Qarar
MPA (400+ posts)
میری تو سمجھ سے باہر ہے کہ توہین رسالت کے قانون کو برقرار رکھنے پر اتنا زور کیوں دیا جارہا ہے کیونکہ قانون سے بالا بالا سزا دینے کی "سہولت" تو ممتاز قادری اور اس کے پیروکاروں کو ہر وقت حاصل ہے ...قانون ہے یا نہیں اس سے کیا فرق پڑتا ہے ....قانون بنانے کا اصل مقصد یہ تھا کہ مشتعل عوام سے ملزم کو سزا دینے کا اختیار واپس لے کر عدالت کے سپرد کردیا جائے .....لیکن عوام نے تو قانون کو جوتی کی نوک پر بھی نہیں رکھا
اس میں کوئی شک نہیں کہ حضور نے ارتداد اور اور اپنی ذاتی توہین پر کئی افراد کے موت کے حکم نامے جاری کیے تھے ....لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایسے بھی کئی واقعات ہیں جن میں ایسے افراد کو کسی وجہ سے معاف کردیا تھا .....اور یہی وجہ ہے ایک طبقہ نبی کی توہین پر موت کی سزا مقرر کرتا ہے تو دوسرا گروہ ایسا نہیں سمجھتا اور خوبی دیکھئے کہ دونوں گروہوں کو اپنے موقف کی سچائی کے لیے واقعات اور شہادتیں میسر ہیں
یہاں میں عبدللہ ابن سعد السراح کا واقعہ درج کرتا ہوں
السراح کاتب وحی تھا لیکن اس نے لکھتے وقت ڈنڈی مارنا شروح کی ....حضور وحی نازل ہونے پر اسے لکھنے کو کہتے تھے ....اور بعد میں اسے لکھا ہوا پڑھنے کا کہتے تھے تاکہ یہ یقین ہو کہ لکھنے میں کوئی غلطی نہیں ہوئی ... ابن سعد السراح کے مطابق ...اس نے کئی دفعہ لکھتے وقت ردوبدل کیا اور حضور کو اس کا پتا نہیں چل سکا ..... السراح مدینہ چھوڑ کر مکہ چلا گیا اور مکہ والوں کو بتایا کہ وحی وغیرہ میں کچھ حقیقت نہیں ہے کیونکہ حضور پر اگر وحی آتی ہے تو پھر اس پر ...یعنی ابن سعد السراح پر بھی آتی کہ وہ بھی ویسا کلام لکھ سکتا ہے
حضور کو اس کے مرتد ہونے اور نبی کی توہین کرنے کا بہت رنج تھا ....جب مکہ فتح ہوا تو ابن سعد السراح کو قتل کرنے کا حکم دیا ...مگر السراح، حضرت عثمان کا رضائی بھائی بھی تھا ....چنانچہ حضرت عثمان نے اسے معاف کرنے کی سفارش کی ....پہلی دفعہ حضور خاموش رہے ، حضرت عثمان نے دوسری دفعہ کہا ، حضور پھر خاموش ....تیسری دفعہ کہنے پر اسے معاف کردیا ....تاہم بعد میں حضور نے صحابہ سے گلہ کیا کہ کیا تم میں سے کوئی بھی...معافی ملنے سے پہلے .... السراح کی گردن کاٹ نہ سکا .....صحابہ نے عرض کی کہ حضور آپ آنکھ سے اشارہ کردیتے تو ایسا ہوجاتا ....اس پر حضور نے کہا کہ نہیں اشارہ کرنا نبی کے شایان شان نہ تھا
یہ واقعہ ابن اسحٰق اور ابن سعد اور دوسرے کئی مسلمان مورخین نے اسلامی کتابوں میں درج کیا ہے ...اس کہانی کا اخلاقی نتیجہ کیا ہے؟ وہ یہ کہ ارتداد اور نبی کی توہین کی سزا ویسے تو موت ہے ....جیسا کہ ان دو عورتوں کو بھی فتح مکہ کے وقت مار دیا گیا جو ابتدائی دنوں میں گانے بجانے کرکے حضور کی تبلیغ میں رخنہ ڈالا کرتی تھیں ...لیکن اگر آپ حضرت عثمان جیسی تگڑی سفارش لے آئیں تو بچت ہوجائے گی...اور توہین رسالت کے مجرم السراح کو عثمان کے دور میں مصر کی گورنری بھی مل جائے گی
اس میں کوئی شک نہیں کہ حضور نے ارتداد اور اور اپنی ذاتی توہین پر کئی افراد کے موت کے حکم نامے جاری کیے تھے ....لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایسے بھی کئی واقعات ہیں جن میں ایسے افراد کو کسی وجہ سے معاف کردیا تھا .....اور یہی وجہ ہے ایک طبقہ نبی کی توہین پر موت کی سزا مقرر کرتا ہے تو دوسرا گروہ ایسا نہیں سمجھتا اور خوبی دیکھئے کہ دونوں گروہوں کو اپنے موقف کی سچائی کے لیے واقعات اور شہادتیں میسر ہیں
یہاں میں عبدللہ ابن سعد السراح کا واقعہ درج کرتا ہوں
السراح کاتب وحی تھا لیکن اس نے لکھتے وقت ڈنڈی مارنا شروح کی ....حضور وحی نازل ہونے پر اسے لکھنے کو کہتے تھے ....اور بعد میں اسے لکھا ہوا پڑھنے کا کہتے تھے تاکہ یہ یقین ہو کہ لکھنے میں کوئی غلطی نہیں ہوئی ... ابن سعد السراح کے مطابق ...اس نے کئی دفعہ لکھتے وقت ردوبدل کیا اور حضور کو اس کا پتا نہیں چل سکا ..... السراح مدینہ چھوڑ کر مکہ چلا گیا اور مکہ والوں کو بتایا کہ وحی وغیرہ میں کچھ حقیقت نہیں ہے کیونکہ حضور پر اگر وحی آتی ہے تو پھر اس پر ...یعنی ابن سعد السراح پر بھی آتی کہ وہ بھی ویسا کلام لکھ سکتا ہے
حضور کو اس کے مرتد ہونے اور نبی کی توہین کرنے کا بہت رنج تھا ....جب مکہ فتح ہوا تو ابن سعد السراح کو قتل کرنے کا حکم دیا ...مگر السراح، حضرت عثمان کا رضائی بھائی بھی تھا ....چنانچہ حضرت عثمان نے اسے معاف کرنے کی سفارش کی ....پہلی دفعہ حضور خاموش رہے ، حضرت عثمان نے دوسری دفعہ کہا ، حضور پھر خاموش ....تیسری دفعہ کہنے پر اسے معاف کردیا ....تاہم بعد میں حضور نے صحابہ سے گلہ کیا کہ کیا تم میں سے کوئی بھی...معافی ملنے سے پہلے .... السراح کی گردن کاٹ نہ سکا .....صحابہ نے عرض کی کہ حضور آپ آنکھ سے اشارہ کردیتے تو ایسا ہوجاتا ....اس پر حضور نے کہا کہ نہیں اشارہ کرنا نبی کے شایان شان نہ تھا
یہ واقعہ ابن اسحٰق اور ابن سعد اور دوسرے کئی مسلمان مورخین نے اسلامی کتابوں میں درج کیا ہے ...اس کہانی کا اخلاقی نتیجہ کیا ہے؟ وہ یہ کہ ارتداد اور نبی کی توہین کی سزا ویسے تو موت ہے ....جیسا کہ ان دو عورتوں کو بھی فتح مکہ کے وقت مار دیا گیا جو ابتدائی دنوں میں گانے بجانے کرکے حضور کی تبلیغ میں رخنہ ڈالا کرتی تھیں ...لیکن اگر آپ حضرت عثمان جیسی تگڑی سفارش لے آئیں تو بچت ہوجائے گی...اور توہین رسالت کے مجرم السراح کو عثمان کے دور میں مصر کی گورنری بھی مل جائے گی