”فطرت بطور ماخذ“ کا انکار کرنے والے گروہ پر نقد کرتے ہوئے احباب غیر متعلق و غلط فہمیوں پر مبنی استدلال پیش کرتے ہیں، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اختصار کے ساتھ ان کی وضاحت کردی جائے تاکہ کم از کم گفتگو تو نفس موضوع پر ہوا کرے۔
پہلی غلطی:
اس ضمن میں پہلی غلطی یہ سوال ہوتا ہے: تو کیا آپ اسلام کو دین فطرت نہیں مانتے؟ پھر چند نصوص پیش کر کے یہ ثابت کرنا شروع کر دیا جاتا ہے کہ اسلام دین فطرت ہے، نیز اللہ تعالی نے انسان کی ایک فطرت بنائی ہے وغیرہ۔
تبصرہ:
یہ سوال اور یہ استدلال ہی زیر بحث گفتگو میں غیر متعلق ہے کیونکہ بحث یہ نہیں کہ آیا انسان کی کوئی فطرت ہے یا نہیں، نیز کیا اللہ تعالی کے احکامات انسانی فطرت کے مطابق ہیں۔ ہم نہ تو اس کے منکر ہیں کہ اللہ تعالی نے انسان کو احسن تقویم پر پیدا کیا ہے اور نہ ہی تبلیغ و دعوت دین کو ریشنلائز کرنے کے لیے فطرت کی دلیل کو اپیل کرنے کی اہمیت کے انکاری ہیں کہ آپ آیات سے یہ امور ثابت کریں۔ ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ اسلام دین فطرت ہے، شارع کا ہر حکم انسانی فطرت ہی کی آواز ہے، اسی بنیاد پر ہم ایک غیر مسلم و ملحد کو خطاب کرتے ہیں کہ الا بذکر اللہ تطمئن القلوب نیز شارع کی بات اصلا ”تذکیر“ (عہد الست کی یاد دہانی ہی) ہے۔ اس پہلو سے فطرت (سلیمہ) ایک آئینے کی طرح ہے جو جس قدر خالص ہوگا، حقیقت اعلی اور اس کے تقاضوں کی طرف اسی قدر مضبوط رجحان رکھتی ہوگا۔ اسلامی تاریخ میں صوفیاء کا پورا نظام اسی مقصد کے لیے تھا کہ نفس انسانی کو ظلمات سے پاک کرکے اسے اصل حالت (معرفت رب) پر لایا جائے۔ اس تناظر میں جو کچھ آیات پیش کی جاتی ہیں، ان کا حاصل یہی کچھ ہے اور معاملے کے اس پہلو سے کسی کو اختلاف نہیں ہے۔ اسلام محض کوئی کلامی و قانونی کتاب تھوڑی ہے، یہ دعوتی و تبلیغی اپیل کو بھی شامل ہے۔
لیکن یہ اس معاملے کا صرف دعوتی و تبلیغی پہلو ہے۔ جب اس سکے کو ایک منطقی و متکلم گھما کر یوں پیش کرتا ہے کہ ”اس کا مطلب یہ ہوا کہ انسانی فطرت گویا الگ سے ایک ماخذ ہے جسے خیر و شر کے معاملے میں وحی کے بغیر معلوم کرکے بھی اس سے رہنمائی لی جاسکتی ہے“ تو اب یہ سوال کلامی و قانونی بن جاتا ہے کہ شارع کے حکم کی قانونی بنیاد کیا ہے نیز اگر فطرت و عقل رہنمائی کے لیے کافی ہیں تو پھر شارع کی ضرورت و مقام کیا ہے؟
سکے کو پلٹنے کے بعد اب متعلقہ سوال یہ نہیں رہتا کہ ”کیا انسان کی کوئی فطرت ہے یا نہیں“ بلکہ یہ بنتا ہے کہ ”ماقبل وحی“ جس انسانی فطرت کو ماخذ خیر و شر مانا جا رہا ہے، وہ کیا ہے نیز اس کا تعین کیسے ہوتا ہے؟ اس بحث میں نصوص اصولا لائق استدلال نہیں رہتیں کیونکہ یہ بحث ماقبل نصوص حالت کے بارے میں ہے نہ کہ مابعد نصوص۔ اگر فطرت ماخذ ہے تو اس کے مشمولات کا تعین نصوص سے نہیں بلکہ از خود انسانی فطرت کے کسی مطالعے پر مبنی ہوگا۔ لہذا جو حضرات اس بحث میں نصوص پیش کرتے ہیں، وہ ایک اصولی غلطی کا ارتکاب کرتے ہیں۔ یہ بحث ”فطرت کے مجرد وجود“ کے انکار کی نہیں کہ جسے ثابت کرنے کے لیے آپ آیات پیش کر رہے ہیں بلکہ بحث ”بدون وحی اس کے مافیہ و مشمولات کے تعین“ کی رہی ہے۔ یہاں نصوص سے کام لینا ایک منطقی تضاد ہے کیونکہ ماخذ ماخوذ نہیں ہوتا، یعنی اس کے مشمولات (content) کا تعین کسی دوسرے ماخذ سے نہیں کیا جاتا۔
تو یہ ہوئی پہلی غلط فہمی۔
دوسری غلطی:
متعلقہ بحث کے تعین میں دوسری اہم ترین غلطی فطرت کے دو مختلف معنی کو گڈ مڈ کر دینا ہوتا ہے، ایک ”فطرت بطور صلاحیت“ اور دوسرا فطرت ”بطور قدر(ماخذ خیر)“۔ چنانچہ عموما یہ استدلال کیا جاتا ہے کہ دیکھیے جناب حیا وغیرہ تو فطری چیزیں ہیں، ہر کوئی محسوس کرتا ہے، لہذا معلوم ہوا کہ فطرت ماخذ ہے۔
تبصرہ:
فطرت کے دونوں معنی کا فرق سمجھنا لازم ہے۔
1) فطرت بمعنی صلاحیت (nature as potential)۔ اس معنی کے لحاظ سے فطرت کا مطلب ”انسان کے لیے کیا کرنا ممکن ہے؟“ ہوتا ہے۔ یعنی انسان کے اندر کس امر و عمل کی صلاحیت ہے اور کس کی نہیں۔ اس لحاظ سے جو اس کی صلاحیت ہوگی، وہ اس کے لیے فطری بھی ہوگا۔ فطرت بطور صلاحیت کے لحاظ سے سچ اور جھوٹ بولنا، محبت و نفرت کرنا، حرص، حسد، غضب، بغض، صبر، غنا، ایثار، توکل، رحم وغیرہ انسان کے لیے سب کچھ ”یکساں طور پر“ فطری ہے، ان معنی میں کہ انسان کے لیے یہ سب ”کرنا ممکن ہے“۔ یعنی ایسا نہیں ہے کہ جب میں حرص، حسد، شہوت یا غضب سے مغلوب ہوتا ہوں تو کچھ ایسا کرتا ہوں جو میرے لیے غیر فطری (بمعنی ناممکن) ہو۔ اس کے برعکس مثلا پانی میں سانس لینا انسان کے لیے غیر فطری ہے (کم از کم اب تک)، ان معنی میں کہ انسان ایسا نہیں کرسکتا۔ چنانچہ فطرت کو جب صلاحیت (what is possible) کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے تو اسے positive conception of nature (مثبت تصور فطرت) کہتے ہیں۔
2) فطرت بمعنی خیر، عدل یا معیاری نفسانی کیفیت (nature as normal behavior)۔ اس معنی کے اعتبار سے فطرت کا مفہوم یہ ہوتا ہے کہ ”امکانی طور پر انسان جو کر سکتا ہے، اس میں سے معیاری طور پر مطلوب طرز عمل کیا ہے؟“ اب فطرت پوٹینشل نہیں بلکہ اس پوٹینشل کے جائز اظہار کا نام پوتا ہے، یعنی یہ کہ ”کیا کرنا جائز (عدل) ہے اور کیا نہیں؟“ فطرت کو جب اس معنی میں استعمال کیا جاتا ہے تو اسے normative conception of nature (اخلاقی تصور فطرت) کہتے ہیں۔
چنانچہ جب فطرت کو خیر و شر کے ماخذ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے تو وہاں فطرت پہلے نہیں بلکہ دوسرے معنی میں بولا جا رہا ہوتا ہے۔ یعنی اس گفتگو میں متعلقہ سوال یہ نہیں ہوتا کہ ”انسان کے لیے بطور صلاحیت کیا کرنا ممکن (فطری) ہے؟“ بلکہ یہ ہوتا ہے کہ ”انسان کے لیے کون سا طرز عمل اختیار کرنا جائز و معیاری (فطری) ہے؟“ جب فطرت کو خیر و شر کا ماخذ قرار دیا جاتا ہے، تو دراصل دعوی یہ ہوتا ہے کہ ”انسان کے لیے کیا جائز ہے اور کیا نہیں، اس کا جواب نفس کی کسی معلوم معیاری کیفیت سے جاننا ممکن ہے“۔ دوسرے لفظوں میں ”فطرت بطور آزاد ماخذ“ کا مطلب ”معیاری انسانی کیفیات کے علم“ کا ایسا دعوی ہے جو کسی دوسرے ذریعہ علم سے ماخوذ نہیں۔
اب اگر ”حیا” کے جذبے کی مثال لی جائے تو ”بطور صلاحیت“ اس کا معنی کسی ایسے جذبے کے وجود کا نام ہے جس کی بنیاد پر انسان کسی شے کے اظہار سے بچنے کا داعیہ محسوس کرتا ہے۔ اس اعتبار سے حیا ”آنکھ سے دیکھ سکنے جیسی صلاحیت“ ہی طرح ایک شے ہے جو کسی امر کے خیر و شر ہونے کا معیار بننے لائق نہیں۔ یعنی جیسے دیکھ سکنے کی صلاحیت ”کیا دیکھنا ہے اور کیا نہیں“ کی بحث میں دلیل نہیں ہے، اسی طرح حیا جیسے جذبے کے تحت کسی شے کے اظہار سے بچنے کا داعیہ محسوس کرنا ”کس شے کو برا سمجھنا ہے یا نہیں“ میں کوئی دلیل نہیں۔
خوب یاد رکھنا چاہیے کہ what is possible اور what is normal دو الگ سوالات ہیں۔ ہاں اگر یہ ”مفروضہ“ مان لیا جائے کہ ”جو کچھ ممکن ہے وہ جائز ہے“ تو اب یہ بذات خود ایک ”اخلاقی تصور فطرت“ بن جاتا ہے۔ یہاں خلط مبحث یہ ہوتا ہے کہ فطرت کو ماخذ قرار دینے والے حضرات یہ ثابت کرنے میں لگے رہتے ہیں کہ ”حیا محسوس کرنا ایک فطری (بمعنی صلاحیت) چیز ہے“ جبکہ اس کا تو کوئی انکار ہی نہیں کر رہا ہوتا کہ یہ انسان کی ایک صلاحیت ہے۔ اصل گفتگو اس ”صلاحیت کا وجود ثابت کرنے“ کی نہیں بلکہ اس ”موجود صلاحیت کو معیار ثابت کرنے“ کی ہوتی ہے مگر اسے سمجھے بغیر محض وجود صلاحیت کے غیر متعلق دلائل دیے جا رہے ہوتے ہیں۔ پس اس فرق کو ملحوظ رکھنا لازم ہے۔
تیسری غلطی:
اس ضمن میں تیسری غلط فہمی یہ ہے کہ فطرت کو ماخذ خیر و شر نہ ماننے والوں کی بنیادی دلیل یہ فرض کرلینا ہے کہ ”چونکہ تعیین فطرت میں لوگوں کے درمیان اختلاف ہوجاتا ہے لہذا اسے ماخذ نہیں مانا جاسکتا“۔ پھر یہ حضرات اس دلیل کو از خود چند مثالوں سے رد کرتے ہیں (کہ مثلا خوبصورتی کی تعریف پر اگرچہ اختلاف ہے مگر اس کا یہ معنی نہیں کہ خوبصورت کا وجود نہیں یا اس کا تعین ممکن نہیں وغیرہ۔ بعض لوگ تو اس بحث میں ”تعریف کی مشکلات“ میں پھنس کر رہ گئے)۔
تبصرہ:
یہاں یہ نشان دہی کرنا مقصود ہے کہ فطرت کی تعیین کی متعلقہ بحث (کہ ”بدون وحی فطرت بطور قدر“ کا تعین کیسے ہوتا ہے) میں اصل نکتہ ”اختلاف ہوجانے کا مسئلہ نہیں“ بلکہ ”ابتدائی صورت (starting point)“ اور اس کے ”قابل اعتبار“ ہونے کا ہے۔ یعنی یہاں اصل سوالات یہ ہیں کہ:
1) ”کس کی فطرت“ اصل ہونے کا اعتبار ہوگا، فرد کی یا گروہ کی؟ یعنی جس کی فطرت کو معیار مانا جا رہا ہے، آیا وہ ایک قبل از معاشرہ بطور اکیلا فرد وجود ہے یا کسی معاشرے میں بسنے والا ایک تاریخی فرد؟
2) اگر اکیلے فرد کی تو جس کی فطرت کو معیار مانا جا رہا ہے، وہ ابوبکر، زید، ایڈم سمتھ، مارکس، رالز، عبداللہ وغیرہم میں سے کس کی فطرت ہے؟
3) پھر اگر وہ اکیلا فرد ہی ہے تو اس کے مشمولات فطرت کا تعین کن اصولوں کے تحت ہوتا ہے؟ اس کے متعدد جواب ہوسکتے ہیں۔ مثلا:
الف) ہر فرد خود اپنے نفس میں جھانک کر طے کرلے کہ کیا فطری ہے اور کیا غیر فطری۔ ظاہر ہے یہ جواب غلط ہے کیونکہ یہاں جتنے منہ اتنی باتیں والا معاملہ ہوگا اور ہر کوئی اپنی ہی عادات، اطوار، رجحانات و میلانات کو ہی فطری قرار دے گا (نیز ان میں سے وہ شخص ایک ”تاریخی فرد“ ہی ہوگا)۔
ب) ایک مخصوص فرد یہ طے کرے۔ یہاں اس ”مخصوص“ کے تعین کا سوال کھڑا ہوگا۔
ج) انبیاء و صلحاء کی فطرت معیار ہوگی۔ لیکن اگر انبیاء و صلحاء کی تعریف از خود شرع سے متعین ہوتی ہے تو اس صورت میں ماخذ شرع ہوئی نہ کہ مجرد فرد
4) اگر وہ اکیلا فرد ہی ہے تو اس کی ”حالت اصلی“ کی بابت معلومات وحی سے ماسواء کس ذریعہ علم سے میسر آئیں؟ ایسا انسان کب اور کہاں پایا گیا؟ کیا اس انسانی حالت پر بسنے والے کسی انسان کا کوئی معتبر تاریخی ریکارڈ موجود ہے کہ جسے دیکھ کر یہ بتایا جاسکے کہ ”فلاں فلاں عمل کا اچھا یا برا سمجھنا حالت اصلی کا تقاضا ہے؟“
5) اگر وہ انسان معاشرے کے اندر بسنے والا ایک تاریخی فرد ہے تو اختلاف تاریخ و معاشرتی عوامل نے کیا اس کی فطرت کو حالت اصلی پر چھوڑا ہوگا؟ ایسے انسان میں کیا کچھ اصل ہے اور کیا کچھ مسخ ہو چکا، اس کا فیصلہ کون اور کس بنیاد پر کر رہا ہے؟ ہر فرد کی تاریخ یہ ہے کہ وہ چند معین نظریات و میلانات رکھنے والے ماں باپ کے یہاں پیدا ہوتا ہے، اپنے ارد گرد چند معین نظریات و میلانات رکھنے والے معاشرے میں تربیت پاتا ہے، چند معین نظریات و میلانات رکھنے والے تعلیمی نظام میں علم حاصل کرکے ”اپنے شعور“ کو تعمیر کرتا ہے۔ تو ایسی صورت میں آخر یہ تاریخی فرد کیسے اس سوال کے جواب کا حوالہ بن سکتا ہے کہ ”حالت اصلی کا تقاضا کیا ہے؟“
یہ ہیں چند حقیقی سوالات جن کا کوئی واضح جواب دیے بغیر فطرت کو ماخذ کہنا صرف ایک ہوائی بات ہے جس کی بنا پر اپنے نکتہ نظر میں ایک داعیانہ اپیل تو پیدا کی جاسکتی ہے مگر قانونی مسائل حل نہیں کیے جاسکتے۔
چوتھی غلطی:
چوتھی غلطی ”فطرت کو ماخذ ثابت کرنے“ کا یہ غلط استدلال ہے کہ نصوص بھی خیر و شر کے چند معیاری بدیہی یا فطری تصورات ہی کے تناظر میں انسان سے خطاب کرتی ہیں۔ اس ضمن میں ایک دلیل یہ ہے کہ مثلا جب شارع کہتا ہے کہ ”زنا کے قریب مت جاؤ کہ بے شک یہ کھلی ہوئی فحاشی ہے“ (لاتقربوا الزنی انہ کان فاحشۃ) تو یہ بات کہنے سے قبل قران نے فحاشی کی تفصیل تو نہیں بتا رکھی تھی کہ جس کے بعد پھر زنا کو بالتخصیص ذکر کر کے فحاشی کہا، بلکہ معاملہ یوں ہے کہ فحش کا یہ تصور پہلے سے مخاطب کی فطرت میں ہی موجود تھا اور اسی کی بنیاد پر اسے خطاب کرتے ہوئے کہا گیا کہ یہ عمل فحاشی ہے، بصورت دیگر کلام ممکن نہیں۔
اس دلیل کا حاصل یہ ہے کہ فحاشی وغیرہ الگ سے متعین اخلاقی قدریں ہیں، نیز وہ شارع کا کلام نازل ہونے سے قبل بھی شارع اور بندے کے مابین مشترک تھیں، اور انہی کی بنیاد پر شارع نے بندے سے کلام کیا۔ پس ثابت ہوا کہ فطرت و نفس انسانی میں اخلاقی تصورات کے چند معیاری مفاہیم ماننا لازم ہے۔
تبصرہ:
اس ضمن میں پہلی اصولی بات یہ سمجھنی چاہیے کہ مثلا فحاشی ایک شرعی اصطلاح ہے جس کا تعین تمام متعلقہ نصوص کو مد نظر رکھ کر کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر شخص فحاشی کے نام پر جو کچھ کہتا پھرے، مسلمان اسے محض کسی کے ایسا کہنے کی بنا پر قبول نہیں کرلیتے بلکہ کسی عمل سے متعلق فحاشی کے دعوے کو نصوص اور ان کے مقاصد و مضمرات پر تولا جاتا ہے۔ یہ اصولی بات اگر مد نظر رہے تو شارع کے اس کلام کو سمجھنے میں کوئی دشواری نہیں رہتی۔ پس اس اعتبار سے شارع کا قول ”انہ کان فاحشۃ“ فحاشی کے کسی معیاری فطری تصور پر متفرع نہیں بلکہ اس عمل کے فحش ہونے کی دلیل و بیان ہے۔
اس بات کو دوسرے پہلو سے یوں سمجھیے کہ شارع کسی مجرد فرد سے مخاطب نہیں ہوتا رہا بلکہ ایک ایسے تاریخی انسان سے مخاطب ہوا جس کی ابتداء حضرت آدم علیہ السلام سے ہوئی۔ اس تاریخی انسان کے پاس انبیاء کی حق تعلیمات اور نفس انسانی کے اپنی طرف سے وضع کردہ ملغوبے کی بنا پر فحاشی کے بہت سے تصورات موجود تھے۔ تو جب شارع نے اس انسان کو خطاب کرکے کہا کہ ”انہ کان فاحشۃ“ تو حوالہ وہی برحق تصورات تھے جس سے وہ تاریخی طور پر واقف اور قائل رہے تھے۔ الغرض یہ پورا استدلال ”ایک مجرد فطری فرد“ کے تناظر میں وضع کیا گیا ہے، جبکہ شارع کے اس کلام کے بامعنی ہونے کے لیے ”مجرد فطری فرد“ نہیں بلکہ ”تاریخی فرد“ کا تناظر درکار ہے۔
دیکھیے اگر زنا یا ننگ پن جیسے افعال کو کسی ایسے شخص کے سامنے فحش قرار دے کر پیش کیا جائے جو تاریخی طور پر کسی ایسی تاریخ اور معاشرت سے تعلق رکھتا ہو جہاں ان اعمال کو فحش ہی نہ سمجھا جاتا ہو، اور اس بنا پر وہ فرد بھی یہی رائے رکھتا ہو تو ظاہر ہے اس کے لیے اس آیت کا کوئی معنی نہیں ہوگا۔ پس یاد رکھنا چاہیے کہ انسان ایک تاریخی وجود ہے نہ کہ مجرد۔ اگر یہ تناظر درست کرلیا جائے تو بہت سے اشکالات پیدا ہی نہ ہوں۔
پانچویں غلطی:
آخر یہ مان لینے سے کیا مسئلہ پیدا ہوتا ہے کہ وحی سے ماقبل بھی خیر و شر کی تعیین کا ایک قابل اعتبار ماخذ موجود ہے نیز یہ کہ انسان کو اصلا عقل و فطرت کی راہنمائی ہی کے تحت زندگی بسر کرنا ہے، البتہ جہاں کہیں انسانی فطرت دھوکہ کھا سکتی تھی یا جس معاملے میں عقل کے پاس فیصلے کی کوئی واضح بنیاد نہ تھی، ان معاملات میں وحی کے ذریعے انسان کی راہنمائی کردی گئی؟ یہ تو ایک معقول بات ہے۔
تبصرہ:
غلط فہمی نمبر ایک پر تبصرے میں واضح کیا گیا کہ سکے کو گھمانے کے بعد جب یہ کہاجاتا ہے کہ ”انسانی فطرت گویا الگ سے ایک ماخذ ہے جسے خیر و شر کے معاملے میں وحی کے بغیر معلوم کرکے بھی اس سے راہنمائی لی جاسکتی ہے“ تو اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ شارع کے حکم کی قانونی بنیاد کیا ہے، نیز اگر فطرت وغیرہ اصولا راہنمائی کے لیے کافی ہیں تو پھر شارع کی ضرورت و مقام کیا ہے؟ اب اس موقع پر چند جوابات ممکن ہیں:
الف) تعیین قدر میں شارع کی حیثیت بنیادی ہے، فطرت شارع کے حکم سے الگ کوئی شے نہیں، نہ ہی اس کے بغیر اسے جاننا ممکن ہے۔
ب) فطرت ہی بنیادی چیز ہے اور عقل وغیرہ کے ذریعے اسے پہچاننا ممکن ہے۔ اس صورت میں شارع کی ضرورت محض اضافی و facilitating نوعیت کی ہوئی، یعنی عام لوگوں کو تو اس کی ضرورت ہے مگر فلاسفہ کو اس کی ضرورت نہیں (یہ بعض معتزلہ وغیرہ نے سمجھا)
ج) اس معاملےمیں معلوم اصول فطرت بنیادی چیز ہیں اور شارع کی حیثیت ان معنی میں ایک تتمے (appendix) کی ہے کہ جہاں کہیں فطرت ٹھوکر کھا سکتی تھی ان مقامات پر حکم نازل کردیا گیا۔ یہ پوزیشن چند جدید مفکرین (مثلا غامدی صاحب) نے اپنائی۔
اب اس موقع پر جائز طور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس تمام تر ذہنی مشق اور کیٹیگرائزیشن سے عملی طور پر کیا فرق پڑتا ہے؟ تو اس تمام تر بحث کا تعلق اس عملی سوال سے ہے کہ شارع میری زندگی کے کس قدر شعبے و حصے سے متعلق ہے؟
– پہلی صورت میں جواب یہ بنتا ہے کہ میں اپنی زندگی کے ہر حصے میں شارع ہی کے حکم کا پابند ہوں۔
– دوسری صورت میں شارع کے حکم کی کسی بھی دائرے میں ضرورت نہیں رہتی، اصولا ہر معاملے میں مشمولات عقل و فطرت (وہ جو بھی ہوں) ہی کی طرف دیکھا جائے گا۔ عملا اس کا مطلب یہ ہے کہ فلاسفہ و سوشل سائنٹسٹ کی طرف دیکھا جائے کیونکہ اصول فطرت و عقل کی تنقیح انہی کا شعبہ ہے۔
– تیسری صورت میں شارع کا حکم ایک محدود سے دائرے میں مجھے خطاب کرتا ہے، اس دائرے سے باہر پھر دوسری صورت پلٹ آتی ہے۔
پہلی صورت ہر قسم کی سیکولرائزیشن کا امکان ختم کردیتی ہے کیونکہ یہاں ہر حکم کا ریفرنس پوائنٹ بہرحال شارع کا قول ہوگا (فقہاء نے شرع کو اسی طرز پر دیکھا ہے)۔ دوسری صورت مکمل سیکولرائزیشن کی ہے کہ جہاں شارع کو کلیتا فارغ (suspend) کر دیا جاتا ہے، جبکہ تیسری صورت ایک قسم کی ”دینی سیکولرائزیشن“ کا جواز پیدا کرتی ہے، یعنی شرع کو چند محدود سے معاملات میں محدود کرکے باقی سارا میدان عقل و فطرت کے ہاتھ کھلا چھوڑ دیا جائے۔ اس کا لازمی نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ یہ خلا پھر حاضر و موجود علمیت (سوشل سائنسز) سے پر کیا جائے۔ اس قسم کی دینی سیکولرازم یورپ میں City of Man and City of God کے نام پر طویل عرصے تک پائی گئی۔
http://daleel.pk/2017/05/14/43162
پہلی غلطی:
اس ضمن میں پہلی غلطی یہ سوال ہوتا ہے: تو کیا آپ اسلام کو دین فطرت نہیں مانتے؟ پھر چند نصوص پیش کر کے یہ ثابت کرنا شروع کر دیا جاتا ہے کہ اسلام دین فطرت ہے، نیز اللہ تعالی نے انسان کی ایک فطرت بنائی ہے وغیرہ۔
تبصرہ:
یہ سوال اور یہ استدلال ہی زیر بحث گفتگو میں غیر متعلق ہے کیونکہ بحث یہ نہیں کہ آیا انسان کی کوئی فطرت ہے یا نہیں، نیز کیا اللہ تعالی کے احکامات انسانی فطرت کے مطابق ہیں۔ ہم نہ تو اس کے منکر ہیں کہ اللہ تعالی نے انسان کو احسن تقویم پر پیدا کیا ہے اور نہ ہی تبلیغ و دعوت دین کو ریشنلائز کرنے کے لیے فطرت کی دلیل کو اپیل کرنے کی اہمیت کے انکاری ہیں کہ آپ آیات سے یہ امور ثابت کریں۔ ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ اسلام دین فطرت ہے، شارع کا ہر حکم انسانی فطرت ہی کی آواز ہے، اسی بنیاد پر ہم ایک غیر مسلم و ملحد کو خطاب کرتے ہیں کہ الا بذکر اللہ تطمئن القلوب نیز شارع کی بات اصلا ”تذکیر“ (عہد الست کی یاد دہانی ہی) ہے۔ اس پہلو سے فطرت (سلیمہ) ایک آئینے کی طرح ہے جو جس قدر خالص ہوگا، حقیقت اعلی اور اس کے تقاضوں کی طرف اسی قدر مضبوط رجحان رکھتی ہوگا۔ اسلامی تاریخ میں صوفیاء کا پورا نظام اسی مقصد کے لیے تھا کہ نفس انسانی کو ظلمات سے پاک کرکے اسے اصل حالت (معرفت رب) پر لایا جائے۔ اس تناظر میں جو کچھ آیات پیش کی جاتی ہیں، ان کا حاصل یہی کچھ ہے اور معاملے کے اس پہلو سے کسی کو اختلاف نہیں ہے۔ اسلام محض کوئی کلامی و قانونی کتاب تھوڑی ہے، یہ دعوتی و تبلیغی اپیل کو بھی شامل ہے۔
لیکن یہ اس معاملے کا صرف دعوتی و تبلیغی پہلو ہے۔ جب اس سکے کو ایک منطقی و متکلم گھما کر یوں پیش کرتا ہے کہ ”اس کا مطلب یہ ہوا کہ انسانی فطرت گویا الگ سے ایک ماخذ ہے جسے خیر و شر کے معاملے میں وحی کے بغیر معلوم کرکے بھی اس سے رہنمائی لی جاسکتی ہے“ تو اب یہ سوال کلامی و قانونی بن جاتا ہے کہ شارع کے حکم کی قانونی بنیاد کیا ہے نیز اگر فطرت و عقل رہنمائی کے لیے کافی ہیں تو پھر شارع کی ضرورت و مقام کیا ہے؟
سکے کو پلٹنے کے بعد اب متعلقہ سوال یہ نہیں رہتا کہ ”کیا انسان کی کوئی فطرت ہے یا نہیں“ بلکہ یہ بنتا ہے کہ ”ماقبل وحی“ جس انسانی فطرت کو ماخذ خیر و شر مانا جا رہا ہے، وہ کیا ہے نیز اس کا تعین کیسے ہوتا ہے؟ اس بحث میں نصوص اصولا لائق استدلال نہیں رہتیں کیونکہ یہ بحث ماقبل نصوص حالت کے بارے میں ہے نہ کہ مابعد نصوص۔ اگر فطرت ماخذ ہے تو اس کے مشمولات کا تعین نصوص سے نہیں بلکہ از خود انسانی فطرت کے کسی مطالعے پر مبنی ہوگا۔ لہذا جو حضرات اس بحث میں نصوص پیش کرتے ہیں، وہ ایک اصولی غلطی کا ارتکاب کرتے ہیں۔ یہ بحث ”فطرت کے مجرد وجود“ کے انکار کی نہیں کہ جسے ثابت کرنے کے لیے آپ آیات پیش کر رہے ہیں بلکہ بحث ”بدون وحی اس کے مافیہ و مشمولات کے تعین“ کی رہی ہے۔ یہاں نصوص سے کام لینا ایک منطقی تضاد ہے کیونکہ ماخذ ماخوذ نہیں ہوتا، یعنی اس کے مشمولات (content) کا تعین کسی دوسرے ماخذ سے نہیں کیا جاتا۔
تو یہ ہوئی پہلی غلط فہمی۔
دوسری غلطی:
متعلقہ بحث کے تعین میں دوسری اہم ترین غلطی فطرت کے دو مختلف معنی کو گڈ مڈ کر دینا ہوتا ہے، ایک ”فطرت بطور صلاحیت“ اور دوسرا فطرت ”بطور قدر(ماخذ خیر)“۔ چنانچہ عموما یہ استدلال کیا جاتا ہے کہ دیکھیے جناب حیا وغیرہ تو فطری چیزیں ہیں، ہر کوئی محسوس کرتا ہے، لہذا معلوم ہوا کہ فطرت ماخذ ہے۔
تبصرہ:
فطرت کے دونوں معنی کا فرق سمجھنا لازم ہے۔
1) فطرت بمعنی صلاحیت (nature as potential)۔ اس معنی کے لحاظ سے فطرت کا مطلب ”انسان کے لیے کیا کرنا ممکن ہے؟“ ہوتا ہے۔ یعنی انسان کے اندر کس امر و عمل کی صلاحیت ہے اور کس کی نہیں۔ اس لحاظ سے جو اس کی صلاحیت ہوگی، وہ اس کے لیے فطری بھی ہوگا۔ فطرت بطور صلاحیت کے لحاظ سے سچ اور جھوٹ بولنا، محبت و نفرت کرنا، حرص، حسد، غضب، بغض، صبر، غنا، ایثار، توکل، رحم وغیرہ انسان کے لیے سب کچھ ”یکساں طور پر“ فطری ہے، ان معنی میں کہ انسان کے لیے یہ سب ”کرنا ممکن ہے“۔ یعنی ایسا نہیں ہے کہ جب میں حرص، حسد، شہوت یا غضب سے مغلوب ہوتا ہوں تو کچھ ایسا کرتا ہوں جو میرے لیے غیر فطری (بمعنی ناممکن) ہو۔ اس کے برعکس مثلا پانی میں سانس لینا انسان کے لیے غیر فطری ہے (کم از کم اب تک)، ان معنی میں کہ انسان ایسا نہیں کرسکتا۔ چنانچہ فطرت کو جب صلاحیت (what is possible) کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے تو اسے positive conception of nature (مثبت تصور فطرت) کہتے ہیں۔
2) فطرت بمعنی خیر، عدل یا معیاری نفسانی کیفیت (nature as normal behavior)۔ اس معنی کے اعتبار سے فطرت کا مفہوم یہ ہوتا ہے کہ ”امکانی طور پر انسان جو کر سکتا ہے، اس میں سے معیاری طور پر مطلوب طرز عمل کیا ہے؟“ اب فطرت پوٹینشل نہیں بلکہ اس پوٹینشل کے جائز اظہار کا نام پوتا ہے، یعنی یہ کہ ”کیا کرنا جائز (عدل) ہے اور کیا نہیں؟“ فطرت کو جب اس معنی میں استعمال کیا جاتا ہے تو اسے normative conception of nature (اخلاقی تصور فطرت) کہتے ہیں۔
چنانچہ جب فطرت کو خیر و شر کے ماخذ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے تو وہاں فطرت پہلے نہیں بلکہ دوسرے معنی میں بولا جا رہا ہوتا ہے۔ یعنی اس گفتگو میں متعلقہ سوال یہ نہیں ہوتا کہ ”انسان کے لیے بطور صلاحیت کیا کرنا ممکن (فطری) ہے؟“ بلکہ یہ ہوتا ہے کہ ”انسان کے لیے کون سا طرز عمل اختیار کرنا جائز و معیاری (فطری) ہے؟“ جب فطرت کو خیر و شر کا ماخذ قرار دیا جاتا ہے، تو دراصل دعوی یہ ہوتا ہے کہ ”انسان کے لیے کیا جائز ہے اور کیا نہیں، اس کا جواب نفس کی کسی معلوم معیاری کیفیت سے جاننا ممکن ہے“۔ دوسرے لفظوں میں ”فطرت بطور آزاد ماخذ“ کا مطلب ”معیاری انسانی کیفیات کے علم“ کا ایسا دعوی ہے جو کسی دوسرے ذریعہ علم سے ماخوذ نہیں۔
اب اگر ”حیا” کے جذبے کی مثال لی جائے تو ”بطور صلاحیت“ اس کا معنی کسی ایسے جذبے کے وجود کا نام ہے جس کی بنیاد پر انسان کسی شے کے اظہار سے بچنے کا داعیہ محسوس کرتا ہے۔ اس اعتبار سے حیا ”آنکھ سے دیکھ سکنے جیسی صلاحیت“ ہی طرح ایک شے ہے جو کسی امر کے خیر و شر ہونے کا معیار بننے لائق نہیں۔ یعنی جیسے دیکھ سکنے کی صلاحیت ”کیا دیکھنا ہے اور کیا نہیں“ کی بحث میں دلیل نہیں ہے، اسی طرح حیا جیسے جذبے کے تحت کسی شے کے اظہار سے بچنے کا داعیہ محسوس کرنا ”کس شے کو برا سمجھنا ہے یا نہیں“ میں کوئی دلیل نہیں۔
خوب یاد رکھنا چاہیے کہ what is possible اور what is normal دو الگ سوالات ہیں۔ ہاں اگر یہ ”مفروضہ“ مان لیا جائے کہ ”جو کچھ ممکن ہے وہ جائز ہے“ تو اب یہ بذات خود ایک ”اخلاقی تصور فطرت“ بن جاتا ہے۔ یہاں خلط مبحث یہ ہوتا ہے کہ فطرت کو ماخذ قرار دینے والے حضرات یہ ثابت کرنے میں لگے رہتے ہیں کہ ”حیا محسوس کرنا ایک فطری (بمعنی صلاحیت) چیز ہے“ جبکہ اس کا تو کوئی انکار ہی نہیں کر رہا ہوتا کہ یہ انسان کی ایک صلاحیت ہے۔ اصل گفتگو اس ”صلاحیت کا وجود ثابت کرنے“ کی نہیں بلکہ اس ”موجود صلاحیت کو معیار ثابت کرنے“ کی ہوتی ہے مگر اسے سمجھے بغیر محض وجود صلاحیت کے غیر متعلق دلائل دیے جا رہے ہوتے ہیں۔ پس اس فرق کو ملحوظ رکھنا لازم ہے۔
تیسری غلطی:
اس ضمن میں تیسری غلط فہمی یہ ہے کہ فطرت کو ماخذ خیر و شر نہ ماننے والوں کی بنیادی دلیل یہ فرض کرلینا ہے کہ ”چونکہ تعیین فطرت میں لوگوں کے درمیان اختلاف ہوجاتا ہے لہذا اسے ماخذ نہیں مانا جاسکتا“۔ پھر یہ حضرات اس دلیل کو از خود چند مثالوں سے رد کرتے ہیں (کہ مثلا خوبصورتی کی تعریف پر اگرچہ اختلاف ہے مگر اس کا یہ معنی نہیں کہ خوبصورت کا وجود نہیں یا اس کا تعین ممکن نہیں وغیرہ۔ بعض لوگ تو اس بحث میں ”تعریف کی مشکلات“ میں پھنس کر رہ گئے)۔
تبصرہ:
یہاں یہ نشان دہی کرنا مقصود ہے کہ فطرت کی تعیین کی متعلقہ بحث (کہ ”بدون وحی فطرت بطور قدر“ کا تعین کیسے ہوتا ہے) میں اصل نکتہ ”اختلاف ہوجانے کا مسئلہ نہیں“ بلکہ ”ابتدائی صورت (starting point)“ اور اس کے ”قابل اعتبار“ ہونے کا ہے۔ یعنی یہاں اصل سوالات یہ ہیں کہ:
1) ”کس کی فطرت“ اصل ہونے کا اعتبار ہوگا، فرد کی یا گروہ کی؟ یعنی جس کی فطرت کو معیار مانا جا رہا ہے، آیا وہ ایک قبل از معاشرہ بطور اکیلا فرد وجود ہے یا کسی معاشرے میں بسنے والا ایک تاریخی فرد؟
2) اگر اکیلے فرد کی تو جس کی فطرت کو معیار مانا جا رہا ہے، وہ ابوبکر، زید، ایڈم سمتھ، مارکس، رالز، عبداللہ وغیرہم میں سے کس کی فطرت ہے؟
3) پھر اگر وہ اکیلا فرد ہی ہے تو اس کے مشمولات فطرت کا تعین کن اصولوں کے تحت ہوتا ہے؟ اس کے متعدد جواب ہوسکتے ہیں۔ مثلا:
الف) ہر فرد خود اپنے نفس میں جھانک کر طے کرلے کہ کیا فطری ہے اور کیا غیر فطری۔ ظاہر ہے یہ جواب غلط ہے کیونکہ یہاں جتنے منہ اتنی باتیں والا معاملہ ہوگا اور ہر کوئی اپنی ہی عادات، اطوار، رجحانات و میلانات کو ہی فطری قرار دے گا (نیز ان میں سے وہ شخص ایک ”تاریخی فرد“ ہی ہوگا)۔
ب) ایک مخصوص فرد یہ طے کرے۔ یہاں اس ”مخصوص“ کے تعین کا سوال کھڑا ہوگا۔
ج) انبیاء و صلحاء کی فطرت معیار ہوگی۔ لیکن اگر انبیاء و صلحاء کی تعریف از خود شرع سے متعین ہوتی ہے تو اس صورت میں ماخذ شرع ہوئی نہ کہ مجرد فرد
4) اگر وہ اکیلا فرد ہی ہے تو اس کی ”حالت اصلی“ کی بابت معلومات وحی سے ماسواء کس ذریعہ علم سے میسر آئیں؟ ایسا انسان کب اور کہاں پایا گیا؟ کیا اس انسانی حالت پر بسنے والے کسی انسان کا کوئی معتبر تاریخی ریکارڈ موجود ہے کہ جسے دیکھ کر یہ بتایا جاسکے کہ ”فلاں فلاں عمل کا اچھا یا برا سمجھنا حالت اصلی کا تقاضا ہے؟“
5) اگر وہ انسان معاشرے کے اندر بسنے والا ایک تاریخی فرد ہے تو اختلاف تاریخ و معاشرتی عوامل نے کیا اس کی فطرت کو حالت اصلی پر چھوڑا ہوگا؟ ایسے انسان میں کیا کچھ اصل ہے اور کیا کچھ مسخ ہو چکا، اس کا فیصلہ کون اور کس بنیاد پر کر رہا ہے؟ ہر فرد کی تاریخ یہ ہے کہ وہ چند معین نظریات و میلانات رکھنے والے ماں باپ کے یہاں پیدا ہوتا ہے، اپنے ارد گرد چند معین نظریات و میلانات رکھنے والے معاشرے میں تربیت پاتا ہے، چند معین نظریات و میلانات رکھنے والے تعلیمی نظام میں علم حاصل کرکے ”اپنے شعور“ کو تعمیر کرتا ہے۔ تو ایسی صورت میں آخر یہ تاریخی فرد کیسے اس سوال کے جواب کا حوالہ بن سکتا ہے کہ ”حالت اصلی کا تقاضا کیا ہے؟“
یہ ہیں چند حقیقی سوالات جن کا کوئی واضح جواب دیے بغیر فطرت کو ماخذ کہنا صرف ایک ہوائی بات ہے جس کی بنا پر اپنے نکتہ نظر میں ایک داعیانہ اپیل تو پیدا کی جاسکتی ہے مگر قانونی مسائل حل نہیں کیے جاسکتے۔
چوتھی غلطی:
چوتھی غلطی ”فطرت کو ماخذ ثابت کرنے“ کا یہ غلط استدلال ہے کہ نصوص بھی خیر و شر کے چند معیاری بدیہی یا فطری تصورات ہی کے تناظر میں انسان سے خطاب کرتی ہیں۔ اس ضمن میں ایک دلیل یہ ہے کہ مثلا جب شارع کہتا ہے کہ ”زنا کے قریب مت جاؤ کہ بے شک یہ کھلی ہوئی فحاشی ہے“ (لاتقربوا الزنی انہ کان فاحشۃ) تو یہ بات کہنے سے قبل قران نے فحاشی کی تفصیل تو نہیں بتا رکھی تھی کہ جس کے بعد پھر زنا کو بالتخصیص ذکر کر کے فحاشی کہا، بلکہ معاملہ یوں ہے کہ فحش کا یہ تصور پہلے سے مخاطب کی فطرت میں ہی موجود تھا اور اسی کی بنیاد پر اسے خطاب کرتے ہوئے کہا گیا کہ یہ عمل فحاشی ہے، بصورت دیگر کلام ممکن نہیں۔
اس دلیل کا حاصل یہ ہے کہ فحاشی وغیرہ الگ سے متعین اخلاقی قدریں ہیں، نیز وہ شارع کا کلام نازل ہونے سے قبل بھی شارع اور بندے کے مابین مشترک تھیں، اور انہی کی بنیاد پر شارع نے بندے سے کلام کیا۔ پس ثابت ہوا کہ فطرت و نفس انسانی میں اخلاقی تصورات کے چند معیاری مفاہیم ماننا لازم ہے۔
تبصرہ:
اس ضمن میں پہلی اصولی بات یہ سمجھنی چاہیے کہ مثلا فحاشی ایک شرعی اصطلاح ہے جس کا تعین تمام متعلقہ نصوص کو مد نظر رکھ کر کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر شخص فحاشی کے نام پر جو کچھ کہتا پھرے، مسلمان اسے محض کسی کے ایسا کہنے کی بنا پر قبول نہیں کرلیتے بلکہ کسی عمل سے متعلق فحاشی کے دعوے کو نصوص اور ان کے مقاصد و مضمرات پر تولا جاتا ہے۔ یہ اصولی بات اگر مد نظر رہے تو شارع کے اس کلام کو سمجھنے میں کوئی دشواری نہیں رہتی۔ پس اس اعتبار سے شارع کا قول ”انہ کان فاحشۃ“ فحاشی کے کسی معیاری فطری تصور پر متفرع نہیں بلکہ اس عمل کے فحش ہونے کی دلیل و بیان ہے۔
اس بات کو دوسرے پہلو سے یوں سمجھیے کہ شارع کسی مجرد فرد سے مخاطب نہیں ہوتا رہا بلکہ ایک ایسے تاریخی انسان سے مخاطب ہوا جس کی ابتداء حضرت آدم علیہ السلام سے ہوئی۔ اس تاریخی انسان کے پاس انبیاء کی حق تعلیمات اور نفس انسانی کے اپنی طرف سے وضع کردہ ملغوبے کی بنا پر فحاشی کے بہت سے تصورات موجود تھے۔ تو جب شارع نے اس انسان کو خطاب کرکے کہا کہ ”انہ کان فاحشۃ“ تو حوالہ وہی برحق تصورات تھے جس سے وہ تاریخی طور پر واقف اور قائل رہے تھے۔ الغرض یہ پورا استدلال ”ایک مجرد فطری فرد“ کے تناظر میں وضع کیا گیا ہے، جبکہ شارع کے اس کلام کے بامعنی ہونے کے لیے ”مجرد فطری فرد“ نہیں بلکہ ”تاریخی فرد“ کا تناظر درکار ہے۔
دیکھیے اگر زنا یا ننگ پن جیسے افعال کو کسی ایسے شخص کے سامنے فحش قرار دے کر پیش کیا جائے جو تاریخی طور پر کسی ایسی تاریخ اور معاشرت سے تعلق رکھتا ہو جہاں ان اعمال کو فحش ہی نہ سمجھا جاتا ہو، اور اس بنا پر وہ فرد بھی یہی رائے رکھتا ہو تو ظاہر ہے اس کے لیے اس آیت کا کوئی معنی نہیں ہوگا۔ پس یاد رکھنا چاہیے کہ انسان ایک تاریخی وجود ہے نہ کہ مجرد۔ اگر یہ تناظر درست کرلیا جائے تو بہت سے اشکالات پیدا ہی نہ ہوں۔
پانچویں غلطی:
آخر یہ مان لینے سے کیا مسئلہ پیدا ہوتا ہے کہ وحی سے ماقبل بھی خیر و شر کی تعیین کا ایک قابل اعتبار ماخذ موجود ہے نیز یہ کہ انسان کو اصلا عقل و فطرت کی راہنمائی ہی کے تحت زندگی بسر کرنا ہے، البتہ جہاں کہیں انسانی فطرت دھوکہ کھا سکتی تھی یا جس معاملے میں عقل کے پاس فیصلے کی کوئی واضح بنیاد نہ تھی، ان معاملات میں وحی کے ذریعے انسان کی راہنمائی کردی گئی؟ یہ تو ایک معقول بات ہے۔
تبصرہ:
غلط فہمی نمبر ایک پر تبصرے میں واضح کیا گیا کہ سکے کو گھمانے کے بعد جب یہ کہاجاتا ہے کہ ”انسانی فطرت گویا الگ سے ایک ماخذ ہے جسے خیر و شر کے معاملے میں وحی کے بغیر معلوم کرکے بھی اس سے راہنمائی لی جاسکتی ہے“ تو اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ شارع کے حکم کی قانونی بنیاد کیا ہے، نیز اگر فطرت وغیرہ اصولا راہنمائی کے لیے کافی ہیں تو پھر شارع کی ضرورت و مقام کیا ہے؟ اب اس موقع پر چند جوابات ممکن ہیں:
الف) تعیین قدر میں شارع کی حیثیت بنیادی ہے، فطرت شارع کے حکم سے الگ کوئی شے نہیں، نہ ہی اس کے بغیر اسے جاننا ممکن ہے۔
ب) فطرت ہی بنیادی چیز ہے اور عقل وغیرہ کے ذریعے اسے پہچاننا ممکن ہے۔ اس صورت میں شارع کی ضرورت محض اضافی و facilitating نوعیت کی ہوئی، یعنی عام لوگوں کو تو اس کی ضرورت ہے مگر فلاسفہ کو اس کی ضرورت نہیں (یہ بعض معتزلہ وغیرہ نے سمجھا)
ج) اس معاملےمیں معلوم اصول فطرت بنیادی چیز ہیں اور شارع کی حیثیت ان معنی میں ایک تتمے (appendix) کی ہے کہ جہاں کہیں فطرت ٹھوکر کھا سکتی تھی ان مقامات پر حکم نازل کردیا گیا۔ یہ پوزیشن چند جدید مفکرین (مثلا غامدی صاحب) نے اپنائی۔
اب اس موقع پر جائز طور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس تمام تر ذہنی مشق اور کیٹیگرائزیشن سے عملی طور پر کیا فرق پڑتا ہے؟ تو اس تمام تر بحث کا تعلق اس عملی سوال سے ہے کہ شارع میری زندگی کے کس قدر شعبے و حصے سے متعلق ہے؟
– پہلی صورت میں جواب یہ بنتا ہے کہ میں اپنی زندگی کے ہر حصے میں شارع ہی کے حکم کا پابند ہوں۔
– دوسری صورت میں شارع کے حکم کی کسی بھی دائرے میں ضرورت نہیں رہتی، اصولا ہر معاملے میں مشمولات عقل و فطرت (وہ جو بھی ہوں) ہی کی طرف دیکھا جائے گا۔ عملا اس کا مطلب یہ ہے کہ فلاسفہ و سوشل سائنٹسٹ کی طرف دیکھا جائے کیونکہ اصول فطرت و عقل کی تنقیح انہی کا شعبہ ہے۔
– تیسری صورت میں شارع کا حکم ایک محدود سے دائرے میں مجھے خطاب کرتا ہے، اس دائرے سے باہر پھر دوسری صورت پلٹ آتی ہے۔
پہلی صورت ہر قسم کی سیکولرائزیشن کا امکان ختم کردیتی ہے کیونکہ یہاں ہر حکم کا ریفرنس پوائنٹ بہرحال شارع کا قول ہوگا (فقہاء نے شرع کو اسی طرز پر دیکھا ہے)۔ دوسری صورت مکمل سیکولرائزیشن کی ہے کہ جہاں شارع کو کلیتا فارغ (suspend) کر دیا جاتا ہے، جبکہ تیسری صورت ایک قسم کی ”دینی سیکولرائزیشن“ کا جواز پیدا کرتی ہے، یعنی شرع کو چند محدود سے معاملات میں محدود کرکے باقی سارا میدان عقل و فطرت کے ہاتھ کھلا چھوڑ دیا جائے۔ اس کا لازمی نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ یہ خلا پھر حاضر و موجود علمیت (سوشل سائنسز) سے پر کیا جائے۔ اس قسم کی دینی سیکولرازم یورپ میں City of Man and City of God کے نام پر طویل عرصے تک پائی گئی۔
http://daleel.pk/2017/05/14/43162
Last edited by a moderator: