تفرقہ بازی کا حتمی نتیجہ لا دینیت ھے جو یقیناٌ ھم سب کیلئے قطعی غیر مطلوبہ اور ناپسندیدہ نتیجہ ھے۔
ایک ان پڑھ ، جذباتی، بیوقوف اور غیر ضروری طور پر عقیدت مند ملا کے عمل کی بدولت کبھی خیر نہیں پھیلتا خصوصاٌ اس وقت جب فرقہ پرستی کو فروغ دینے والا بھی ایسا ہی ایک ان پڑھ ، جذباتی، بیوقوف اور غیر ضروری طور عقیدت مند ملا ھو۔
کسی بھی لڑایئ میں مارا جانیوالا ایک انسان کسی ایک زندہ انسان کا دماغ بھی مار کے اپنے ساتھ ہی لے جاتا ھے۔ مذھب کے نام پر لڑی جانیوالی لڑائیاں نجانے کس اسلام کی انا کی تسکین کا باعث بنتی ھیں لیکن یہ بات بہرحال طے ھے کہ ایسی لڑائیوں سے ایک حساس ، مہذب اور زندگی سے پیار کرنے والا انسان ضرور یہ سوال پوچھتا ھے کہ یار کیا فائدہ ایسے مذھب کا جس میں انسان کسی دوسرے ھم مذھب انسان کی جان محض اس لیے سلب کر لے کہ وہ اس سے اختلاف کی جرا ٔت کر بیٹھا تھا۔ کیسا مذھب ھے یہ جو ایسے بےصبرے ، گنوار، لڑنے مرنے والے، انسانیت کے دشمن ، بے رحم فرعون پالتا ھے جو اپنے ھم مذھب ، ھم ملک، ھم نسل لوگوں کو محض اس لیے مار دیتے ھیں کہ وہ ان کے حصے کے خدا اور رسولpbuh کا انکار کرتے ھیں اور صرف اپنے حصے کے خدا اور رسولpbuh کو ھی بر حق سمجھتے ھیں؟؟؟
آج کل کے سیکولر اور لبرلز جس دلیل کو استعمال کرتے ھوئے سب سے زیادہ واویلا مچاتے ھیں وہ یہی مذھب کی جنونیت اور بد حواسی ھے جس کی وجہ سے انسانی خون پانی کی طرح بے وقعت و بے توقیر ھو کر سڑکوں اور گلیوں میں بہتا نظر آ رھا ھے۔ جب ایک مذھبی تفرقہ بازی سے پھوٹنے والی لڑائی میں ایک انسان مرتا ھے تو وہ اپنے ساتھ ایک زندہ انسان کے دماغ کو بھی مار کے لے جاتا ھے اور اس کا نقصان باقی رہ جانیوالے معصوم لوگوں کو بھگتنا پڑتا ھے۔
ھم اپنی نئی بالغ ھونے والی نسل کو جو ٹیکنالوجی و انفارمیشن کے سیلاب میں آنکھیں کھول رہی ھے مذھب کی جو ٌمثالی تصویرٌ دکھا رھے ھیںوہ بلاشبہ انتہائی بے ڈھنگی اور بھدی ھے۔ نتیجتاٌ من حیث المجموع نئی نسل میں موجود وہ جبلی جمالیاتی حس (جو ھم بڑوں میں تقریباٌ مفقود ھو چکی ھے) جو امن اور سکون کی متلاشی ھے بری طرح پامال ھو رھی ھے اور ایک خوف جو مسلسل بےسکون کیے رکھتا ھے کہ یہ نئی نسل آگے چل کر مذھب کو ایک آسیب سمجھتے ھوئے ترک نہ کر دے۔ رہی سہی کسر میڈیا پروپیگنڈہ پوری کر رہا ھے۔ فلموں ڈراموں سے لے کر نیوز چینلز کے تبصروں، تجزیوں اور خبروں تک ھر قسم کا میڈیم اس کوشش نامراد میں لگا ھوا ھے کہ فرقہ بازی کو اس قدر ھوا دی جائے کہ مذھب بالآخر ایک راندۂ درگاہ اور ٹھکرائی ھوئی لا یعنی و بے مصرف سی چیز بن کے رہ جائے۔۔
اس سلسلے میں امریکہ و یورپ کی مثال سامنے ھے جہاں مذھب کی اسی تفرقہ بازی اور بھانت بھانت کی بولیاں بولتے مذھب کے نام نہاد علمبرداروں نے مل کر وہاں کے لوگوں کو مذھب سے بےپناہ متنفر کر دیا۔ عوام علم و ہنر میں کمال حاصل کر رہی تھی انسانی ذھن رفعتوں کی نئی معراج کو چھو رھے تھے اور پادری تب بھی ٌ تو کافر، تو کافرٌ کا تلخ اور انسان شکن نعرہ لگانے میں مگن تھا۔ تب لوگوں نے تنگ آ کر اور مذھب کے جاھل مطلق ٹھیکیداروں سے جان چھڑانے کیلیے اجتماعی طور پر ٌکافرٌ ھونے کا فیصلہ کر لیا اور بالآخر مذھب و خدا کو یکسر مسترد کر دیا۔
آج بیچارگی کا جو عالم مذھب یورپ و امریکا میں محسوس کر رھا ھے ابھی شاید یہاں ایسی نوبت نہیں آئی لیکن موجودہ حالات کو دیکھتے ھوئے بعید نہیں کہ محض دس پندرہ سالوں بعد ھم اس کے واضح اثرات محسوس کرنے لگیں اور ھمیں بھی خدا اور اس کے رسول pbuh کے بارے میں بات کرنے سے پہلے ایکدوسرے سے یہ پوچھنا پڑے
do you believe in god?????
ایک ان پڑھ ، جذباتی، بیوقوف اور غیر ضروری طور پر عقیدت مند ملا کے عمل کی بدولت کبھی خیر نہیں پھیلتا خصوصاٌ اس وقت جب فرقہ پرستی کو فروغ دینے والا بھی ایسا ہی ایک ان پڑھ ، جذباتی، بیوقوف اور غیر ضروری طور عقیدت مند ملا ھو۔
کسی بھی لڑایئ میں مارا جانیوالا ایک انسان کسی ایک زندہ انسان کا دماغ بھی مار کے اپنے ساتھ ہی لے جاتا ھے۔ مذھب کے نام پر لڑی جانیوالی لڑائیاں نجانے کس اسلام کی انا کی تسکین کا باعث بنتی ھیں لیکن یہ بات بہرحال طے ھے کہ ایسی لڑائیوں سے ایک حساس ، مہذب اور زندگی سے پیار کرنے والا انسان ضرور یہ سوال پوچھتا ھے کہ یار کیا فائدہ ایسے مذھب کا جس میں انسان کسی دوسرے ھم مذھب انسان کی جان محض اس لیے سلب کر لے کہ وہ اس سے اختلاف کی جرا ٔت کر بیٹھا تھا۔ کیسا مذھب ھے یہ جو ایسے بےصبرے ، گنوار، لڑنے مرنے والے، انسانیت کے دشمن ، بے رحم فرعون پالتا ھے جو اپنے ھم مذھب ، ھم ملک، ھم نسل لوگوں کو محض اس لیے مار دیتے ھیں کہ وہ ان کے حصے کے خدا اور رسولpbuh کا انکار کرتے ھیں اور صرف اپنے حصے کے خدا اور رسولpbuh کو ھی بر حق سمجھتے ھیں؟؟؟
آج کل کے سیکولر اور لبرلز جس دلیل کو استعمال کرتے ھوئے سب سے زیادہ واویلا مچاتے ھیں وہ یہی مذھب کی جنونیت اور بد حواسی ھے جس کی وجہ سے انسانی خون پانی کی طرح بے وقعت و بے توقیر ھو کر سڑکوں اور گلیوں میں بہتا نظر آ رھا ھے۔ جب ایک مذھبی تفرقہ بازی سے پھوٹنے والی لڑائی میں ایک انسان مرتا ھے تو وہ اپنے ساتھ ایک زندہ انسان کے دماغ کو بھی مار کے لے جاتا ھے اور اس کا نقصان باقی رہ جانیوالے معصوم لوگوں کو بھگتنا پڑتا ھے۔
ھم اپنی نئی بالغ ھونے والی نسل کو جو ٹیکنالوجی و انفارمیشن کے سیلاب میں آنکھیں کھول رہی ھے مذھب کی جو ٌمثالی تصویرٌ دکھا رھے ھیںوہ بلاشبہ انتہائی بے ڈھنگی اور بھدی ھے۔ نتیجتاٌ من حیث المجموع نئی نسل میں موجود وہ جبلی جمالیاتی حس (جو ھم بڑوں میں تقریباٌ مفقود ھو چکی ھے) جو امن اور سکون کی متلاشی ھے بری طرح پامال ھو رھی ھے اور ایک خوف جو مسلسل بےسکون کیے رکھتا ھے کہ یہ نئی نسل آگے چل کر مذھب کو ایک آسیب سمجھتے ھوئے ترک نہ کر دے۔ رہی سہی کسر میڈیا پروپیگنڈہ پوری کر رہا ھے۔ فلموں ڈراموں سے لے کر نیوز چینلز کے تبصروں، تجزیوں اور خبروں تک ھر قسم کا میڈیم اس کوشش نامراد میں لگا ھوا ھے کہ فرقہ بازی کو اس قدر ھوا دی جائے کہ مذھب بالآخر ایک راندۂ درگاہ اور ٹھکرائی ھوئی لا یعنی و بے مصرف سی چیز بن کے رہ جائے۔۔
اس سلسلے میں امریکہ و یورپ کی مثال سامنے ھے جہاں مذھب کی اسی تفرقہ بازی اور بھانت بھانت کی بولیاں بولتے مذھب کے نام نہاد علمبرداروں نے مل کر وہاں کے لوگوں کو مذھب سے بےپناہ متنفر کر دیا۔ عوام علم و ہنر میں کمال حاصل کر رہی تھی انسانی ذھن رفعتوں کی نئی معراج کو چھو رھے تھے اور پادری تب بھی ٌ تو کافر، تو کافرٌ کا تلخ اور انسان شکن نعرہ لگانے میں مگن تھا۔ تب لوگوں نے تنگ آ کر اور مذھب کے جاھل مطلق ٹھیکیداروں سے جان چھڑانے کیلیے اجتماعی طور پر ٌکافرٌ ھونے کا فیصلہ کر لیا اور بالآخر مذھب و خدا کو یکسر مسترد کر دیا۔
آج بیچارگی کا جو عالم مذھب یورپ و امریکا میں محسوس کر رھا ھے ابھی شاید یہاں ایسی نوبت نہیں آئی لیکن موجودہ حالات کو دیکھتے ھوئے بعید نہیں کہ محض دس پندرہ سالوں بعد ھم اس کے واضح اثرات محسوس کرنے لگیں اور ھمیں بھی خدا اور اس کے رسول pbuh کے بارے میں بات کرنے سے پہلے ایکدوسرے سے یہ پوچھنا پڑے
do you believe in god?????