مباحث عقل و فطرت غامدی صاحب پر ایک اعلی تنقید

Status
Not open for further replies.

imisa2

Senator (1k+ posts)
”فطرت بطور ماخذ“ کا انکار کرنے والے گروہ پر نقد کرتے ہوئے احباب غیر متعلق و غلط فہمیوں پر مبنی استدلال پیش کرتے ہیں، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اختصار کے ساتھ ان کی وضاحت کردی جائے تاکہ کم از کم گفتگو تو نفس موضوع پر ہوا کرے۔


پہلی غلطی:
اس ضمن میں پہلی غلطی یہ سوال ہوتا ہے: تو کیا آپ اسلام کو دین فطرت نہیں مانتے؟ پھر چند نصوص پیش کر کے یہ ثابت کرنا شروع کر دیا جاتا ہے کہ اسلام دین فطرت ہے، نیز اللہ تعالی نے انسان کی ایک فطرت بنائی ہے وغیرہ۔


تبصرہ:
یہ سوال اور یہ استدلال ہی زیر بحث گفتگو میں غیر متعلق ہے کیونکہ بحث یہ نہیں کہ آیا انسان کی کوئی فطرت ہے یا نہیں، نیز کیا اللہ تعالی کے احکامات انسانی فطرت کے مطابق ہیں۔ ہم نہ تو اس کے منکر ہیں کہ اللہ تعالی نے انسان کو احسن تقویم پر پیدا کیا ہے اور نہ ہی تبلیغ و دعوت دین کو ریشنلائز کرنے کے لیے فطرت کی دلیل کو اپیل کرنے کی اہمیت کے انکاری ہیں کہ آپ آیات سے یہ امور ثابت کریں۔ ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ اسلام دین فطرت ہے، شارع کا ہر حکم انسانی فطرت ہی کی آواز ہے، اسی بنیاد پر ہم ایک غیر مسلم و ملحد کو خطاب کرتے ہیں کہ الا بذکر اللہ تطمئن القلوب نیز شارع کی بات اصلا ”تذکیر“ (عہد الست کی یاد دہانی ہی) ہے۔ اس پہلو سے فطرت (سلیمہ) ایک آئینے کی طرح ہے جو جس قدر خالص ہوگا، حقیقت اعلی اور اس کے تقاضوں کی طرف اسی قدر مضبوط رجحان رکھتی ہوگا۔ اسلامی تاریخ میں صوفیاء کا پورا نظام اسی مقصد کے لیے تھا کہ نفس انسانی کو ظلمات سے پاک کرکے اسے اصل حالت (معرفت رب) پر لایا جائے۔ اس تناظر میں جو کچھ آیات پیش کی جاتی ہیں، ان کا حاصل یہی کچھ ہے اور معاملے کے اس پہلو سے کسی کو اختلاف نہیں ہے۔ اسلام محض کوئی کلامی و قانونی کتاب تھوڑی ہے، یہ دعوتی و تبلیغی اپیل کو بھی شامل ہے۔


لیکن یہ اس معاملے کا صرف دعوتی و تبلیغی پہلو ہے۔ جب اس سکے کو ایک منطقی و متکلم گھما کر یوں پیش کرتا ہے کہ ”اس کا مطلب یہ ہوا کہ انسانی فطرت گویا الگ سے ایک ماخذ ہے جسے خیر و شر کے معاملے میں وحی کے بغیر معلوم کرکے بھی اس سے رہنمائی لی جاسکتی ہے“ تو اب یہ سوال کلامی و قانونی بن جاتا ہے کہ شارع کے حکم کی قانونی بنیاد کیا ہے نیز اگر فطرت و عقل رہنمائی کے لیے کافی ہیں تو پھر شارع کی ضرورت و مقام کیا ہے؟


سکے کو پلٹنے کے بعد اب متعلقہ سوال یہ نہیں رہتا کہ ”کیا انسان کی کوئی فطرت ہے یا نہیں“ بلکہ یہ بنتا ہے کہ ”ماقبل وحی“ جس انسانی فطرت کو ماخذ خیر و شر مانا جا رہا ہے، وہ کیا ہے نیز اس کا تعین کیسے ہوتا ہے؟ اس بحث میں نصوص اصولا لائق استدلال نہیں رہتیں کیونکہ یہ بحث ماقبل نصوص حالت کے بارے میں ہے نہ کہ مابعد نصوص۔ اگر فطرت ماخذ ہے تو اس کے مشمولات کا تعین نصوص سے نہیں بلکہ از خود انسانی فطرت کے کسی مطالعے پر مبنی ہوگا۔ لہذا جو حضرات اس بحث میں نصوص پیش کرتے ہیں، وہ ایک اصولی غلطی کا ارتکاب کرتے ہیں۔ یہ بحث ”فطرت کے مجرد وجود“ کے انکار کی نہیں کہ جسے ثابت کرنے کے لیے آپ آیات پیش کر رہے ہیں بلکہ بحث ”بدون وحی اس کے مافیہ و مشمولات کے تعین“ کی رہی ہے۔ یہاں نصوص سے کام لینا ایک منطقی تضاد ہے کیونکہ ماخذ ماخوذ نہیں ہوتا، یعنی اس کے مشمولات (content) کا تعین کسی دوسرے ماخذ سے نہیں کیا جاتا۔
تو یہ ہوئی پہلی غلط فہمی۔


دوسری غلطی:
متعلقہ بحث کے تعین میں دوسری اہم ترین غلطی فطرت کے دو مختلف معنی کو گڈ مڈ کر دینا ہوتا ہے، ایک ”فطرت بطور صلاحیت“ اور دوسرا فطرت ”بطور قدر(ماخذ خیر)“۔ چنانچہ عموما یہ استدلال کیا جاتا ہے کہ دیکھیے جناب حیا وغیرہ تو فطری چیزیں ہیں، ہر کوئی محسوس کرتا ہے، لہذا معلوم ہوا کہ فطرت ماخذ ہے۔


تبصرہ:
فطرت کے دونوں معنی کا فرق سمجھنا لازم ہے۔
1) فطرت بمعنی صلاحیت (nature as potential)۔ اس معنی کے لحاظ سے فطرت کا مطلب ”انسان کے لیے کیا کرنا ممکن ہے؟“ ہوتا ہے۔ یعنی انسان کے اندر کس امر و عمل کی صلاحیت ہے اور کس کی نہیں۔ اس لحاظ سے جو اس کی صلاحیت ہوگی، وہ اس کے لیے فطری بھی ہوگا۔ فطرت بطور صلاحیت کے لحاظ سے سچ اور جھوٹ بولنا، محبت و نفرت کرنا، حرص، حسد، غضب، بغض، صبر، غنا، ایثار، توکل، رحم وغیرہ انسان کے لیے سب کچھ ”یکساں طور پر“ فطری ہے، ان معنی میں کہ انسان کے لیے یہ سب ”کرنا ممکن ہے“۔ یعنی ایسا نہیں ہے کہ جب میں حرص، حسد، شہوت یا غضب سے مغلوب ہوتا ہوں تو کچھ ایسا کرتا ہوں جو میرے لیے غیر فطری (بمعنی ناممکن) ہو۔ اس کے برعکس مثلا پانی میں سانس لینا انسان کے لیے غیر فطری ہے (کم از کم اب تک)، ان معنی میں کہ انسان ایسا نہیں کرسکتا۔ چنانچہ فطرت کو جب صلاحیت (what is possible) کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے تو اسے positive conception of nature (مثبت تصور فطرت) کہتے ہیں۔
2) فطرت بمعنی خیر، عدل یا معیاری نفسانی کیفیت (nature as normal behavior)۔ اس معنی کے اعتبار سے فطرت کا مفہوم یہ ہوتا ہے کہ ”امکانی طور پر انسان جو کر سکتا ہے، اس میں سے معیاری طور پر مطلوب طرز عمل کیا ہے؟“ اب فطرت پوٹینشل نہیں بلکہ اس پوٹینشل کے جائز اظہار کا نام پوتا ہے، یعنی یہ کہ ”کیا کرنا جائز (عدل) ہے اور کیا نہیں؟“ فطرت کو جب اس معنی میں استعمال کیا جاتا ہے تو اسے normative conception of nature (اخلاقی تصور فطرت) کہتے ہیں۔


چنانچہ جب فطرت کو خیر و شر کے ماخذ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے تو وہاں فطرت پہلے نہیں بلکہ دوسرے معنی میں بولا جا رہا ہوتا ہے۔ یعنی اس گفتگو میں متعلقہ سوال یہ نہیں ہوتا کہ ”انسان کے لیے بطور صلاحیت کیا کرنا ممکن (فطری) ہے؟“ بلکہ یہ ہوتا ہے کہ ”انسان کے لیے کون سا طرز عمل اختیار کرنا جائز و معیاری (فطری) ہے؟“ جب فطرت کو خیر و شر کا ماخذ قرار دیا جاتا ہے، تو دراصل دعوی یہ ہوتا ہے کہ ”انسان کے لیے کیا جائز ہے اور کیا نہیں، اس کا جواب نفس کی کسی معلوم معیاری کیفیت سے جاننا ممکن ہے“۔ دوسرے لفظوں میں ”فطرت بطور آزاد ماخذ“ کا مطلب ”معیاری انسانی کیفیات کے علم“ کا ایسا دعوی ہے جو کسی دوسرے ذریعہ علم سے ماخوذ نہیں۔


اب اگر ”حیا” کے جذبے کی مثال لی جائے تو ”بطور صلاحیت“ اس کا معنی کسی ایسے جذبے کے وجود کا نام ہے جس کی بنیاد پر انسان کسی شے کے اظہار سے بچنے کا داعیہ محسوس کرتا ہے۔ اس اعتبار سے حیا ”آنکھ سے دیکھ سکنے جیسی صلاحیت“ ہی طرح ایک شے ہے جو کسی امر کے خیر و شر ہونے کا معیار بننے لائق نہیں۔ یعنی جیسے دیکھ سکنے کی صلاحیت ”کیا دیکھنا ہے اور کیا نہیں“ کی بحث میں دلیل نہیں ہے، اسی طرح حیا جیسے جذبے کے تحت کسی شے کے اظہار سے بچنے کا داعیہ محسوس کرنا ”کس شے کو برا سمجھنا ہے یا نہیں“ میں کوئی دلیل نہیں۔


خوب یاد رکھنا چاہیے کہ what is possible اور what is normal دو الگ سوالات ہیں۔ ہاں اگر یہ ”مفروضہ“ مان لیا جائے کہ ”جو کچھ ممکن ہے وہ جائز ہے“ تو اب یہ بذات خود ایک ”اخلاقی تصور فطرت“ بن جاتا ہے۔ یہاں خلط مبحث یہ ہوتا ہے کہ فطرت کو ماخذ قرار دینے والے حضرات یہ ثابت کرنے میں لگے رہتے ہیں کہ ”حیا محسوس کرنا ایک فطری (بمعنی صلاحیت) چیز ہے“ جبکہ اس کا تو کوئی انکار ہی نہیں کر رہا ہوتا کہ یہ انسان کی ایک صلاحیت ہے۔ اصل گفتگو اس ”صلاحیت کا وجود ثابت کرنے“ کی نہیں بلکہ اس ”موجود صلاحیت کو معیار ثابت کرنے“ کی ہوتی ہے مگر اسے سمجھے بغیر محض وجود صلاحیت کے غیر متعلق دلائل دیے جا رہے ہوتے ہیں۔ پس اس فرق کو ملحوظ رکھنا لازم ہے۔


تیسری غلطی:
اس ضمن میں تیسری غلط فہمی یہ ہے کہ فطرت کو ماخذ خیر و شر نہ ماننے والوں کی بنیادی دلیل یہ فرض کرلینا ہے کہ ”چونکہ تعیین فطرت میں لوگوں کے درمیان اختلاف ہوجاتا ہے لہذا اسے ماخذ نہیں مانا جاسکتا“۔ پھر یہ حضرات اس دلیل کو از خود چند مثالوں سے رد کرتے ہیں (کہ مثلا خوبصورتی کی تعریف پر اگرچہ اختلاف ہے مگر اس کا یہ معنی نہیں کہ خوبصورت کا وجود نہیں یا اس کا تعین ممکن نہیں وغیرہ۔ بعض لوگ تو اس بحث میں ”تعریف کی مشکلات“ میں پھنس کر رہ گئے)۔


تبصرہ:
یہاں یہ نشان دہی کرنا مقصود ہے کہ فطرت کی تعیین کی متعلقہ بحث (کہ ”بدون وحی فطرت بطور قدر“ کا تعین کیسے ہوتا ہے) میں اصل نکتہ ”اختلاف ہوجانے کا مسئلہ نہیں“ بلکہ ”ابتدائی صورت (starting point)“ اور اس کے ”قابل اعتبار“ ہونے کا ہے۔ یعنی یہاں اصل سوالات یہ ہیں کہ:
1) ”کس کی فطرت“ اصل ہونے کا اعتبار ہوگا، فرد کی یا گروہ کی؟ یعنی جس کی فطرت کو معیار مانا جا رہا ہے، آیا وہ ایک قبل از معاشرہ بطور اکیلا فرد وجود ہے یا کسی معاشرے میں بسنے والا ایک تاریخی فرد؟
2) اگر اکیلے فرد کی تو جس کی فطرت کو معیار مانا جا رہا ہے، وہ ابوبکر، زید، ایڈم سمتھ، مارکس، رالز، عبداللہ وغیرہم میں سے کس کی فطرت ہے؟
3) پھر اگر وہ اکیلا فرد ہی ہے تو اس کے مشمولات فطرت کا تعین کن اصولوں کے تحت ہوتا ہے؟ اس کے متعدد جواب ہوسکتے ہیں۔ مثلا:
الف) ہر فرد خود اپنے نفس میں جھانک کر طے کرلے کہ کیا فطری ہے اور کیا غیر فطری۔ ظاہر ہے یہ جواب غلط ہے کیونکہ یہاں جتنے منہ اتنی باتیں والا معاملہ ہوگا اور ہر کوئی اپنی ہی عادات، اطوار، رجحانات و میلانات کو ہی فطری قرار دے گا (نیز ان میں سے وہ شخص ایک ”تاریخی فرد“ ہی ہوگا)۔
ب) ایک مخصوص فرد یہ طے کرے۔ یہاں اس ”مخصوص“ کے تعین کا سوال کھڑا ہوگا۔
ج) انبیاء و صلحاء کی فطرت معیار ہوگی۔ لیکن اگر انبیاء و صلحاء کی تعریف از خود شرع سے متعین ہوتی ہے تو اس صورت میں ماخذ شرع ہوئی نہ کہ مجرد فرد
4) اگر وہ اکیلا فرد ہی ہے تو اس کی ”حالت اصلی“ کی بابت معلومات وحی سے ماسواء کس ذریعہ علم سے میسر آئیں؟ ایسا انسان کب اور کہاں پایا گیا؟ کیا اس انسانی حالت پر بسنے والے کسی انسان کا کوئی معتبر تاریخی ریکارڈ موجود ہے کہ جسے دیکھ کر یہ بتایا جاسکے کہ ”فلاں فلاں عمل کا اچھا یا برا سمجھنا حالت اصلی کا تقاضا ہے؟“
5) اگر وہ انسان معاشرے کے اندر بسنے والا ایک تاریخی فرد ہے تو اختلاف تاریخ و معاشرتی عوامل نے کیا اس کی فطرت کو حالت اصلی پر چھوڑا ہوگا؟ ایسے انسان میں کیا کچھ اصل ہے اور کیا کچھ مسخ ہو چکا، اس کا فیصلہ کون اور کس بنیاد پر کر رہا ہے؟ ہر فرد کی تاریخ یہ ہے کہ وہ چند معین نظریات و میلانات رکھنے والے ماں باپ کے یہاں پیدا ہوتا ہے، اپنے ارد گرد چند معین نظریات و میلانات رکھنے والے معاشرے میں تربیت پاتا ہے، چند معین نظریات و میلانات رکھنے والے تعلیمی نظام میں علم حاصل کرکے ”اپنے شعور“ کو تعمیر کرتا ہے۔ تو ایسی صورت میں آخر یہ تاریخی فرد کیسے اس سوال کے جواب کا حوالہ بن سکتا ہے کہ ”حالت اصلی کا تقاضا کیا ہے؟“


یہ ہیں چند حقیقی سوالات جن کا کوئی واضح جواب دیے بغیر فطرت کو ماخذ کہنا صرف ایک ہوائی بات ہے جس کی بنا پر اپنے نکتہ نظر میں ایک داعیانہ اپیل تو پیدا کی جاسکتی ہے مگر قانونی مسائل حل نہیں کیے جاسکتے۔


چوتھی غلطی:
چوتھی غلطی ”فطرت کو ماخذ ثابت کرنے“ کا یہ غلط استدلال ہے کہ نصوص بھی خیر و شر کے چند معیاری بدیہی یا فطری تصورات ہی کے تناظر میں انسان سے خطاب کرتی ہیں۔ اس ضمن میں ایک دلیل یہ ہے کہ مثلا جب شارع کہتا ہے کہ ”زنا کے قریب مت جاؤ کہ بے شک یہ کھلی ہوئی فحاشی ہے“ (لاتقربوا الزنی انہ کان فاحشۃ) تو یہ بات کہنے سے قبل قران نے فحاشی کی تفصیل تو نہیں بتا رکھی تھی کہ جس کے بعد پھر زنا کو بالتخصیص ذکر کر کے فحاشی کہا، بلکہ معاملہ یوں ہے کہ فحش کا یہ تصور پہلے سے مخاطب کی فطرت میں ہی موجود تھا اور اسی کی بنیاد پر اسے خطاب کرتے ہوئے کہا گیا کہ یہ عمل فحاشی ہے، بصورت دیگر کلام ممکن نہیں۔


اس دلیل کا حاصل یہ ہے کہ فحاشی وغیرہ الگ سے متعین اخلاقی قدریں ہیں، نیز وہ شارع کا کلام نازل ہونے سے قبل بھی شارع اور بندے کے مابین مشترک تھیں، اور انہی کی بنیاد پر شارع نے بندے سے کلام کیا۔ پس ثابت ہوا کہ فطرت و نفس انسانی میں اخلاقی تصورات کے چند معیاری مفاہیم ماننا لازم ہے۔


تبصرہ:
اس ضمن میں پہلی اصولی بات یہ سمجھنی چاہیے کہ مثلا فحاشی ایک شرعی اصطلاح ہے جس کا تعین تمام متعلقہ نصوص کو مد نظر رکھ کر کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر شخص فحاشی کے نام پر جو کچھ کہتا پھرے، مسلمان اسے محض کسی کے ایسا کہنے کی بنا پر قبول نہیں کرلیتے بلکہ کسی عمل سے متعلق فحاشی کے دعوے کو نصوص اور ان کے مقاصد و مضمرات پر تولا جاتا ہے۔ یہ اصولی بات اگر مد نظر رہے تو شارع کے اس کلام کو سمجھنے میں کوئی دشواری نہیں رہتی۔ پس اس اعتبار سے شارع کا قول ”انہ کان فاحشۃ“ فحاشی کے کسی معیاری فطری تصور پر متفرع نہیں بلکہ اس عمل کے فحش ہونے کی دلیل و بیان ہے۔


اس بات کو دوسرے پہلو سے یوں سمجھیے کہ شارع کسی مجرد فرد سے مخاطب نہیں ہوتا رہا بلکہ ایک ایسے تاریخی انسان سے مخاطب ہوا جس کی ابتداء حضرت آدم علیہ السلام سے ہوئی۔ اس تاریخی انسان کے پاس انبیاء کی حق تعلیمات اور نفس انسانی کے اپنی طرف سے وضع کردہ ملغوبے کی بنا پر فحاشی کے بہت سے تصورات موجود تھے۔ تو جب شارع نے اس انسان کو خطاب کرکے کہا کہ ”انہ کان فاحشۃ“ تو حوالہ وہی برحق تصورات تھے جس سے وہ تاریخی طور پر واقف اور قائل رہے تھے۔ الغرض یہ پورا استدلال ”ایک مجرد فطری فرد“ کے تناظر میں وضع کیا گیا ہے، جبکہ شارع کے اس کلام کے بامعنی ہونے کے لیے ”مجرد فطری فرد“ نہیں بلکہ ”تاریخی فرد“ کا تناظر درکار ہے۔


دیکھیے اگر زنا یا ننگ پن جیسے افعال کو کسی ایسے شخص کے سامنے فحش قرار دے کر پیش کیا جائے جو تاریخی طور پر کسی ایسی تاریخ اور معاشرت سے تعلق رکھتا ہو جہاں ان اعمال کو فحش ہی نہ سمجھا جاتا ہو، اور اس بنا پر وہ فرد بھی یہی رائے رکھتا ہو تو ظاہر ہے اس کے لیے اس آیت کا کوئی معنی نہیں ہوگا۔ پس یاد رکھنا چاہیے کہ انسان ایک تاریخی وجود ہے نہ کہ مجرد۔ اگر یہ تناظر درست کرلیا جائے تو بہت سے اشکالات پیدا ہی نہ ہوں۔


پانچویں غلطی:
آخر یہ مان لینے سے کیا مسئلہ پیدا ہوتا ہے کہ وحی سے ماقبل بھی خیر و شر کی تعیین کا ایک قابل اعتبار ماخذ موجود ہے نیز یہ کہ انسان کو اصلا عقل و فطرت کی راہنمائی ہی کے تحت زندگی بسر کرنا ہے، البتہ جہاں کہیں انسانی فطرت دھوکہ کھا سکتی تھی یا جس معاملے میں عقل کے پاس فیصلے کی کوئی واضح بنیاد نہ تھی، ان معاملات میں وحی کے ذریعے انسان کی راہنمائی کردی گئی؟ یہ تو ایک معقول بات ہے۔


تبصرہ:
غلط فہمی نمبر ایک پر تبصرے میں واضح کیا گیا کہ سکے کو گھمانے کے بعد جب یہ کہاجاتا ہے کہ ”انسانی فطرت گویا الگ سے ایک ماخذ ہے جسے خیر و شر کے معاملے میں وحی کے بغیر معلوم کرکے بھی اس سے راہنمائی لی جاسکتی ہے“ تو اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ شارع کے حکم کی قانونی بنیاد کیا ہے، نیز اگر فطرت وغیرہ اصولا راہنمائی کے لیے کافی ہیں تو پھر شارع کی ضرورت و مقام کیا ہے؟ اب اس موقع پر چند جوابات ممکن ہیں:
الف) تعیین قدر میں شارع کی حیثیت بنیادی ہے، فطرت شارع کے حکم سے الگ کوئی شے نہیں، نہ ہی اس کے بغیر اسے جاننا ممکن ہے۔
ب) فطرت ہی بنیادی چیز ہے اور عقل وغیرہ کے ذریعے اسے پہچاننا ممکن ہے۔ اس صورت میں شارع کی ضرورت محض اضافی و facilitating نوعیت کی ہوئی، یعنی عام لوگوں کو تو اس کی ضرورت ہے مگر فلاسفہ کو اس کی ضرورت نہیں (یہ بعض معتزلہ وغیرہ نے سمجھا)
ج) اس معاملےمیں معلوم اصول فطرت بنیادی چیز ہیں اور شارع کی حیثیت ان معنی میں ایک تتمے (appendix) کی ہے کہ جہاں کہیں فطرت ٹھوکر کھا سکتی تھی ان مقامات پر حکم نازل کردیا گیا۔ یہ پوزیشن چند جدید مفکرین (مثلا غامدی صاحب) نے اپنائی۔


اب اس موقع پر جائز طور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس تمام تر ذہنی مشق اور کیٹیگرائزیشن سے عملی طور پر کیا فرق پڑتا ہے؟ تو اس تمام تر بحث کا تعلق اس عملی سوال سے ہے کہ شارع میری زندگی کے کس قدر شعبے و حصے سے متعلق ہے؟
– پہلی صورت میں جواب یہ بنتا ہے کہ میں اپنی زندگی کے ہر حصے میں شارع ہی کے حکم کا پابند ہوں۔
– دوسری صورت میں شارع کے حکم کی کسی بھی دائرے میں ضرورت نہیں رہتی، اصولا ہر معاملے میں مشمولات عقل و فطرت (وہ جو بھی ہوں) ہی کی طرف دیکھا جائے گا۔ عملا اس کا مطلب یہ ہے کہ فلاسفہ و سوشل سائنٹسٹ کی طرف دیکھا جائے کیونکہ اصول فطرت و عقل کی تنقیح انہی کا شعبہ ہے۔
– تیسری صورت میں شارع کا حکم ایک محدود سے دائرے میں مجھے خطاب کرتا ہے، اس دائرے سے باہر پھر دوسری صورت پلٹ آتی ہے۔


پہلی صورت ہر قسم کی سیکولرائزیشن کا امکان ختم کردیتی ہے کیونکہ یہاں ہر حکم کا ریفرنس پوائنٹ بہرحال شارع کا قول ہوگا (فقہاء نے شرع کو اسی طرز پر دیکھا ہے)۔ دوسری صورت مکمل سیکولرائزیشن کی ہے کہ جہاں شارع کو کلیتا فارغ (suspend) کر دیا جاتا ہے، جبکہ تیسری صورت ایک قسم کی ”دینی سیکولرائزیشن“ کا جواز پیدا کرتی ہے، یعنی شرع کو چند محدود سے معاملات میں محدود کرکے باقی سارا میدان عقل و فطرت کے ہاتھ کھلا چھوڑ دیا جائے۔ اس کا لازمی نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ یہ خلا پھر حاضر و موجود علمیت (سوشل سائنسز) سے پر کیا جائے۔ اس قسم کی دینی سیکولرازم یورپ میں City of Man and City of God کے نام پر طویل عرصے تک پائی گئی۔



http://daleel.pk/2017/05/14/43162


 
Last edited by a moderator:

imisa2

Senator (1k+ posts)

ایڈمن سے گزارش ہے کہ اس لنک پر موجود آرٹیکل کو یہاں کاپی پیسٹ کر دیا جائے
میں نے مقدور بھر کوشش کی مگر ٹیکسٹ میں انگریزی کے الفاظ کی وجہ سے متن صحیح طرح پیسٹ نہیں ہو رہا
 

imisa2

Senator (1k+ posts)
تنقید خاص غامدی صاحب پر نہیں ہے
Brother could you help me in posting this article correctly on the page. Due to English words, I am unable to paste the article here. It is a good discussion and I believe that people should know the alternative religious viewpoint on Nature
 

akmal1

Chief Minister (5k+ posts)
Brother could you help me in posting this article correctly on the page. Due to English words, I am unable to paste the article here. It is a good discussion and I believe that people should know the alternative religious viewpoint on Nature

آپ نے فرمائش کی اور ہو گیا

:)
صحیح کہا آپ نے. اچھی بحث ہے
 

imisa2

Senator (1k+ posts)
Waseem sahib the article is still not in the correct format. I think the people visiting this website should know an alternative religious viewpoint on Nature. Is it possible to post the article with English words in the right place? Will be really thankful if you could do it.
 

Afaq Chaudhry

Chief Minister (5k+ posts)

جاوید احمد غامدی کے باطل عقائد ونظریات


ہمارے زمانے میں فتنۂ انکار حدیث کی آبیاری کرنے والوں میں ایک بڑا نام جاوید احمد غامدی صاحب کا بھی ہے


اس شخصیت کی تلاش میں کچھ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ کوئی بھی ٹی وی چینل کھول لیں اس پر دینی اقدار کے خلاف اپنی سوچ کو بطور حجت پیش کرتے ہوئے جو شخص دکھائی دے وہی حکومت کا فیضی یعنی (علامہ) جاوید غامدی ہے۔جن کا سنت کی تعریف سے لے کر قرآن حکیم تک اُمت سے اختلاف ہے اور موصوف کا دعوٰی ہے کہ چودہ سوبرس میں دین کی کو ان کے سوا کوئی سمجھ ہی نہیں سکا۔جاوید احمد غامدی صاحب دورِ حاضر کے فتنوں میں ایک عظیم فتنہ ہیں۔ خصوصی طور پر ہمارا نوجوان ، دنیاوی تعلیم یافتہ ، اردو دان طبقہ کافی حد تک اس فتنہ کی لپیٹ میں آچکا ہے ۔


فی زمانہ غامدی فکر ایک مکمل مذہب کی شکل اختیار کرچکی ہے

یہ دور حاضر کاایک تجدد پسند گروہ (Miderbusts) ہے۔ جس نے مغرب سے مرعوب و متاثر ہوکر دین اسلام کا جدید ایڈیشن تیار کرنے کے لئے قرآن و حدیث کے الفاظ کے معانی اور دینی اصطلاحات کے مفاہیم بدلنے کی ناپاک جسارت کی ہے۔ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ وہ بھیڑ کے روپ میں ایک بھیڑیا ہے





برصغیر پاک و ہند میں اس فتنے کی ابتدا سرسید احمد خان نے کی۔ پھر ان کی پیروی میں دو فکری سلسلوں نے اس فتنے کو پروان چڑھایا۔ ان میں سے ایک سلسلہ عبداﷲ چکڑالوی اور شیخ اسلم جیراج پوری سے ہوتا ہوا جناب غلام احمد پرویز تک پہنچتا ہے۔



‎ جو لوگ بے عملى كا شكار ہوتے ہيں وہ دين اور دينى احكام كا ذكر آنے پر کسی آسانی کی تلاش میں رہتے ہيں اور كسى ايسى پناہ كى تلاش ميں ہوتے ہيں جو اس احساس سے ان كى جان چھڑا دے۔۔ ايسے ميں يہ نام نہاد سكالرز ان كے كام آتے ہيں اور


خود بدلتے نہيں قرآں كو بدل ديتے ہيں


دین اور اہل ِ دین سے دوری کا ایک نقصان یہ بھی ہے کہ نفس اور شیطان انسان پر حاوی ہوکر اسے خواہش پرست اور آزادی پسند بنادیتے ہیں۔ ایسا انسان جس چیز کو اپنی غرض، خواہش اور مشن کے لئے سد ِ راہ اور رکاوٹ خیال کرتا ہے، غلط تاویلات اور فاسد خیالات کے ذریعہ اس کا انکار کردیتا ہے۔
جن لوگوں نے اپنے عزائم اور فاسد نظریات کی ترویج میں احادیث کو رکاوٹ گردانا ، انہوں نے حجیت حدیث کا انکارکیا


قرآن پاک میں واضح ارشاد ہے کہ


وما اٰتٰکم الرسول فاخذوہ ومانہٰکم عنہ فانتھوا (اعشر آیت 59، ع 7)


ترجمہ: رسول جو کچھ تمہیں دیں، اس کو لے لو، اور جس چیز سے روکیں اس سے باز رہو۔




غامدی صاحب نہ صرف منکر ِحدیث ہیں بلکہ اسلام کے متوازی ایک الگ مذہب کے علمبردار ہیں ۔ یہ صاحب اپنی چرب زبانی کے ذریعے اس فتنے کو ہوا دے رہے ہیں ۔ اُن کو الیکٹرانک میڈیاکی توجہ و سرپرستی حاصل ہے۔

غامدی صاحب کے منکر ِحدیث ہونے کے کئی وجوہات ہیں ۔ وہ اپنے من گھڑت اُصولِ حدیث رکھتے ہیں ۔ حدیث و سنت کی اصطلاحات کی معنوی تحریف کرتے ہیں اورہزاروں اَحادیث ِصحیحہ کی حجیت کا انکار کرتے ہیں ۔مسئلہ یہ ہے کہ موجودہ نسل اور عوام کی ایک بڑی تعداد پہلے ہاتھ ہی یہ کہہ دیتی ہے کہ احادیث میں تو تضاد ہے۔یہی وہ پہلا خفیہ پینترا ہے جس کے ذریعے پھر بڑی چابک دستی کے ساتھ انکار حدیث کی راہ ہموار ہوجاتی ہے

اگر ہم نے پیغبر صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی حفاظت نہ کی تو معاذ اللہ ایک ایسا دور آجائے گا کہ جس میں لوگ حدیث کو یہ کہہ کر چھوڑ دیں گے کہ بھئی یہ تو ظنی علم ہے نہ معلوم درست ہے یا غلط اس لئے ہمارے لئے صرف اللہ کی کتاب ہی کافی ہے۔حفاظتِ حدیث کے متعلق میری رائے ذرا مختلف ہے کہ اسکی مطلق حفاظت تو بلا شبہ اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے مگر زمانے کے ساتھ ساتھ اس مبارک مجموعہ کی حفاظت ہماری اہم ذمہ داریوں میں سے ہے اور جس طرح کہ ماضی میں اسکی کئی ایک مثالیں موجود ہیں اگر امام بخاری امام مسلم اور دیگر ائمہ کرام اسکی حفاظت کی ذمہ داری اپنے سر نہ لیتے اور ایک ایک حدیث کو تلاش کرنے کیلئے اپنا تن من اور دھن قربان نہ کرتے تو آج آپ مبادا ان بیش بہا کتب سے محروم رہتیں۔۔۔


غامدی صاحب کے نظریات باطلہ و عقائد فاسدہ


(1) قرآن کی صرف ایک ہی قرأت درست ہے، باقی سب قرأتیں عجم کا فتنہ ہیں (میزان ص 32,26,25، طبع دوم اپریل 2002)


(2) سنت قرآن سے مقدم ہے (میزان ص 52، طبع دوم اپریل 2002)


غامدی صاحب کے ہاں یہ کھلا تضاد موجود ہے کہ وہ کبھی قرآن کو سنت پر مقدم مانتے ہیں، اور کبھی سنت کو قرآن سے مقدم قرار دیتے ہیں۔ چنانچہ وہ ایک جگہ قرآن کو ہر چیز پر مقدم قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:


’’ہر شخص پابندہے کہ اس (قرآن) پر کسی چیز کو مقدم نہ ٹھرائے‘‘ (میزان ص 23، طبع دوم اپریل 2002)


پھر اسی کتاب (میزان) میں آگے لکھتے ہیں کہ ’’سنت قرآن سے مقدم قرآن کے بعد نہیں‘‘ (ص 52)


یہاں غامدی صاحب نے دونوں مقامات پر حرف ’’پر‘‘ اور حرف ’’سے‘‘ کا مغالطہ دیا ہے، مگر یہ مغالطہ اس وقت صرف مغالطہ نہیں رہتا بلکہ ایک کھلا تضاد بن کر سامنے آتا ہے جب اسے اردو زبان کے درج ذیل جملوں کی روشنی میں دیکھا جائے۔


(1) اﷲ تعالیٰ پر کسی چیز کو مقدم نہیں ٹھہرانا چاہئے۔


(2) نبیﷺ اﷲ تعالیٰ سے مقدم ہے


کیا جو شخص اردو زبان جانتاہو، مذکورہ بالا جملوں میں کھلا تضاد نہ پائے گا؟


(3) سنت صرف افعال کا نام ہے، اس کی ابتدا حضرت محمدﷺ سے نہیں بلکہ ابراہیم علیہ السلام سے ہوتی ہے (میزان ص 10،65، طبع دوم)


(4) سنت صرف 27 اعمال کا نام ہے (میزان ص 10، طبع دوم)


سنتیں جب گھٹ گئیں تو دین کامل ہوگیا


غامدی کو گوہر مقصود حاصل ہوگیا


(5) ثبوت کے اعتبار سے سنت اور قرآن میں کوئی فرق نہیں۔ ان دونوں کا ثبوت اجماع اور عملی تواتر سے ہوتا ہے (میزان ص10طبع دوم)


(6) حدیث سے کوئی اسلامی عقیدہ یا عمل ثابت نہیں ہوتا (میزان ص 64 طبع دوم)


(7) دین کے مصادر و ماخذ قرآن کے علاوہ دین فطرت کے حقائق، سنت ابراہیم اور قدیم صحائف ہیں (میزان ص 48 طبع دوم)


اسلام میں قرآن، سنت، اجماع اور قیاس ماخذ شریعت ہیں


(8) دین میں معروف و منکر کا تعین فطرت انسانی کرتی ہے (میزان ص 49)


(9) نبیﷺ کی رحلت کے بعد کسی شخص کو کافر قرار نہیں دیا جاسکتا (ماہنامہ اشراق، دسمبر 2000، ص 55,54)


جھوٹے نبوت کے داعی ان کے عقائد و زعم باطلہ میں غیر مسلم نہیں


(10) زکوٰۃ کا نصاب منصوص اور مقرر نہیں ہے (قانون عبادات، ص 119)


(11) اسلام میں موت کی سزا صرف دوجہ ائم (قتل نض، اور فساد فی الارض) پردی جاسکتی ہے (برہان، ص 143، طبع چہارم، جون2006)


غامدی صاحب کے نزدیک مرتد اور شاتم رسول کی سزا موت نہیں ہے


(12) دیت کا قانون وقتی اور عارضی تھا (برہان ص 19,18، طبع چہارم)


(13) قتل خطاء میں دیت کی مقدار منصوص نہیں ہے، یہ ہر زمانے میں تبدیل کی جاسکتی ہے (برہان ص 19,18، طبع چہارم)


(14) عورت اور مرد کی دیت (Blood Momey) برابر ہوگی (برہان ص 18، طبع چہارم)


(15) مرتد کے لئے قتل کی سزا نہیں ہے (برہان، ص 40، طبع چہارم)


(16) شادی شدہ اور کنواری ماں زانی دونوں کے لئے ایک ہی سزا 100 کوڑے ہیں (میزان ص 299، 300 طبع دوم)


(17) شراب نوشی پر کوئی شرعی سزا نہیں ہے (برہان ص 138، طبع چہارم)


(18) غیر مسلم بھی مسلمانوں کے وارث ہوسکتے ہیں (میزان ص 171، طبع دوم اپریل 2002)


(19) سور کی کھال اور چربی وغیرہ کی تجارت اور ان کا استعمال شریعت میں ممنوع نہیں ہے (ماہنامہ اشراق، اکتوبر 1998ء ص 79)


(20) اگر میت کی اولاد میں صرف بیٹیاں وارث ہوں تو ان کو والدین یا بیوی (یا شوہر) کے حصوں سے بچے ہوئے ترکے کا دو تہائی حصہ ملے گا، ان کو کل ترکے کا دو تہائی 2/3 نہیں ملے گا (میزان، حصہ اول ص 70، مئی 1985) (میزان ص 168، طبع دوم اپریل 2002)


(21) عورت کے لئے دوپٹہ یا اوڑھنی پہننا شرعی حکم نہیں (ماہنامہ اشراق، مئی 2002ص 47)


(22) کھانے کی صرف چار چیزیں ہی حرام ہیں، خون، مردار، سور کا گوشت، غیر اﷲ، کے نام کا ذبیحہ (میزان ص 311 طبع دوم)


(23) بعض انبیاء کرام قتل ہوئے ہیں مگر کوئی رسول کبھی قتل نہیں ہوا (میزان حصہ اول، ص 21، طبع 1985)


(24) حضرت عیسٰی علیہ السلام وفات پاچکے ہیں (میزان حصہ اول، 24,23,22 طبع 1985)


(25) یاجوج ماجوج اور دجال سے مراد مغربی اقوام ہیں (ماہنامہ اشراق، جنوری 1996ء ص 61)


(یاد رہے کہ یاجوج ماجوج اور دجال قرب قیامت کی نشانیاں ہیں اور یہ دونوں الگ الگ ہیں) جبکہ دجال احادیث کی رو سے یہودی شخص ہے جو بائیں آنکھ سے کانا ہوگا اور اس کی پیشانی پر (ک،ف،ر) لکھا ہوگا جوکہ ہر مومن شخص پڑھ کر اس کو پہچان لے گا


(26) جانداروں کی تصویریں بنانا بالکل جائز ہے (ادارہ الحورد کی کتاب ’’تصویر کا مسئلہ‘‘ ص 30)


(27) موسیقی اور گانا بجانا بھی جائز ہے (ماہنامہ اشراق، مارچ 2004 ص 19,8)


(28) عورت مردوں کی امامت کراسکتی ہے (ماہنامہ اشراق، مئی 2005، ص 35تا 46)


(29) اسلام میں جہاد و قتال کا کوئی شرعی حکم نہیں ہے (میزان، ص 264، طبع دوم، اپریل 2002)

دوم اپریل 2002(30) کفار کے خلاف جہاد کرنے کا حکم اب باقی نہیں رہا اور مفتوح کافروں سے جزیہ لینا جائز نہیں (میزان ص 270، طبع

آخر میں ہم خداوند قدوس کی بارگاہ میں دعاگو ہیں کہ وہ ہمیں تادم مرگ ایمان کامل کے ساتھ رکھے،ہدایت کو ہمارا مقدر بنائے، سرکشوں، بدمذہبوں کی صحبتوں اور ان کے وار، مکرو فریب سے ہمیشہ بچائے رکھے۔ اگر ہدایت ان کا مقدر ہے تو جلد انہیں
ہدایت یافتہ لوگوں میں شامل فرمادے ورنہ انہیں ان کے انجام بد تک پہنچائے۔




http://harfedua.blogspot.com.es/2013/10/blog-post_3083.html
 

akmal1

Chief Minister (5k+ posts)

جاوید احمد غامدی کے باطل عقائد ونظریات


ہمارے زمانے میں فتنۂ انکار حدیث کی آبیاری کرنے والوں میں ایک بڑا نام جاوید احمد غامدی صاحب کا بھی ہے


اس شخصیت کی تلاش میں کچھ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ کوئی بھی ٹی وی چینل کھول لیں اس پر دینی اقدار کے خلاف اپنی سوچ کو بطور حجت پیش کرتے ہوئے جو شخص دکھائی دے وہی حکومت کا فیضی یعنی (علامہ) جاوید غامدی ہے۔جن کا سنت کی تعریف سے لے کر قرآن حکیم تک اُمت سے اختلاف ہے اور موصوف کا دعوٰی ہے کہ چودہ سوبرس میں دین کی کو ان کے سوا کوئی سمجھ ہی نہیں سکا۔جاوید احمد غامدی صاحب دورِ حاضر کے فتنوں میں ایک عظیم فتنہ ہیں۔ خصوصی طور پر ہمارا نوجوان ، دنیاوی تعلیم یافتہ ، اردو دان طبقہ کافی حد تک اس فتنہ کی لپیٹ میں آچکا ہے ۔


فی زمانہ غامدی فکر ایک مکمل مذہب کی شکل اختیار کرچکی ہے

یہ دور حاضر کاایک تجدد پسند گروہ (Miderbusts) ہے۔ جس نے مغرب سے مرعوب و متاثر ہوکر دین اسلام کا جدید ایڈیشن تیار کرنے کے لئے قرآن و حدیث کے الفاظ کے معانی اور دینی اصطلاحات کے مفاہیم بدلنے کی ناپاک جسارت کی ہے۔ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ وہ بھیڑ کے روپ میں ایک بھیڑیا ہے





برصغیر پاک و ہند میں اس فتنے کی ابتدا سرسید احمد خان نے کی۔ پھر ان کی پیروی میں دو فکری سلسلوں نے اس فتنے کو پروان چڑھایا۔ ان میں سے ایک سلسلہ عبداﷲ چکڑالوی اور شیخ اسلم جیراج پوری سے ہوتا ہوا جناب غلام احمد پرویز تک پہنچتا ہے۔



‎ جو لوگ بے عملى كا شكار ہوتے ہيں وہ دين اور دينى احكام كا ذكر آنے پر کسی آسانی کی تلاش میں رہتے ہيں اور كسى ايسى پناہ كى تلاش ميں ہوتے ہيں جو اس احساس سے ان كى جان چھڑا دے۔۔ ايسے ميں يہ نام نہاد سكالرز ان كے كام آتے ہيں اور


خود بدلتے نہيں قرآں كو بدل ديتے ہيں


دین اور اہل ِ دین سے دوری کا ایک نقصان یہ بھی ہے کہ نفس اور شیطان انسان پر حاوی ہوکر اسے خواہش پرست اور آزادی پسند بنادیتے ہیں۔ ایسا انسان جس چیز کو اپنی غرض، خواہش اور مشن کے لئے سد ِ راہ اور رکاوٹ خیال کرتا ہے، غلط تاویلات اور فاسد خیالات کے ذریعہ اس کا انکار کردیتا ہے۔
جن لوگوں نے اپنے عزائم اور فاسد نظریات کی ترویج میں احادیث کو رکاوٹ گردانا ، انہوں نے حجیت حدیث کا انکارکیا


قرآن پاک میں واضح ارشاد ہے کہ


وما اٰتٰکم الرسول فاخذوہ ومانہٰکم عنہ فانتھوا (اعشر آیت 59، ع 7)


ترجمہ: رسول جو کچھ تمہیں دیں، اس کو لے لو، اور جس چیز سے روکیں اس سے باز رہو۔




غامدی صاحب نہ صرف منکر ِحدیث ہیں بلکہ اسلام کے متوازی ایک الگ مذہب کے علمبردار ہیں ۔ یہ صاحب اپنی چرب زبانی کے ذریعے اس فتنے کو ہوا دے رہے ہیں ۔ اُن کو الیکٹرانک میڈیاکی توجہ و سرپرستی حاصل ہے۔

غامدی صاحب کے منکر ِحدیث ہونے کے کئی وجوہات ہیں ۔ وہ اپنے من گھڑت اُصولِ حدیث رکھتے ہیں ۔ حدیث و سنت کی اصطلاحات کی معنوی تحریف کرتے ہیں اورہزاروں اَحادیث ِصحیحہ کی حجیت کا انکار کرتے ہیں ۔مسئلہ یہ ہے کہ موجودہ نسل اور عوام کی ایک بڑی تعداد پہلے ہاتھ ہی یہ کہہ دیتی ہے کہ احادیث میں تو تضاد ہے۔یہی وہ پہلا خفیہ پینترا ہے جس کے ذریعے پھر بڑی چابک دستی کے ساتھ انکار حدیث کی راہ ہموار ہوجاتی ہے

اگر ہم نے پیغبر صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی حفاظت نہ کی تو معاذ اللہ ایک ایسا دور آجائے گا کہ جس میں لوگ حدیث کو یہ کہہ کر چھوڑ دیں گے کہ بھئی یہ تو ظنی علم ہے نہ معلوم درست ہے یا غلط اس لئے ہمارے لئے صرف اللہ کی کتاب ہی کافی ہے۔حفاظتِ حدیث کے متعلق میری رائے ذرا مختلف ہے کہ اسکی مطلق حفاظت تو بلا شبہ اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے مگر زمانے کے ساتھ ساتھ اس مبارک مجموعہ کی حفاظت ہماری اہم ذمہ داریوں میں سے ہے اور جس طرح کہ ماضی میں اسکی کئی ایک مثالیں موجود ہیں اگر امام بخاری امام مسلم اور دیگر ائمہ کرام اسکی حفاظت کی ذمہ داری اپنے سر نہ لیتے اور ایک ایک حدیث کو تلاش کرنے کیلئے اپنا تن من اور دھن قربان نہ کرتے تو آج آپ مبادا ان بیش بہا کتب سے محروم رہتیں۔۔۔


غامدی صاحب کے نظریات باطلہ و عقائد فاسدہ


(1) قرآن کی صرف ایک ہی قرأت درست ہے، باقی سب قرأتیں عجم کا فتنہ ہیں (میزان ص 32,26,25، طبع دوم اپریل 2002)


(2) سنت قرآن سے مقدم ہے (میزان ص 52، طبع دوم اپریل 2002)


غامدی صاحب کے ہاں یہ کھلا تضاد موجود ہے کہ وہ کبھی قرآن کو سنت پر مقدم مانتے ہیں، اور کبھی سنت کو قرآن سے مقدم قرار دیتے ہیں۔ چنانچہ وہ ایک جگہ قرآن کو ہر چیز پر مقدم قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:


’’ہر شخص پابندہے کہ اس (قرآن) پر کسی چیز کو مقدم نہ ٹھرائے‘‘ (میزان ص 23، طبع دوم اپریل 2002)


پھر اسی کتاب (میزان) میں آگے لکھتے ہیں کہ ’’سنت قرآن سے مقدم قرآن کے بعد نہیں‘‘ (ص 52)


یہاں غامدی صاحب نے دونوں مقامات پر حرف ’’پر‘‘ اور حرف ’’سے‘‘ کا مغالطہ دیا ہے، مگر یہ مغالطہ اس وقت صرف مغالطہ نہیں رہتا بلکہ ایک کھلا تضاد بن کر سامنے آتا ہے جب اسے اردو زبان کے درج ذیل جملوں کی روشنی میں دیکھا جائے۔


(1) اﷲ تعالیٰ پر کسی چیز کو مقدم نہیں ٹھہرانا چاہئے۔


(2) نبیﷺ اﷲ تعالیٰ سے مقدم ہے


کیا جو شخص اردو زبان جانتاہو، مذکورہ بالا جملوں میں کھلا تضاد نہ پائے گا؟


(3) سنت صرف افعال کا نام ہے، اس کی ابتدا حضرت محمدﷺ سے نہیں بلکہ ابراہیم علیہ السلام سے ہوتی ہے (میزان ص 10،65، طبع دوم)


(4) سنت صرف 27 اعمال کا نام ہے (میزان ص 10، طبع دوم)


سنتیں جب گھٹ گئیں تو دین کامل ہوگیا


غامدی کو گوہر مقصود حاصل ہوگیا


(5) ثبوت کے اعتبار سے سنت اور قرآن میں کوئی فرق نہیں۔ ان دونوں کا ثبوت اجماع اور عملی تواتر سے ہوتا ہے (میزان ص10طبع دوم)


(6) حدیث سے کوئی اسلامی عقیدہ یا عمل ثابت نہیں ہوتا (میزان ص 64 طبع دوم)


(7) دین کے مصادر و ماخذ قرآن کے علاوہ دین فطرت کے حقائق، سنت ابراہیم اور قدیم صحائف ہیں (میزان ص 48 طبع دوم)


اسلام میں قرآن، سنت، اجماع اور قیاس ماخذ شریعت ہیں


(8) دین میں معروف و منکر کا تعین فطرت انسانی کرتی ہے (میزان ص 49)


(9) نبیﷺ کی رحلت کے بعد کسی شخص کو کافر قرار نہیں دیا جاسکتا (ماہنامہ اشراق، دسمبر 2000، ص 55,54)


جھوٹے نبوت کے داعی ان کے عقائد و زعم باطلہ میں غیر مسلم نہیں


(10) زکوٰۃ کا نصاب منصوص اور مقرر نہیں ہے (قانون عبادات، ص 119)


(11) اسلام میں موت کی سزا صرف دوجہ ائم (قتل نض، اور فساد فی الارض) پردی جاسکتی ہے (برہان، ص 143، طبع چہارم، جون2006)


غامدی صاحب کے نزدیک مرتد اور شاتم رسول کی سزا موت نہیں ہے


(12) دیت کا قانون وقتی اور عارضی تھا (برہان ص 19,18، طبع چہارم)


(13) قتل خطاء میں دیت کی مقدار منصوص نہیں ہے، یہ ہر زمانے میں تبدیل کی جاسکتی ہے (برہان ص 19,18، طبع چہارم)


(14) عورت اور مرد کی دیت (Blood Momey) برابر ہوگی (برہان ص 18، طبع چہارم)


(15) مرتد کے لئے قتل کی سزا نہیں ہے (برہان، ص 40، طبع چہارم)


(16) شادی شدہ اور کنواری ماں زانی دونوں کے لئے ایک ہی سزا 100 کوڑے ہیں (میزان ص 299، 300 طبع دوم)


(17) شراب نوشی پر کوئی شرعی سزا نہیں ہے (برہان ص 138، طبع چہارم)


(18) غیر مسلم بھی مسلمانوں کے وارث ہوسکتے ہیں (میزان ص 171، طبع دوم اپریل 2002)


(19) سور کی کھال اور چربی وغیرہ کی تجارت اور ان کا استعمال شریعت میں ممنوع نہیں ہے (ماہنامہ اشراق، اکتوبر 1998ء ص 79)


(20) اگر میت کی اولاد میں صرف بیٹیاں وارث ہوں تو ان کو والدین یا بیوی (یا شوہر) کے حصوں سے بچے ہوئے ترکے کا دو تہائی حصہ ملے گا، ان کو کل ترکے کا دو تہائی 2/3 نہیں ملے گا (میزان، حصہ اول ص 70، مئی 1985) (میزان ص 168، طبع دوم اپریل 2002)


(21) عورت کے لئے دوپٹہ یا اوڑھنی پہننا شرعی حکم نہیں (ماہنامہ اشراق، مئی 2002ص 47)


(22) کھانے کی صرف چار چیزیں ہی حرام ہیں، خون، مردار، سور کا گوشت، غیر اﷲ، کے نام کا ذبیحہ (میزان ص 311 طبع دوم)


(23) بعض انبیاء کرام قتل ہوئے ہیں مگر کوئی رسول کبھی قتل نہیں ہوا (میزان حصہ اول، ص 21، طبع 1985)


(24) حضرت عیسٰی علیہ السلام وفات پاچکے ہیں (میزان حصہ اول، 24,23,22 طبع 1985)


(25) یاجوج ماجوج اور دجال سے مراد مغربی اقوام ہیں (ماہنامہ اشراق، جنوری 1996ء ص 61)


(یاد رہے کہ یاجوج ماجوج اور دجال قرب قیامت کی نشانیاں ہیں اور یہ دونوں الگ الگ ہیں) جبکہ دجال احادیث کی رو سے یہودی شخص ہے جو بائیں آنکھ سے کانا ہوگا اور اس کی پیشانی پر (ک،ف،ر) لکھا ہوگا جوکہ ہر مومن شخص پڑھ کر اس کو پہچان لے گا


(26) جانداروں کی تصویریں بنانا بالکل جائز ہے (ادارہ الحورد کی کتاب ’’تصویر کا مسئلہ‘‘ ص 30)


(27) موسیقی اور گانا بجانا بھی جائز ہے (ماہنامہ اشراق، مارچ 2004 ص 19,8)


(28) عورت مردوں کی امامت کراسکتی ہے (ماہنامہ اشراق، مئی 2005، ص 35تا 46)


(29) اسلام میں جہاد و قتال کا کوئی شرعی حکم نہیں ہے (میزان، ص 264، طبع دوم، اپریل 2002)

دوم اپریل 2002(30) کفار کے خلاف جہاد کرنے کا حکم اب باقی نہیں رہا اور مفتوح کافروں سے جزیہ لینا جائز نہیں (میزان ص 270، طبع

آخر میں ہم خداوند قدوس کی بارگاہ میں دعاگو ہیں کہ وہ ہمیں تادم مرگ ایمان کامل کے ساتھ رکھے،ہدایت کو ہمارا مقدر بنائے، سرکشوں، بدمذہبوں کی صحبتوں اور ان کے وار، مکرو فریب سے ہمیشہ بچائے رکھے۔ اگر ہدایت ان کا مقدر ہے تو جلد انہیں
ہدایت یافتہ لوگوں میں شامل فرمادے ورنہ انہیں ان کے انجام بد تک پہنچائے۔




http://harfedua.blogspot.com.es/2013/10/blog-post_3083.html

غامدی صاحب کو مفت میں رگڑ رہے ہو
 

Afaq Chaudhry

Chief Minister (5k+ posts)

غامدی صاحب کو مفت میں رگڑ رہے ہو


ان باتوں کو بھی یاد رکھیں ، فتنہ انکار سنت ہے یہ ، ورنہ یہ صاحب ہر بات میں قوم کو الجھنے کے علاوہ کوئی کام نہیں کرتے ، رہتے ملاشیا میں ، پروگرام پاکستان میں ، ایک عالم اور خوف کس بات کا
 

akmal1

Chief Minister (5k+ posts)


ان باتوں کو بھی یاد رکھیں ، فتنہ انکار سنت ہے یہ ، ورنہ یہ صاحب ہر بات میں قوم کو الجھنے کے علاوہ کوئی کام نہیں کرتے ، رہتے ملاشیا میں ، پروگرام پاکستان میں ، ایک عالم اور خوف کس بات کا

جناب یہ تمام الزامات آدھا سچ ہے جو کہ جھوٹ سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے. آپ ہی جیسے دو طالب علموں نے غامدی صاحب کے ساتھ ایک نشست کی تھی اور انکا رویہ لہجہ اور علمی استطاعت پوری دنیا نے دیکھ لی ہے. لگتا تھا کہ نرسری کے دو بدتمیز بچوں کو پوسٹ ڈوکٹریٹ کے سامنے بٹھا دیا ہے
 

Rumiji

MPA (400+ posts)
Leave Ghamdi alone he is doing a remarkable job plus you don't have a monopoly on Islam so let go of your foolishness and get a real job work for a change.... get busy do something invent something for humanity which Muslims have done zilch besides bullcrap, shame on you, the way you projected Islam even the Buddhist are killing us....
PS...no one has time to read this long bullcrap
 
Last edited:

fawad ali

Chief Minister (5k+ posts)
Ghamidi is serving Islam more than any other Aalim. The extreme version of Islam taught to us by our elders has destroyed the image of Muslims all around the world. Have you heard the word 'Islamophobia'? Is is because of the violent version of Islam taught by our elders. Ghamidi is a good solution to these extremists. Zia ul haq version of Islam has no place in 21st century.
 

Subh e Nau

Politcal Worker (100+ posts)
Brother could you help me in posting this article correctly on the page. Due to English words, I am unable to paste the article here. It is a good discussion and I believe that people should know the alternative religious viewpoint on Nature


جاوید احمد غامدی کے باطل عقائد ونظریات


ہمارے زمانے میں فتنۂ انکار حدیث کی آبیاری کرنے والوں میں ایک بڑا نام جاوید احمد غامدی صاحب کا بھی ہے


اس شخصیت کی تلاش میں کچھ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ کوئی بھی ٹی وی چینل کھول لیں اس پر دینی اقدار کے خلاف اپنی سوچ کو بطور حجت پیش کرتے ہوئے جو شخص دکھائی دے وہی حکومت کا فیضی یعنی (علامہ) جاوید غامدی ہے۔جن کا سنت کی تعریف سے لے کر قرآن حکیم تک اُمت سے اختلاف ہے اور موصوف کا دعوٰی ہے کہ چودہ سوبرس میں دین کی کو ان کے سوا کوئی سمجھ ہی نہیں سکا۔جاوید احمد غامدی صاحب دورِ حاضر کے فتنوں میں ایک عظیم فتنہ ہیں۔ خصوصی طور پر ہمارا نوجوان ، دنیاوی تعلیم یافتہ ، اردو دان طبقہ کافی حد تک اس فتنہ کی لپیٹ میں آچکا ہے ۔


فی زمانہ غامدی فکر ایک مکمل مذہب کی شکل اختیار کرچکی ہے

یہ دور حاضر کاایک تجدد پسند گروہ (Miderbusts) ہے۔ جس نے مغرب سے مرعوب و متاثر ہوکر دین اسلام کا جدید ایڈیشن تیار کرنے کے لئے قرآن و حدیث کے الفاظ کے معانی اور دینی اصطلاحات کے مفاہیم بدلنے کی ناپاک جسارت کی ہے۔ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ وہ بھیڑ کے روپ میں ایک بھیڑیا ہے





برصغیر پاک و ہند میں اس فتنے کی ابتدا سرسید احمد خان نے کی۔ پھر ان کی پیروی میں دو فکری سلسلوں نے اس فتنے کو پروان چڑھایا۔ ان میں سے ایک سلسلہ عبداﷲ چکڑالوی اور شیخ اسلم جیراج پوری سے ہوتا ہوا جناب غلام احمد پرویز تک پہنچتا ہے۔



‎ جو لوگ بے عملى كا شكار ہوتے ہيں وہ دين اور دينى احكام كا ذكر آنے پر کسی آسانی کی تلاش میں رہتے ہيں اور كسى ايسى پناہ كى تلاش ميں ہوتے ہيں جو اس احساس سے ان كى جان چھڑا دے۔۔ ايسے ميں يہ نام نہاد سكالرز ان كے كام آتے ہيں اور


خود بدلتے نہيں قرآں كو بدل ديتے ہيں


دین اور اہل ِ دین سے دوری کا ایک نقصان یہ بھی ہے کہ نفس اور شیطان انسان پر حاوی ہوکر اسے خواہش پرست اور آزادی پسند بنادیتے ہیں۔ ایسا انسان جس چیز کو اپنی غرض، خواہش اور مشن کے لئے سد ِ راہ اور رکاوٹ خیال کرتا ہے، غلط تاویلات اور فاسد خیالات کے ذریعہ اس کا انکار کردیتا ہے۔
جن لوگوں نے اپنے عزائم اور فاسد نظریات کی ترویج میں احادیث کو رکاوٹ گردانا ، انہوں نے حجیت حدیث کا انکارکیا


قرآن پاک میں واضح ارشاد ہے کہ


وما اٰتٰکم الرسول فاخذوہ ومانہٰکم عنہ فانتھوا (اعشر آیت 59، ع 7)


ترجمہ: رسول جو کچھ تمہیں دیں، اس کو لے لو، اور جس چیز سے روکیں اس سے باز رہو۔




غامدی صاحب نہ صرف منکر ِحدیث ہیں بلکہ اسلام کے متوازی ایک الگ مذہب کے علمبردار ہیں ۔ یہ صاحب اپنی چرب زبانی کے ذریعے اس فتنے کو ہوا دے رہے ہیں ۔ اُن کو الیکٹرانک میڈیاکی توجہ و سرپرستی حاصل ہے۔

غامدی صاحب کے منکر ِحدیث ہونے کے کئی وجوہات ہیں ۔ وہ اپنے من گھڑت اُصولِ حدیث رکھتے ہیں ۔ حدیث و سنت کی اصطلاحات کی معنوی تحریف کرتے ہیں اورہزاروں اَحادیث ِصحیحہ کی حجیت کا انکار کرتے ہیں ۔مسئلہ یہ ہے کہ موجودہ نسل اور عوام کی ایک بڑی تعداد پہلے ہاتھ ہی یہ کہہ دیتی ہے کہ احادیث میں تو تضاد ہے۔یہی وہ پہلا خفیہ پینترا ہے جس کے ذریعے پھر بڑی چابک دستی کے ساتھ انکار حدیث کی راہ ہموار ہوجاتی ہے

اگر ہم نے پیغبر صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی حفاظت نہ کی تو معاذ اللہ ایک ایسا دور آجائے گا کہ جس میں لوگ حدیث کو یہ کہہ کر چھوڑ دیں گے کہ بھئی یہ تو ظنی علم ہے نہ معلوم درست ہے یا غلط اس لئے ہمارے لئے صرف اللہ کی کتاب ہی کافی ہے۔حفاظتِ حدیث کے متعلق میری رائے ذرا مختلف ہے کہ اسکی مطلق حفاظت تو بلا شبہ اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے مگر زمانے کے ساتھ ساتھ اس مبارک مجموعہ کی حفاظت ہماری اہم ذمہ داریوں میں سے ہے اور جس طرح کہ ماضی میں اسکی کئی ایک مثالیں موجود ہیں اگر امام بخاری امام مسلم اور دیگر ائمہ کرام اسکی حفاظت کی ذمہ داری اپنے سر نہ لیتے اور ایک ایک حدیث کو تلاش کرنے کیلئے اپنا تن من اور دھن قربان نہ کرتے تو آج آپ مبادا ان بیش بہا کتب سے محروم رہتیں۔۔۔


غامدی صاحب کے نظریات باطلہ و عقائد فاسدہ


(1) قرآن کی صرف ایک ہی قرأت درست ہے، باقی سب قرأتیں عجم کا فتنہ ہیں (میزان ص 32,26,25، طبع دوم اپریل 2002)


(2) سنت قرآن سے مقدم ہے (میزان ص 52، طبع دوم اپریل 2002)


غامدی صاحب کے ہاں یہ کھلا تضاد موجود ہے کہ وہ کبھی قرآن کو سنت پر مقدم مانتے ہیں، اور کبھی سنت کو قرآن سے مقدم قرار دیتے ہیں۔ چنانچہ وہ ایک جگہ قرآن کو ہر چیز پر مقدم قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:


’’ہر شخص پابندہے کہ اس (قرآن) پر کسی چیز کو مقدم نہ ٹھرائے‘‘ (میزان ص 23، طبع دوم اپریل 2002)


پھر اسی کتاب (میزان) میں آگے لکھتے ہیں کہ ’’سنت قرآن سے مقدم قرآن کے بعد نہیں‘‘ (ص 52)


یہاں غامدی صاحب نے دونوں مقامات پر حرف ’’پر‘‘ اور حرف ’’سے‘‘ کا مغالطہ دیا ہے، مگر یہ مغالطہ اس وقت صرف مغالطہ نہیں رہتا بلکہ ایک کھلا تضاد بن کر سامنے آتا ہے جب اسے اردو زبان کے درج ذیل جملوں کی روشنی میں دیکھا جائے۔


(1) اﷲ تعالیٰ پر کسی چیز کو مقدم نہیں ٹھہرانا چاہئے۔


(2) نبیﷺ اﷲ تعالیٰ سے مقدم ہے


کیا جو شخص اردو زبان جانتاہو، مذکورہ بالا جملوں میں کھلا تضاد نہ پائے گا؟


(3) سنت صرف افعال کا نام ہے، اس کی ابتدا حضرت محمدﷺ سے نہیں بلکہ ابراہیم علیہ السلام سے ہوتی ہے (میزان ص 10،65، طبع دوم)


(4) سنت صرف 27 اعمال کا نام ہے (میزان ص 10، طبع دوم)


سنتیں جب گھٹ گئیں تو دین کامل ہوگیا


غامدی کو گوہر مقصود حاصل ہوگیا


(5) ثبوت کے اعتبار سے سنت اور قرآن میں کوئی فرق نہیں۔ ان دونوں کا ثبوت اجماع اور عملی تواتر سے ہوتا ہے (میزان ص10طبع دوم)


(6) حدیث سے کوئی اسلامی عقیدہ یا عمل ثابت نہیں ہوتا (میزان ص 64 طبع دوم)


(7) دین کے مصادر و ماخذ قرآن کے علاوہ دین فطرت کے حقائق، سنت ابراہیم اور قدیم صحائف ہیں (میزان ص 48 طبع دوم)


اسلام میں قرآن، سنت، اجماع اور قیاس ماخذ شریعت ہیں


(8) دین میں معروف و منکر کا تعین فطرت انسانی کرتی ہے (میزان ص 49)


(9) نبیﷺ کی رحلت کے بعد کسی شخص کو کافر قرار نہیں دیا جاسکتا (ماہنامہ اشراق، دسمبر 2000، ص 55,54)


جھوٹے نبوت کے داعی ان کے عقائد و زعم باطلہ میں غیر مسلم نہیں


(10) زکوٰۃ کا نصاب منصوص اور مقرر نہیں ہے (قانون عبادات، ص 119)


(11) اسلام میں موت کی سزا صرف دوجہ ائم (قتل نض، اور فساد فی الارض) پردی جاسکتی ہے (برہان، ص 143، طبع چہارم، جون2006)


غامدی صاحب کے نزدیک مرتد اور شاتم رسول کی سزا موت نہیں ہے


(12) دیت کا قانون وقتی اور عارضی تھا (برہان ص 19,18، طبع چہارم)


(13) قتل خطاء میں دیت کی مقدار منصوص نہیں ہے، یہ ہر زمانے میں تبدیل کی جاسکتی ہے (برہان ص 19,18، طبع چہارم)


(14) عورت اور مرد کی دیت (Blood Momey) برابر ہوگی (برہان ص 18، طبع چہارم)


(15) مرتد کے لئے قتل کی سزا نہیں ہے (برہان، ص 40، طبع چہارم)


(16) شادی شدہ اور کنواری ماں زانی دونوں کے لئے ایک ہی سزا 100 کوڑے ہیں (میزان ص 299، 300 طبع دوم)


(17) شراب نوشی پر کوئی شرعی سزا نہیں ہے (برہان ص 138، طبع چہارم)


(18) غیر مسلم بھی مسلمانوں کے وارث ہوسکتے ہیں (میزان ص 171، طبع دوم اپریل 2002)


(19) سور کی کھال اور چربی وغیرہ کی تجارت اور ان کا استعمال شریعت میں ممنوع نہیں ہے (ماہنامہ اشراق، اکتوبر 1998ء ص 79)


(20) اگر میت کی اولاد میں صرف بیٹیاں وارث ہوں تو ان کو والدین یا بیوی (یا شوہر) کے حصوں سے بچے ہوئے ترکے کا دو تہائی حصہ ملے گا، ان کو کل ترکے کا دو تہائی 2/3 نہیں ملے گا (میزان، حصہ اول ص 70، مئی 1985) (میزان ص 168، طبع دوم اپریل 2002)


(21) عورت کے لئے دوپٹہ یا اوڑھنی پہننا شرعی حکم نہیں (ماہنامہ اشراق، مئی 2002ص 47)


(22) کھانے کی صرف چار چیزیں ہی حرام ہیں، خون، مردار، سور کا گوشت، غیر اﷲ، کے نام کا ذبیحہ (میزان ص 311 طبع دوم)


(23) بعض انبیاء کرام قتل ہوئے ہیں مگر کوئی رسول کبھی قتل نہیں ہوا (میزان حصہ اول، ص 21، طبع 1985)


(24) حضرت عیسٰی علیہ السلام وفات پاچکے ہیں (میزان حصہ اول، 24,23,22 طبع 1985)


(25) یاجوج ماجوج اور دجال سے مراد مغربی اقوام ہیں (ماہنامہ اشراق، جنوری 1996ء ص 61)


(یاد رہے کہ یاجوج ماجوج اور دجال قرب قیامت کی نشانیاں ہیں اور یہ دونوں الگ الگ ہیں) جبکہ دجال احادیث کی رو سے یہودی شخص ہے جو بائیں آنکھ سے کانا ہوگا اور اس کی پیشانی پر (ک،ف،ر) لکھا ہوگا جوکہ ہر مومن شخص پڑھ کر اس کو پہچان لے گا


(26) جانداروں کی تصویریں بنانا بالکل جائز ہے (ادارہ الحورد کی کتاب ’’تصویر کا مسئلہ‘‘ ص 30)


(27) موسیقی اور گانا بجانا بھی جائز ہے (ماہنامہ اشراق، مارچ 2004 ص 19,8)


(28) عورت مردوں کی امامت کراسکتی ہے (ماہنامہ اشراق، مئی 2005، ص 35تا 46)


(29) اسلام میں جہاد و قتال کا کوئی شرعی حکم نہیں ہے (میزان، ص 264، طبع دوم، اپریل 2002)

دوم اپریل 2002(30) کفار کے خلاف جہاد کرنے کا حکم اب باقی نہیں رہا اور مفتوح کافروں سے جزیہ لینا جائز نہیں (میزان ص 270، طبع

آخر میں ہم خداوند قدوس کی بارگاہ میں دعاگو ہیں کہ وہ ہمیں تادم مرگ ایمان کامل کے ساتھ رکھے،ہدایت کو ہمارا مقدر بنائے، سرکشوں، بدمذہبوں کی صحبتوں اور ان کے وار، مکرو فریب سے ہمیشہ بچائے رکھے۔ اگر ہدایت ان کا مقدر ہے تو جلد انہیں
ہدایت یافتہ لوگوں میں شامل فرمادے ورنہ انہیں ان کے انجام بد تک پہنچائے۔




http://harfedua.blogspot.com.es/2013/10/blog-post_3083.html


غامدی صاحب کو مفت میں رگڑ رہے ہو



ان باتوں کو بھی یاد رکھیں ، فتنہ انکار سنت ہے یہ ، ورنہ یہ صاحب ہر بات میں قوم کو الجھنے کے علاوہ کوئی کام نہیں کرتے ، رہتے ملاشیا میں ، پروگرام پاکستان میں ، ایک عالم اور خوف کس بات کا

Leave Ghamdi alone he is doing a remarkable job plus you don't have a monopoly on Islam so let go of your foolishness and get a real job work for a change.... get busy do something invent something for humanity which Muslims have done zilch besides bullcrap, shame on you, the way you projected Islam even the Buddhist are killing us....
PS...no one has time to read this long bullcrap

Ghamidi is serving Islam more than any other Aalim. The extreme version of Islam taught to us by our elders has destroyed the image of Muslims all around the world. Have you heard the word 'Islamophobia'? Is is because of the violent version of Islam taught by our elders. Ghamidi is a good solution to these extremists. Zia ul haq version of Islam has no place in 21st century.

Lakh di LAANAT on this stupid who is changing islam values. Murtad and zandeeq

Lakh di LAANAT on gamdi and his followers. Heading to Hell



Mr.Afaq Chaudhry and Mr.Dr.Arshad!

I challenge you to make threads, one each on the following points of Afaq Chaudhry Copy Paste Maafia Post :


Points 9, 11, 15, 24


I will prove from Arabic Language, Holy Quran & Sahi Ahadees that what Ghamdi is saying is absolutely True and Factual.


Afaq Chaudhry you will have no place to hide.


Go ahead.



You people have made Joke of Islam and You people try to act as Gods on Plannet Earth.


I do not agree with all what Ghamdi says but it is fanatics fundamentalists like you plus people like Mumtaz Darinda because of whom Ghamdi had to run from Pakistan to save his life because you can't tolerate difference in opinion and want to murder person who doesn't agree with you.
 

Khan Sab

MPA (400+ posts)
Mr.Afaq Chaudhry and Mr.Dr.Arshad!

I challenge you to make threads, one each on the following points of Afaq Chaudhry Copy Paste Maafia Post :


Points 9, 11, 15, 24


I will prove from Arabic Language, Holy Quran & Sahi Ahadees that what Ghamdi is saying is absolutely True and Factual.


Afaq Chaudhry you will have no place to hide.


Go ahead.



You people have made Joke of Islam and You people try to act as Gods on Plannet Earth.


I do not agree with all what Ghamdi says but it is fanatics fundamentalists like you plus people like Mumtaz Darinda because of whom Ghamdi had to run from Pakistan to save his life because you can't tolerate difference in opinion and want to murder person who doesn't agree with you.

Ap aesa karo ap kisi ko Challenge na do, Ap khud hi thread Bana lo r Haq bat Wazeh ker do. Wo to Ghamidi sahb se bughz rakhta ha R Ghamidi ko Ghalt hi kahe ga Haq thori samne Laey ga. Ye nek Kam Ap ko khud hi kerna pare ga
 
Last edited:

Subh e Nau

Politcal Worker (100+ posts)
Ap aesa karo ap kisi ko Challenge na do, Ap khud hi thread Bana lo r Haq bat Wazeh ker do. Wo to Ghamidi sahb se bughz rakhta ha R Ghamidi ko Ghalt hi kahe ga Haq thori samne Laey ga. Ye nek Kam Ap ko khud hi kerna pare ga


No.


The accuser has to present evidence for his tall claims. It is his responsibility. Heck even he doesn't know these things personally and copy pasted from Facebook or tanzeem e islami / jamaat e islami websites.


You can find many of these videos anyway on youtube and dailymotion where Ghamdi's beliefs are proved to be right as per quran, hadith, wisdom & science. The points I referred to.


If he has courage than he should dare start a thread. Than I shall post not just Quran and Hadith verses & Ahadees but also writings of accepted Mujaddids/Reformers of Islam where they also held exactly the same belief as Ghamdi does on these subjects.


From wherever Ghamdi has gathered these arguments on these subjects is not something that should concern me or others. Only the strength of the argument should matter.
 
Status
Not open for further replies.

Back
Top