Muslimonly
Senator (1k+ posts)

مصر: سادہ لوحی لے ڈوبی۔۔۔
طارق رمضان
مجھ سے اکثر یہ سوال کیا جاتا ہے کہ میں دو سال سے مصر کیوں نہیں گیا ہوں جہاں اٹھارہ سال سے میرے داخلے پر پابندی عائد تھی۔ میں نے سوئس اور مصری حکام کی معرفت یہ بات جان رکھی تھی کہ مصر میں فوج نے سیاسی معاملات اپنے ہاتھ میں رکھے تھے اور کسی بھی مرحلے پر اقتدار سے دستبردار نہیں ہوئی تھی۔
مصر میں عوامی بیداری اور ’’عرب اسپرنگ‘‘ کے حوالے سے جو جوش و خروش پایا جاتا تھا میں اس کے حوالے سے کبھی خوش گمانی کا شکار نہیں ہوا۔ مجھے اندازہ تھا کہ تیونس کی طرح مصر میں رونما ہونے والے واقعات وقتی ابال کا نتیجہ ہیں، ٹھوس تبدیلیوں کے نقیب ہرگز نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مصر اور تیونس کے لوگ ایک طویل مدت سے آمریت کو بھگتتے آرہے تھے۔ انہوں نے سیاسی، معاشی اور معاشرتی سطح پر پائی جانے والی نا انصافی کے خلاف آواز بلند کی، سڑکوں پر آئے، جانیں بھی قربان کیں۔ یہ سب کچھ ایسا ہے کہ جسے خراجِ عقیدت پیش کیا جانا چاہیے مگر کسی بڑی اور حقیقی تبدیلی کی توقع رکھنا خام خیالی کے سِوا کچھ نہ ہوگا۔ میں نے دو برس کے دوران ایک کتاب اور متعدد مضامین کے ذریعے اپنے قارئین کو یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ مصر اور تیونس میں انقلاب کے نام پر جو کچھ بھی رونما ہوا ہے اس میں بہت سے زمینی حقائق کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ ایک لہر تھی جو چل پڑی تو حواس بھی بہا لے گئی۔
یہ کہنا سادہ لوحی ہے کہ مصر کی فوج سیاست میں واپس آگئی ہے۔ وہ گئی ہی کب تھی؟ حسنی مبارک کا زوال در اصل فوجی بغاوت تھی، جس کا مقصد سویلین حکومت کی آڑ میں نئے فوجی افسران کو نئے انداز سے سیاست میں لانا تھا۔ ۲۹ جون ۲۰۱۲ء کو میں نے ایک مضمون میں فوج کے اس بیان کا حوالہ دیا تھا کہ صدارتی الیکشن چھ ماہ سے ایک سال تک کے لیے ہے۔ یعنی اِتنی مدت میں سب کچھ بدل جائے گا۔ اس پورے عمل پر امریکا نے نظر رکھی ہوئی تھی۔
پچاس برسوں میں مصر میں امریکا کی اصل حلیف فوج رہی ہے، اخوان نہیں۔ حال ہی میں صدر محمد مرسی اور آرمی چیف جنرل عبدالفتاح السیسی کے درمیان جو گفتگو ہوئی اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ صدر محمد مرسی کو ہٹانے کا فیصلہ ۳۰ جون سے بہت پہلے ہوچکا تھا۔ منصوبہ یہ تھا کہ عوام کو اخوان حکومت کے خلاف اکسایا جائے گا اور پھر پشت پر فوج بھی کھڑی ہو جائے گی تاکہ یہ جواز پیش کیا جاسکے کہ عوام تبدیلی چاہتے تھے۔
مصر میں جو کچھ ہوا ہے اس پر امریکی ردعمل بہت محتاط رہا ہے۔ اس نے فوجی بغاوت کے الفاظ استعمال کرنے سے اجتناب برتا ہے تاکہ سیاسی حمایت اور معاشی امداد جاری رکھنے کا جواز برقرار رہے۔ یورپی حکومتیں بھی ممکنہ طور پر امریکا ہی کے نقشِ قدم پر چلیں گی۔ مصری عوام اور عالمی برادری کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے فوج نے صدر مرسی کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد جمہوریت کی طرف پیش قدمی کا عندیہ دیتے ہوئے انتخابات کے شیڈول کا اعلان کردیا ہے۔
ملک بھر میں توانائی کا بحران چل رہا تھا۔ پیٹرول اور ڈیزل کی قلت بھی تھی۔ صدر مرسی کی برطرفی کے ساتھ ہی سب کچھ درست ہوگیا! لوگوں کو بنیادی ضرورت کی اشیاء کی قلت سے دوچار کیا گیا تاکہ وہ تنگ آکر احتجاج کے لیے سڑکوں پر آئیں۔ احتجاج ہونے دیا گیا۔ صورتِ حال جان بوجھ کر خراب ہونے دی گئی تاکہ اسے جواز بناکر معاملات کو کنٹرول کرنے کے لیے مداخلت کی جاسکے۔ یہ سب کچھ منصوبے کے تحت تھا۔ فوج نے پہلے تو جمہوری حکومت کی بساط لپیٹی، پھر عوام کو جشن منانے کی راہ دکھائی۔ جب جشن منایا جارہا تھا تب فضا سے تصاویر لے کر عالمی میڈیا کو جاری کی گئیں تاکہ یہ ثابت کیا جاسکے کہ عوام منتخب حکومت کے خاتمے سے بہت خوش ہیں۔
مصر میں کچھ بھی نہیں بدلا۔ عرب بہار محض آنکھوں کا دھوکا ہے۔ جنرل عبدالفتاح السیسی نے امریکا میں تربیت پائی ہے اور وہ اپنے امریکی ہم منصب سے قریبی تعلقات کا حامل ہے۔ انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون نے ۶ اور ۷ جولائی کی اشاعت میں لکھا ہے کہ جنرل عبدالفتاح السیسی کے امریکا اور اسرائیل سے گہرے تعلقات اس وقت بھی تھے جب محمد مرسی صدر کی حیثیت سے صدارتی محل میں تھے۔ جنرل السیسی نے اس سے قبل شمالی سنائی کے علاقے میں ملٹری انٹیلی جنس کے لیے خدمات انجام دی تھیں۔ وہ امریکی اور اسرائیلی اتھارٹیز سے غیر معمولی روابط کے حامل تھے اور ان کے درمیان معاملات درست رکھنے کے لیے خدمات انجام دیتے رہے۔
ان تمام حقائق کی روشنی میں آسانی سے کہا جاسکتا ہے کہ امریکا کی طرح اسرائیل بھی چاہے گا کہ مصر میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کی حمایت ہی کی جائے۔
مصر میں جو کچھ ہو رہا تھا اس کی روشنی میں صدر محمد مرسی اور ان کے رفقائے کار کے ہاتھوں سرزد ہونے والی غلطیوں کو ان کی سادہ مزاجی اور خوش گمانی کی علامت ہی کہا جائے گا۔ اخوان المسلمون نے تنظیم کی سطح پر جو غلطیاں کی ہیں وہ بھی ناقابل فہم ہیں۔ اس کے سیاسی ونگ فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی نے تین برس کے دوران جو سوچ اختیار کی ہے اور جو عمل اپنایا ہے، اس پر میں سخت تنقید کرتا آیا ہوں۔ اخوان المسلمون کی قیادت پر میری تنقید ڈھائی عشروں پر محیط ہے۔ اخوان المسلمون اور لبرٹی اینڈ جسٹس پارٹی کے گرد جال بُنا گیا اور وہ اس میں پھنس گئی۔ اپوزیشن سے روابط بہتر بنانے یا اسے حکومت کا حصہ بنانے کی دعوت نہ دینے کا الزام صدر محمد مرسی پر عائد نہیں کیا جاسکتا۔
حقیقت یہ ہے کہ صدر مرسی نے اپوزیشن سے تعلقات بہتر بنانے کے لیے کئی اقدامات کیے مگر ہر اقدام کا منفی جواب دیا گیا۔ اپوزیشن ان سے تعاون کے لیے تیار ہی نہیں تھی۔ مگر خیر، ریاستی امورکو چلانے کے حوالے سے صلاحیت کا نہ ہونا، بعض معاملات میں عوام کے دل کی آواز سننے سے گریز، بعض مشیروں کی بات بھی نہ ماننا، بہت سے اقدامات کو بعد میں غلطی تسلیم کرنا، اخوان کی اعلیٰ قیادت سے بہتر روابط کا نہ ہونا، ایسی باتیں ہیں جن کی بنیاد پر محمد مرسی پر غیر معمولی تنقید ہونی ہی چاہیے۔ بعض امور میں انہوں نے عجلت کا مظاہرہ کیا اور جو بالغ نظری کے ساتھ فیصلے کرنے چاہیے تھے، وہ بالغ نظری نہ دکھاسکے۔
اگر وسیع تر مفہوم میں جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ ان میں سیاسی بصیرت نہیں تھی۔ انہوں نے معیشت کو بہتر بنانے کے حوالے سے وہ اقدامات نہیں کیے جن کی اشد ضرورت تھی۔ کرپشن اور افلاس ختم کرنے کے حوالے سے ان کے اقدامات نیم دلانہ ثابت ہوئے۔ معاشرتی اور تعلیمی امور میں بھی محمد مرسی مکمل ناکام رہے۔ عالمی مالیاتی فنڈ کی شرائط پر عملدرآمد کے معاملے میں سستی دکھائی جاتی رہی۔ محمد مرسی اور ان کے رفقائے کار کو یقین تھا کہ آئی ایم ایف ان کی مدد کرے گا۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اب ان کا اقتدار ہی نہیں رہا۔ حکومت کا تختہ پلٹے جانے کے بعد آئی ایم ایف ان تمام رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے تیار دکھائی دیا جنہیں ہٹانا چند روز پہلے تک کسی بھی طور ممکن دکھائی نہیں دے رہا تھا۔
محمد مرسی، ان کی حکومت اور اخوان کی قیادت کی سادہ لوحی پر ہنسی آ رہی ہے۔ فوج نے مصر پر چھ عشروں تک حکومت کی ہے۔ امریکا اور یورپ کی اسے حمایت حاصل رہی ہے۔ محمد مرسی، ان کے رفقائے کار اور اخوان کی قیادت نے کیسے سوچ لیا کہ ان کا اقتدار میں آنا ان کے مخالفین سے ہضم ہو جائے گا اور وہ ریاستی امور چلانے میں ان سے تعاون کریں گے؟
انہیں الجزائر اور فلسطین سے سبق سیکھنا چاہیے تھا۔ ۱۹۹۲ء میں الجزائر میں اسلامی فرنٹ کی حکومت قائم ہوتی دکھائی دی تو مغرب کی مدد سے فوج نے سیاست پر پھر شب خون مارا اور ملک کو خانہ جنگی کی طرف دھکیل دیا۔ فلسطین میں حماس کی حکومت قائم ہوئی تو اسرائیل نے مغرب کی مدد سے اس کا ناطقہ بند کردیا۔ صدر محمد مرسی نے اپنی برطرفی سے محض دو دن قبل فوج کے سربراہ جنرل عبدالفتاح السیسی سے کہا تھا کہ وہ ان کی تنزلی کردیں گے اور امریکا کسی بھی حال میں فوجی بغاوت کی اجازت نہیں دے گا۔ یہ سب کچھ ایسا تھا جو اب تک ذہن قبول کرنے کے لیے آمادہ نہیں۔
بعض مبصرین کو اس بات پر حیرت ہوئی کہ سلفی اور بالخصوص نور پارٹی کے ارکان صدر مرسی کے خلاف فوج سے جا ملے تھے۔ اپوزیشن کے بعض دوسرے گروپوں نے بھی اس معاملے میں سلفیوں کا ساتھ دیا تھا۔ مغربی میڈیا نے بڑی خوبصورتی سے سلفیوں کو اخوان کا ہم نوا قرار دیا تھا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مصر کے سلفی خلیجی ریاستوں کے ہم نوا ہیں اور خلیجی حکمران امریکا و یورپ کے حاشیہ بردار ہیں۔ سلفیوں کو اخوان کا ہم نوا قرار دینے کی پشت پر بنیادی تصور یہ تھا کہ اسلامی تشخص کے حوالے سے اخوان کی شناخت کو داغ دار کیا جائے اور یوں اُسے انتہائی پوزیشن کی طرف دھکیل دیا جائے۔
جب محمد مرسی کا تختہ الٹ دیا گیا تو سلفی کھل کر سامنے آگئے۔ ان کا طریقِ واردات بھی ڈھکا چھپا نہ رہا۔ اس میں حیرت کی کیا بات ہے کہ مصر میں نئی فوجی بغاوت کو سب سے پہلے متحدہ عرب امارات، قطر اور سعودی عرب نے تسلیم کیا۔ یہ بات بھی کسی سے پوشیدہ نہیں کہ یہ ممالک مصر اور تیونس میں سلفیوں کو غیر معمولی امداد فراہم کرتے رہے ہیں۔ عام تاثر یہ ہے کہ سعودی عرب اور قطر اخوان کی حمایت کرتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں ممالک خطے میں امریکی مفادات کے نگران ہیں۔ امریکا اور یورپ کو سلفیوں کے عقائد سے کوئی خطرہ نہیں۔ خلیجی ریاستوں میں جمہوریت برائے نام بھی نہیں۔ وہ اقلیتوں کے حقوق کا ذرا بھی احترام نہیں کرتیں۔ خواتین حقوق سے محروم ہیں۔ شریعت کے طے شدہ قوانین حالات پر نظر ڈالے بغیر اور پوری بے عقلی کے ساتھ یوں نافذ ہیں کہ اُن کے نتیجے میں پیدا ہونے والی خرابیوں پر نظر ڈالنے کی کسی کو توفیق نصیب نہیں ہو رہی۔
امریکا کوان تمام باتوں سے کچھ غرض نہیں۔ اسے تو خطے میں اپنے مفادات کی نگرانی کرنے والے درکار ہیں۔ جو بھی امریکا کی خدمت انجام دے گا، صلہ پائے گا۔ یہ صلہ اقتدار کو طول دینے کی شکل میں بھی ہوسکتا ہے اور اقتدار چھن جانے کی صورت میں مخالفین کی حکومت کا تختہ پلٹے جانے کی صورت میں بھی ہوسکتا ہے۔
مصر میں تیزی سے بدلتی ہوئی صورت حال کے تناظر میں محمد البرادعی کا ابھرنا حیرت انگیز نہیں۔ انہوں نے بدلتی ہوئی صورت حال کے تناظر میں اپنے لیے ترجیحات کا تعین کیا۔ وہ منحرفین پر نظر رکھے ہوئے تھے۔ موقع ملتے ہی انہوں نے اخوان کی حکومت کے خلاف جانے میں دیر نہیں لگائی۔
جمہوری حکومت کی بساط لپیٹے جانے کا عمل شروع ہوتے ہی البرادعی متحرک ہوئے اور جو کچھ کرنا تھا وہ آسانی سے کیا۔ ایسے میں یہ بات ذرا سی بھی حیرت انگیز محسوس نہیں ہونی چاہیے کہ البرادعی نے اخوان المسلمون کے رہنماؤں کی گرفتاری اور اس کے ٹیلی ویژن کی بندش کی بھرپور حمایت کی ہے۔ البرادعی نے اخوان سے ہمدردی رکھنے والے مصری باشندوں پر ریاستی رٹ تھوپے جانے کے اقدام کے خلاف بھی ایک لفظ تک نہیں کہا۔ چند ہفتوں میں ہمیں مصر کے معاشرے سے مزید بہت سی مثالیں مل سکتی ہیں، جن سے اندازہ ہوگا کہ اس فوجی ریاست میں شہریوں سے کیسے کیسے کام لیے جاتے ہیں۔ ہمیں یہ حقیقت نظر انداز نہیں کرنی چاہیے کہ کئی عشروں تک مصر میں فوج نے امریکی امداد وصول کی ہے اور وہ معیشت کو ۴۰ فیصد کی حد تک کنٹرول کرتی ہے۔
مصر میں جو کچھ بھی ہوا ہے، وہ صریحاً فوجی بغاوت ہے۔ اسے اور کوئی نام دیا ہی نہیں جاسکتا۔ اور دیا جانا چاہیے بھی نہیں۔ مصر کے عوام کو سیاسی آزادی اور بہتر معاشی مواقع درکار ہیں۔ یہ ان کا حق ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ فوج نے جو ماحول پیدا کیا ہے، اس میں وہ بھی آلۂ کار کے طور پر استعمال ہوگئے ہیں۔ مغربی دنیا کی خاموشی سب کچھ بیان کر رہی ہے۔ عرب دنیا میں کوئی عوامی انقلاب برپا نہیں ہوا۔ عوامی بیداری کی لہر کے نام پر جو کچھ بھی ہوا اور ہوتا دکھائی دے رہا ہے، وہ آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں۔
حالات کا تقاضا یہ ہے کہ ہم حقائق پر نظر رکھیں اور حد سے بڑھی ہوئی سادہ لوحی سے اجتناب برتیں۔ ہمیں صورتِ حال کو اس کے حقیقی تناظر میں سمجھنا ہوگا۔ ایسا کیے بغیر کیا جانے والا ہر اقدام خرابی کی طرف لے جائے گا۔
مصر میں عوامی بیداری اور ’’عرب اسپرنگ‘‘ کے حوالے سے جو جوش و خروش پایا جاتا تھا میں اس کے حوالے سے کبھی خوش گمانی کا شکار نہیں ہوا۔ مجھے اندازہ تھا کہ تیونس کی طرح مصر میں رونما ہونے والے واقعات وقتی ابال کا نتیجہ ہیں، ٹھوس تبدیلیوں کے نقیب ہرگز نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مصر اور تیونس کے لوگ ایک طویل مدت سے آمریت کو بھگتتے آرہے تھے۔ انہوں نے سیاسی، معاشی اور معاشرتی سطح پر پائی جانے والی نا انصافی کے خلاف آواز بلند کی، سڑکوں پر آئے، جانیں بھی قربان کیں۔ یہ سب کچھ ایسا ہے کہ جسے خراجِ عقیدت پیش کیا جانا چاہیے مگر کسی بڑی اور حقیقی تبدیلی کی توقع رکھنا خام خیالی کے سِوا کچھ نہ ہوگا۔ میں نے دو برس کے دوران ایک کتاب اور متعدد مضامین کے ذریعے اپنے قارئین کو یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ مصر اور تیونس میں انقلاب کے نام پر جو کچھ بھی رونما ہوا ہے اس میں بہت سے زمینی حقائق کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ ایک لہر تھی جو چل پڑی تو حواس بھی بہا لے گئی۔
یہ کہنا سادہ لوحی ہے کہ مصر کی فوج سیاست میں واپس آگئی ہے۔ وہ گئی ہی کب تھی؟ حسنی مبارک کا زوال در اصل فوجی بغاوت تھی، جس کا مقصد سویلین حکومت کی آڑ میں نئے فوجی افسران کو نئے انداز سے سیاست میں لانا تھا۔ ۲۹ جون ۲۰۱۲ء کو میں نے ایک مضمون میں فوج کے اس بیان کا حوالہ دیا تھا کہ صدارتی الیکشن چھ ماہ سے ایک سال تک کے لیے ہے۔ یعنی اِتنی مدت میں سب کچھ بدل جائے گا۔ اس پورے عمل پر امریکا نے نظر رکھی ہوئی تھی۔
پچاس برسوں میں مصر میں امریکا کی اصل حلیف فوج رہی ہے، اخوان نہیں۔ حال ہی میں صدر محمد مرسی اور آرمی چیف جنرل عبدالفتاح السیسی کے درمیان جو گفتگو ہوئی اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ صدر محمد مرسی کو ہٹانے کا فیصلہ ۳۰ جون سے بہت پہلے ہوچکا تھا۔ منصوبہ یہ تھا کہ عوام کو اخوان حکومت کے خلاف اکسایا جائے گا اور پھر پشت پر فوج بھی کھڑی ہو جائے گی تاکہ یہ جواز پیش کیا جاسکے کہ عوام تبدیلی چاہتے تھے۔
مصر میں جو کچھ ہوا ہے اس پر امریکی ردعمل بہت محتاط رہا ہے۔ اس نے فوجی بغاوت کے الفاظ استعمال کرنے سے اجتناب برتا ہے تاکہ سیاسی حمایت اور معاشی امداد جاری رکھنے کا جواز برقرار رہے۔ یورپی حکومتیں بھی ممکنہ طور پر امریکا ہی کے نقشِ قدم پر چلیں گی۔ مصری عوام اور عالمی برادری کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے فوج نے صدر مرسی کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد جمہوریت کی طرف پیش قدمی کا عندیہ دیتے ہوئے انتخابات کے شیڈول کا اعلان کردیا ہے۔
ملک بھر میں توانائی کا بحران چل رہا تھا۔ پیٹرول اور ڈیزل کی قلت بھی تھی۔ صدر مرسی کی برطرفی کے ساتھ ہی سب کچھ درست ہوگیا! لوگوں کو بنیادی ضرورت کی اشیاء کی قلت سے دوچار کیا گیا تاکہ وہ تنگ آکر احتجاج کے لیے سڑکوں پر آئیں۔ احتجاج ہونے دیا گیا۔ صورتِ حال جان بوجھ کر خراب ہونے دی گئی تاکہ اسے جواز بناکر معاملات کو کنٹرول کرنے کے لیے مداخلت کی جاسکے۔ یہ سب کچھ منصوبے کے تحت تھا۔ فوج نے پہلے تو جمہوری حکومت کی بساط لپیٹی، پھر عوام کو جشن منانے کی راہ دکھائی۔ جب جشن منایا جارہا تھا تب فضا سے تصاویر لے کر عالمی میڈیا کو جاری کی گئیں تاکہ یہ ثابت کیا جاسکے کہ عوام منتخب حکومت کے خاتمے سے بہت خوش ہیں۔
مصر میں کچھ بھی نہیں بدلا۔ عرب بہار محض آنکھوں کا دھوکا ہے۔ جنرل عبدالفتاح السیسی نے امریکا میں تربیت پائی ہے اور وہ اپنے امریکی ہم منصب سے قریبی تعلقات کا حامل ہے۔ انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون نے ۶ اور ۷ جولائی کی اشاعت میں لکھا ہے کہ جنرل عبدالفتاح السیسی کے امریکا اور اسرائیل سے گہرے تعلقات اس وقت بھی تھے جب محمد مرسی صدر کی حیثیت سے صدارتی محل میں تھے۔ جنرل السیسی نے اس سے قبل شمالی سنائی کے علاقے میں ملٹری انٹیلی جنس کے لیے خدمات انجام دی تھیں۔ وہ امریکی اور اسرائیلی اتھارٹیز سے غیر معمولی روابط کے حامل تھے اور ان کے درمیان معاملات درست رکھنے کے لیے خدمات انجام دیتے رہے۔
ان تمام حقائق کی روشنی میں آسانی سے کہا جاسکتا ہے کہ امریکا کی طرح اسرائیل بھی چاہے گا کہ مصر میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کی حمایت ہی کی جائے۔
مصر میں جو کچھ ہو رہا تھا اس کی روشنی میں صدر محمد مرسی اور ان کے رفقائے کار کے ہاتھوں سرزد ہونے والی غلطیوں کو ان کی سادہ مزاجی اور خوش گمانی کی علامت ہی کہا جائے گا۔ اخوان المسلمون نے تنظیم کی سطح پر جو غلطیاں کی ہیں وہ بھی ناقابل فہم ہیں۔ اس کے سیاسی ونگ فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی نے تین برس کے دوران جو سوچ اختیار کی ہے اور جو عمل اپنایا ہے، اس پر میں سخت تنقید کرتا آیا ہوں۔ اخوان المسلمون کی قیادت پر میری تنقید ڈھائی عشروں پر محیط ہے۔ اخوان المسلمون اور لبرٹی اینڈ جسٹس پارٹی کے گرد جال بُنا گیا اور وہ اس میں پھنس گئی۔ اپوزیشن سے روابط بہتر بنانے یا اسے حکومت کا حصہ بنانے کی دعوت نہ دینے کا الزام صدر محمد مرسی پر عائد نہیں کیا جاسکتا۔
حقیقت یہ ہے کہ صدر مرسی نے اپوزیشن سے تعلقات بہتر بنانے کے لیے کئی اقدامات کیے مگر ہر اقدام کا منفی جواب دیا گیا۔ اپوزیشن ان سے تعاون کے لیے تیار ہی نہیں تھی۔ مگر خیر، ریاستی امورکو چلانے کے حوالے سے صلاحیت کا نہ ہونا، بعض معاملات میں عوام کے دل کی آواز سننے سے گریز، بعض مشیروں کی بات بھی نہ ماننا، بہت سے اقدامات کو بعد میں غلطی تسلیم کرنا، اخوان کی اعلیٰ قیادت سے بہتر روابط کا نہ ہونا، ایسی باتیں ہیں جن کی بنیاد پر محمد مرسی پر غیر معمولی تنقید ہونی ہی چاہیے۔ بعض امور میں انہوں نے عجلت کا مظاہرہ کیا اور جو بالغ نظری کے ساتھ فیصلے کرنے چاہیے تھے، وہ بالغ نظری نہ دکھاسکے۔
اگر وسیع تر مفہوم میں جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ ان میں سیاسی بصیرت نہیں تھی۔ انہوں نے معیشت کو بہتر بنانے کے حوالے سے وہ اقدامات نہیں کیے جن کی اشد ضرورت تھی۔ کرپشن اور افلاس ختم کرنے کے حوالے سے ان کے اقدامات نیم دلانہ ثابت ہوئے۔ معاشرتی اور تعلیمی امور میں بھی محمد مرسی مکمل ناکام رہے۔ عالمی مالیاتی فنڈ کی شرائط پر عملدرآمد کے معاملے میں سستی دکھائی جاتی رہی۔ محمد مرسی اور ان کے رفقائے کار کو یقین تھا کہ آئی ایم ایف ان کی مدد کرے گا۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اب ان کا اقتدار ہی نہیں رہا۔ حکومت کا تختہ پلٹے جانے کے بعد آئی ایم ایف ان تمام رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے تیار دکھائی دیا جنہیں ہٹانا چند روز پہلے تک کسی بھی طور ممکن دکھائی نہیں دے رہا تھا۔
محمد مرسی، ان کی حکومت اور اخوان کی قیادت کی سادہ لوحی پر ہنسی آ رہی ہے۔ فوج نے مصر پر چھ عشروں تک حکومت کی ہے۔ امریکا اور یورپ کی اسے حمایت حاصل رہی ہے۔ محمد مرسی، ان کے رفقائے کار اور اخوان کی قیادت نے کیسے سوچ لیا کہ ان کا اقتدار میں آنا ان کے مخالفین سے ہضم ہو جائے گا اور وہ ریاستی امور چلانے میں ان سے تعاون کریں گے؟
انہیں الجزائر اور فلسطین سے سبق سیکھنا چاہیے تھا۔ ۱۹۹۲ء میں الجزائر میں اسلامی فرنٹ کی حکومت قائم ہوتی دکھائی دی تو مغرب کی مدد سے فوج نے سیاست پر پھر شب خون مارا اور ملک کو خانہ جنگی کی طرف دھکیل دیا۔ فلسطین میں حماس کی حکومت قائم ہوئی تو اسرائیل نے مغرب کی مدد سے اس کا ناطقہ بند کردیا۔ صدر محمد مرسی نے اپنی برطرفی سے محض دو دن قبل فوج کے سربراہ جنرل عبدالفتاح السیسی سے کہا تھا کہ وہ ان کی تنزلی کردیں گے اور امریکا کسی بھی حال میں فوجی بغاوت کی اجازت نہیں دے گا۔ یہ سب کچھ ایسا تھا جو اب تک ذہن قبول کرنے کے لیے آمادہ نہیں۔
بعض مبصرین کو اس بات پر حیرت ہوئی کہ سلفی اور بالخصوص نور پارٹی کے ارکان صدر مرسی کے خلاف فوج سے جا ملے تھے۔ اپوزیشن کے بعض دوسرے گروپوں نے بھی اس معاملے میں سلفیوں کا ساتھ دیا تھا۔ مغربی میڈیا نے بڑی خوبصورتی سے سلفیوں کو اخوان کا ہم نوا قرار دیا تھا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مصر کے سلفی خلیجی ریاستوں کے ہم نوا ہیں اور خلیجی حکمران امریکا و یورپ کے حاشیہ بردار ہیں۔ سلفیوں کو اخوان کا ہم نوا قرار دینے کی پشت پر بنیادی تصور یہ تھا کہ اسلامی تشخص کے حوالے سے اخوان کی شناخت کو داغ دار کیا جائے اور یوں اُسے انتہائی پوزیشن کی طرف دھکیل دیا جائے۔
جب محمد مرسی کا تختہ الٹ دیا گیا تو سلفی کھل کر سامنے آگئے۔ ان کا طریقِ واردات بھی ڈھکا چھپا نہ رہا۔ اس میں حیرت کی کیا بات ہے کہ مصر میں نئی فوجی بغاوت کو سب سے پہلے متحدہ عرب امارات، قطر اور سعودی عرب نے تسلیم کیا۔ یہ بات بھی کسی سے پوشیدہ نہیں کہ یہ ممالک مصر اور تیونس میں سلفیوں کو غیر معمولی امداد فراہم کرتے رہے ہیں۔ عام تاثر یہ ہے کہ سعودی عرب اور قطر اخوان کی حمایت کرتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں ممالک خطے میں امریکی مفادات کے نگران ہیں۔ امریکا اور یورپ کو سلفیوں کے عقائد سے کوئی خطرہ نہیں۔ خلیجی ریاستوں میں جمہوریت برائے نام بھی نہیں۔ وہ اقلیتوں کے حقوق کا ذرا بھی احترام نہیں کرتیں۔ خواتین حقوق سے محروم ہیں۔ شریعت کے طے شدہ قوانین حالات پر نظر ڈالے بغیر اور پوری بے عقلی کے ساتھ یوں نافذ ہیں کہ اُن کے نتیجے میں پیدا ہونے والی خرابیوں پر نظر ڈالنے کی کسی کو توفیق نصیب نہیں ہو رہی۔
امریکا کوان تمام باتوں سے کچھ غرض نہیں۔ اسے تو خطے میں اپنے مفادات کی نگرانی کرنے والے درکار ہیں۔ جو بھی امریکا کی خدمت انجام دے گا، صلہ پائے گا۔ یہ صلہ اقتدار کو طول دینے کی شکل میں بھی ہوسکتا ہے اور اقتدار چھن جانے کی صورت میں مخالفین کی حکومت کا تختہ پلٹے جانے کی صورت میں بھی ہوسکتا ہے۔
مصر میں تیزی سے بدلتی ہوئی صورت حال کے تناظر میں محمد البرادعی کا ابھرنا حیرت انگیز نہیں۔ انہوں نے بدلتی ہوئی صورت حال کے تناظر میں اپنے لیے ترجیحات کا تعین کیا۔ وہ منحرفین پر نظر رکھے ہوئے تھے۔ موقع ملتے ہی انہوں نے اخوان کی حکومت کے خلاف جانے میں دیر نہیں لگائی۔
جمہوری حکومت کی بساط لپیٹے جانے کا عمل شروع ہوتے ہی البرادعی متحرک ہوئے اور جو کچھ کرنا تھا وہ آسانی سے کیا۔ ایسے میں یہ بات ذرا سی بھی حیرت انگیز محسوس نہیں ہونی چاہیے کہ البرادعی نے اخوان المسلمون کے رہنماؤں کی گرفتاری اور اس کے ٹیلی ویژن کی بندش کی بھرپور حمایت کی ہے۔ البرادعی نے اخوان سے ہمدردی رکھنے والے مصری باشندوں پر ریاستی رٹ تھوپے جانے کے اقدام کے خلاف بھی ایک لفظ تک نہیں کہا۔ چند ہفتوں میں ہمیں مصر کے معاشرے سے مزید بہت سی مثالیں مل سکتی ہیں، جن سے اندازہ ہوگا کہ اس فوجی ریاست میں شہریوں سے کیسے کیسے کام لیے جاتے ہیں۔ ہمیں یہ حقیقت نظر انداز نہیں کرنی چاہیے کہ کئی عشروں تک مصر میں فوج نے امریکی امداد وصول کی ہے اور وہ معیشت کو ۴۰ فیصد کی حد تک کنٹرول کرتی ہے۔
مصر میں جو کچھ بھی ہوا ہے، وہ صریحاً فوجی بغاوت ہے۔ اسے اور کوئی نام دیا ہی نہیں جاسکتا۔ اور دیا جانا چاہیے بھی نہیں۔ مصر کے عوام کو سیاسی آزادی اور بہتر معاشی مواقع درکار ہیں۔ یہ ان کا حق ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ فوج نے جو ماحول پیدا کیا ہے، اس میں وہ بھی آلۂ کار کے طور پر استعمال ہوگئے ہیں۔ مغربی دنیا کی خاموشی سب کچھ بیان کر رہی ہے۔ عرب دنیا میں کوئی عوامی انقلاب برپا نہیں ہوا۔ عوامی بیداری کی لہر کے نام پر جو کچھ بھی ہوا اور ہوتا دکھائی دے رہا ہے، وہ آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں۔
حالات کا تقاضا یہ ہے کہ ہم حقائق پر نظر رکھیں اور حد سے بڑھی ہوئی سادہ لوحی سے اجتناب برتیں۔ ہمیں صورتِ حال کو اس کے حقیقی تناظر میں سمجھنا ہوگا۔ ایسا کیے بغیر کیا جانے والا ہر اقدام خرابی کی طرف لے جائے گا۔
Tariq Ramadan is the grandson of Hasan Al-Bana , the founder of Muslim Brotherhood.
Tariq Ramadan (Arabic: طارق رمضان; born 26 August 1962) is a Swiss academic and writer. He is also a Professor of Contemporary Islamic Studies in the Faculty of Oriental Studies at Oxford University (Oriental Institute, St Antony’s College).
He also teaches at the Oxford Faculty of Theology. He is Visiting Professor at the Faculty of Islamic Studies (Qatar), and Director of the Research Centre of Islamic Legislation and Ethics (CILE) (Doha, Qatar).[SUP][3][/SUP] He advocates the study and re-interpretation of Islamic texts, and emphasizes the heterogeneous nature of Western Muslims.[SUP][4][/SUP]
In 2008, an open online poll, Tariq Ramadan was voted the 8th top most intellectual persons in the world on the list of Top 100 Public Intellectuals by Prospect Magazine (UK).
Last edited by a moderator: