میں سمجھتا ہوں آپ ابھی بھی میری بات کو درست طریقے سے سمجھ نہیں پائے. اور یہ سائینس کو فالو کرنے والوں کی سب سے کامن غلطی ہے. میرے دوست میں یہاں کیوں ہوں یا میرا اس دنیا میں آنے کا مقصد کیا ہے؟ یہ سائینس کا سوال ہی نہیں ہے آپ اس پر غور کیجیے. سائنس مادی اشیاء سے بحث کرتی ہے. مذہب مابعدالطبعیتی معاملات میں راہنمائی کے لیے ہے. یہ بالکل سیدھی سی بات ہے کہ مذہب آپ کو بس یہ کہتا ہے کہ تمہیں جوزندگی ملی ہے اس کا ایک دن حساب ہوگااور عقل اس کو قبول کرتی ہے . ساینس فطرت کے بنائے قوانین کے علم کو جاننے کا نام ہے. اللہ نے انسان کو یہ ذہن عطا کیا ہے کہ وہ اس کو استعمال کرتے ہوئے ان علوم کو دریافت کرے اور انسانی زندگی میں آسانیاں لائے.اب بتائیے کہاں دونوں چیزیں ایک دوسرے کے مقابل آتی ہیں؟ مجھے اس کا جواب ڈھونڈنے کے لیے کون سے ساینسی انکشاف کی ضرورت ہے کہ میں یہاں کیوں ہوں؟ یہ کہنا کہ ساینس ابھی اس کا جواب نہیں رکھتی حقیقت سے فراراور ساینس کی انسلٹ ہے. یہ اس کا شعبہ ہی نہیں. براہ کرم اس پر تھوڑا غور کیجیے
میں سمجھتا ہوں آپ ابھی بھی میری بات کو درست طریقے سے سمجھ نہیں پائے. اور یہ سائینس کو فالو کرنے والوں کی سب سے کامن غلطی ہے. میرے دوست میں یہاں کیوں ہوں یا میرا اس دنیا میں آنے کا مقصد کیا ہے؟ یہ سائینس کا سوال ہی نہیں ہے آپ اس پر غور کیجیے. سائنس مادی اشیاء سے بحث کرتی ہے. مذہب مابعدالطبعیتی معاملات میں راہنمائی کے لیے ہے
یہ سوال تو ساری سائنس کی بنیاد ہے- اگر آپ اسے صرف مابعدالطبیعت سے متعلق سمجھتے ہیں تو یہ ایک سنگین غلطی ہے- دنیا کو سمجھنے کی کوشش انسان نے گاڑی' ہوائی جہاز' یا سیل فون ایجاد کرنے کے لئے نہیں کی تھی بلکہ اس کے پس منظر میں اپنے وجود' دنیا کی ماہیت' اور زندگی کے مطالب و مقاصد کو سمجھنا ہی بنیادی محرک تھے- پہیہ اور بجلی تو اس سفر میں مختلف منزلوں کے سر ہونے کی نشانیاں اور انعام ہیں
زیادہ پرانی بات نہیں- نیوٹن کے دور تک ایک سائنس دان ہر طرح کے علوم پر طبح آزمائی کرتا تھاسائنس انتہائی محدود تھی- اور مختلف سائینسی علوم کی حدود قیود طے شدہ نہیں تھیں- اور سائنس کو بنیادی طور پر فلسفہ ہی کہا جاتا تھا- اس سے پیچھے چلے جائیں تو سائنس دانوں کوقرون وسطیٰ میں فلسفی کہا جاتا تھا- ایسے ہی کلاسیکل اینٹی کویٹی میں بھی سائنس دانوں کے لئے فلاسفر کا لفظ ہی استمعال ہوا تھا اور یہ لفظ سقراط سے پہلے ایجاد ہو چکا تھا- اور فلاسفرز کی تحقیق اور تجسس کے پیچھے بھی وجود اورذات کو سمجھنے کا جذبہ کار فرما ہوتا تھا- مطلب یہ کہ ساری سائنس کی بنیاد بہر صورت مابعدالطبیعت ہی تھی اور اب بھی سائنس کی ساری تگ و دو کا بنیادی مقصد وجود اور تخلیق کے راز کو جاننا ہی ہے
یہ بالکل سیدھی سی بات ہے کہ مذہب آپ کو بس یہ کہتا ہے کہ تمہیں جوزندگی ملی ہے اس کا ایک دن حساب ہوگااور عقل اس کو قبول کرتی ہے
عقل ہی تو تسلیم نہیں کرتی بھائی- عقل ہی تو چیلنج کرتی ہے مذہب کے عجیب و غریب مفروضات کو کونسی عقل یہ تسلیم کرتی ہے کہ ایک انسان کے پاس کوئی فرشتہ آتا تھا جسے دوسرے لوگوں سے شرم آتی تھی اور پھر اس فرشتے نے اس انسان کو چکے چپکے پوری دنیا کو گائیڈ کرنے کا ٹاسک دے دیا- ایسے قوانین جو ناقص ہیں- ایسے قوانین جو امتیازی ہیں' ایسے قوانین جو قدیم عرب تہذیب کا پس منظر لئے ہوئے ہیں- ایسی کتاب جس میں بیشمار تضادات ہیں- جو خواتین سے ایسی نفرت کرتی ہے کہ انہیں کبھی براہراست مخاطب ہی نہیں کرتی- اور یہ سب کسی الله کا دیا ہوا ہے؟ پھر تو سچی بات ہے اس الله کے خلاف بھی لڑنا چاہیے جو اس درجہ امتیاز برتتا ہو انسانوں کے درمیان- آپ نے میری تھریڈز تو پڑھی ہونگی جو میں نے اسلام کے مذہبی اور صنفی امتیاز پہ لکھی تھیں- کس کے پاس ہے جواب انکا؟صرف ایک جواب ملتا ہے کہ الله نے کہا ہو گا تو کچھ مصلحت ضرور ہو گی- یہ کوئی دلیل ہے؟ عقل اس کو قبول کرتی ہے؟ میرے بھائی' عقل مذہب کو قبول نہیں کرتی بلکہ خوف اور امید مذہب کی بنیاد ہیں خوف جو اس تھریڈ کا ٹائٹل ہے- اس تھریڈ میں خوف کی نوعیت' ترکیب' ماہیت' اور مذہب کی طرف سے اس خوف کا بطور ہتھیار استمعال- اسکی بات ہو رہی ہے- عقل سلیم کسی بلند ترین اور اعلی ترین' نہ سمجھ میں آنے والی قوت کی قائل تو ہو سکتی ہے مگر مذ ھب' وحی' کتاب' فرشتہ' ان چیزوں کو قبول نہیں کر سکتی- جبکہ ہر طرف سے متضاد دعوے ہوںآپ کی اس سٹیٹمنٹ پہ میری حیرانی نہیں جا رہی- عقل مفروضات کو "تسلیم" کرتی ہے؟ عقل "قیاسات" کو حقیقت سمجھ لیتی ہے؟ عقل "اندازہ و خیال" پہ ایمان لانے کو کہتی ہے؟ بلکل نہیں
ساینس فطرت کے بنائے قوانین کے علم کو جاننے کا نام ہے. اللہ نے انسان کو یہ ذہن عطا کیا ہے کہ وہ اس کو استعمال کرتے ہوئے ان علوم کو دریافت کرے اور انسانی زندگی میں آسانیاں لائے.اب بتائیے کہاں دونوں چیزیں ایک دوسرے کے مقابل آتی ہیں؟
اس ساری سٹیٹمنٹ کو آپ نے ایک مفروضے پہ بنیاد کیا ہے- کہ خدا ہے- کیوں کہ وہ ہے تو ذھن بھی اسکی دیا اور علم بھی- خود سوچئے کہ یہ سٹیٹمنٹ منطق کے لحاظ سے کس قدر کمتر ہے- جس بات کے ہونے نہ ہونے پہ بحث ہے اس کو فرض کر کے آپ آگے چل پڑے ہیں- پہلے یہ تو ثابت ہو کہ خدا ہے پھر یہ بھی ثابت ہو جاتے گا کہ یہ ذھن اور یہ علم اور یہ زندگی اسکی دی ہی ہے
سمجھ رہے ہیں نہ آپ؟
اب آپ کی اس سٹیٹمنٹ کا تجزیہ کرنے کے لئے ہم "فرض" کر لیتے ہیں کہ خدا ہے- اور اس نے ذہن دیا کہ جاؤ' اپنے لئے آسانیاں پیدا کرو- مگر انسانی شعور تو ارتقا کا نتیجہ ہے- خدا کی دیں نہیں- اگر یہ خدا کی دیں' اسکا کرم' اسکا عطیہ ہوتا تو پھر تو یہ انسانوں میں ہمیشہ سے موجود ہوتا- شعور انسان کے ساتھ جنّت سے دنیا میں آ جاتا- اس شعور کو اس سائنس کو' لاکھوں کروڑوں سال نہ لگتے- جس خدا کو ہم نے "فرض " کیا ہے یہاں کیا اسے کروڑوں سال انتظار کرنے کی کیا ضروروت تھی ہمیں یہ آسانیاں فراہم کرنے کے لئے؟لاکھوں سال سے انسان اس زمین پہ آباد ہے تو جو شعور خدا کی ودیعت تھی اسکی کرشمہ کاریاں سامنے کیوں نہیں آئیں؟ خدا نے کیا لاکھوں سال انسان کو شعور سے محروم رکھا اور پھر اچانک مہربان ہو کہ سترویں صدی میں انسانوں میں شعور بانٹنا شروع کر دیا؟
دیکھئےخود سوچئے شعور خدا کی دیں ہے- اسکا عطیہ ہے- یہ بات خود عقل کے کتنا خلاف ہے- یا تو خدا یہ سب انسانوں کو دیتا یا ہر زمانے کو دیتا- یہ کیا کہ لاکھوں سال شعور نہیں دیا تو بھی خدا ہے- ارتقا نے شعور دے دیا تو بھی خدا ہے یہ کونسا استدلال ہے؟
جب آپ کوئی سٹیٹمنٹ دیتے ہیں تو ایک نظر ڈال لیا کیجئے کہ آپ کیا کیا چیزیں "فرض" کر رہے ہیں اس میں اس سٹیٹمنٹ میں آپ نے مندرجہ ذیل چیزیں خود ہی "فرض" کر لیں
١- خدا ہے ٢- کائنات اور اسکے قوانین اس نے بنائے٣- شعور اسکا دیا ہوا ہے
پھر ان تین "مفروضات" یا "قیاسات " پر آپ نے اس سٹیٹمنٹ کی عمارت کھڑی کر لی کہ خدا کی دی ہی کائنات کو خدا کے دئیے ہوئے علم و شعور سے دریافت کیا تو اس میں خدا کا رد کہاں سے ا گیا - شعور اور خدا ایک دوسرے کے مقابل کیسے آگئے
اب آپ کو پتا چل گیا کہ کیسے آگئے؟
مجھے اس کا جواب ڈھونڈنے کے لیے کون سے ساینسی انکشاف کی ضرورت ہے کہ میں یہاں کیوں ہوں؟
اس سوال کا جواب یا تو مذہب کی کہانیاں ہیں یا پھر سائنس کی ٹھوس حقیقتیں- یہ تو آپ پہ منحصر ہے کہ آپ کس طرف کا رخ کرتے ہیں- مذاہب کا راستہ آسان راستہ ہے- آسان جواب دیتا ہے- آسان حل دیتا ہے دیکھئے ہر مذہب کتنے آسان حل دیتا ہے
١- یہودی کہتے ہیں کہ ہم خدا کی مقرب قوم ہیں اور بہر صورت جنت میں جائیں گے ٢- عیسائی کہتے ہیں کہ عیسیٰ صلیب پہ چڑھ گئے انکے گنہ لے کر اپ آخر کار وہ سب جنت میں جائیں گے٣- مسلمان کہتے ہیں کہ دوزخ میں سزا پوری کر چکنے کے بعد بہر حال وہ جنت میں جائیں گے اور اگر شفاعت مل گئی تو کیا کہنا
یعنی ہم یہاں حکم یزداں سے موجود ہیں اور جنت ہماری منزل ہے- کیا یہ بات آپ کو عجیب نہیں لگتی کہ ایک دوسرے کے خوں کے پیسے مذہبی جنونیوں کے ہاں ایسے "مشترکہ" خیالات کیوں پائے جاتے ہیں؟ اس لئے میرے بھائی کہ مذہب نے ایک حل دینا ہوتا ہے- امید دینی ہوتی ہے
ہم یہاں کیوں ہیں اسکے لئے ہم مذہب کی کہانیاں سننے سے انکار کر دیں تو پھر ہمارے پاس کونسا راستہ رہ جاتا ہے ؟ یقینی طور پر صرف اور صرف سائنس کا- سائنس کے انکتشافات ہی ہمیں وجود اور ذات مخفی رازوں کو سمھنے میں مدد دیں گے
یہ کہنا کہ ساینس ابھی اس کا جواب نہیں رکھتی حقیقت سے فراراور ساینس کی انسلٹ ہے. یہ اس کا شعبہ ہی نہیں
اس پوائنٹ کو پہلے پیراگراف میں ڈسکس کیا گیا ہے