aadil jahangeer
Minister (2k+ posts)
فیاض الحسن چوہان کا معاملہ میڈیا پر آتے ہی سوشل میڈیا پر تحریک انصاف کے کارکن کئی گروپوں میں تقسیم ہوگے۔
کارکنوں کی ایک قسم وہ تھی جو آئو نہ دیکھا تائو پارٹی قیادت پر چڑھ دوڑے اور فیاض کی حمایت میں بے دریغ پوسٹنگ شروع کردی بعض نے تو اپنی ڈی پی تک تبدیل کرلی اور چوہان کا فوٹو لگادیا۔
دوسری قسم کارکنوں کی وہ تھی جنہوں نے پارٹی فیصلے کا خیر مقدم کیا اور اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کی کہ چوہان کون ہے کیا ہے اور اس کی پارٹی کیلئے کیا خدمات ہیں ۔
ان دونوں گروہوں کی آپسی کشمکش میں نسبتا وہ طبقہ جو معاملات کو زیادہ گہرائی سے دیکھنے کا قائل نہیں اور جن کا شمار تحریک انصاف کے کارکنوں کی بجائے ہمدردوں میں کیا جاتا ہے ، کنفیوژن محسسوس کرنے لگا۔۔۔
مگر ان سب کے علی الرغم ان قوتوں کی چاندی ہوگئی جو ایسے مواقع کو کیش نہ کرنا گناہ عظیم سمجھتے ہیں ۔۔۔میرا مطللب مریم نواز کی سوشل میڈیا ٹیم سے ہے ۔۔۔تندور گرم دیکھ کر انہوں نے دھڑا دھڑ روٹٰیاں لگانے کا کام شروع کردیا ۔
ایسے میں بہت ضروری تھا کہ پارٹی کے اندرونی معاملات کو منظر عام پر لائے بغیر اس موضوع کو واضح کیا جاتا مگر کچھ خاص باتیں زکر کیے بغیر یہ ممکن نا تھا اس لئے تفصیل سے لکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔
چویان صاحب تحریک انصاف جوائن کرنے سے پہلے جماعت اسلامی کے رکن تھے انہیں
2010 پی ٹی آئی میں ضلع پنڈی کے دو سئینر عہدیدار جمعیت سے تحریک انصاف میں لیکر آئے۔
چوہان صاحب کی خصوصیات میں ان کا بہترین مقررہونا ، دلیل سے بات کرنا ، محنتی ہونا شامل ہے جو کسی سیاسی کارکن کی بنیادی خصوصیات ہواکرتی ہیں ، اور اسی قابلیت کی بنا پر وہ بہت جلدضلع پنڈی کے صدر بن گئے۔۔ ان کی طبعیت میں حد درجہ جذباتی پن ان کیلئے کئی بار مشکلات پیدا کرچکا ہے اور وہ کئی بار اپنے عہدے سے معطل کیئے جاچکے ہیں ۔
جب انہیں پنڈی کے صدر صداقت عباسی کو ہٹا کر صدر بنایا گیا ، تو بعض معاملات کی وجہ سے انہیں معطل کرنا پڑا اور دوبارہ صداقت عباسی کو پنڈی کا صدر بنادیاگیا۔ یہ کیس جب عمران خان کے سامنے آیا تو ان سب کو میٹنگ میں طلب کرلیاعمران خان کے سامنے چوہان صاحب نے صداقت عباسی سے گالم گلوچ کی انہیں تپھڑ مارا جس سے ان کا چہرہ زخمی ہوگیا اور پھر غصہ میں پارٹی سے لاتعلق ہوگئےاورغیر اعلانیہ سیاست چھوڑ دی۔ داڑھی بڑھا لی۔ تصوف کی طرف مائل ہوئے اور ممتاز قادری کی رہائی کی تحریک شروع کردی۔
سیاست کا شوق انہیں پھر اس کوچہ کی راہ نوردی کی طر ف دعوت دے رہا تھا اور اس بار ان کا انتخاب تھا ایم کیو ایم ۔۔ایم کیو ایم میں جانے ہی والے تھے۔ ان کے ایم کیو ایم سے تمام معاملات بھی طے پا چکے تھے جس میں یہ ایم کیو ایم پنجاب کے انچارج بن رہے تھے اور الیکشن کیلے ایک کروڑ روپے بھی ملنے والا تھا۔ یہ بات جب پارٹی لیڈر شپ تک گئی تو وہ ان کو سمجھانے آئے۔ اور یہ دوبارہ
پارٹی میں فعال ہوئے۔
pp14
سےجنرل الیکشن میں خود پارٹی کے ٹکٹ پر لڑنا چاہتے تھے مگر ٹکٹ چودھری اصغر کو دے دیا گیا اور یہ ایک بار پھر ناراض ہوگئے اور انہوں نےپی پی ۱۴ اور این اے ۵۶ میں کمپین کرنے سے انکار کردیا۔ الیکشن کمپین کرنے کیلے انہیں منانے سیف اللہ نیازی اور عامر کیانی ان کے گھر آئے اور انہیں راضی کرنے میں کامیاب ہوگئے اور انہوں نے دونوں کی موجودگی میں چودھری اصغر سے الیکشن کمپین کیلئے 10 لاکھ روپے بھی لئے۔ اور انتخابی مہم چلانا شروع کردی۔
کارکنوں کی ایک قسم وہ تھی جو آئو نہ دیکھا تائو پارٹی قیادت پر چڑھ دوڑے اور فیاض کی حمایت میں بے دریغ پوسٹنگ شروع کردی بعض نے تو اپنی ڈی پی تک تبدیل کرلی اور چوہان کا فوٹو لگادیا۔
دوسری قسم کارکنوں کی وہ تھی جنہوں نے پارٹی فیصلے کا خیر مقدم کیا اور اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کی کہ چوہان کون ہے کیا ہے اور اس کی پارٹی کیلئے کیا خدمات ہیں ۔
ان دونوں گروہوں کی آپسی کشمکش میں نسبتا وہ طبقہ جو معاملات کو زیادہ گہرائی سے دیکھنے کا قائل نہیں اور جن کا شمار تحریک انصاف کے کارکنوں کی بجائے ہمدردوں میں کیا جاتا ہے ، کنفیوژن محسسوس کرنے لگا۔۔۔
مگر ان سب کے علی الرغم ان قوتوں کی چاندی ہوگئی جو ایسے مواقع کو کیش نہ کرنا گناہ عظیم سمجھتے ہیں ۔۔۔میرا مطللب مریم نواز کی سوشل میڈیا ٹیم سے ہے ۔۔۔تندور گرم دیکھ کر انہوں نے دھڑا دھڑ روٹٰیاں لگانے کا کام شروع کردیا ۔
ایسے میں بہت ضروری تھا کہ پارٹی کے اندرونی معاملات کو منظر عام پر لائے بغیر اس موضوع کو واضح کیا جاتا مگر کچھ خاص باتیں زکر کیے بغیر یہ ممکن نا تھا اس لئے تفصیل سے لکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔
چویان صاحب تحریک انصاف جوائن کرنے سے پہلے جماعت اسلامی کے رکن تھے انہیں
2010 پی ٹی آئی میں ضلع پنڈی کے دو سئینر عہدیدار جمعیت سے تحریک انصاف میں لیکر آئے۔
چوہان صاحب کی خصوصیات میں ان کا بہترین مقررہونا ، دلیل سے بات کرنا ، محنتی ہونا شامل ہے جو کسی سیاسی کارکن کی بنیادی خصوصیات ہواکرتی ہیں ، اور اسی قابلیت کی بنا پر وہ بہت جلدضلع پنڈی کے صدر بن گئے۔۔ ان کی طبعیت میں حد درجہ جذباتی پن ان کیلئے کئی بار مشکلات پیدا کرچکا ہے اور وہ کئی بار اپنے عہدے سے معطل کیئے جاچکے ہیں ۔
جب انہیں پنڈی کے صدر صداقت عباسی کو ہٹا کر صدر بنایا گیا ، تو بعض معاملات کی وجہ سے انہیں معطل کرنا پڑا اور دوبارہ صداقت عباسی کو پنڈی کا صدر بنادیاگیا۔ یہ کیس جب عمران خان کے سامنے آیا تو ان سب کو میٹنگ میں طلب کرلیاعمران خان کے سامنے چوہان صاحب نے صداقت عباسی سے گالم گلوچ کی انہیں تپھڑ مارا جس سے ان کا چہرہ زخمی ہوگیا اور پھر غصہ میں پارٹی سے لاتعلق ہوگئےاورغیر اعلانیہ سیاست چھوڑ دی۔ داڑھی بڑھا لی۔ تصوف کی طرف مائل ہوئے اور ممتاز قادری کی رہائی کی تحریک شروع کردی۔
سیاست کا شوق انہیں پھر اس کوچہ کی راہ نوردی کی طر ف دعوت دے رہا تھا اور اس بار ان کا انتخاب تھا ایم کیو ایم ۔۔ایم کیو ایم میں جانے ہی والے تھے۔ ان کے ایم کیو ایم سے تمام معاملات بھی طے پا چکے تھے جس میں یہ ایم کیو ایم پنجاب کے انچارج بن رہے تھے اور الیکشن کیلے ایک کروڑ روپے بھی ملنے والا تھا۔ یہ بات جب پارٹی لیڈر شپ تک گئی تو وہ ان کو سمجھانے آئے۔ اور یہ دوبارہ
پارٹی میں فعال ہوئے۔
pp14
سےجنرل الیکشن میں خود پارٹی کے ٹکٹ پر لڑنا چاہتے تھے مگر ٹکٹ چودھری اصغر کو دے دیا گیا اور یہ ایک بار پھر ناراض ہوگئے اور انہوں نےپی پی ۱۴ اور این اے ۵۶ میں کمپین کرنے سے انکار کردیا۔ الیکشن کمپین کرنے کیلے انہیں منانے سیف اللہ نیازی اور عامر کیانی ان کے گھر آئے اور انہیں راضی کرنے میں کامیاب ہوگئے اور انہوں نے دونوں کی موجودگی میں چودھری اصغر سے الیکشن کمپین کیلئے 10 لاکھ روپے بھی لئے۔ اور انتخابی مہم چلانا شروع کردی۔
بہترین مقرر اور دلیل سے بات کرنے کی بنا پر یہ زیادہ تر پارٹی کی طرف سے میڈیا شوز میں شامل ہوتے ہیں۔ چوہان صاحب میڈیا پر پارٹی کا موقف بیان کرنے کیلے پارٹی سے باقاعدہ وظیفہ اور مشاہرہ لیتے ہیں۔ اور یہ کوئی قابل اعتراض بات بھی نہیں کیونکہ انہیں میڈیا پر جانے کیلئے خود کو فارغ رکھنا پڑتا ہے اور پارٹی بھی انہیں فکر معاش سے آزاد دیکھنا چاہتی ہے ۔
ابھی تازہ معاملہ میں بلدیاتی الیکشن میں پارٹی ٹکٹ میں بدعنوانی کی آوازیں سنائی دی گئی ہیں۔ جس میں چوہان صاحب پر پیسے لینے کا الزام ہے اور وہ اپنی صفائی میں قرآن ہر حلف بھی دے چکے ہیں۔ اور یقیناً اس بار معاملہ پیسے کا نہیں ہے۔ چوہان صاحب نے اپنی صوابدید پر جن تین بندوں کو پارٹی ٹکٹ دیئے ہیں ان میں سے دو ان کے قریبی دوست ہیں اور وہ دونوں ن لیگ کے خاص بندے ہیں۔
اس بار فیاض الحسن چوہان پر ن لیگ کے بندوں کو بغیر مشاورت پارٹی ٹکٹ دینے کا الزام ہے۔ اور پرانے معاملات کو دیکھتے ہوئے ایک تفصیلی انکوائری کا آغاز کردیا گیا تھا مگر اس پہلے ہی چوہان صاحب کمیٹی کی بجائے میڈیا کے سامنے سارا معاملہ لے آئے۔ جس پر ان کی بنیادی رکنیت بھی معطل کردی گئی ہے۔ اور انکوائری کمیٹی نے کام شروع کردیا ہے جو شروع سے آخر تک تمام معاملات کی جانچ پڑتال کرے گی جس میں کافی وقت لگ سکتا ہے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ دسمبر یا جنوری میں تمام پارٹی سیٹ آپ ختم کرکے نئے انٹرا پارٹی الیکشن بھی کروانے کا فیصلہ متوقع ہے۔
سب سے اہم بات کہ اس سارے معاملے کو عمران خان صاحب بڑی توجہ سے دیکھ رہے ہیں۔ اس لئے سوشل میڈیا کے انصافی شاہینوں سے درخواست ہے کہ تھوڑا صبر کریں۔ جزباتی اعلان یا بیان کی بجائے پارٹی کے فیصلے کا انتظار کریں۔ فیص الحسن چوہان کی پارٹی کیلے بہت خدمات ہیں اوروہ پارٹی کیئے ایک قیمتی اثاثے کی حیثیت رکھتا ہے۔ محنتی ہیں اور متوسط طبقے سے محنت کرکے اوپر آئے ہیں۔پارٹی ان کی خدمات کا اعتراف کرتی ہے مگر اصولوں پر سودے بازے پارٹی کیلئے موت کے مترادف ہے ۔ ہمیں یقین ہے چوہان صاحب کو انصاف ضرور ملے گا اور اگر ان کا دامن صاف ہے جیسا کہ ان کا دعویٰ ہے تو پارٹی ان کی حیثیت عرفی کی بحالی کی کوشش ضرور کرے گی۔پارٹی اس معاملے کو بہت گہرائی میں پرکھ رہی ہے۔ اس لئے اس حساس معاملہ پر آپس میں لڑنے کی بجائے پارٹی فیصلے کا انتظار کیا جائے۔ خود فیصلے کرنے کی بجائے پارٹی پر اعتماد رکھیں اور اس موضوع پر اپنی توانائیاں ضائع نہ کی جائیں۔ پارٹی قیادت کو اصولوں پر چلنے میں رکاوٹ نہ بنا جائے انہیں آزادی کے ساتھ فیصلے کا اختیار دیا جائے ، ایسی کوئی فضا نہ تخلیق کی جائے جس سے پارٹی قیادت خود کو دبائو میں محسوس کرے اور بلیک میلنگ کا تاثر پیدا ہو۔ یاد رکھیں
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں
اور خاص کر شاعر مشرق کا یہ شعر ضرور مستحضر رکھیں
ڈالی گئی جوفضل خزاں میں شجر سے ٹوٹ
ممکن نہیں ہری ہو سحاب بہار سے
اس لئے پارٹی اور قائد تحریک جناب فدائے ملت عمران خان کے ساتھ بھرپور طریقے سے کھڑے رہیں کیونکہ ہمارے لئے زیادہ اہم اسٹیٹس کو کے اس پہاڑ کو کھودنا ہے جو ہمارے اہل وطن کا جینا حرام کئے دے رہا ہے ۔۔۔پارٹی کے اندرونی چھوٹے موٹے معاملات تو چلتے ہی رہتے ہیں۔
Last edited: