Afaq Chaudhry
Chief Minister (5k+ posts)
ابو سعد خان
مولانالکھتے ہیں۔’’اصولی سوالات پر بحث کرنے سے پہلے میں اس غلط فہمی کو صاف کردینا چاہتا ہوں جو قائداعظم مرحوم کی اس تقریر سے پیدا ہوئی ہے جو انہوں نے 11 اگست 1947ء کو پاکستان کی مجلس دستورساز میں کی تھی۔ اس تقریر سے تین نتیجے نکالے جاتے ہیں۔ اول یہ کہ قائداعظم مرحوم نے اس تقریر میں ایک ایسی ’’پاکستانی قومیت‘‘ کی بِنا ڈالنے کا اعلان کیا تھا جو وطنیت پر مبنی ہو اور جس میں پاکستان کے ہندو‘ مسلمان‘ عیسائی وغیرہ سب ایک قوم ہوں۔ دوم یہ کہ مرحوم نے اس تقریر میں یہ فیصلہ کردیا تھا کہ پاکستان کا دستور غیر مذہبی نوعیت کا یعنی سیکولر ہوگا۔ سوم یہ کہ مرحوم کی اس تقریرکو کوئی ایسی آئینی حیثیت حاصل ہے جس کی وجہ سے پاکستان کے باشندے یا اس کے دستورساز اب اس کے کھینچے ہوئے خطوط سے ہٹ نہیں سکتے۔ میرے نزدیک یہ تینوں نکات جو اس تقریر سے بطور نتیجہ نکالے جاتے ہیں صحیح نہیں ہیں‘ اور اپنی اس رائے کے لیے میرے دلائل حسب ذیل ہیں: (الف) قائداعظم مرحوم کی اس تقریر کے الفاظ خواہ بظاہر پہلے اور دوسرے مفہوم کے حامل ہوں‘ مگر ہمارے لیے یہ باورکرنا بہت مشکل ہے کہ ان کا منشا بھی حقیقت میں وہی تھا جو ان کے الفاظ سے مترشح ہوتا ہے۔ اس لیے کہ اُن کے مرتبے کے انسان سے ہم یہ توقع نہیں کرسکتے کہ وہ پاکستان کے قیام سے پہلے دس سال تک جن اصولوں کو بنیاد بناکر لڑتے رہے تھے ان سے وہ پاکستان قائم ہوتے ہی یک لخت پلٹ گئے ہوں گے اور انہی اصولوںکے قائل ہوگئے ہوں گے جن کے خلاف انہوں نے اپنی ساری قوم کو ساتھ لے کر جنگ کی تھی۔ نیز ہم یہ گمان بھی نہیں کرسکتے کہ وہ قیام پاکستان کے پہلے ہی دن یکایک اپنے اْن تمام وعدوں سے پھرگئے ہوں گے جو انہوں نے بارہا صاف اور صریح الفاظ میں اپنی قوم سے کیے تھے اور جن کے اعتماد ہی پر قوم ان کو اپنا لیڈر مان کر اپنی جان ومال ان کے اشاروں پر قربان کرنے کے لیے آمادہ ہوئی تھی۔ پھر ہمارے لیے یہ ماننا بھی ممکن نہیں ہے کہ قائداعظم ایسی متضاد باتیں کرسکتے تھے کہ 11 اگست کو ایک اعلان کریں اور پھر اس کے بعد بار بار اس کے بالکل خلاف باتوں کا مسلمان پبلک کو یقین دلاتے رہیں۔ اس لیے ہمارے نزدیک ان کی مذکورہ بالا تقریر کو ان کے اگلے اور پچھلے ارشادات کی روشنی میں سمجھنا زیادہ بہتر ہے‘ بہ نسبت اس کے کہ ہم اس کا کوئی ایسا مفہوم لیں جو ان کی تمام باتوں کے خلاف پڑتا ہے جو انہوں نے اس سے پہلے فرمائیں اور اس کے بعد بھی فرماتے رہے۔ (ب) سب کو معلوم ہے کہ قائداعظم کی کانگریس سے لڑائی تھی ہی دوقومی نظریے کی بنیاد پر۔ 10 اگست 47ء تک ان کا مستقل نظریہ یہ تھا کہ مسلمان ایک الگ قوم ہیں اور وہ غیرمسلموں کے ساتھ مل کر ایک متحدہ وطنی قومیت نہیں بناسکتے۔ اس کے متعلق ان کی بہت سی تحریروں اور تقریروں میں سے صرف ایک تحریرکا اقتباس میں یہاں نقل کروں گا جو ستمبر1944ء میں گاندھی جی کے ساتھ اپنی خط وکتابت کے سلسلے میں لکھی تھی: ’’ہم اس کے قائل ہیں اور ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ مسلمان اور ہندو دو بڑی قومیں ہیں جو ’’قوم‘‘ کی ہر تعریف اور معیار پر پوری اترتی ہیں۔ ہم دس کروڑ کی ایک قوم ہیں۔ مزید برآں ہم ایک ایسی قوم ہیں جو ایک مخصوص اور ممتاز تہذیب وتمدن‘ زبان و ادب‘ آرٹ اور فنِ تعمیر‘ احساس اقدار وتناسب‘ قانونی احکام واخلاقی ضوابط‘ رسم ورواج اور تقویم (کیلنڈر)‘ تاریخ اور روایات‘ رجحانات اور عزائم کی مالک ہے۔ خلاصۂ بحث یہ ہے کہ زندگی اور اس کے متعلقات کے بارے میں ہمارا اپنا ایک امتیازی زاویۂ نگاہ ہے۔ اور قانونِ بین الاقوامی کی ہر دفعہ کے لحاظ سے ہم ایک قوم ہیں‘‘۔ (’’مسٹر جناح کی تقریریں اورتحریریں‘‘۔ مرتبہ جمیل الدین احمد‘ ص 181) اب کیا ہم یہ باور کرلیں کہ 11 اگست کو یک لخت وہ تمام خصوصیتیں مٹ گئیں جو مسلمانوں کو غیر مسلموں سے جدا کرکے ایک الگ قوم بناتی تھیں اور یکایک ایک ایسی نئی قومیت کے اسباب فراہم ہوگئے جس میں مسلمانوں اورغیرمسلموں کا جذب ہونا ممکن ہوگیا؟ اگر ہم اس بات کو مان لیں تو قائداعظم مرحوم کو اس الزام سے نہیں بچایا جاسکتا کہ وہ ایک بااصول آدمی نہ تھے بلکہ محض سیاسی مصلحتوں کی خاطر اصول بناتے اور بدلتے تھے۔ مرحوم کی وفات کے پانچ سال بعد ان کی روح کو ایسے الزامات کا تحفہ پیش کرنے کے لیے میں تو کسی طرح تیار نہیں ہوسکتا۔ (ج) بے شمار شہادتیں اس امرکی موجود ہیں کہ پاکستان کے قیام سے پہلے بھی قائداعظم مرحوم مسلمانوں سے ایک ریاست کا وعدہ کرتے رہے تھے اور اس کے بعد بھی وہ اس وعدے کو دوہراتے رہے۔ پہلے کے وعدوں میں سے صرف چند مثالیں ملاحظہ ہوں۔ 21 نومبر 1945ء کو فرنٹیئر مسلم لیگ کانفرنس میں تقریرکرتے ہوئے انہوں نے فرمایا: ’’مسلمان پاکستان کا مطالبہ کرتے ہیں جہاں وہ خود اپنے ضابطۂ حیات‘ اپنے تہذیبی ارتقائ‘ اپنی روایات اور اسلامی قانون کے مطابق حکمرانی کرسکیں‘‘۔(حوالہ مذکور‘صفحہ 473) پھر اسی کانفرنس میں انہوں نے 24 نومبرکو تقریر کرتے ہوئے اس خیال کا اظہار فرمایا: ’’ہمارا دین‘ ہماری تہذیب اور ہمارے اسلامی تصورات وہ اصل طاقت ہیں جو ہمیں آزادی حاصل کرنے کے لیے متحرک کرتے ہیں۔‘‘ (حوالہ مذکور‘ صفحہ 422) پھر اسی زمانے میں اسلامیہ کالج پشاور کے طلبہ کو خطاب کرتے ہوئے انہوں نے یہ الفاظ ارشاد فرمائے: ’’لیگ ہندوستان کے اْن حصوں میں آزاد ریاستوں کے قیام کی عَلم بردار ہے جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے تاکہ وہاں اسلامی قانون کے مطابق حکومت کرسکیں‘‘۔ (حوالہ مذکور‘ صفحہ 446) 11 اگست والی تقریر سے صرف ایک مہینہ بارہ دن پہلے 29‘ 30 جون 1947ء کو مرحوم نے سرحدکے حالات پر ایک بیان دیتے ہوئے لکھا: ’’مگر خان برادران نے اپنے بیانات میں اور اخباری ملاقاتوں میں ایک اور زہرآلود شور برپا کیا ہے کہ پاکستان کی دستورساز اسمبلی شریعت کے بنیادی اصولوں اور قرآنی قوانین سے انحراف کرے گی۔ یہ بات بھی قطعی طور پر غلط ہے‘‘۔ (ڈان 30 جون 1947ئ) دوسری طرف 11 اگست 47ء کے بعد جو ارشادات قائداعظم کی زبان سے سنے گئے اور ان کے معتمد ترین رفیقوں نے ان کی جو ترجمانی باربار خود ان کی زندگی میں کی اور جس کی کوئی تردید ان کی جانب سے نہ ہوئی اس کے چند نمونے ملاحظہ ہوں: ’’پشاور 14 جنوری۔ پاکستان کے وزیراعظم مسٹر لیاقت علی خان نے اتحاد ویکجہتی کے لیے سرحد کے لوگوں سے اپیل کرتے ہوئے قائداعظم کے ان اعلانات کا پھر اعادہ کیا کہ پاکستان ایک مکمل اسلامی ریاست ہوگا… انہوں نے فرمایاکہ پاکستان ہماری ایک تجربہ گاہ ہوگا اور ہم دنیا کو دکھائیں گے کہ تیرہ سو برس پرانے اسلامی اصول ابھی تک کارآمد ہیں‘‘۔ (پاکستان ٹائمز‘15 جنوری 48ئ) ’’کراچی 26 جنوری۔ قائداعظم محمدعلی جناح گورنر جنرل پاکستان نے ایک اعزازی دعوت میں (جو انہیں کراچی بار ایسوسی ایشن کی طرف سے گزشتہ شام دی گئی) تقریر کرتے ہوئے فرمایاکہ ’’میرے لیے وہ گروہ بالکل ناقابل فہم ہے جو خواہ مخواہ شرارت پیدا کرنا چاہتا ہے اور یہ پروپیگنڈا کررہا ہے کہ پاکستان کا دستور شریعت کی بنا پر نہیں بنے گا‘‘۔(پاکستان ٹائمز۔27 جنوری 1948ئ) ’’راولپنڈی 5 اپریل۔ مسٹر لیاقت علی خاں وزیراعظم پاکستان نے آج راولپنڈی میں اعلان کیا کہ پاکستان کا آئندہ دستور قرآن مجید کے احکام پر مبنی ہوگا۔ انہوں نے فرمایاکہ قائداعظم اور ان کے رفقاء کی یہ دیرینہ خواہش رہی ہے کہ پاکستان کا نشوونما ایک ایسی مضبوط اور مثالی اسلامی ریاست کی حیثیت سے ہو جو اپنے باشندوں کو عدل وانصاف کی ضمانت دے سکے۔‘‘ (پاکستان ٹائمز‘17 اپریل 1948ئ) ان صاف اور صریح بیانات کی موجودگی میں قائداعظم کی 11 اگست والی تقریرکا ایک ایسا مفہوم نکالنا جو ان کے تمام اگلے پچھلے ارشادات کے خلاف ہو‘ مرحوم کی یاد کے ساتھ انصاف نہیں ہے۔ کیا قائداعظم کی تقریر دستوریہ کو پابند کرسکتی ہے؟ (د) علاوہ بریں‘ اگر قائداعظم کی اس تقریرکو اس کے ٹھیٹھ لفظی مفہوم میں بھی لے لیا جائے تو ہمیں جذبات سے قطع نظر کرتے ہوئے یہ غورکرنا چاہیے کہ ان کے ملفوظات کی آئینی حیثیت کیا ہے۔ انہوں نے یہ تقریر خواہ صدر مجلس دستور سازکی حیثیت سے کی ہو یا گورنر جنرل کی حیثیت سے‘ بہرحال کسی حیثیت میں بھی وہ مجلس دستور ساز‘ ایک شاہانہ اختیارات رکھنے والے ادارے (Sovereign Body ) کو اس امرکا پابند نہیں کرسکتے تھے کہ وہ دستور انہی خطوط پر بنائے جو وہ کھینچ دیں۔ رہی قوم‘ تو اس نے مرحوم کو اس لیے اپنا لیڈر مانا تھا کہ وہ اس کے قومی عزائم اور مقاصد پورے کرنے میں اس کی رہنمائی کریں‘ نہ اس لیے کہ کامیابی کے پہلے ہی روز وہ اس نصب العین کی رسمِ تجہیز و تکفین ادا کردیں جس کے لیے لاکھوں مسلمانوں نے اپنی جانیں اور عزتیں اورجائدادیں قربان کی تھیں۔ یہ بات سمجھنے کے لیے کسی بڑے غور و فکر کی ضرورت نہیں ہے کہ جو بات اگست 1947ء میں کہی گئی تھی وہ اگر کہیں مارچ 1940ء میں کہہ دی جاتی تو پاکستان کا نعرہ دس کروڑ تو کیا دس ہزار مسلمانوں کو بھی جمع نہیں کرسکتا۔‘‘
Last edited: