Amal
Chief Minister (5k+ posts)
بغیرسمجھے قرآن کی تلاوت کرنے سے قرآن پر عمل کرنا محال ہےاور یہ امر متحقق ہے کہ بغیرسمجھے قرآن سے ہم ہدایت نہیں حاصل کرسکتے ۔
قرآن کے نزول کا مقصد تاریکی سے روشنی کی طرف لے جاناہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا
كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ اِلَيْكَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَي النُّوْرِ بِـاِذْنِ رَبِّھِمْ
( ابراھیم)
یہ کتاب (قرآن) ہے جس کو ہم نے آپؐ پرنازل کیاتاکہ اس کی روشنی میں آپؐ انسانوں کو گمراہیوں کی تاریکی سے نکال کر ایمان و عمل کی روشنی کی طرف لائیں ، ان کے پروردگار کے حکم سے۔
ایمان بالقرآن کا تقاضہ ہے کہ ہم قرآن سمجھ کر پڑھیں ، اللہ تعالیٰ نے قرآن پر ایمان لانے کے اوّلین اور بنیادی تقاضہ کو بیان کرتے ہوئے فرمایا
اَلَّذِيْنَ اٰتَيْنٰھُمُ الْكِتٰبَ يَتْلُوْنَہٗ حَقَّ تِلَاوَتِہٖ اُولٰۗىِٕكَ يُؤْمِنُوْنَ بِہٖ وَمَنْ يَّكْفُرْ بِہٖ فَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْخٰسِرُوْنَ
البقرہ۱۲۱
ہم جس کو بھی کتاب دیتے ہیں وہ اس کو ایسا پڑھتے ہیں جیسے اس کے پڑھنے کا حق ہے ایسا کرنے والے ہی لوگ اس کتاب پر ایمان رکھتے ہیں۔ جو کوئی کتاب کے ساتھ ایسا نہ کرے پس ایسے ہی لوگ گھاٹا پانے والے ہیں
اور یہ مقصد بغیر قرآن سمجھے پورا نہیں ہوسکتا۔ قرآن ہدایت کی کتاب ہے ، فرمان رب ہے
شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ فِيْہِ الْقُرْاٰنُ ھُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنٰتٍ مِّنَ الْہُدٰى وَالْفُرْقَانِ
البقرہ : ۱۸۵
ماہ رمضان ہی میں قرآن کے نزول کی ابتداء ہوئی جو انسانوں کے لئے کھلی کھلی ہدایت ہے اور حق و باطل معلوم کرنے کی کسوٹی بھی ہے
اس آیت میں اللہ کی طرف سے انسانوں کو ہدایت حاصل کرنے کا امر ہے
وَمَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهٖ لِيُبَيِّنَ لَهُمْۗ فَيُضِلُّ اللّٰهُ مَنْ يَّشَاۤءُ وَيَهْدِىْ مَنْ يَّشَاۤءُ ۗ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ
اور ہم نے اپنا پیغام دینے کے لئے جب کبھی کوئی رسول بھیجا ہے اس نے اپنی قوم ہی کی زبان میں پیغام دیا ہے تاکہ وہ انہیں اچھی طرح کھول کر بات سمجھائے ابراہیم ٤
اَلَّذِینَ آَتَیْنَاہُمُ الْکِتَابَ یَتْلُونَہُ حَقَّ تِلَاوَتِہِ أُولَئِکَ یُؤْمِنُونَ بِہِ
البقرہ:١٢١
وہ لوگ جنہیں ہم نے کتاب دی ہے وہ اس کتاب(قرآن) کی اس طرح تلاوت کرتے ہیں جس طرح اس کی تلاوت کا حق ہے ،ایسے لوگ ہی اس پر (صحیح معنوں میں) ایمان لاتے ہیں
اَفَلَا يَتَدَبَّرُوۡنَ الۡقُرۡاٰنَ اَمۡ عَلٰى قُلُوۡبٍ اَقۡفَالُهَا
کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر تالے (لگے ہوئے) ہیں ۔ سورۃ محمد ۲۴
وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِن مُّدَّكِرٍ
اور ہم نے قرآن کو سمجھنے کے لئے آسان کردیا ہے تو کوئی ہے کہ سوچے سمجھے؟
یَتْلُونَ کِتَابَ اللَّہِ رَطْبًا لَا یُجَاوِزُ حَنَاجِرَہُمْ یَمْرُقُونَ مِنْ الدِّینِ کَمَا یَمْرُقُ السَّہْمُ مِنْ الرَّمِیَّۃِ
بخاری:کتاب المغازی،رقم الکتاب:64رقم الباب:61رقم الحدیث:4351
ایک قوم ایسی ہوگی)وہ اللہ کی کتاب کو بڑی خوبصورت آواز میں پڑھے گے لیکن وہ(قرآن) ان کے حلقوں سے نیچے نہیں اترے گا ۔وہ دین سے ا س طرح نکل جائیں جس طرح تیر کمان سے۔
إِنَّ اللَّہَ یَرْفَعُ بِہَذَا الْکِتَابِ أَقْوَامًا وَیَضَعُ بِہِ آخَرِینَ
صحیح مسلم : 1934
بے شک اللہ اس کتاب (قرآن)کے ذریعےقوموں کو ترقی دیتے ہیں اوردوسروں(اس پر عمل نہ کرنے والوں) کو تنزلی کا سامنا کرنا پڑتاہے۔
قرآن کریم تین دن سے کم میں ختم کرنے سے ممانعت کا مقصد یہ ہے کہ آدمی قرآن بلاسمجھے نہ پڑھے جیسا کہ آپ ﷺنے فرمایا :‘‘ جو اسے تین دن سےکم مدت میں ختم کرتا ہے وہ اسے سمجھ نہیں سکا۔’’
(ابوداؤد ،الصلوٰۃ :۱۳۹۰،۱۳۹۵)
مذکورہ چند دلائل کی روشنی میں یہ بات اظہرمن الشمس ہوجاتی ہے کہ قرآن کریم بلاسمجھے نہ پڑھا جائے ، جتنا ہی ہوسکے ہم سمجھ سمجھ پڑھیں مگر دین کے کچھ ٹھیکہ داروں نے مسلمانوں کو یہ باورکرایا کہ قرآن اللہ کا کلام ہے اور وہ عربی زبان میں ہے اس لئے اس کلام کا سمجھنا کسی کے بس کی بات نہیں , اس کے لئے اٹھارہ علوم چاہئے ، تم صرف دین کی جو باتیں ہم بتلائیں اس پر عمل کرو اور قرآن کی ناظرہ تلاوت کر کے برکت و ثواب حاصل کرتے رہو۔ تعجب ہے اس قوم پر جو دنیا کے مشکل سے مشکل علوم حاصل کرلیتی ہے مگر رب کی بھیجی ہوئی نصیحت حاضل کرنے والی آسان کتاب نہیں سمجھ سکتی ۔
إِنَّ اللَّہَ یَرْفَعُ بِہَذَا الْکِتَابِ أَقْوَامًا وَیَضَعُ بِہِ آخَرِینَ
صحیح مسلم:کتاب صلاۃ المسافرین:1934
''بے شک اللہ اس کتاب (قرآن)کے ذریعےقوموں کو ترقی دیتے ہیں اوردوسروں(اس پر عمل نہ کرنے والوں) کو تنزلی کا سامنا کرنا پڑتاہے۔
اللہ ہمیں قرآن سمجھ کر اس پر عمل کرنے کی توفیق عطافرمائے۔آمین
قرآن کے نزول کا مقصد تاریکی سے روشنی کی طرف لے جاناہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا
كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ اِلَيْكَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَي النُّوْرِ بِـاِذْنِ رَبِّھِمْ
( ابراھیم)
یہ کتاب (قرآن) ہے جس کو ہم نے آپؐ پرنازل کیاتاکہ اس کی روشنی میں آپؐ انسانوں کو گمراہیوں کی تاریکی سے نکال کر ایمان و عمل کی روشنی کی طرف لائیں ، ان کے پروردگار کے حکم سے۔
ایمان بالقرآن کا تقاضہ ہے کہ ہم قرآن سمجھ کر پڑھیں ، اللہ تعالیٰ نے قرآن پر ایمان لانے کے اوّلین اور بنیادی تقاضہ کو بیان کرتے ہوئے فرمایا
اَلَّذِيْنَ اٰتَيْنٰھُمُ الْكِتٰبَ يَتْلُوْنَہٗ حَقَّ تِلَاوَتِہٖ اُولٰۗىِٕكَ يُؤْمِنُوْنَ بِہٖ وَمَنْ يَّكْفُرْ بِہٖ فَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْخٰسِرُوْنَ
البقرہ۱۲۱
ہم جس کو بھی کتاب دیتے ہیں وہ اس کو ایسا پڑھتے ہیں جیسے اس کے پڑھنے کا حق ہے ایسا کرنے والے ہی لوگ اس کتاب پر ایمان رکھتے ہیں۔ جو کوئی کتاب کے ساتھ ایسا نہ کرے پس ایسے ہی لوگ گھاٹا پانے والے ہیں
اور یہ مقصد بغیر قرآن سمجھے پورا نہیں ہوسکتا۔ قرآن ہدایت کی کتاب ہے ، فرمان رب ہے
شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ فِيْہِ الْقُرْاٰنُ ھُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنٰتٍ مِّنَ الْہُدٰى وَالْفُرْقَانِ
البقرہ : ۱۸۵
ماہ رمضان ہی میں قرآن کے نزول کی ابتداء ہوئی جو انسانوں کے لئے کھلی کھلی ہدایت ہے اور حق و باطل معلوم کرنے کی کسوٹی بھی ہے
اس آیت میں اللہ کی طرف سے انسانوں کو ہدایت حاصل کرنے کا امر ہے
وَمَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهٖ لِيُبَيِّنَ لَهُمْۗ فَيُضِلُّ اللّٰهُ مَنْ يَّشَاۤءُ وَيَهْدِىْ مَنْ يَّشَاۤءُ ۗ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ
اور ہم نے اپنا پیغام دینے کے لئے جب کبھی کوئی رسول بھیجا ہے اس نے اپنی قوم ہی کی زبان میں پیغام دیا ہے تاکہ وہ انہیں اچھی طرح کھول کر بات سمجھائے ابراہیم ٤
اَلَّذِینَ آَتَیْنَاہُمُ الْکِتَابَ یَتْلُونَہُ حَقَّ تِلَاوَتِہِ أُولَئِکَ یُؤْمِنُونَ بِہِ
البقرہ:١٢١
وہ لوگ جنہیں ہم نے کتاب دی ہے وہ اس کتاب(قرآن) کی اس طرح تلاوت کرتے ہیں جس طرح اس کی تلاوت کا حق ہے ،ایسے لوگ ہی اس پر (صحیح معنوں میں) ایمان لاتے ہیں
اَفَلَا يَتَدَبَّرُوۡنَ الۡقُرۡاٰنَ اَمۡ عَلٰى قُلُوۡبٍ اَقۡفَالُهَا
کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر تالے (لگے ہوئے) ہیں ۔ سورۃ محمد ۲۴
وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِن مُّدَّكِرٍ
اور ہم نے قرآن کو سمجھنے کے لئے آسان کردیا ہے تو کوئی ہے کہ سوچے سمجھے؟
یَتْلُونَ کِتَابَ اللَّہِ رَطْبًا لَا یُجَاوِزُ حَنَاجِرَہُمْ یَمْرُقُونَ مِنْ الدِّینِ کَمَا یَمْرُقُ السَّہْمُ مِنْ الرَّمِیَّۃِ
بخاری:کتاب المغازی،رقم الکتاب:64رقم الباب:61رقم الحدیث:4351
ایک قوم ایسی ہوگی)وہ اللہ کی کتاب کو بڑی خوبصورت آواز میں پڑھے گے لیکن وہ(قرآن) ان کے حلقوں سے نیچے نہیں اترے گا ۔وہ دین سے ا س طرح نکل جائیں جس طرح تیر کمان سے۔
إِنَّ اللَّہَ یَرْفَعُ بِہَذَا الْکِتَابِ أَقْوَامًا وَیَضَعُ بِہِ آخَرِینَ
صحیح مسلم : 1934
بے شک اللہ اس کتاب (قرآن)کے ذریعےقوموں کو ترقی دیتے ہیں اوردوسروں(اس پر عمل نہ کرنے والوں) کو تنزلی کا سامنا کرنا پڑتاہے۔
قرآن کریم تین دن سے کم میں ختم کرنے سے ممانعت کا مقصد یہ ہے کہ آدمی قرآن بلاسمجھے نہ پڑھے جیسا کہ آپ ﷺنے فرمایا :‘‘ جو اسے تین دن سےکم مدت میں ختم کرتا ہے وہ اسے سمجھ نہیں سکا۔’’
(ابوداؤد ،الصلوٰۃ :۱۳۹۰،۱۳۹۵)
مذکورہ چند دلائل کی روشنی میں یہ بات اظہرمن الشمس ہوجاتی ہے کہ قرآن کریم بلاسمجھے نہ پڑھا جائے ، جتنا ہی ہوسکے ہم سمجھ سمجھ پڑھیں مگر دین کے کچھ ٹھیکہ داروں نے مسلمانوں کو یہ باورکرایا کہ قرآن اللہ کا کلام ہے اور وہ عربی زبان میں ہے اس لئے اس کلام کا سمجھنا کسی کے بس کی بات نہیں , اس کے لئے اٹھارہ علوم چاہئے ، تم صرف دین کی جو باتیں ہم بتلائیں اس پر عمل کرو اور قرآن کی ناظرہ تلاوت کر کے برکت و ثواب حاصل کرتے رہو۔ تعجب ہے اس قوم پر جو دنیا کے مشکل سے مشکل علوم حاصل کرلیتی ہے مگر رب کی بھیجی ہوئی نصیحت حاضل کرنے والی آسان کتاب نہیں سمجھ سکتی ۔
إِنَّ اللَّہَ یَرْفَعُ بِہَذَا الْکِتَابِ أَقْوَامًا وَیَضَعُ بِہِ آخَرِینَ
صحیح مسلم:کتاب صلاۃ المسافرین:1934
''بے شک اللہ اس کتاب (قرآن)کے ذریعےقوموں کو ترقی دیتے ہیں اوردوسروں(اس پر عمل نہ کرنے والوں) کو تنزلی کا سامنا کرنا پڑتاہے۔
اللہ ہمیں قرآن سمجھ کر اس پر عمل کرنے کی توفیق عطافرمائے۔آمین
Last edited: