غریب و سادہ، رنگین ہے داستان حرم


غریب و سادہ، رنگین ہے داستان حرم

2697715869_295de3f4a2.jpg



[FONT=&amp]تحریر: مسز جمشید خاکوانی
[/FONT]

[FONT=&amp]میرے اباجی مرحوم خدا انہیں جنت نصیب کرے (آمین) بہت لبرل ذہن کے مالک تھے سخی اور نرم دل میں اکثر اپنے پر تجسس ذہن کے ہاتھوں مجبور ہو کر ان سے سوال کیا کرتی میرے ایسے ہی کسی سوال کے جواب میں انہوں نے فرمایا پیاری بیٹی اللہ کی مشیت کے آگے کسی کی نہیں چلتی انسان صرف اتنا ہی سمجھ سکتا ہے جتنا اس کے سامنے ہوتا ہے اللہ کے کام اللہ ہی جانے اب یہی سوچو امام حسینکے کنبہ کی خواتین جن کو کبھی کسی نے ننگے سر نہیں دیکھا تھا انہیں ننگے سر ننگے پائوں بازاروں میں پھرایا گیا۔
[/FONT]

[FONT=&amp]سر دربار یزیدوں کے سامنے پیش کیا گیا امام کا سر نیزے پر چڑھایا گیا اگر خدا چاہتا تو ان کے ساتھ ایسا کیسے ہو سکتا تھا لیکن اللہ کو انکی آزمائش مقصود تھی حالانکہ حضرت امام حسین ایک نگاہ اٹھاتے تو نہ جانے کیا ہو جاتا اگر آپ چاہتے آپ کا کنبہ بچ جاتا یزیدی لشکر تباہ ہو جاتا ،کوفہ و بصرہ میں آپ کا اقتدار ہوتا لیکن یہ سب مقام رضا کے منافی تھا وہ اس آزمائش میں پورا اترنا چاہتے تھے جو آزمائش ازل سے ان کے لیئے لکھ دی گئی تھی کہ وہ اپنے بچپن میں ہی کربلا کا نقشہ بنا کر دیکھا کرتے تھے۔
[/FONT]


Muhammad PBUH
[FONT=&amp]ایک بار حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں نواسوں کو اٹھایا ہوا تھا آپ نے فرمایا مجھے اپنے یہ دونوں نواسے بہت محبوب ہیں پھر آپ آبدیدہ ہو گئے اور فرمایا میرا یہ نواسہ (امام حسن) زہر دے کر شہید کیا جائے گا اور یہ نواسہ (امام حسین)میدان کربلا میں شہادت سے سرفراز ہوگا ۔کیا اس کے بعد بھی کوئی ابہام رہ جاتا ہے ایسا سوال کرنے والوں کے لیے؟کہ انہوں نے وہی کیا جس کا حکم خدا کی طرف سے تھا ۔روایت کے مطابق جب سیدنا حسینابن علی اپنے جان نثاروں کے ساتھ میدان کربلا کی جانب روانہ ہوئے تو آپنے تمام باتوں کے جواب میں ایک بات فرمائی میں نے اپنے نانا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا ہے آپ نے تاکید کے ساتھ مجھے ایک کام کا حکم دیا ہے۔[/FONT]
[FONT=&amp]بحر حال میں یہ کام کروں گا چاہے مجھے نقصان ہو یا فائدہ پوچھنے والے نے پوچھا خواب کیا ہے ؟فرمایا ابھی تک کسی کو نہیں بتایا نہ بتائوں گا یہاں تک کہ اپنے پروردگار عزوجل سے جا ملوں گا ۔شہیدان حق کی دنیا میں امام حسین ابن علی کا مقام بہت ہی بلند ہے۔
[/FONT]


Allama Iqbal
[FONT=&amp]کسی نے حق کی خاطر زہر کا پیالہ پی لیا ،تو کوئی قید و بند کی سختیاں زندگی بھر جھیلتا رہا ،کوئی تنہا پھانسی پر لٹک گیا مگر حسین کا معاملہ ان سب سے مختلف ہے آپنے اپنے گھرانے کا ایک ایک فرد اپنی آنکھوں کے سامنے کٹوایا ،اپنے جگر گوشوں کو خاک و خون میں تڑپتے ہوئے دیکھا ،پیاسے اور بلکتے ہوئے بچوں کی صدائیں ان کی سمع سے ٹکرائیں مگر وہ صبر و ضبط کا پیکر ،استقلال کا ہمالیہ،جرات و استقامت کا کوہ گراں ،حق و صداقت کا علمبردار باطل کے آگے گردن جھکانے کو تیار نہ ہوا اس نے حق کے لیے جینے حق کے لیے مرنے کی تاریخ رقم کی۔[/FONT]
[FONT=&amp]شاعر علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے
،غریب و سادہ و رنگین ہے داستان حرم
[/FONT]

[FONT=&amp]نہایت اس کی حسین،ابتدا ہے اسماعیل
حضرت امام حسین فرمایا کرتے تھے بدترین خصلت بادشاہوں کی یہ ہے کہ دشمنوں کے سامنے بزدلی،ضعیفوں کے ساتھ سختی،یا عطا اور بخشش کے معاملے میں بخل سے کام لیں ۔آپ نے فرمایا جب کوئی سوال کرنے کے لیے ہاتھ پھیلاتا ہے تو اس کی آبرو باقی نہیں رہتی اس لیے اس کے سوال کو رد نہیں کرنا چاہیئے اور اس کا اکرام کیا جائے۔
[/FONT]

[FONT=&amp]امام عالی مقام کے ہر فرمان میں ایک پیغام ہے کہ سمجھنے والے اس کو سمجھا کریں کیا حسین کی قربانی کو ہم بھلا سکتے ہیں ؟ کچھ نا سمجھ سوال کرتے ہیں امام حسین کو کیا ضرورت تھی اپنے اہل و عیال کو لے کر چل پڑے جب کہ پ کو منع کیا گیا تھا وہ بھول جاتے ہیں کہ حسین نے اپنی اور اپنے ساتھیوں کی قربانی دے کر تا ابد باطل قوتوں کے لیے مثال قائم کی کہ حق کے لیے سب کچھ قربان کیا جا سکتا ہے۔[/FONT]
[FONT=&amp]نواسہ رسول نے اپنے ساتھیوں کی قربانی دینے تک اور شہید ہونے تک سینکڑوں یزیدیوں کو جہنم واصل کیا آپ پر اس وقت تک کوئی قابو نہ پاسکا کہ آپ تیروں اور نیزوں سے چھلنی ہوکر گھوڑے سے گر پڑے یزیدی اسی انتظار میں تھے اما عالی مقام اپنے عظیم مقصد میں کامیابی کے بعد اللہ کے حضور سجدہ ریز ہوئے ،سجدہ ریز حسین کی گردن پر تلوار چلی اور مشیت نے یہ مژدہ سنایا ،اے نفس مطمعنہ!اپنے رب کی طرف لوٹ اس طرح کہ تُو اس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی۔
[/FONT]


تحریر: مسز جمشید خاکوانی
 
[FONT=&quot]
Karbala.jpg
[/FONT]

[FONT=&quot][FONT=&quot]نواسۂ رسولؐ جگر گوشۂ بتول‘ فرزند مرتضیٰ‘ حسین ابن علیؓ کو صرف مسلمانوں کے لیے محدود کرنا حسینیت پر سراسر ظلم کے مترادف ہے کیونکہ حسینؓ کے سامنے نہ صرف مسلمانوں کی بلکہ پوری انسانیت کی فلاح کا ہدف تھا۔ اسی لیے امام حسینؓ نے اپنے اصحابِ باوفا اور مخدراتِ عصمت وطہارت کی ہمراہی میں جو اصولوں کی جنگ لڑی اس کے اثرات پوری دنیا پر یکساں مرتب ہوئے۔ آپ کے اصول اور آپ کی قربانی جہاں اسلام کی بقا کی ضمانت ہیں وہاں بلاتفریقِ مذہب و ملت اور علاقہ و ملک عدل و انصاف کی فراہمی‘ آزادی کے حصول‘ حقوق کی جنگ‘ فرائض کی ادائیگی‘ جذبۂ ایثار و قربانی‘ عزم وہمت اور جوش وولولہ کے جاویدانی پیغام بھی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ہر طبقۂ فکر اور مذہب و ملت سے تعلق رکھنے والے مشاہیر آپ کی ذات اور کردار سے برملا عقیدت کا اظہار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ مختلف مذاہب کے پیشوا‘ دانشور‘ مفکر اور شعرا نے حسین ابن علیؓ کی بارگاہ میں جس عقیدت کا اظہار کیا ہے ان کی تفصیل ایک مختصر سے مقالے میں سمیٹنا ناممکن ہے۔ تاہم میں یہاں چند غیر مسلم معروف شاعروں‘ دانشوروں اور مفکروں کا اظہار عقیدت مختصراً آپ کی خدمت میں پیش کیے دیتا ہوں۔ ہندو شاعروں میں منشی دیشو پرشاد ماتھر لکھنوی کو اہل بیت اطہار بالخصوص حضرت سید الشہداء امام حسینؓ کی مدح سرائی کی وجہ سے بڑی شہرت حاصل ہے وہ کہتے ہیں:[/FONT]
[FONT=&quot]انسانیت حسینؓ تیرے دم کے ساتھ ہے[/FONT][FONT=&quot]ماتھر بھی اے حسینؓ تیرے غم کے ساتھ ہے[/FONT]
[FONT=&quot]یہی شاعر دوسری جگہ یوں اظہارِ خیال کرتے ہیں:[/FONT]
[FONT=&quot]مسلمانوں کا منشاء عقیدت اور ہی کچھ ہے[/FONT][FONT=&quot]مگر سبطِ نبیؐ سے میری نسبت اور ہی کچھ ہے[/FONT]
[FONT=&quot]ان کا ایک قطعہ عزاداریِ سید الشہداء کو کس طرح ایک فطری عمل قرار دیتا ہے۔[/FONT]
[FONT=&quot]ملاحظہ کیجیے:[/FONT]
[FONT=&quot]یہ آہ نہیں ہے بجلی ہے‘ یہ اشک نہیں موتی ہے[/FONT][FONT=&quot]جو چیز ہے فطرت میں شامل وہ بھی کہیں بدعت ہوتی ہے[/FONT][FONT=&quot]انساں کی اولادت اور قضا دونوں ہی میں غم ہے جلوہ نما[/FONT][FONT=&quot]آتا ہے تو وہ خود روتا ہے‘ جاتا ہے تو دنیا روتی ہے[/FONT]
[FONT=&quot]معروف مصنف تھامس کارلائل اپنی کتاب Heroes and Heroes Worship میں اپنا نقطہ نظریوں بیان کرتا ہے:[/FONT]
[FONT=&quot]کربلا کے المیہ سے ہمیں سب سے بڑا سبق یہ ملتا ہے کہ امام حسینؓ اور آپ کے ساتھیوں کو خدا تعالیٰ پر کامل یقین تھا۔ آپ نے اپنے عمل سے ثابت کر دکھایا کہ حق اور باطل کی کشمکش میں تعداد کی برتری کی کوئی حیثیت نہیں ہوتے ہیں اور بہادری کا جو سبق ہمیں تاریخ کربلا سے ملتا ہے وہ کسی اور تاریخ سے نہیں ملتا۔[/FONT]
[FONT=&quot]ایک اور عیسائی دانشور ڈاکٹر کرسٹوفر اپنی آرزو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں ’’کاش دنیا امام حسینؓ کے پیغام‘ ان کی تعلیمات اور مقصد کو سمجھے اور ان کے نقش قدم پر چل کر اپنی اصلاح کرے‘‘۔[/FONT]
[FONT=&quot]حضرت امام حسینؓ کے حوالے سے عیسائی مبلغ ڈاکٹر ایچ ڈبلیو بی مورنیو نے یوں اظہار خیال کیا ہے ’’امام حسین صداقت کے اصول پر سختی کے ساتھ کاربند رہے اور زندگی کی آخری گھڑی تک مستقل مزاج اور اٹل رہے۔ انہوں نے ذلت پر موت کو ترجیح دی۔ ایسی روحیں کبھی فنا نہیں ہوسکتیں اور امام حسینؓ آج بھی انسانیت کے رہنمائوں میں بلند مقام رکھتے ہیں‘‘۔[/FONT]
[FONT=&quot]جے اے سیمسن کہتے ہیں ’’حسینؓ کی قربانی نے قوموں کی بقاء اور جہاد زندگی کے لیے ایک ایسی مشعل روشن کی جو رہتی دنیا تک روشن رہے گی‘‘۔[/FONT]
[FONT=&quot]جی بی ایڈورڈ کا کہنا ہے:[/FONT]
[FONT=&quot]تاریخ اسلام میں ایک باکمال ہیرو کا نام نظر آتا ہے جس کو حسینؓ کہا جاتا ہے۔ یہ محمدؐ کا نواسہ‘علیؓو فاطمہؓ کا بیٹا‘ لاتعداد صفات و اوصاف کا مالک ہے جس کے عظیم‘ اعلیٰ کردار نے اسلا م کو زندہ کیا اور دین خدا میں نئی روح ڈال دی۔ حق تو یہ ہے کہ اسلام کا یہ بہادر میدانِ کربلا میں شجاعت کے جوہر نہ دکھاتا اور ایک پلید و لعین حکمران کی اطاعت قبول کرلیتا تو آج محمدؐ کے دین کا نقشہ کچھ اور نظر آتا‘ وہ کبھی اس طرح کہ نہ تو قرآن ہوتا اور نہ اسلام ہوتا‘ نہ ایمان‘ نہ رحم و انصاف‘ نہ کرم و وفا بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ انسانیت کا نشان تک دکھائی نہ دیتا۔ ہر جگہ وحشت و بربریت اور درندگی نظر آتی۔[/FONT]
[FONT=&quot]مہاراج یوربندسرنٹور سنگھ کہتے ہیں:[/FONT]
[FONT=&quot]قربانیوں ہی کے ذریعے تہذیبوں کا ارتقا ہوتا ہے۔ حضرت امام حسینؓ کی قربانی نہ صرف مسلمانوں کے لیے بلکہ پوری انسانیت کے لیے ایک قابلِ فخر کارنامے کی حیثیت رکھتی ہے۔ انہوں نے جان دے دی لیکن انسانیت کے رہنما اصولوں پر آنچ نہیں آنے دی۔ دنیا کی تاریخ میں اس کی دوسری مثال نہیں ملتی۔ حضرت امام حسینؓ کی قربانی کے زیر قدم امن اور مسرت دوبارہ بنی نوع انسان کو حاصل ہوسکتی ہیں بشرطیکہ انسان ان کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرے۔[/FONT]
[FONT=&quot]انڈین نیشنل کانگریس کے سابق صدر بابو راجندر پرشاد کا قول ہے:[/FONT]
[FONT=&quot]کربلا کے شہیدوں کی کہانی انسانی تاریخ کی ان سچی کہانیوں میں سے ایک ہے جنہیں کبھی نہیں بھلایا جائے گا‘ نہ ان کی اثر آفرینی میں کوئی کمی آئے گی۔ دنیا میں لاکھوں کروڑوں مرد اور عورتیں اس سے متاثر ہیں اور رہیں گے۔شہیدوں کی زندگیاں وہ مشعلیں ہیں جو صداقت اور حریت کی راہ میں آگے بڑھنے والوں کو راستہ دکھاتی ہیں‘ ان میں استقامت کا حوصلہ پیدا کرتی ہیں۔[/FONT]
[FONT=&quot]سوامی شنکر اچاریہ کہتے ہیں:’’اگر حسینؓ نہ ہوتے تو دنیا سے اسلام ختم ہوجاتا اور دنیا ہمیشہ کے لیے نیک بندوں سے خالی ہوجاتی۔ حسین سے بڑھ کر کوئی شہید نہیں‘‘۔[/FONT]
[FONT=&quot]مشہورافسانہ نگار منشی پریم چند لکھتے ہیں:’’معرکہ کربلا دنیا کی تاریخ میں پہلی آواز ہے اور شاید آخری بھی ہو جو مظلوموں کی حمایت میں بلند ہوئی اور اس کی صدائے بازگشت آج تک فضائے عالم میں گونج رہی ہے‘‘۔[/FONT]
[FONT=&quot]ڈاکٹر سہنا کا کہنا ہے ’’اس میں اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں کہ دنیا کے شہیدوں میں امام حسینؓ کو ایک ممتاز اور بلند حیثیت حاصل ہے‘‘۔[/FONT]
[FONT=&quot]ایک سکھ لیڈر سردار کرتار سنگھ اپنے احساسات یوں بیان کرتے ہیں ’’محمدؐ نے جو انسانیت کے بہترین اصول پیش کیے تھے حسینؓ نے اپنی قربانی اور شہادت سے انہیں زندہ کردیا۔ ان پر ہدایت کی مہر لگادی۔ حسینؓ کا اصول اٹل ہے‘‘۔[/FONT]
[FONT=&quot]مشہور جرمن فلاسفر نطشے بلاامتیاز مذہب و ملت ہر قوم کی نجات کو فلسفۂ حسینیت میں یوں تلاش کرتے ہیں:[/FONT]
[FONT=&quot]زہد و تقویٰ اور شجاعت کے سنگم میں خاکی انسان کے عروج کی انتہا ہے جن کو زوال کبھی نہیں آئے گا۔ اس کسوٹی کے اصول پر امام عالی مقام نے اپنی زندگی کی بامقصد اور عظیم الشان قربانی دے کر ایسی مثال پیش کی جو دنیا کی قوموں کی ہمیشہ رہنمائی کرتی رہے گی۔[/FONT]
[FONT=&quot]اردو ادب کے شہرہ آفاق نقاد اور دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر گوپی چند نارنگ اپنی کتاب ’’سانحۂ کربلا بطور شعری استعارہ‘‘ میں لکھتے ہیں :[/FONT]
[FONT=&quot]راہِ حق پر چلنے والے جانتے ہیں کہ صلوٰۃ عشق کا وضو خون سے ہوتا ہے اور سب سے سچی گواہی خون کی گواہی ہے۔ تاریخ کے حافظے سے بڑے سے بڑے شہنشاہوں کا جاہ و جلال‘ شکوہ و جبروت‘ شوکت و حشمت سب کچھ مٹ جاتا ہے لیکن شہید کے خون کی تابندگی کبھی ماند نہیں پڑتی۔ اسلام کی تاریخ میں کوئی قربانی اتنی عظیم‘ اتنی ارفع اور اتنی مکمل نہیں ہے جتنی حسین ابن علیؓ کی شہادت۔ کربلا کی سرزمین ان کے خون سے لہولہان ہوئی تو درحقیقت وہ خون ریت پر نہیں گرا بلکہ سنتِ رسولؐ اور دین ابراہیمی کی بنیادوں کو ہمیشہ کے لیے سینچ گیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ خون ایک ایسے نور میں تبدیل ہوگیا جسے نہ کوئی تلوار کاٹ سکتی ہے نہ نیزہ چھید سکتا ہے اور نہ زمانہ مٹا سکتا ہے۔ اس نے اسلام کو جس کی حیثیت اس وقت ایک نوخیز پودے کی سی تھی‘ استحکام بخشا اور وقت کی آندھیوں سے ہمیشہ کے لیے محفوظ کردیا۔[/FONT]
[FONT=&quot]یہ تھے امام حسینؓ کے حوالے سے چند غیر مسلم مفکروں اور ادیبوں کے خیالات ایسے ہی دیگر بے شمار غیر مسلم دانشوروں نے واقعہ کربلا میں امام حسینؓ کی حقانیت کو تسلیم کرتے ہوئے اسے انسانی فلاح کا ضامن قرار دیا ہے۔ امام عالی مقام کی ذات ایک ایسی ذات ہے جن کے بارے میں بے شمار غیر مسلم شعرا نے سلام اور مرثیے بھی تخلیق کیے جن میں سے چند ایک نام یہ ہیں:[/FONT]
[FONT=&quot]پنڈٹ ایسری پرشاد‘ پنڈت دہلوی‘ حکیم چھنو مل نافذ دہلوی‘ مہاراجہ بلوان سنگھ راجہ‘ چھنو لال دلگیر‘ دلو رام کوثری‘ رائے سندھ ناتھ فراقی‘ نتھونی لال دھون وحشی‘ کنور سین مضظر‘ بشیشو پرشادمنور لکھنوی‘ نانک چند کھتری نانک‘ روپ کماری کنور‘ لبھو رام جوش ملسیانی‘ گوپی ناتھ امن‘ باوا کرشن گوپال مغموم‘ نرائن داس طالب دہلوی‘ دگمبر پرشاد جین گوہر دہلوی‘ کنور مہندر سنگھ بیدی سحر‘ وشوناتھ پرشاد ماتھر لکھنوی‘ چند بہاری لال ماتھر‘ صبا جے پوری‘ گورو سرن لال‘ ادیب‘ پنڈت رگھو ناتھ سہائے امید‘ امر چند قیس‘ راجندر ناتھ شیدا‘ رام پرکاش ساحر‘ مہرلال سونی ضیا فتح آبادی‘ جاوید و ششت‘ رائے بہادر بابو اتاردین اور درشن سنگھ دُگل وغیرہ۔[/FONT]
[FONT=&quot]یہاں ان میں سے چند ایک شعراء کے کلام سے اقتباس پیش کرتا ہوں:[/FONT]
[FONT=&quot]معروف ہندو شاعر رام پرکاش ساحر کہتے ہیں:[/FONT]
[FONT=&quot]ہے حق و صداقت مرا مسلک ساحر[/FONT][FONT=&quot]ہندو بھی ہوں شبیر کا شیدائی بھی[/FONT]
[FONT=&quot]اسی طرح رائے بہادر بابو اتاردین کی خیالات ملاحظہ کیجیے:[/FONT]
[FONT=&quot]وہ دل ہو خاک نہ ہو جس میں اہل بیت کا غم[/FONT][FONT=&quot]وہ پھوتے آنکھ جو روئی نہ ہو محرم میں[/FONT]
[FONT=&quot]۱۹۱۸ء میں ہندو شاعر دلو رام کوثری نے ایک مرثیہ بعنوان ’’قرآن اور حسینؓ‘‘ کہا تھا‘ اس کے چند اشعار ملاحظہ ہوں:[/FONT]
[FONT=&quot]قرآن اور حسینؓ برابر ہیں شان میں[/FONT][FONT=&quot]دونوں کا رتبہ ایک ہے دونوں جہان میں[/FONT][FONT=&quot]کیا وصف ان کا ہو کہ ہے لکنت زبان میں[/FONT][FONT=&quot]پیہم صدا یہ غیب سے آتی ہے کان میں[/FONT][FONT=&quot]قرآں کلام پاک ہے شبیرؓ نور ہے[/FONT][FONT=&quot]دونوں جہاں میں دونوں کا یکساں ظہور ہے[/FONT]
[FONT=&quot]پنڈت ایسری پرشاد پنڈت دہلوی کہتے ہیں![/FONT]
[FONT=&quot]نکلیں جو غمِ شہ میں وہ آنسو اچھے[/FONT][FONT=&quot]برہم ہوں جو اس غم میں وہ آنسو اچھے[/FONT][FONT=&quot]رکھتے ہیں جو حسینؓ سے کاوش پنڈت[/FONT][FONT=&quot]ایسے تو مسلمانوں سے ہندو اچھے[/FONT]
[FONT=&quot]حکیم چھنومل دہلوی نے امام عالی مقامؓ کے حضور سلامِ عقیدت یوں پیش کیا ہے:[/FONT]
[FONT=&quot]سلامی کیا کوئی بیکار ہے جی سے گزر جانا[/FONT][FONT=&quot]حیاتِ جاوداں ہے شاہ کے ماتم میں مرجانا[/FONT][FONT=&quot]نہ آتا جنہیں راہ حقیقت سے گزر جانا[/FONT][FONT=&quot]حسینؓ ابن علیؓ سے سیکھ لیں وہ لوگ مرجانا[/FONT][FONT=&quot]غم آل نبیؐ ممکن نہیں دل سے اتر جانا[/FONT][FONT=&quot]نہ بھولیں گے کسی کا ہم جواں ہوتے ہی مرجانا[/FONT][FONT=&quot]مٹانے سے کسی کے نام مٹ جائے ابھی کیونکر[/FONT][FONT=&quot]ابھی تو رنگ لائے گا شہ بیکس کا مرجانا[/FONT]
[FONT=&quot]سرکش پرشاد کے قلم سے حسین ابن علیؓ کے حضور سلام کا نذرانہ اس طرح تخلیق ہوا:[/FONT]
[FONT=&quot]حسین ابن علیؓ ہیں فرد یکتا[/FONT][FONT=&quot]کوئی مظلوم ایسا تھا نہ ہوگا[/FONT][FONT=&quot]دیا سر آپ نے راہ خدا میں[/FONT][FONT=&quot]کیا دین نبیؐ کو دین اپنا[/FONT][FONT=&quot]جگر بند علیؓ و فاطمہؓ ہے[/FONT][FONT=&quot]رسول اللہ کا پیارا نواسا[/FONT][FONT=&quot]کیا آل نبیؐ کو قتل صد حیف[/FONT][FONT=&quot]مسلمانو! کیا یہ ظلم کیسا؟[/FONT][FONT=&quot]ولائے سبط پیغمبرؐ ہے نعمت[/FONT][FONT=&quot]یہ نعمت ہو عطا ہر اک کو مولا[/FONT]
[FONT=&quot]ایک اور ہندو شاعر منشی لچھمن داس مرثیہ گوئی میں منفرد مقام رکھتے ہیں ان کا ایک قطعہ ملاحظہ ہو:[/FONT]
[FONT=&quot]کم جس کی خیالیں ہوں‘ وہ تنویر نہیں ہوں[/FONT][FONT=&quot]بدعت سے جو مٹ جائے وہ تصویر نہیں ہوں[/FONT][FONT=&quot]پابند شریعت نہ سہی گو لچھمن[/FONT][FONT=&quot]ہندو ہوں مگر دشمن شبیرؓ نہیں ہوں[/FONT]
[FONT=&quot]ان غیر مسلم مشاہیر اور شعرا کے افکار وتخلیقات سے یہ حقیقت روز ِروشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ حسینؓ ابن علی کا تعلق کسی خاص قوم یا کسی خاص فرقے سے نہیں بلکہ آپ کا تعلق دنیائے انسانیت سے ہے۔ اسی لیے شاعر انقلاب جوش ملیح آبادی فرماتے ہیں:[/FONT]
[FONT=&quot]کیا صرف مسلمان کے پیارے ہیں حسینؓ[/FONT][FONT=&quot]چرخ نوع بشر کے تارے ہیں حسینؓ[/FONT][FONT=&quot]انسان کو بیدار تو ہو لینے دو[/FONT][FONT=&quot]ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسینؓ[/FONT]
[FONT=&quot]جب دنیا کی ہر قوم حسینؓ کی دعویدار بن جائے تو پھر اختلاف کس بات کا۔ لہٰذا علم و دانش اور عقل و آگہی کے اس روشن دور میں تمام عالم انسانیت کو چاہیے کہ وہ نہ صرف ’’ہمارے ہیں حسینؓ‘‘ کے دعوے تک محدود نہ رہے بلکہ فلسفۂ حسین کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرے۔ اس وقت مسلمانانِ عالم جن مصائب و آلام سے دوچار ہیں اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم بظاہر تو حسینی ہونے کا نعرہ لاتے ہیں لیکن حقیقت میں ہم حسینیت کی روح اور مفاہیم سے نابلد ہیں اور مسلمانوں کو حسینیت کے اصول و قواعد پر غور کرکے ان پر عمل کرنے او رایک پلیٹ فارم پر جمع ہونے کی جتنی ضرورت اب ہے کبھی نہ تھی۔[/FONT]
[FONT=&quot]حسینؓ صرف ایک شخصیت کا نام نہیں ہے بلکہ ایک نظریے کا نام ہے‘ ایک اصول اور ایک نظامِ حیات کا نام ہے۔ حسینیت امن و سلامتی اور حق کی علامت ہے۔ حسینیت دینِ فطرت اور انسانیت کی اساس ہے‘ بقول خواجہ معین الدین چشتیؒ:[/FONT]
[FONT=&quot]شاہ است حسینؓ بادشاہ است حسینؓ[/FONT][FONT=&quot]دین است حسینؓ دین پناہ است حسینؓ[/FONT][FONT=&quot]سرداد نہ داد دست در دست یزید[/FONT][FONT=&quot]حقا کہ بنائے لا الہ است حسینؓ[/FONT]
[FONT=&quot]میں اپنی معروضات کا اختتام ایک ممتاز سکھ شاعر کنور مہندر سنگھ بیدی سحر دہلوی کی ایک مسدس کے چند اشعار پر کرنا چاہتا ہوں۔ مہندر سنگھ بیدی کہتے ہیں:[/FONT]
[FONT=&quot]گلشن صدق و صفا کا لالۂ رنگیں حسینؓ[/FONT][FONT=&quot]شمع عالم‘ مشعلِ دنیا‘ چراغ دیں حسینؓ[/FONT][FONT=&quot]سر سے پا تک سرخی افسانۂ خونیں حسینؓ[/FONT][FONT=&quot]جس پہ شاہوں کی خوشی قربان وہ غمگیں حسینؓ[/FONT][FONT=&quot]مطلع نور مہ و پرویں ہے پیشانی تری[/FONT][FONT=&quot]باج لیتی ہے ہر اک مذہب سے قربانی تری[/FONT][FONT=&quot]جادۂ عالم میں ہے رہبر ترا نقش قدم[/FONT][FONT=&quot]سایۂ دامن ہے تیرا پرورش گاہ ارم[/FONT][FONT=&quot]بادۂ ہستی کا ہستی سے تیری ہے کیف و کم[/FONT][FONT=&quot]اٹھ نہیں سکتا تیرے آگے سرِ لوح و قلم[/FONT][FONT=&quot]تو نے بخشی ہے وہ رفعت ایک مشت خاک کو[/FONT][FONT=&quot]جو بایں سرکردگی حاصل نہیں افلاک کو[/FONT][FONT=&quot]بارشِ رحمت کا مژدہ‘ باب حکمت کی کلید[/FONT][FONT=&quot]روز روشن کی بشارت‘ صبح رنگیں کی نوید[/FONT][FONT=&quot]ہر نظامِ کہنہ کو پیغام آئین جدید[/FONT][FONT=&quot]اے کہ ہے تیری شہادت اصل میں مرگ یزید[/FONT][FONT=&quot]تیری مظلومی نے ظالم کو کیا یوں بے نشاں[/FONT][FONT=&quot]ڈھونڈتا پھرتا ہے اس کی ہڈیوں کو آسماں
[/FONT]
[/FONT]

 

khan_sultan

Banned
نواسۂ رسولؐ جگر گوشۂ بتول‘ فرزند مرتضیٰ‘ حسین ابن علیؓ کو صرف مسلمانوں کے لیے محدود کرنا حسینیت پر سراسر ظلم کے مترادف ہے کیونکہ حسینؓ کے سامنے نہ صرف مسلمانوں کی بلکہ پوری انسانیت کی فلاح کا ہدف تھا۔ اسی لیے امام حسینؓ نے اپنے اصحابِ باوفا اور مخدراتِ عصمت وطہارت کی ہمراہی میں جو اصولوں کی جنگ لڑی اس کے اثرات پوری دنیا پر یکساں مرتب ہوئے۔ آپ کے اصول اور آپ کی قربانی جہاں اسلام کی بقا کی ضمانت ہیں وہاں بلاتفریقِ مذہب و ملت اور علاقہ و ملک عدل و انصاف کی فراہمی‘ آزادی کے حصول‘ حقوق کی جنگ‘ فرائض کی ادائیگی‘ جذبۂ ایثار و قربانی‘ عزم وہمت اور جوش وولولہ کے جاویدانی پیغام بھی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ہر طبقۂ فکر اور مذہب و ملت سے تعلق رکھنے والے مشاہیر آپ کی ذات اور کردار سے برملا عقیدت کا اظہار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ مختلف مذاہب کے پیشوا‘ دانشور‘ مفکر اور شعرا نے حسین ابن علیؓ کی بارگاہ میں جس عقیدت کا اظہار کیا ہے ان کی تفصیل ایک مختصر سے مقالے میں سمیٹنا ناممکن ہے۔ تاہم میں یہاں چند غیر مسلم معروف شاعروں‘ دانشوروں اور مفکروں کا اظہار عقیدت مختصراً آپ کی خدمت میں پیش کیے دیتا ہوں۔ ہندو شاعروں میں منشی دیشو پرشاد ماتھر لکھنوی کو اہل بیت اطہار بالخصوص حضرت سید الشہداء امام حسینؓ کی مدح سرائی کی وجہ سے بڑی شہرت حاصل ہے وہ کہتے ہیں:
انسانیت حسینؓ تیرے دم کے ساتھ ہےماتھر بھی اے حسینؓ تیرے غم کے ساتھ ہے
یہی شاعر دوسری جگہ یوں اظہارِ خیال کرتے ہیں:
مسلمانوں کا منشاء عقیدت اور ہی کچھ ہےمگر سبطِ نبیؐ سے میری نسبت اور ہی کچھ ہے
ان کا ایک قطعہ عزاداریِ سید الشہداء کو کس طرح ایک فطری عمل قرار دیتا ہے۔
ملاحظہ کیجیے:
یہ آہ نہیں ہے بجلی ہے‘ یہ اشک نہیں موتی ہےجو چیز ہے فطرت میں شامل وہ بھی کہیں بدعت ہوتی ہےانساں کی اولادت اور قضا دونوں ہی میں غم ہے جلوہ نماآتا ہے تو وہ خود روتا ہے‘ جاتا ہے تو دنیا روتی ہے
معروف مصنف تھامس کارلائل اپنی کتاب Heroes and Heroes Worship میں اپنا نقطہ نظریوں بیان کرتا ہے:
کربلا کے المیہ سے ہمیں سب سے بڑا سبق یہ ملتا ہے کہ امام حسینؓ اور آپ کے ساتھیوں کو خدا تعالیٰ پر کامل یقین تھا۔ آپ نے اپنے عمل سے ثابت کر دکھایا کہ حق اور باطل کی کشمکش میں تعداد کی برتری کی کوئی حیثیت نہیں ہوتے ہیں اور بہادری کا جو سبق ہمیں تاریخ کربلا سے ملتا ہے وہ کسی اور تاریخ سے نہیں ملتا۔
ایک اور عیسائی دانشور ڈاکٹر کرسٹوفر اپنی آرزو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں ’’کاش دنیا امام حسینؓ کے پیغام‘ ان کی تعلیمات اور مقصد کو سمجھے اور ان کے نقش قدم پر چل کر اپنی اصلاح کرے‘‘۔
حضرت امام حسینؓ کے حوالے سے عیسائی مبلغ ڈاکٹر ایچ ڈبلیو بی مورنیو نے یوں اظہار خیال کیا ہے ’’امام حسین صداقت کے اصول پر سختی کے ساتھ کاربند رہے اور زندگی کی آخری گھڑی تک مستقل مزاج اور اٹل رہے۔ انہوں نے ذلت پر موت کو ترجیح دی۔ ایسی روحیں کبھی فنا نہیں ہوسکتیں اور امام حسینؓ آج بھی انسانیت کے رہنمائوں میں بلند مقام رکھتے ہیں‘‘۔
جے اے سیمسن کہتے ہیں ’’حسینؓ کی قربانی نے قوموں کی بقاء اور جہاد زندگی کے لیے ایک ایسی مشعل روشن کی جو رہتی دنیا تک روشن رہے گی‘‘۔
جی بی ایڈورڈ کا کہنا ہے:
تاریخ اسلام میں ایک باکمال ہیرو کا نام نظر آتا ہے جس کو حسینؓ کہا جاتا ہے۔ یہ محمدؐ کا نواسہ‘علیؓو فاطمہؓ کا بیٹا‘ لاتعداد صفات و اوصاف کا مالک ہے جس کے عظیم‘ اعلیٰ کردار نے اسلا م کو زندہ کیا اور دین خدا میں نئی روح ڈال دی۔ حق تو یہ ہے کہ اسلام کا یہ بہادر میدانِ کربلا میں شجاعت کے جوہر نہ دکھاتا اور ایک پلید و لعین حکمران کی اطاعت قبول کرلیتا تو آج محمدؐ کے دین کا نقشہ کچھ اور نظر آتا‘ وہ کبھی اس طرح کہ نہ تو قرآن ہوتا اور نہ اسلام ہوتا‘ نہ ایمان‘ نہ رحم و انصاف‘ نہ کرم و وفا بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ انسانیت کا نشان تک دکھائی نہ دیتا۔ ہر جگہ وحشت و بربریت اور درندگی نظر آتی۔
مہاراج یوربندسرنٹور سنگھ کہتے ہیں:
قربانیوں ہی کے ذریعے تہذیبوں کا ارتقا ہوتا ہے۔ حضرت امام حسینؓ کی قربانی نہ صرف مسلمانوں کے لیے بلکہ پوری انسانیت کے لیے ایک قابلِ فخر کارنامے کی حیثیت رکھتی ہے۔ انہوں نے جان دے دی لیکن انسانیت کے رہنما اصولوں پر آنچ نہیں آنے دی۔ دنیا کی تاریخ میں اس کی دوسری مثال نہیں ملتی۔ حضرت امام حسینؓ کی قربانی کے زیر قدم امن اور مسرت دوبارہ بنی نوع انسان کو حاصل ہوسکتی ہیں بشرطیکہ انسان ان کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرے۔
انڈین نیشنل کانگریس کے سابق صدر بابو راجندر پرشاد کا قول ہے:
کربلا کے شہیدوں کی کہانی انسانی تاریخ کی ان سچی کہانیوں میں سے ایک ہے جنہیں کبھی نہیں بھلایا جائے گا‘ نہ ان کی اثر آفرینی میں کوئی کمی آئے گی۔ دنیا میں لاکھوں کروڑوں مرد اور عورتیں اس سے متاثر ہیں اور رہیں گے۔شہیدوں کی زندگیاں وہ مشعلیں ہیں جو صداقت اور حریت کی راہ میں آگے بڑھنے والوں کو راستہ دکھاتی ہیں‘ ان میں استقامت کا حوصلہ پیدا کرتی ہیں۔
سوامی شنکر اچاریہ کہتے ہیں:’’اگر حسینؓ نہ ہوتے تو دنیا سے اسلام ختم ہوجاتا اور دنیا ہمیشہ کے لیے نیک بندوں سے خالی ہوجاتی۔ حسین سے بڑھ کر کوئی شہید نہیں‘‘۔
مشہورافسانہ نگار منشی پریم چند لکھتے ہیں:’’معرکہ کربلا دنیا کی تاریخ میں پہلی آواز ہے اور شاید آخری بھی ہو جو مظلوموں کی حمایت میں بلند ہوئی اور اس کی صدائے بازگشت آج تک فضائے عالم میں گونج رہی ہے‘‘۔
ڈاکٹر سہنا کا کہنا ہے ’’اس میں اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں کہ دنیا کے شہیدوں میں امام حسینؓ کو ایک ممتاز اور بلند حیثیت حاصل ہے‘‘۔
ایک سکھ لیڈر سردار کرتار سنگھ اپنے احساسات یوں بیان کرتے ہیں ’’محمدؐ نے جو انسانیت کے بہترین اصول پیش کیے تھے حسینؓ نے اپنی قربانی اور شہادت سے انہیں زندہ کردیا۔ ان پر ہدایت کی مہر لگادی۔ حسینؓ کا اصول اٹل ہے‘‘۔
مشہور جرمن فلاسفر نطشے بلاامتیاز مذہب و ملت ہر قوم کی نجات کو فلسفۂ حسینیت میں یوں تلاش کرتے ہیں:
زہد و تقویٰ اور شجاعت کے سنگم میں خاکی انسان کے عروج کی انتہا ہے جن کو زوال کبھی نہیں آئے گا۔ اس کسوٹی کے اصول پر امام عالی مقام نے اپنی زندگی کی بامقصد اور عظیم الشان قربانی دے کر ایسی مثال پیش کی جو دنیا کی قوموں کی ہمیشہ رہنمائی کرتی رہے گی۔
اردو ادب کے شہرہ آفاق نقاد اور دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر گوپی چند نارنگ اپنی کتاب ’’سانحۂ کربلا بطور شعری استعارہ‘‘ میں لکھتے ہیں :
راہِ حق پر چلنے والے جانتے ہیں کہ صلوٰۃ عشق کا وضو خون سے ہوتا ہے اور سب سے سچی گواہی خون کی گواہی ہے۔ تاریخ کے حافظے سے بڑے سے بڑے شہنشاہوں کا جاہ و جلال‘ شکوہ و جبروت‘ شوکت و حشمت سب کچھ مٹ جاتا ہے لیکن شہید کے خون کی تابندگی کبھی ماند نہیں پڑتی۔ اسلام کی تاریخ میں کوئی قربانی اتنی عظیم‘ اتنی ارفع اور اتنی مکمل نہیں ہے جتنی حسین ابن علیؓ کی شہادت۔ کربلا کی سرزمین ان کے خون سے لہولہان ہوئی تو درحقیقت وہ خون ریت پر نہیں گرا بلکہ سنتِ رسولؐ اور دین ابراہیمی کی بنیادوں کو ہمیشہ کے لیے سینچ گیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ خون ایک ایسے نور میں تبدیل ہوگیا جسے نہ کوئی تلوار کاٹ سکتی ہے نہ نیزہ چھید سکتا ہے اور نہ زمانہ مٹا سکتا ہے۔ اس نے اسلام کو جس کی حیثیت اس وقت ایک نوخیز پودے کی سی تھی‘ استحکام بخشا اور وقت کی آندھیوں سے ہمیشہ کے لیے محفوظ کردیا۔
یہ تھے امام حسینؓ کے حوالے سے چند غیر مسلم مفکروں اور ادیبوں کے خیالات ایسے ہی دیگر بے شمار غیر مسلم دانشوروں نے واقعہ کربلا میں امام حسینؓ کی حقانیت کو تسلیم کرتے ہوئے اسے انسانی فلاح کا ضامن قرار دیا ہے۔ امام عالی مقام کی ذات ایک ایسی ذات ہے جن کے بارے میں بے شمار غیر مسلم شعرا نے سلام اور مرثیے بھی تخلیق کیے جن میں سے چند ایک نام یہ ہیں:
پنڈٹ ایسری پرشاد‘ پنڈت دہلوی‘ حکیم چھنو مل نافذ دہلوی‘ مہاراجہ بلوان سنگھ راجہ‘ چھنو لال دلگیر‘ دلو رام کوثری‘ رائے سندھ ناتھ فراقی‘ نتھونی لال دھون وحشی‘ کنور سین مضظر‘ بشیشو پرشادمنور لکھنوی‘ نانک چند کھتری نانک‘ روپ کماری کنور‘ لبھو رام جوش ملسیانی‘ گوپی ناتھ امن‘ باوا کرشن گوپال مغموم‘ نرائن داس طالب دہلوی‘ دگمبر پرشاد جین گوہر دہلوی‘ کنور مہندر سنگھ بیدی سحر‘ وشوناتھ پرشاد ماتھر لکھنوی‘ چند بہاری لال ماتھر‘ صبا جے پوری‘ گورو سرن لال‘ ادیب‘ پنڈت رگھو ناتھ سہائے امید‘ امر چند قیس‘ راجندر ناتھ شیدا‘ رام پرکاش ساحر‘ مہرلال سونی ضیا فتح آبادی‘ جاوید و ششت‘ رائے بہادر بابو اتاردین اور درشن سنگھ دُگل وغیرہ۔
یہاں ان میں سے چند ایک شعراء کے کلام سے اقتباس پیش کرتا ہوں:
معروف ہندو شاعر رام پرکاش ساحر کہتے ہیں:
ہے حق و صداقت مرا مسلک ساحرہندو بھی ہوں شبیر کا شیدائی بھی

اسی طرح رائے بہادر بابو اتاردین کی خیالات ملاحظہ کیجیے:

وہ دل ہو خاک نہ ہو جس میں اہل بیت کا غموہ پھوتے آنکھ جو روئی نہ ہو محرم میں

۱۹۱۸ء میں ہندو شاعر دلو رام کوثری نے ایک مرثیہ بعنوان ’’قرآن اور حسینؓ‘‘ کہا تھا‘ اس کے چند اشعار ملاحظہ ہوں:

قرآن اور حسینؓ برابر ہیں شان میںدونوں کا رتبہ ایک ہے دونوں جہان میںکیا وصف ان کا ہو کہ ہے لکنت زبان میںپیہم صدا یہ غیب سے آتی ہے کان میںقرآں کلام پاک ہے شبیرؓ نور ہےدونوں جہاں میں دونوں کا یکساں ظہور ہے
پنڈت ایسری پرشاد پنڈت دہلوی کہتے ہیں!
نکلیں جو غمِ شہ میں وہ آنسو اچھےبرہم ہوں جو اس غم میں وہ آنسو اچھےرکھتے ہیں جو حسینؓ سے کاوش پنڈتایسے تو مسلمانوں سے ہندو اچھے
حکیم چھنومل دہلوی نے امام عالی مقامؓ کے حضور سلامِ عقیدت یوں پیش کیا ہے:
سلامی کیا کوئی بیکار ہے جی سے گزر جاناحیاتِ جاوداں ہے شاہ کے ماتم میں مرجانانہ آتا جنہیں راہ حقیقت سے گزر جاناحسینؓ ابن علیؓ سے سیکھ لیں وہ لوگ مرجاناغم آل نبیؐ ممکن نہیں دل سے اتر جانانہ بھولیں گے کسی کا ہم جواں ہوتے ہی مرجانامٹانے سے کسی کے نام مٹ جائے ابھی کیونکرابھی تو رنگ لائے گا شہ بیکس کا مرجانا

سرکش پرشاد کے قلم سے حسین ابن علیؓ کے حضور سلام کا نذرانہ اس طرح تخلیق ہوا:

حسین ابن علیؓ ہیں فرد یکتاکوئی مظلوم ایسا تھا نہ ہوگادیا سر آپ نے راہ خدا میںکیا دین نبیؐ کو دین اپناجگر بند علیؓ و فاطمہؓ ہےرسول اللہ کا پیارا نواساکیا آل نبیؐ کو قتل صد حیفمسلمانو! کیا یہ ظلم کیسا؟ولائے سبط پیغمبرؐ ہے نعمتیہ نعمت ہو عطا ہر اک کو مولا

ایک اور ہندو شاعر منشی لچھمن داس مرثیہ گوئی میں منفرد مقام رکھتے ہیں ان کا ایک قطعہ ملاحظہ ہو:

کم جس کی خیالیں ہوں‘ وہ تنویر نہیں ہوںبدعت سے جو مٹ جائے وہ تصویر نہیں ہوںپابند شریعت نہ سہی گو لچھمنہندو ہوں مگر دشمن شبیرؓ نہیں ہوں
ان غیر مسلم مشاہیر اور شعرا کے افکار وتخلیقات سے یہ حقیقت روز ِروشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ حسینؓ ابن علی کا تعلق کسی خاص قوم یا کسی خاص فرقے سے نہیں بلکہ آپ کا تعلق دنیائے انسانیت سے ہے۔ اسی لیے شاعر انقلاب جوش ملیح آبادی فرماتے ہیں:
کیا صرف مسلمان کے پیارے ہیں حسینؓچرخ نوع بشر کے تارے ہیں حسینؓانسان کو بیدار تو ہو لینے دوہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسینؓ
جب دنیا کی ہر قوم حسینؓ کی دعویدار بن جائے تو پھر اختلاف کس بات کا۔ لہٰذا علم و دانش اور عقل و آگہی کے اس روشن دور میں تمام عالم انسانیت کو چاہیے کہ وہ نہ صرف ’’ہمارے ہیں حسینؓ‘‘ کے دعوے تک محدود نہ رہے بلکہ فلسفۂ حسین کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرے۔ اس وقت مسلمانانِ عالم جن مصائب و آلام سے دوچار ہیں اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم بظاہر تو حسینی ہونے کا نعرہ لاتے ہیں لیکن حقیقت میں ہم حسینیت کی روح اور مفاہیم سے نابلد ہیں اور مسلمانوں کو حسینیت کے اصول و قواعد پر غور کرکے ان پر عمل کرنے او رایک پلیٹ فارم پر جمع ہونے کی جتنی ضرورت اب ہے کبھی نہ تھی۔
حسینؓ صرف ایک شخصیت کا نام نہیں ہے بلکہ ایک نظریے کا نام ہے‘ ایک اصول اور ایک نظامِ حیات کا نام ہے۔ حسینیت امن و سلامتی اور حق کی علامت ہے۔ حسینیت دینِ فطرت اور انسانیت کی اساس ہے‘ بقول خواجہ معین الدین چشتیؒ:
شاہ است حسینؓ بادشاہ است حسینؓدین است حسینؓ دین پناہ است حسینؓسرداد نہ داد دست در دست یزیدحقا کہ بنائے لا الہ است حسینؓ
میں اپنی معروضات کا اختتام ایک ممتاز سکھ شاعر کنور مہندر سنگھ بیدی سحر دہلوی کی ایک مسدس کے چند اشعار پر کرنا چاہتا ہوں۔ مہندر سنگھ بیدی کہتے ہیں:
گلشن صدق و صفا کا لالۂ رنگیں حسینؓشمع عالم‘ مشعلِ دنیا‘ چراغ دیں حسینؓسر سے پا تک سرخی افسانۂ خونیں حسینؓجس پہ شاہوں کی خوشی قربان وہ غمگیں حسینؓمطلع نور مہ و پرویں ہے پیشانی تریباج لیتی ہے ہر اک مذہب سے قربانی تریجادۂ عالم میں ہے رہبر ترا نقش قدمسایۂ دامن ہے تیرا پرورش گاہ ارمبادۂ ہستی کا ہستی سے تیری ہے کیف و کماٹھ نہیں سکتا تیرے آگے سرِ لوح و قلمتو نے بخشی ہے وہ رفعت ایک مشت خاک کوجو بایں سرکردگی حاصل نہیں افلاک کوبارشِ رحمت کا مژدہ‘ باب حکمت کی کلیدروز روشن کی بشارت‘ صبح رنگیں کی نویدہر نظامِ کہنہ کو پیغام آئین جدیداے کہ ہے تیری شہادت اصل میں مرگ یزید تیری مظلومی نے ظالم کو کیا یوں بے نشاںڈھونڈتا پھرتا ہے اس کی ہڈیوں کو آسماں






 

Back
Top