پاکستان تحریک انصاف کے سینئر رہنما میاں جاوید لطیف نے نجی ٹی وی چینل اے آر وائے نیوز کے پروگرام میںایک سوال کہ "6 ججز کے خط والے معاملے پر وزیراعظم شہبازشریف نوازشریف کی رائے سے متفق ہیں؟" کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ پارٹی کی اکثریت (95 فیصد) کا خیال ہے کہ ججز کے خط والے معاملے میں ہمیں بھی فریق بننا چاہیے۔
جب ہماری سیاسی جماعت کی قیادت حتمی طور پر فیصلہ کر لے گی تو پھر مسلم لیگ ن کے صدر شہبازشریف سے بھی رائے لی جائے گی جس کے بعد ہی وہ اپنی رائے دیں گے۔
جاوید لطیف کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ میں یہ کیس زیرالتواء اور زیربحث ہے، میں اس پر زیادہ بات کیے گئے کہوں گا کہ حکومت کا موقف وہی ہے جو خط کے بعد اختیار کیا گیا مگر ہم یہ کہتے ہیں کہ اب دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہونا چاہیے، کہیں سے شروعات تو ہو۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کا ازخود نوٹس حکومتی پریس کانفرنس کے بعد لیا گیا اس لیے ہم فریق بننے کا سوچ رہے ہیں، اس سے پہلے ایسی کوئی بات نہیں تھی۔
انہوں نے کہا کہ 2008ء میں جب آصف علی زرداری صدر مملکت تھے اور سپریم کورٹ میں ذوالفقار علی بھٹو کے ایک ریفرنس کی درخواست کی تھی۔ میری ذاتی رائے میں موجودہ حکومت اور وزیراعظم کو بھی اس کیس میں فریق بننا چاہیے تاکہ پچھلے ادوار میں دباؤ میں لا کر ایسے فیصلے کیے گئے جس سے معیشت کا بیڑا غرق ہوا، مہنگائی آئی، پاکستان بے توقیر ہوا، دہشت گردی نے سر اٹھایا۔
انہوں نے کہا کہ منتخب وزیراعظم کو بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر ایک شخص کی خواہش پر اقتدار سے باہر نکال دیا گیا، ایسے تمام فیصلوں کو ازخود نوٹس میں ڈسکس ہونا چاہیے تاکہ آئندہ کسی دوتہائی اکثریت رکھنے والے وزیراعظم کو ہٹایا نہ جا سکے۔ فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے پر ریفرنس جن کے کہنے اور جس نے فائل کروایا ان دونوں کو کٹہرے میں لانا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ جسٹس سیٹھ وقار جنہوں نے ایک آمر کے حوالے سے فیصلہ دیا تو اس وقت کی حکومت نے کہا کہ ان کا دماغی توازن چیک کروانا چاہیے یہ معاملہ بھی دیکھنا چاہیے۔ ریاست اداروں سے انصاف مانگ رہی ہے کہ مجھ پر حملہ کرنے والوں کو کیوں لاڈلا بنا کر رکھا گیا ہے؟ ایک ہفتے میں 3 سزائیں دے دی جاتی ہیں اور الیکشن گزرنے پر معطل بھی ہو جاتی ہیں تو 11 مہینوں میں 9 مئی کے ملزموں کو سزا کیوں نہیں دے سکتے؟ یا کہیں وہ بے گناہ ہیں انہیں چھوڑ دیں۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لیا ہے اپنے اداروں کے لوگوں کے خط لکھنے پر، اسی ادارے کے پچھلے 5 ججز جن کے فیصلوں سے ریاست کا نقصان ہوا وہ بھی بتایا جائے کہ انہوں نے وہ فیصلے کس کے دبائو میں کیے؟ آج ججز کہہ رہے ہیں کہ ان پر دبائو ہے تو یہ دبائو کن کیسز کے حوالے سے ہے اور کون ڈال رہا ہے یہ سامنے آنا چاہیے۔