بچے تو بچے ہی ہوتے ہیں۔ان کی چھوٹی چھوٹی خوشیاں اور بڑی بڑی خواہشیں ہنس کر نظر انداز کر دینا ہی مناسب ہوتا ہے مگر جب ان کے لگائے گئے قہقہے پر غور کریں توآخر میں نکلتی ہوئی بے بسی،نا کامی اور نا مرادی کی تکلیف دہ چیخ کا منظر ابھرتا ہے۔ اس سے چوٹ دل پر لگتی ہے ، غصہ شدت اختیار کر جاتا ہے اوراپنے اندر کی بھڑاس نکالنے کے لئے کی بورڈ ہی آخری سہارا ہوتا ہے۔ سو ان کے لئے تو دعا ہی کی جا سکتی ہے۔
رہی بات اسلام آباد کے حالیہ دھرنے ، اور اس کے نپٹنے کے حکومتی طریقہ کار کی، تو اسے ایک دانشمندانہ،حکمت عملی کہا جا سکتا ہے۔ پوری کاروائی سوچے سمجھے منصوبے کی مطابق کی گئی جس سے ایک غلط بنیاد پر بوڑھوں اور بچوں کی ہیومن شیلڈ کے بل کرحکومت کوگالیاں بک کر، قومی قیمتی املاک کو نقصان پہنچا کر کوشش کی گئی کہ خونی کاروائی کا ماحول بنایا جائے۔ مگر حکومت نے جمہوری حکومت ہونے کا ثبوت دینے ہوئے صبر اور ضبط سے کام لیا۔اس حقیقت کو مد نظر رکھا گیا کہ مذہبی معاملات کو حکمت و دانائی سے سلجھانا ہی بہتر راستہ ہے ،سختی اور تشدد سے معاملات کبھی نہیں سلجھتے ۔ یہی وجہ ہے کہ سیچوئیشن تو یہ بن گئی تھی کہ دھرنے کی ایک شریک کے مقابلے میں چھ سپاہی تھے اور انہیں جب چاہے مسلا جا سکتا تھا مگر دانائی اور حکمت سے کام لیتے ہوئے پھر بھی انہیں با عزت واپسی کا راستہ دیا گیا۔ اور جن شرائط پر دھرنا ختم ہوا اسے کوئی بھی عقل مند پڑھ کر سمجھ سکتا ہے کہ حکومت نے انہیں کیا دیا۔حکومت نے کچھ گنوائے بنا اپنا مقصد احسن طریقے سے حاصل کر لیا۔
اس دھرنے میں میڈیا کا گھناونا چہرہ ایک بار پھر سامنے آیا۔ عمران کے دھرنے کو سپورٹ کرنے والے جو دن رات اسے توانائی بخش رہے تھے۔ اس دھرنے کے موقعے پر شعلے اگل رہے تھے کہ ان مولویوں کو رعایت کیوں دی جا رہی ہے۔ ان کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے کیوں نہیں نمٹا جاتا۔ اگرچہ یہ اصولی بات تھی مگر انہیں خان کے دھرنے کے وقت یہ سب بھولا ہوا تھا۔اس سے نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ ان کے اندر بھی مروڑ یہی اٹھ رہے تھے کہ کوئی خون خرابہ کیوں نہیں ہو رہا۔ سچی بات ہے یہ بچے ہی نہیں یہ نام نہاد میڈیا پرسنز بھی اپنی ناکام حسرتیں ان مولانا حضرات کے خلاف ایکشن اور اس کے رد عمل میں ملک گیر احتجاجی تحریک،خون خرابے اور باالاخر حکومت کے خاتمے کے خوابوںسے پوری ہوتی محسوس کر رہے تھے۔ لیکن سچ ہے،
حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مرجھا گئے۔