مونس اور پرویز الہیٰ عمران خان کے بیانیے کوغلط ثابت کررہے ہیں؟تجزیہ کار

monis-ealhi-imran-khan-ppt.jpg


جیو کے پروگرام ”رپورٹ کارڈ“ میں میزبان مبشر ہاشمی نے سوال کیا کہ کیا مونس الٰہی اور پرویز الٰہی کے بیانات عمران خان کے بیانئے کو غلط ثابت کررہے ہیں؟ جواب میں تجزیہ کاروں نے کہا کہ پرویز الٰہی اور عمران خان کی جدائی کا وقت آیا ہی چاہتا ہے.

سلیم صافی نے کہا کہ ق لیگ اور پی ٹی آئی دونوں میں صرف اسٹیبلشمنٹ ہی قدر مشترک ہے، عمران خان اسٹیبلشمنٹ کے کاندھوں پر اقتدار تک پہنچے جبکہ چوہدری خاندان کی سیاست بھی اسٹیبلشمنٹ کے سہاروں کی مرہون منت ہے.

اسٹیبلشمنٹ نے ق لیگ اور پی ٹی آئی کا اتحاد بالجبر تو بنادیا لیکن عمران خان مونس الٰہی کو وزیر نہیں بنانا چاہتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان 2002 تک مشرف کے ساتھ تھے اور لاڈلا نمبر ون بننا چاہتے تھے مگر اس وقت ق لیگ ان کی آنکھ کا تارا تھا۔ اس پر بھی پھر ان میں اختلاف ہوا۔


ریما عمر نے کہا کہ عمران خان کو جب اقتدار سے ہٹایا گیا تو وہ امریکی سازش کا ذکر کرتے تھے وہ بتائیں کہ اس کا کیا ہوا اب تو وہ اس کا ذکر بھی نہیں کرتے۔ وہ جنرل باجوہ پر الزام تو لگاتے ہیں مگر آخری وقت تک وہ انہیں مزید توسیع دینا چاہتے تھے۔

سہیل وڑائچ نے کہا کہ پرویز الہیٰ کو یہ سوٹ نہیں کرتا کہ وہ پہلے عمران خان کے ساتھ ملیں اور پھر ان سے علیحدہ ہو کر اپنا راستہ ڈھونڈیں۔ انہوں نے کہا مجھے لگتا ہے کہ اب وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الہیٰ عمران خان کے کہنے پر اسمبلیاں بھی توڑیں گے اور سیاست بھی انہی کے کہنے پر کریں گے۔

ارشاد بھٹی نے کہا کہ جب عمران خان نے کہا کہ آؤ بیٹھو بات کرو تو حکومت نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ ڈر گیا ہے فیس سیونگ مانگ رہا ہے۔ عمران خان نے یہ تو بتا دیا کہ اسٹیبلشمنٹ پیچھے نہ ہٹتی تو حکومت بچ سکتی تھی مگر یہ نہیں کہا کہ وہ آئے کیسے تھے۔

انہوں نے کہا کسی جانے والے کو غدار اور آنے والے کو فرشتہ نہیں کہا جا سکتا اور نہ ہی اپنی ساری ناکامیوں کا ملبہ کسی کے اوپر ڈالا جا سکتا ہے۔