معاشرے کی ترقی کیلئے صحت مند سیکس کتنا ضروری؟

M_Shameer

Councller (250+ posts)
کسی بھی معاشرے کی ترقی کیلئے اس معاشرے کے افراد کو صحت مند سیکس کا ماحول ملنا نہایت ضروری ہے۔ بالغ ہونے کے بعد لڑکا ہو یا لڑکی دونوں کیلئے سب سے شدید خواہش اور ضرورت سیکس کی ہوتی ہے۔ جیسے انسان کو بھوک لگنے پر کھانا اور پیاس لگنے پر پانی کی ضرورت ہوتی ہے ویسے ہی بالغ انسان کو سیکس کی ضرورت ہوتی ہے۔ جس طرح ایک بھوکے انسان کو جب تک پیٹ بھر کر کھانا نہ ملے تب تک اس کے دماغ پر صرف روٹی کی خواہش ہی چھائی رہے گی، ایسا ہی جب کسی بالغ انسان کو سیکس نہ ملے تو اس کے ذہن پر صرف اور صرف سیکس کے خیالات ہی چھائے رہیں گے۔ ایک صحت مند سیکس معاشرے کے افراد کو جنسی طور پر آسودہ کرکے ان کے ذہن کو باقی کاموں کیلئے آزاد کردیتا ہے، پھر انسان نئے نئے آئیڈیاز سوچتا ہے،، نئی دریافتیں کرتا ہے، دنیا کو نئی چیزیں دیتا ہے۔ صحت مند سیکس سے میری مراد ایسا سیکس ہےمیں جس میں کوئی شخص اپنی پسند کے پارٹنر کے ساتھ بغیر کسی پابندی اور روک ٹوک کے مکمل پرائیویسی کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرے۔ جب کوئی انسان ایک صحت مند سیکس کرتا ہے تو اس کا دماغ سیروٹونن، آکسی ٹوسن اور ڈوپامین جیسے کیمیکلز ریلیز کرتا ہے، جس سے انسان کا پورا بدن خوشی، مسرت سے بھر جاتا ہے ،اس میں نیا جذبہ پیدا ہوتا ہے، دنیا پر چھا جانے کی خواہش پیدا ہوتی ہے۔ اس سے نہ صرف اس کی دماغی صحت بہتر ہوتی ہے بلکہ جسمانی صحت بھی بہتر ہوتی ہے۔

دیگر مسلم معاشروں کی طرح پاکستان میں بھی سیکس کو شادی کے ساتھ نتھی کردیا گیا ہے۔ سیکس کو شادی کے ساتھ نتھی کرنے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ معاشرے کے افراد کو آزادانہ اپنی جنسی ضرورت پورا کرنے کا ماحول نہیں ملتا، پھر وہ چھپ چھپا کر چوری چھپے ایک دوسرے کے ساتھ اپنی جنسی ضرورت پوری کرتے ہیں۔ تقریباً 90 فیصد افراد شادی سے پہلے کسی نہ کسی طرح سیکس کرلیتے ہیں، مگر پھر بھی وہ جنسی طور پر آسودہ نہیں ہوپاتے۔ کیونکہ ایک تو وہ آزادانہ سیکس نہیں کرپاتے، ان کو اپنے ماں باپ سے، سماج سے چھپ چھپا کر کوئی جگہ تلاش کرنی ہوتی ہے، وہاں بھی سیکس کرتے وقت ان کے ذہن پر ڈر اور احساسِ گناہ سوار ہوتا ہے۔ ایسے میں سیکس کرکے بھی وہ جنسی طور پر فرسٹریٹڈ ہی رہتے ہیں۔ مزید برآں سیکس کوئی ایسی ضرورت نہیں جس کو مہینے میں ایک آدھ بار کرلیا تو ضرورت پوری ہوگئی، سیکس تو جسم کی اپنی طلب پر منحصر ہوتا ہے کہ کس کو دن میں یا ہفتے میں کتنی بار سیکس کی خواہش ہوتی ہے۔ ہر شخص ، ہر مرد اور عورت کو اپنی جسمانی خواہش کے حساب سے سیکس کرنے کی پوری آزادی ہو تب جاکر ان کے اندر سے جنسی فرسٹریشن ختم ہوتی ہے۔

جن معاشروں نے صدیوں پہلے کے مذہبی اصولوں کو فالو کرتے ہوئے بغیر شادی کے سیکس کو گناہ اور جرم قرار دیا ہے، وہ معاشرے اپنے افراد کو شادی سے پہلے سیکس کرنے سے روکنے سے تو ناکام رہے ہیں،ہاں مگر انہوں نے اس جاہلانہ پابندی سے اپنے معاشرے کے افراد کو ناکارہ اور فرسٹریٹڈ ضرور بنادیا ہے۔ آپ دیکھ لیں جن معاشروں میں سیکس کرنے کی آزادی ہے، وہاں کے افرادہر فیلڈ میں آگے ہیں، تعلیم میں آگے ہیں، شعور میں آگے ہیں، وہ نت نئی دریافتیں کرتے ہیں، نئی نئی ایجادات کرتے ہیں، دنیا کو نئی جہتوں سے روشناس کرواتے ہیں، دوسری طرف جن معاشروں میں سیکس پر بلاوجہ کی پابندیاں ہیں، وہاں ہر انسان کے ذہن پر سیکس سوار رہتا ہے،مردوں کے ذہن پر ہر وقت عورت سوار رہتی ہے، کسی بازار میں کسی آفس میں عورت ہو تو وہاں کے مردوں کی نگاہیں اسی کا طواف کرتی رہیں گی۔

ہمارے معاشروں میں ایک بہت بڑی غلط فہمی یہ بھی ہے کہ شادی سے جنسی آسودگی کا سامان ہوجاتا ہے، جبکہ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ ہمارے ہاں شادی اور جوائنٹ فیملی کا جو سسٹم ہے اس نے صحت مند سیکس کا تو قتل ہی کردیا ہے۔ ایک تو لڑکے لڑکی کو پسند کی شادی کی آزادی بہت کم ہے، دوسرا شادی کے بعد گھر میں جو ماحول ہوتا ہے، چھوٹے چھوٹے گھر ، کمروں کے ساتھ کمرے ٹھکے ہوتے ہیں، کئی کئی جوڑے چند مرلے کے ایک چھوٹے سے گھر میں رہ رہے ہوتے ہیں، بچوں کی یلغار ہوتی ہے، ایسے میں میاں بیوی کیلئے سیکس کرنا بہت بڑے سٹنگ آپریشن سے کم نہیں ہے۔ کیا ایسے ماحول میں پرسکون سیکس ہوسکتا ہے؟ میاں بیوی نے اپنی سانسیں اور آوازیں روک کر ، جلدی جلدی سیکس کی ضرورت کو پورا کرنا ہوتا ہے۔ اس موضوع پر منٹو کا افسانہ "ننگی آوازیں" پڑھنے لائق ہے۔

قصہ مختصر، اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ ترقی کرے آسودہ حال ہو تو ہمیں سب سے پہلے مذہبی جہالت پر مبنی بلاوجہ کی پابندیوں کو سیکس سے ہٹانا ہوگا۔ سیکس مرد اور عورت کی ایک جائز ضرورت ہے، اس ضرورت کو مرد اور عورت کو پورا کرنے کی پوری آزادی ہونی چاہئے۔ جب لوگوں کی یہ جائز ضرورت پوری ہوگی، ان کے ذہن سے جنسی فرسٹریشن ختم ہوجائے گی، تبھی ان کا دماغ کچھ کارآمد کرنے کے قابل ہوگا۔ سیکس کو شادی کے بندھن سے آزادکرنے کا ایک بہت بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ لڑکے اور لڑکی کی جلد شادی کرکے، ان پر بچوں اور ذمہ داریوں کا بوجھ نہیں ڈالنا پڑے گا، اس سے آبادی بھی کنٹرول میں رہے گی اور معاشرے کے افراد اپنی زندگی کے گولز کو بھی اچیو کرپائیں گے، کیونکہ زیادہ تر افراد سیکس کی ضرورت کو پوری کرنے کیلئے جب شادی کرتے ہیں تو ان کے گولز بیچ میں ہی رہ جاتے ہیں ، وہ میاں بیوی بچوں کے چکر میں الجھ کر اپنی زندگی برباد کربیٹھتے ہیں۔۔


iStock_000018249422Small.jpg
 

Azpir

MPA (400+ posts)
کسی بھی معاشرے کی ترقی کیلئے اس معاشرے کے افراد کو صحت مند سیکس کا ماحول ملنا نہایت ضروری ہے۔ بالغ ہونے کے بعد لڑکا ہو یا لڑکی دونوں کیلئے سب سے شدید خواہش اور ضرورت سیکس کی ہوتی ہے۔ جیسے انسان کو بھوک لگنے پر کھانا اور پیاس لگنے پر پانی کی ضرورت ہوتی ہے ویسے ہی بالغ انسان کو سیکس کی ضرورت ہوتی ہے۔ جس طرح ایک بھوکے انسان کو جب تک پیٹ بھر کر کھانا نہ ملے تب تک اس کے دماغ پر صرف روٹی کی خواہش ہی چھائی رہے گی، ایسا ہی جب کسی بالغ انسان کو سیکس نہ ملے تو اس کے ذہن پر صرف اور صرف سیکس کے خیالات ہی چھائے رہیں گے۔ ایک صحت مند سیکس معاشرے کے افراد کو جنسی طور پر آسودہ کرکے ان کے ذہن کو باقی کاموں کیلئے آزاد کردیتا ہے، پھر انسان نئے نئے آئیڈیاز سوچتا ہے،، نئی دریافتیں کرتا ہے، دنیا کو نئی چیزیں دیتا ہے۔ صحت مند سیکس سے میری مراد ایسا سیکس ہےمیں جس میں کوئی شخص اپنی پسند کے پارٹنر کے ساتھ بغیر کسی پابندی اور روک ٹوک کے مکمل پرائیویسی کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرے۔ جب کوئی انسان ایک صحت مند سیکس کرتا ہے تو اس کا دماغ سیروٹونن، آکسی ٹوسن اور ڈوپامین جیسے کیمیکلز ریلیز کرتا ہے، جس سے انسان کا پورا بدن خوشی، مسرت سے بھر جاتا ہے ،اس میں نیا جذبہ پیدا ہوتا ہے، دنیا پر چھا جانے کی خواہش پیدا ہوتی ہے۔ اس سے نہ صرف اس کی دماغی صحت بہتر ہوتی ہے بلکہ جسمانی صحت بھی بہتر ہوتی ہے۔

دیگر مسلم معاشروں کی طرح پاکستان میں بھی سیکس کو شادی کے ساتھ نتھی کردیا گیا ہے۔ سیکس کو شادی کے ساتھ نتھی کرنے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ معاشرے کے افراد کو آزادانہ اپنی جنسی ضرورت پورا کرنے کا ماحول نہیں ملتا، پھر وہ چھپ چھپا کر چوری چھپے ایک دوسرے کے ساتھ اپنی جنسی ضرورت پوری کرتے ہیں۔ تقریباً 90 فیصد افراد شادی سے پہلے کسی نہ کسی طرح سیکس کرلیتے ہیں، مگر پھر بھی وہ جنسی طور پر آسودہ نہیں ہوپاتے۔ کیونکہ ایک تو وہ آزادانہ سیکس نہیں کرپاتے، ان کو اپنے ماں باپ سے، سماج سے چھپ چھپا کر کوئی جگہ تلاش کرنی ہوتی ہے، وہاں بھی سیکس کرتے وقت ان کے ذہن پر ڈر اور احساسِ گناہ سوار ہوتا ہے۔ ایسے میں سیکس کرکے بھی وہ جنسی طور پر فرسٹریٹڈ ہی رہتے ہیں۔ مزید برآں سیکس کوئی ایسی ضرورت نہیں جس کو مہینے میں ایک آدھ بار کرلیا تو ضرورت پوری ہوگئی، سیکس تو جسم کی اپنی طلب پر منحصر ہوتا ہے کہ کس کو دن میں یا ہفتے میں کتنی بار سیکس کی خواہش ہوتی ہے۔ ہر شخص ، ہر مرد اور عورت کو اپنی جسمانی خواہش کے حساب سے سیکس کرنے کی پوری آزادی ہو تب جاکر ان کے اندر سے جنسی فرسٹریشن ختم ہوتی ہے۔

جن معاشروں نے صدیوں پہلے کے مذہبی اصولوں کو فالو کرتے ہوئے بغیر شادی کے سیکس کو گناہ اور جرم قرار دیا ہے، وہ معاشرے اپنے افراد کو شادی سے پہلے سیکس کرنے سے روکنے سے تو ناکام رہے ہیں،ہاں مگر انہوں نے اس جاہلانہ پابندی سے اپنے معاشرے کے افراد کو ناکارہ اور فرسٹریٹڈ ضرور بنادیا ہے۔ آپ دیکھ لیں جن معاشروں میں سیکس کرنے کی آزادی ہے، وہاں کے افرادہر فیلڈ میں آگے ہیں، تعلیم میں آگے ہیں، شعور میں آگے ہیں، وہ نت نئی دریافتیں کرتے ہیں، نئی نئی ایجادات کرتے ہیں، دنیا کو نئی جہتوں سے روشناس کرواتے ہیں، دوسری طرف جن معاشروں میں سیکس پر بلاوجہ کی پابندیاں ہیں، وہاں ہر انسان کے ذہن پر سیکس سوار رہتا ہے،مردوں کے ذہن پر ہر وقت عورت سوار رہتی ہے، کسی بازار میں کسی آفس میں عورت ہو تو وہاں کے مردوں کی نگاہیں اسی کا طواف کرتی رہیں گی۔

ہمارے معاشروں میں ایک بہت بڑی غلط فہمی یہ بھی ہے کہ شادی سے جنسی آسودگی کا سامان ہوجاتا ہے، جبکہ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ ہمارے ہاں شادی اور جوائنٹ فیملی کا جو سسٹم ہے اس نے صحت مند سیکس کا تو قتل ہی کردیا ہے۔ ایک تو لڑکے لڑکی کو پسند کی شادی کی آزادی بہت کم ہے، دوسرا شادی کے بعد گھر میں جو ماحول ہوتا ہے، چھوٹے چھوٹے گھر ، کمروں کے ساتھ کمرے ٹھکے ہوتے ہیں، کئی کئی جوڑے چند مرلے کے ایک چھوٹے سے گھر میں رہ رہے ہوتے ہیں، بچوں کی یلغار ہوتی ہے، ایسے میں میاں بیوی کیلئے سیکس کرنا بہت بڑے سٹنگ آپریشن سے کم نہیں ہے۔ کیا ایسے ماحول میں پرسکون سیکس ہوسکتا ہے؟ میاں بیوی نے اپنی سانسیں اور آوازیں روک کر ، جلدی جلدی سیکس کی ضرورت کو پورا کرنا ہوتا ہے۔ اس موضوع پر منٹو کا افسانہ "ننگی آوازیں" پڑھنے لائق ہے۔

قصہ مختصر، اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ ترقی کرے آسودہ حال ہو تو ہمیں سب سے پہلے مذہبی جہالت پر مبنی بلاوجہ کی پابندیوں کو سیکس سے ہٹانا ہوگا۔ سیکس مرد اور عورت کی ایک جائز ضرورت ہے، اس ضرورت کو مرد اور عورت کو پورا کرنے کی پوری آزادی ہونی چاہئے۔ جب لوگوں کی یہ جائز ضرورت پوری ہوگی، ان کے ذہن سے جنسی فرسٹریشن ختم ہوجائے گی، تبھی ان کا دماغ کچھ کارآمد کرنے کے قابل ہوگا۔ سیکس کو شادی کے بندھن سے آزادکرنے کا ایک بہت بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ لڑکے اور لڑکی کی جلد شادی کرکے، ان پر بچوں اور ذمہ داریوں کا بوجھ نہیں ڈالنا پڑے گا، اس سے آبادی بھی کنٹرول میں رہے گی اور معاشرے کے افراد اپنی زندگی کے گولز کو بھی اچیو کرپائیں گے، کیونکہ زیادہ تر افراد سیکس کی ضرورت کو پوری کرنے کیلئے جب شادی کرتے ہیں تو ان کے گولز بیچ میں ہی رہ جاتے ہیں ، وہ میاں بیوی بچوں کے چکر میں الجھ کر اپنی زندگی برباد کربیٹھتے ہیں۔۔


iStock_000018249422Small.jpg
Acha? Apni didiyo ko bhaij Takay sex ki zarurat pori Kar sakain. They must be so horny .... Hurry up.
Panchoda
 
Last edited:

A.G.Uddin

Minister (2k+ posts)
Paak army wants bigger gigantic luns to satisfy there desires they needed on daily basis madar chod khasee phouj badges laga ker gando masoom awaam per zulim kertay hain inkee maoun baunoun baituyoun kee bajao
PTI despite having massive mandate will still struggle and whine coz they are not smart like Miyaan Saab. Look at PDM government and Military establishment how shrewd (and screwed) they are. PML-N , PPP and MQM-P together with few others are having an orgy or group sex; and Rawalpindi has provided them with strong Viagra (even though it's already expired) . Jahangir Tareen and other leaders of Istehkaam-e-Pakistan are leaving or have already left coalition....a symptom of premature ejaculation.
So PML-N is showing live cam to Imran Ahmed Khan Niazi where it's enjoying and making noises. It's saying "Niazi, you can't fU(|< me but I am enjoying these moments with others"
 

Rambler

Chief Minister (5k+ posts)
کسی بھی معاشرے کی ترقی کیلئے اس معاشرے کے افراد کو صحت مند سیکس کا ماحول ملنا نہایت ضروری ہے۔ بالغ ہونے کے بعد لڑکا ہو یا لڑکی دونوں کیلئے سب سے شدید خواہش اور ضرورت سیکس کی ہوتی ہے۔ جیسے انسان کو بھوک لگنے پر کھانا اور پیاس لگنے پر پانی کی ضرورت ہوتی ہے ویسے ہی بالغ انسان کو سیکس کی ضرورت ہوتی ہے۔ جس طرح ایک بھوکے انسان کو جب تک پیٹ بھر کر کھانا نہ ملے تب تک اس کے دماغ پر صرف روٹی کی خواہش ہی چھائی رہے گی، ایسا ہی جب کسی بالغ انسان کو سیکس نہ ملے تو اس کے ذہن پر صرف اور صرف سیکس کے خیالات ہی چھائے رہیں گے۔ ایک صحت مند سیکس معاشرے کے افراد کو جنسی طور پر آسودہ کرکے ان کے ذہن کو باقی کاموں کیلئے آزاد کردیتا ہے، پھر انسان نئے نئے آئیڈیاز سوچتا ہے،، نئی دریافتیں کرتا ہے، دنیا کو نئی چیزیں دیتا ہے۔ صحت مند سیکس سے میری مراد ایسا سیکس ہےمیں جس میں کوئی شخص اپنی پسند کے پارٹنر کے ساتھ بغیر کسی پابندی اور روک ٹوک کے مکمل پرائیویسی کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرے۔ جب کوئی انسان ایک صحت مند سیکس کرتا ہے تو اس کا دماغ سیروٹونن، آکسی ٹوسن اور ڈوپامین جیسے کیمیکلز ریلیز کرتا ہے، جس سے انسان کا پورا بدن خوشی، مسرت سے بھر جاتا ہے ،اس میں نیا جذبہ پیدا ہوتا ہے، دنیا پر چھا جانے کی خواہش پیدا ہوتی ہے۔ اس سے نہ صرف اس کی دماغی صحت بہتر ہوتی ہے بلکہ جسمانی صحت بھی بہتر ہوتی ہے۔

دیگر مسلم معاشروں کی طرح پاکستان میں بھی سیکس کو شادی کے ساتھ نتھی کردیا گیا ہے۔ سیکس کو شادی کے ساتھ نتھی کرنے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ معاشرے کے افراد کو آزادانہ اپنی جنسی ضرورت پورا کرنے کا ماحول نہیں ملتا، پھر وہ چھپ چھپا کر چوری چھپے ایک دوسرے کے ساتھ اپنی جنسی ضرورت پوری کرتے ہیں۔ تقریباً 90 فیصد افراد شادی سے پہلے کسی نہ کسی طرح سیکس کرلیتے ہیں، مگر پھر بھی وہ جنسی طور پر آسودہ نہیں ہوپاتے۔ کیونکہ ایک تو وہ آزادانہ سیکس نہیں کرپاتے، ان کو اپنے ماں باپ سے، سماج سے چھپ چھپا کر کوئی جگہ تلاش کرنی ہوتی ہے، وہاں بھی سیکس کرتے وقت ان کے ذہن پر ڈر اور احساسِ گناہ سوار ہوتا ہے۔ ایسے میں سیکس کرکے بھی وہ جنسی طور پر فرسٹریٹڈ ہی رہتے ہیں۔ مزید برآں سیکس کوئی ایسی ضرورت نہیں جس کو مہینے میں ایک آدھ بار کرلیا تو ضرورت پوری ہوگئی، سیکس تو جسم کی اپنی طلب پر منحصر ہوتا ہے کہ کس کو دن میں یا ہفتے میں کتنی بار سیکس کی خواہش ہوتی ہے۔ ہر شخص ، ہر مرد اور عورت کو اپنی جسمانی خواہش کے حساب سے سیکس کرنے کی پوری آزادی ہو تب جاکر ان کے اندر سے جنسی فرسٹریشن ختم ہوتی ہے۔

جن معاشروں نے صدیوں پہلے کے مذہبی اصولوں کو فالو کرتے ہوئے بغیر شادی کے سیکس کو گناہ اور جرم قرار دیا ہے، وہ معاشرے اپنے افراد کو شادی سے پہلے سیکس کرنے سے روکنے سے تو ناکام رہے ہیں،ہاں مگر انہوں نے اس جاہلانہ پابندی سے اپنے معاشرے کے افراد کو ناکارہ اور فرسٹریٹڈ ضرور بنادیا ہے۔ آپ دیکھ لیں جن معاشروں میں سیکس کرنے کی آزادی ہے، وہاں کے افرادہر فیلڈ میں آگے ہیں، تعلیم میں آگے ہیں، شعور میں آگے ہیں، وہ نت نئی دریافتیں کرتے ہیں، نئی نئی ایجادات کرتے ہیں، دنیا کو نئی جہتوں سے روشناس کرواتے ہیں، دوسری طرف جن معاشروں میں سیکس پر بلاوجہ کی پابندیاں ہیں، وہاں ہر انسان کے ذہن پر سیکس سوار رہتا ہے،مردوں کے ذہن پر ہر وقت عورت سوار رہتی ہے، کسی بازار میں کسی آفس میں عورت ہو تو وہاں کے مردوں کی نگاہیں اسی کا طواف کرتی رہیں گی۔

ہمارے معاشروں میں ایک بہت بڑی غلط فہمی یہ بھی ہے کہ شادی سے جنسی آسودگی کا سامان ہوجاتا ہے، جبکہ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ ہمارے ہاں شادی اور جوائنٹ فیملی کا جو سسٹم ہے اس نے صحت مند سیکس کا تو قتل ہی کردیا ہے۔ ایک تو لڑکے لڑکی کو پسند کی شادی کی آزادی بہت کم ہے، دوسرا شادی کے بعد گھر میں جو ماحول ہوتا ہے، چھوٹے چھوٹے گھر ، کمروں کے ساتھ کمرے ٹھکے ہوتے ہیں، کئی کئی جوڑے چند مرلے کے ایک چھوٹے سے گھر میں رہ رہے ہوتے ہیں، بچوں کی یلغار ہوتی ہے، ایسے میں میاں بیوی کیلئے سیکس کرنا بہت بڑے سٹنگ آپریشن سے کم نہیں ہے۔ کیا ایسے ماحول میں پرسکون سیکس ہوسکتا ہے؟ میاں بیوی نے اپنی سانسیں اور آوازیں روک کر ، جلدی جلدی سیکس کی ضرورت کو پورا کرنا ہوتا ہے۔ اس موضوع پر منٹو کا افسانہ "ننگی آوازیں" پڑھنے لائق ہے۔

قصہ مختصر، اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ ترقی کرے آسودہ حال ہو تو ہمیں سب سے پہلے مذہبی جہالت پر مبنی بلاوجہ کی پابندیوں کو سیکس سے ہٹانا ہوگا۔ سیکس مرد اور عورت کی ایک جائز ضرورت ہے، اس ضرورت کو مرد اور عورت کو پورا کرنے کی پوری آزادی ہونی چاہئے۔ جب لوگوں کی یہ جائز ضرورت پوری ہوگی، ان کے ذہن سے جنسی فرسٹریشن ختم ہوجائے گی، تبھی ان کا دماغ کچھ کارآمد کرنے کے قابل ہوگا۔ سیکس کو شادی کے بندھن سے آزادکرنے کا ایک بہت بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ لڑکے اور لڑکی کی جلد شادی کرکے، ان پر بچوں اور ذمہ داریوں کا بوجھ نہیں ڈالنا پڑے گا، اس سے آبادی بھی کنٹرول میں رہے گی اور معاشرے کے افراد اپنی زندگی کے گولز کو بھی اچیو کرپائیں گے، کیونکہ زیادہ تر افراد سیکس کی ضرورت کو پوری کرنے کیلئے جب شادی کرتے ہیں تو ان کے گولز بیچ میں ہی رہ جاتے ہیں ، وہ میاں بیوی بچوں کے چکر میں الجھ کر اپنی زندگی برباد کربیٹھتے ہیں۔۔


iStock_000018249422Small.jpg

You must be a follower of sadfar chowkidar and MarYumm Qatari - Safdar allegedly was enjoying double shifts with mother and daughter and MarYumm Al Qatari’s exploits are well known. I am sure you would not have spared your mom and sisters?
 

nasir77

Chief Minister (5k+ posts)
HEALTHY SEX MAIN, LOGON KE SHALWARIAN OTTAR KER VIDEO BANA NA AUR APNI BEGMAAT K SAATH SHARE KERNA BHE ATA HAI !!! CREDIT GOES TO HAFAZ G !! PM SHALWAAR SHARIF !!
 

Noworriesbehappy

Councller (250+ posts)
These changes happen gradually in any culture. You can only be sure of one thing nothing stays the same. Change always happens.

One of the big misconceptions about sex education, in Pakistan, is that it shows children how to have sex but it tells them about what part of their body is private, what is bad touch, and what they should do if someone touches them.
Another issue is the lack of awareness about STDs. As religion is on the decline, the new generation will be less inclined to follow these old practices.
 

Rambler

Chief Minister (5k+ posts)
These changes happen gradually in any culture. You can only be sure of one thing nothing stays the same. Change always happens.

One of the big misconceptions about sex education, in Pakistan, is that it shows children how to have sex but it tells them about what part of their body is private, what is bad touch, and what they should do if someone touches them.
Another issue is the lack of awareness about STDs. As religion is on the decline, the new generation will be less inclined to follow these old practices.

There are not many people who agree with you and M_Shameer. You should both exchange addresses so that at least you two can enjoy free sex at each others homes.
 

Wake up Pak

Prime Minister (20k+ posts)
Sex is a natural process that is desired by both genders. Sex does release serotonin, dopamine & oxytocin which is a healthy process, however, it does not mean that you should have premarital sex.
Society in the West is coming to terms with the idea that premarital sex may offer temporary satisfaction but has long-term consequences.
In higher education settings, some students engage in premarital sexual behaviors, which can result in sexually transmitted diseases, unintended pregnancies, and abortions, ultimately harming the moral fabric of society.
 

atensari

(50k+ posts) بابائے فورم
ترقی کرنے کی ایسی دیگ ایک تھکا ہوا پسماندہ دماغ ہی پکا سکتا ہے۔ عوام معیاری تعلیم کے یکساں مواقع مت دو، عدالتوں میں انصاف نا ہو، دفاتر سے رشوت و سفارش مے ختم کرو، حکمرانوں کو قومی مفادات کا سودا کرنے دو۔ پیھرا لگا آیا کرو ترقی ہو جائے گی۔ واہ بھئی واہ۔​
 

Wake up Pak

Prime Minister (20k+ posts)
ترقی کرنے کی ایسی دیگ ایک تھکا ہوا پسماندہ دماغ ہی پکا سکتا ہے۔ عوام معیاری تعلیم کے یکساں مواقع مت دو، عدالتوں میں انصاف نا ہو، دفاتر سے رشوت و سفارش مے ختم کرو، حکمرانوں کو قومی مفادات کا سودا کرنے دو۔ پیھرا لگا آیا کرو ترقی ہو جائے گی۔ واہ بھئی واہ۔​
Baqool M_Shameer kay Inn sub batoon ka hal siraf premarital sex hay 😁 🤣
 

M_Shameer

Councller (250+ posts)
ترقی کرنے کی ایسی دیگ ایک تھکا ہوا پسماندہ دماغ ہی پکا سکتا ہے۔ عوام معیاری تعلیم کے یکساں مواقع مت دو، عدالتوں میں انصاف نا ہو، دفاتر سے رشوت و سفارش مے ختم کرو، حکمرانوں کو قومی مفادات کا سودا کرنے دو۔ پیھرا لگا آیا کرو ترقی ہو جائے گی۔ واہ بھئی واہ۔​

مولوی صاحب۔۔ ترقی کے جو لوازمات آپ نے گنوائے ہیں، پچھلی کئی صدیوں کی خجل خرابی کے باوجود مسلم ممالک وہ اپنے معاشروں میں کیوں نہ دے سکے؟ اس کے پیچھے کوئی روٹ کاز سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہے آپ کا ننھا سا دماغ؟ کہیں اس کی وجہ وہ دقیانوسی اصول تو نہیں جن کو یہ معاشرے پچھلی چودہ صدیوں سے جونکوں کی طرح چمٹ کر بیٹھے ہیں۔۔۔
 

M_Shameer

Councller (250+ posts)
Sex is a natural process that is desired by both genders. Sex does release serotonin, dopamine & oxytocin which is a healthy process, however, it does not mean that you should have premarital sex.
Society in the West is coming to terms with the idea that premarital sex may offer temporary satisfaction but has long-term consequences.
In higher education settings, some students engage in premarital sexual behaviors, which can result in sexually transmitted diseases, unintended pregnancies, and abortions, ultimately harming the moral fabric of society.

موریلٹی ایک سبجیکٹیو میٹر ہے، مغرب کو ایک طرف بھی رکھیں تو حالیہ چند دہائیوں میں جن معاشروں نے ترقی کی ہے جیسا کہ ساؤتھ کوریا، سنگاپور، ہانگ کانگ اور چائنا وغیرہ، ان کی ترقی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ یہاں مذہب کی رکاوٹ اور سیکس پر پابندی نہیں ہے۔۔ جبکہ مسلم معاشرے صدیوں سے پرانی زنجیریں پہن کر گھسٹ رہے ہیں اور ابھی تک وہیں کے وہیں اٹکے ہیں۔ نہ انہوں نے انسانی فطرت، مزاج اور نفسیات کو سمجھا، نہ اس حساب سے اپنے معاشرے تشکیل دیئے۔۔