
شین ہور نےنیویارک ٹائمز کو بتایا تھا کہ نیوز آف دی ورلڈ میں فون ہیکنگ وسیع پیمانے پر ہو رہی تھی
برطانیہ میں فون ہیکنگ سکینڈل پر سب سے پہلے پردہ اٹھانے والے رپورٹر شین ہور کو مردہ حالت میں پایا گیا ہے۔فون ہیکنگ سکینڈل کے منظر عام پر آنے کے بعد بند کیے جانے والے اخبار نیوز آف دی ورلڈ کےسابق کلچرل رپورٹر شین ہور کو ان کے گھر میں مردہ حالت میں پایاگیا ہے۔شین ہور نے امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کو دیئےگئے انٹرویو میں کہا تھا کہ نیوز آف دی ورلڈ میں فون ہیکنگ انتہائی وسیع پیمانے پر ہو رہی تھی اور یہ لوگوں کی توقعات سے کہیں زیادہ ہے۔ہرٹ فورشائر پولیس نےتصدیق کی ہے کہ وٹفورڈ کےعلاقے لینگلی روڈ پر واقع ایک گھر میں ایک شخص کی لاش ملی۔پولیس کا کہنا ہے کہ وہ اس شخص کی موت کی وجوہات جاننے کی کوشش کر رہی ہے اور وہ ابھی اسے ’مشکوک موت‘ کے طور پر نہیں دیکھ رہی ہے۔اس سے قبل ادھر میٹروپولیٹن پولیس کے اسسٹنٹ کمشنر جان یئیٹس بھی اس سکینڈل کی وجہ سے مستعفی ہوگئے ہیں وہ فون ہیکنگ سکینڈل کی وجہ سے مستعفی ہونے والے دوسرے اعلٰی پولیس افسر ہیں۔اس سے قبل اتوار کو برطانیہ کے سینئر ترین پولیس افسر سر پال سٹیفنسن نے نیوز آف دی ورلڈ کے سابق ایگزیکٹو نِیل والِس کو مشیر مقرر کرنے پر کی جانے والی سخت تنقید کے بعد اپنے عہدے سے استعفٰی دے دیا تھا۔جان یئیٹس نے نیل والس کے میٹروپولیٹن پولیس کے لیے کام کا آغاز کرنے سے قبل ان کے بارے میں چھان بین کا فریضہ سرانجام دیا تھا۔ فون ہیکنگ سکینڈل میں پولیس نے نیل والِس سے پوچھ گچھ بھی کی ہے۔

برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کو فون ہیکنگ سکینڈل کے سلسلے میں تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے
پارلیمان کی موسم گرما کی تعطیلات منگل سے شروع ہونی تھیں تاہم برطانوی وزیرِاعظم ڈیوڈ کیمرون کے مطابق اس اجلاس کے لیے ارکان اسمبلی کو واپس طلب کر لیا گیا ہے۔.لیبر پارٹی نے اجلاس کی مدت میں ایک دن کے اضافے کا مطالبہ کیا تھا تاکہ ارکانِ پارلیمان منگل کو پارلیمانی کمیٹیوں کے سامنے روپرٹ مرڈوک اور سر پال سٹیفنسن کے بیانات پر غور کر سکیں۔اطلاعات کے مطابق بدھ کو اجلاس میں وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون فون ہیکنگ سکینڈل کی تفتیش پر بیان دیں گے لیکن حزب اختلاف کا مطالبہ ہے کہ اس اجلاس میں بحث و سوالات کی بھی اجازت دی جائے۔ہیکنگ سکینڈل کا ذمہ دار ٹھہرائے جانے والے اخبارات کے مالک روپرٹ مرڈوک، ان کے بیٹے جیمز اور نیوز انٹرنیشنل کی سابقہ چیف ایگزیکٹو ربیکا بروکس اس معاملے پر منگل کو پارلیمان کے ایوانِ زیریں کی ثقافتی کمیٹی کے سامنے پیش ہونے والے ہیں۔فون ہیکنگ سکینڈل نے نہ صرف روپرٹ مرڈوک کے اخبارات اور میڈیا کمپنی کے بزنس بلکہ برطانوی سیاستدانوں اور پولیس کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔

میری ساکھ قائم ہے: سر پال سٹیفنسن
برطانوی وزیراعظم نے اس سکینڈل کے نتیجے میں بند ہونے والے اخبار ’نیوز آف دا ورلڈ‘ کے سابق ایڈیٹر اینڈی کولسن کو پچھلے سال نوکری دی تھی حالانکہ وہ ہیکنگ کے سلسلے میں زیرِ تفتیش ہیں۔پولیس پر الزام ہے کہ انہوں نے نہ صرف اخبارات کی غیر قانونی کارروائیوں میں تعاون کیا بلکہ کئی اہلکاروں نے مرڈوک کی کمپنی سے پیسے بھی لیے۔پیر کو میٹروپولیٹن پولیس کے سابق سربراہ سر پال سٹیفنسن نے اپنے استعفے کا مقصد بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے صحافی (نیل والس) سے تعلقات، تحقیقات پر اثر انداز ہو سکتے تھے۔انہوں نے کہا ’میں نے یہ فیصلہ قیاس آرائیوں اور الزامات سامنے آنے کے بعد کیا ہے۔ یہاں مجھے صاف الفاظ میں یہ کہنے کی اجازت دیں کہ مجھے اور جو لوگ مجھے جانتے ہیں انہیں معلوم ہے کہ میری ساکھ قائم ہے۔‘اس سے قبل انہوں نے کہا تھا کہ وہ پیر کو ارکانِ پارلیمان کو پولیس اور نیوز انٹرنیشنل کے درمیان قربت پر اپنی تشویش کا اظہار کریں گے۔

ایک سو اڑسٹھ سال سے شائع ہونے والا ’نیوز آف دی ورلڈ‘ بند ہو چکا ہے
برطانیہ میں ٹیلی فون ہیکنگ سکینڈل سامنے آنے کے بعد ایک سو اڑسٹھ سال سے شائع ہونے والا ’نیوز آف دی ورلڈ‘ بند ہو چکا ہے۔اخبار نیوز آف دی ورلڈ پر جرائم کا شکار ہونے والے افراد، مشہور شخصیات اور سیاستدانوں کے فون ہیک کرنے کا الزام ہے۔ پولیس نے اب تک ایسے چار ہزار ناموں کی نشاندہی کی ہے جو ممکنہ طور پر فون ہیکنگ کا نشانہ بنے ہیں۔گزشتہ چند دنوں سے یہ دعوے کیے جارہے ہیں کہ سکول جانے والی مقتول لڑکی ملی ڈاؤلر کے موبائل فون اور چھ سال قبل سات جولائی کو لندن میں ہوئے خودکش بم دھماکوں میں ہلاک ہونے والوں کے اہلِ خانہ کے موبائل فونز کو ہیک
کرنے کے لیے اخبار کی انتظامیہ نے باقاعدہ اجازت دی تھی۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/world/2011/07/110718_whistle_blower_dead_ra.shtml
Last edited by a moderator: