لاہور: سینئر صحافی عمران ریاض خان کو لاہور ٹول پلازہ پر پولیس کی وین سے اتار کر سفید گاڑی میں منتقل کرنے کے بعد نامعلوم مقام پر منتقل کرنے کی کوشش ناکام بنا دی گئی، عمران ریاض خان کے ساتھی پولیس وین کے بعد جس گاڑی میں عمران ریاض خان کو منتقل کیا گیا اس کا پیچھا کرتے رہے۔
تفصیلات کے مطابق پولیس نے لاہور ٹول پلازہ پر حراست میں موجود سینئر صحافی عمران ریاض خان کو پولیس وین سے اتار کر سفید گاڑی میں منتقل کیا اور سڑکوں پر گھماتے رہے۔ عمران ریاض خان کے ساتھی گاڑی کا پیچھا کرتے رہے۔
صحافی شرین زادہ نے کہا کہ ہم پولیس وین کا پیچھا کر رہے تھے کہ عمران ریاض خان کو پولیس وین سے اتار کر ایک سفید گاڑی میں منتقل کر دیا گیا۔
ٹویٹ کرتے ہوئے صدیق جان نے لکھا کہ عمران ریاض خان جس گاڑی میں موجود ہیں ہم اس کا تعاقب کر رہے ہیں۔
شعن زادہ نے ایک اور ٹویٹ میں لکھا کہ لاہور پولیس نے آج پوری کوشش کی کہ عمران ریاض خان کو نامعلوم مقام پر منتقل کریں لیکن ہم نے ان کی کوشش ناکام بنا دیا ہے۔ عمران ریاض خان کو نامعلوم مقام پر منتقل کر نے کے لئے ہمارے ایک گاڑی روک دی تھی ہم دوسری گاڑی میں سفید گاڑی کا پیچھا کرتے رہے۔ عمران ریاض خان لاہور میں سی آئی اے کوتوالی میں موجود ہیں۔
صحافی زین علی نے ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ سیال قیام وطعام پر سفید گاڑی سے دو سول کپڑوں میں ملبوس افراد نکلے اور دھمکی آمیز لہجے میں کہا کہ پولیس کی ویڈیو نہ بنائے۔دونوں افراد پولیس اہلکار نہیں تھے، پھر کون ہیں جو عمران ریاض کو لے گئے۔
خیال ہے کہ عمران ریاض کو کسی نامعلوم مقام پر منتقل کرنا تھا اور انہیں تشدد کا نشانہ بنانے اور موقف بدلنے پر مجبور کرنا تھا۔ اس پر عامر سعید عباسی نے لکھا کہ واقعی میں پہلی بار "ٹکر" کے لوگ ملے ہیں، پولیس کے چکمہ دینے کے باوجود عمران ریاض خان کے دوست شیریں زادہ نے سفید گاڑی تلاش کرلی جس میں عمران ریاض کو لاہور منتقل کیا جارہا ہے۔
یاد رہے کہ سینئر صحافی عمران ریاض خان کو غداری کے مقدمے میں گرفتار کیا گیا تھا، گرفتاری کے وقت عمران ریاض خان پولیس کے ساتھ جاتے ہوئے پاکستان زندہ باد کے نعرے لگواتے رہے تھے جبکہ اس وقت موجود صحافیوں کی طرف سے حکومت کے خلاف نعرے بازی بھی کی گئی تھی۔ پولیس اہلکار جب انہیں گاڑی میں بٹھا رہے تھے تو صحافیوں نے مخالفت کی تھی اور کہا تھا کہ انہیں پولیس وین میں لے کر جایا جائے۔