سب سے پہلے تو طارق جمیل صاحب میں آپ کو سلام پیش کرتا ہوں کہ آپ نے قوم اور بلخصوص میڈیا کو جو آئینہ دکھایا ہے کیا کہنے _
میڈیا ہے کیا؟ خبر کی دنیا یعنی جو ہوا اس کو من و عن عام آدمی تک پہنچانا_ اس کے بعد تحقیقی خبروں کا نمبر آتا ہے کہ جو ہو رہا ہے لیکن خاص وعام کو پتہ نہیں اور نہ ہی پتا لگ پاے گا اس کو "بے نام سورس" کے کاندھے پر رکھ کر اس کے پیچھے چھپ کر خبر پھیلانا اور جب پھنس جانا تو
"سورس نہیں بتا سکتا" کی گردان کرتے صاف نکل جانا یعنی "ہینگ لگے نہ پھٹکری ، رنگ بھی چوکھا آے" مطلب عزتیں بھی اچھالو اور بدلے میں اپنے لیے عزت چاہو؟ کبھی ایسا ہوا ہے کے "کوئلے کا دلال، چونا گر" دکھائی دے؟
مولانا صاحب آپ کو پھر سلام کے عوام ان دو ٹکے بلکہ ٹکے ٹکے کے اینکرز کو جو سمجھتی ہے یعنی "رج کے جھوٹا" وہ آپ نے انہیں ان کے منہ پر کہا اور جو جو حقیقتا "جھوٹا ہے" اسے آئینہ دیکھتے ہی آگ لگ گئی _
اور جو کل تک "سورس" کی دکان کرتے تھے وہ چینل کا نام بتانے کی بھیک مانگتے نظر آے کیونکہ آج اپنے کپڑے جو اتر گئے _