس معاشرے کے لوگ حیوانی حرکات پر اتر آتے ہیں۔ پاکستان میں انسان کی جنسی ضرورت کو غیر ضروری طور پر دبایا جاتا ہے، بغیر شادی کے سیکس کو انتہائی غلط سمجھا جاتا ہے، نہ صرف معاشرہ، بلکہ ریاست بھی مرد اور عورت کے ذاتی تعلقات کے بیچ میں مداخلت کرتی ہے، حدود آرڈنینس جیسے جاہلانہ قوانین اس معاشرے پر مسلط کئے ہوئے ہیں۔ اگر کوئی مرد اور عورت، لڑکا لڑکی اپنی مرضی سے ایک دوسرے سے جنسی تعلقات قائم کرتے ہیں تو کسی بھی دوسرے تیسرے شخص کو یا ریاست کو اس سے سروکار نہیں ہونا چاہیے۔ پولیس کو یا کسی بھی محکمے کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی گاڑی میں، کسی پارک میں یا کسی ہوٹل میں داخل ہوکر لوگوں کے ذاتی معاملات میں دخل دیں۔ مغربی ممالک نے اس مسئلے کو بہت پہلے سمجھ کر اس کا حل نکال لیا تھا کہ لوگوں کو انفرادی اور ذاتی معاملات میں آزاد چھوڑ دیا، لوگوں کے مذہب کو پرائیوٹ مان لیا، لوگوں کے جنسی تعلقات کو ان کی جائز اور ناگزیر ضرورت مان کر اس پر عائد غیر ضروری پابندیاں ختم کردیں اور اب صورتحال یہ ہے کہ امریکہ، کینیڈا اور یوکے میں تو میں عورت اکیلی باہر نکلنے پر خود کو غیر محفوظ محسوس نہیں کرتی، جبکہ پاکستان میں عورت باہر نکلے تو پورے معاشرے کی نظریں اس کے بدن کا طواف کرتی ہیں، عورت تو چھوڑیئے، اب تو چھوٹے چھوٹے بچے بھی اس معاشرے میں غیر محفوظ ہیں۔ ذرا اس چودہ پندرہ سالہ لڑکے کا انٹرویو ملاحظہ کریں، اس نے سات سالہ بچی کا ریپ کرکے اس کو قتل کردیا۔
کیا یہ شکل سے کوئی درندہ لگتا ہے؟ ہم اسے پتھر مار مار کر یا سرعام پھانسی پرلٹکا کر اپنے غصیلے جذبات کو راحت پہنچا بھی لیں، مگر کیا اس سے مسئلہ حل ہوجائے گا؟ کتنوں کو پھانسی پر لٹکائیں گے؟ ہمیں مسئلے کا روٹ کاز سمجھنے کی ضرورت ہے۔ جنسی گھٹن کی وجہ سے پورا معاشرہ نفسیاتی مریض بنتا جارہا ہے، لوگ انسانوں سے حیوان بنتے جارہے ہیں۔ اگر اس چودہ پندرہ سالہ لڑکے کو اپنی ہم عمر لڑکی سے آزادانہ جنسی اختلاط کی سہولت میسر ہوتی تو کیا یہ اپنے حیوانی جذبات سے مغلوب ہوکر اس معصوم بچی کو اپنی ہوس کا نشانہ بناتا؟ ہمیں خود کو فرسودہ سوچ سے نکالنا ہوگا، سیکس انسان کی بنیادی اور اہم ضرورت ہے، اس کو شادی کے ساتھ نتھی کرنا انتہائی احمقانہ اور خطرناک رویہ ہے۔
ایک اور غلط فہمی ہے جس کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے ہاں یہ سمجھا جاتا ہے کہ جس کی شادی ہوجائے اس کی جنسی ضرورت پوری ہونے کا سامان ہوگیا۔ ایسا بالکل نہیں ہے، کیونکہ ہمارے ہاں جوائنٹ فیملی سسٹم ، چھوٹے گھروں اور بے دریغ آبادی کی وجہ سے شادی شدہ جوڑے بھی پوری طرح اپنی جنسی طلب پوری نہیں کرپاتے۔ جنسی ضرورت پوری کرنے ذہنی سکون اور خاموش ماحول ضروری ہے۔ جب پانچ مرلے کے گھر میں کمرے کے ساتھ کمرہ ٹھکا ہو اور گھر میں تین چار شادی شدہ جوڑے رہتے ہیں، ہر جوڑا خوف اور جلد بازی کے عالم میں دم سادھ کر اپنی جنسی ضرورت پوری کرے، ایک سال بعد بچوں کی آمد ہوجائے اور پھر یہ جائز ضرورت بھی چوری چھپے کا کھیل بن جائے تو ایسے میں جنسی تسکین کیا خاک ملے گی۔ ہم نے انسان کی اس اہم ضرورت کو اتنا دبا دیا ہے کہ ذہنی طور پر ہمارا معاشرہ پوری طرح انتشار اور خلفشار کا شکار ہوچکا ہے، ہم پر تحقیق، جستجو اور تخلیق کے دروازے بند ہوچکے ہیں، کیونکہ ہم نے اپنے معاشرے کو بنیادی انسانی ضروریات کے چکر سے ہی نہیں نکلنے دیا، جس شخص کو جنسی تسکین حاصل نہ ہو، اسکا ذہن کسی قسم کے تخلیقی کام کے قابل نہیں رہتا، اس کے ذہن پر ہر وقت عورت سوار رہتی ہے۔ کیا وجہ ہے کہ ہر قسم کے نئے آئیڈیاز، دریافتیں اور ایجادات یورپ اور ان معاشروں سے آرہی ہیں جہاں لوگوں کو جنسی اور فکری آزادی میسر ہے۔۔ سوچیے اور بار بار سوچیے کہ سوچنے پر پابندی نہیں۔