[FONT="][FONT="]نواسۂ رسولؐ جگر گوشۂ بتول‘ فرزند مرتضیٰ‘ حسین ابن علیؓ کو صرف مسلمانوں کے لیے محدود کرنا حسینیت پر سراسر ظلم کے مترادف ہے کیونکہ حسینؓ کے سامنے نہ صرف مسلمانوں کی بلکہ پوری انسانیت کی فلاح کا ہدف تھا۔ اسی لیے امام حسینؓ نے اپنے اصحابِ باوفا اور مخدراتِ عصمت وطہارت کی ہمراہی میں جو اصولوں کی جنگ لڑی اس کے اثرات پوری دنیا پر یکساں مرتب ہوئے۔ آپ کے اصول اور آپ کی قربانی جہاں اسلام کی بقا کی ضمانت ہیں وہاں بلاتفریقِ مذہب و ملت اور علاقہ و ملک عدل و انصاف کی فراہمی‘ آزادی کے حصول‘ حقوق کی جنگ‘ فرائض کی ادائیگی‘ جذبۂ ایثار و قربانی‘ عزم وہمت اور جوش وولولہ کے جاویدانی پیغام بھی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ہر طبقۂ فکر اور مذہب و ملت سے تعلق رکھنے والے مشاہیر آپ کی ذات اور کردار سے برملا عقیدت کا اظہار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ مختلف مذاہب کے پیشوا‘ دانشور‘ مفکر اور شعرا نے حسین ابن علیؓ کی بارگاہ میں جس عقیدت کا اظہار کیا ہے ان کی تفصیل ایک مختصر سے مقالے میں سمیٹنا ناممکن ہے۔ تاہم میں یہاں چند غیر مسلم معروف شاعروں‘ دانشوروں اور مفکروں کا اظہار عقیدت مختصراً آپ کی خدمت میں پیش کیے دیتا ہوں۔ ہندو شاعروں میں منشی دیشو پرشاد ماتھر لکھنوی کو اہل بیت اطہار بالخصوص حضرت سید الشہداء امام حسینؓ کی مدح سرائی کی وجہ سے بڑی شہرت حاصل ہے وہ کہتے ہیں:[/FONT]
[FONT="]انسانیت حسینؓ تیرے دم کے ساتھ ہے[/FONT][FONT="]ماتھر بھی اے حسینؓ تیرے غم کے ساتھ ہے[/FONT]
[FONT="]یہی شاعر دوسری جگہ یوں اظہارِ خیال کرتے ہیں:[/FONT]
[FONT="]مسلمانوں کا منشاء عقیدت اور ہی کچھ ہے[/FONT][FONT="]مگر سبطِ نبیؐ سے میری نسبت اور ہی کچھ ہے[/FONT]
[FONT="]ان کا ایک قطعہ عزاداریِ سید الشہداء کو کس طرح ایک فطری عمل قرار دیتا ہے۔[/FONT]
[FONT="]ملاحظہ کیجیے:[/FONT]
[FONT="]یہ آہ نہیں ہے بجلی ہے‘ یہ اشک نہیں موتی ہے[/FONT][FONT="]جو چیز ہے فطرت میں شامل وہ بھی کہیں بدعت ہوتی ہے[/FONT][FONT="]انساں کی اولادت اور قضا دونوں ہی میں غم ہے جلوہ نما[/FONT][FONT="]آتا ہے تو وہ خود روتا ہے‘ جاتا ہے تو دنیا روتی ہے[/FONT]
[FONT="]معروف مصنف تھامس کارلائل اپنی کتاب Heroes and Heroes Worship میں اپنا نقطہ نظریوں بیان کرتا ہے:[/FONT]
[FONT="]کربلا کے المیہ سے ہمیں سب سے بڑا سبق یہ ملتا ہے کہ امام حسینؓ اور آپ کے ساتھیوں کو خدا تعالیٰ پر کامل یقین تھا۔ آپ نے اپنے عمل سے ثابت کر دکھایا کہ حق اور باطل کی کشمکش میں تعداد کی برتری کی کوئی حیثیت نہیں ہوتے ہیں اور بہادری کا جو سبق ہمیں تاریخ کربلا سے ملتا ہے وہ کسی اور تاریخ سے نہیں ملتا۔[/FONT]
[FONT="]ایک اور عیسائی دانشور ڈاکٹر کرسٹوفر اپنی آرزو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں ’’کاش دنیا امام حسینؓ کے پیغام‘ ان کی تعلیمات اور مقصد کو سمجھے اور ان کے نقش قدم پر چل کر اپنی اصلاح کرے‘‘۔[/FONT]
[FONT="]حضرت امام حسینؓ کے حوالے سے عیسائی مبلغ ڈاکٹر ایچ ڈبلیو بی مورنیو نے یوں اظہار خیال کیا ہے ’’امام حسین صداقت کے اصول پر سختی کے ساتھ کاربند رہے اور زندگی کی آخری گھڑی تک مستقل مزاج اور اٹل رہے۔ انہوں نے ذلت پر موت کو ترجیح دی۔ ایسی روحیں کبھی فنا نہیں ہوسکتیں اور امام حسینؓ آج بھی انسانیت کے رہنمائوں میں بلند مقام رکھتے ہیں‘‘۔[/FONT]
[FONT="]جے اے سیمسن کہتے ہیں ’’حسینؓ کی قربانی نے قوموں کی بقاء اور جہاد زندگی کے لیے ایک ایسی مشعل روشن کی جو رہتی دنیا تک روشن رہے گی‘‘۔[/FONT]
[FONT="]جی بی ایڈورڈ کا کہنا ہے:[/FONT]
[FONT="]تاریخ اسلام میں ایک باکمال ہیرو کا نام نظر آتا ہے جس کو حسینؓ کہا جاتا ہے۔ یہ محمدؐ کا نواسہ‘علیؓو فاطمہؓ کا بیٹا‘ لاتعداد صفات و اوصاف کا مالک ہے جس کے عظیم‘ اعلیٰ کردار نے اسلا م کو زندہ کیا اور دین خدا میں نئی روح ڈال دی۔ حق تو یہ ہے کہ اسلام کا یہ بہادر میدانِ کربلا میں شجاعت کے جوہر نہ دکھاتا اور ایک پلید و لعین حکمران کی اطاعت قبول کرلیتا تو آج محمدؐ کے دین کا نقشہ کچھ اور نظر آتا‘ وہ کبھی اس طرح کہ نہ تو قرآن ہوتا اور نہ اسلام ہوتا‘ نہ ایمان‘ نہ رحم و انصاف‘ نہ کرم و وفا بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ انسانیت کا نشان تک دکھائی نہ دیتا۔ ہر جگہ وحشت و بربریت اور درندگی نظر آتی۔[/FONT]
[FONT="]مہاراج یوربندسرنٹور سنگھ کہتے ہیں:[/FONT]
[FONT="]قربانیوں ہی کے ذریعے تہذیبوں کا ارتقا ہوتا ہے۔ حضرت امام حسینؓ کی قربانی نہ صرف مسلمانوں کے لیے بلکہ پوری انسانیت کے لیے ایک قابلِ فخر کارنامے کی حیثیت رکھتی ہے۔ انہوں نے جان دے دی لیکن انسانیت کے رہنما اصولوں پر آنچ نہیں آنے دی۔ دنیا کی تاریخ میں اس کی دوسری مثال نہیں ملتی۔ حضرت امام حسینؓ کی قربانی کے زیر قدم امن اور مسرت دوبارہ بنی نوع انسان کو حاصل ہوسکتی ہیں بشرطیکہ انسان ان کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرے۔[/FONT]
[FONT="]انڈین نیشنل کانگریس کے سابق صدر بابو راجندر پرشاد کا قول ہے:[/FONT]
[FONT="]کربلا کے شہیدوں کی کہانی انسانی تاریخ کی ان سچی کہانیوں میں سے ایک ہے جنہیں کبھی نہیں بھلایا جائے گا‘ نہ ان کی اثر آفرینی میں کوئی کمی آئے گی۔ دنیا میں لاکھوں کروڑوں مرد اور عورتیں اس سے متاثر ہیں اور رہیں گے۔شہیدوں کی زندگیاں وہ مشعلیں ہیں جو صداقت اور حریت کی راہ میں آگے بڑھنے والوں کو راستہ دکھاتی ہیں‘ ان میں استقامت کا حوصلہ پیدا کرتی ہیں۔[/FONT]
[FONT="]سوامی شنکر اچاریہ کہتے ہیں:’’اگر حسینؓ نہ ہوتے تو دنیا سے اسلام ختم ہوجاتا اور دنیا ہمیشہ کے لیے نیک بندوں سے خالی ہوجاتی۔ حسین سے بڑھ کر کوئی شہید نہیں‘‘۔[/FONT]
[FONT="]مشہورافسانہ نگار منشی پریم چند لکھتے ہیں:’’معرکہ کربلا دنیا کی تاریخ میں پہلی آواز ہے اور شاید آخری بھی ہو جو مظلوموں کی حمایت میں بلند ہوئی اور اس کی صدائے بازگشت آج تک فضائے عالم میں گونج رہی ہے‘‘۔[/FONT]
[FONT="]ڈاکٹر سہنا کا کہنا ہے ’’اس میں اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں کہ دنیا کے شہیدوں میں امام حسینؓ کو ایک ممتاز اور بلند حیثیت حاصل ہے‘‘۔[/FONT]
[FONT="]ایک سکھ لیڈر سردار کرتار سنگھ اپنے احساسات یوں بیان کرتے ہیں ’’محمدؐ نے جو انسانیت کے بہترین اصول پیش کیے تھے حسینؓ نے اپنی قربانی اور شہادت سے انہیں زندہ کردیا۔ ان پر ہدایت کی مہر لگادی۔ حسینؓ کا اصول اٹل ہے‘‘۔[/FONT]
[FONT="]مشہور جرمن فلاسفر نطشے بلاامتیاز مذہب و ملت ہر قوم کی نجات کو فلسفۂ حسینیت میں یوں تلاش کرتے ہیں:[/FONT]
[FONT="]زہد و تقویٰ اور شجاعت کے سنگم میں خاکی انسان کے عروج کی انتہا ہے جن کو زوال کبھی نہیں آئے گا۔ اس کسوٹی کے اصول پر امام عالی مقام نے اپنی زندگی کی بامقصد اور عظیم الشان قربانی دے کر ایسی مثال پیش کی جو دنیا کی قوموں کی ہمیشہ رہنمائی کرتی رہے گی۔[/FONT]
[FONT="]اردو ادب کے شہرہ آفاق نقاد اور دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر گوپی چند نارنگ اپنی کتاب ’’سانحۂ کربلا بطور شعری استعارہ‘‘ میں لکھتے ہیں :[/FONT]
[FONT="]راہِ حق پر چلنے والے جانتے ہیں کہ صلوٰۃ عشق کا وضو خون سے ہوتا ہے اور سب سے سچی گواہی خون کی گواہی ہے۔ تاریخ کے حافظے سے بڑے سے بڑے شہنشاہوں کا جاہ و جلال‘ شکوہ و جبروت‘ شوکت و حشمت سب کچھ مٹ جاتا ہے لیکن شہید کے خون کی تابندگی کبھی ماند نہیں پڑتی۔ اسلام کی تاریخ میں کوئی قربانی اتنی عظیم‘ اتنی ارفع اور اتنی مکمل نہیں ہے جتنی حسین ابن علیؓ کی شہادت۔ کربلا کی سرزمین ان کے خون سے لہولہان ہوئی تو درحقیقت وہ خون ریت پر نہیں گرا بلکہ سنتِ رسولؐ اور دین ابراہیمی کی بنیادوں کو ہمیشہ کے لیے سینچ گیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ خون ایک ایسے نور میں تبدیل ہوگیا جسے نہ کوئی تلوار کاٹ سکتی ہے نہ نیزہ چھید سکتا ہے اور نہ زمانہ مٹا سکتا ہے۔ اس نے اسلام کو جس کی حیثیت اس وقت ایک نوخیز پودے کی سی تھی‘ استحکام بخشا اور وقت کی آندھیوں سے ہمیشہ کے لیے محفوظ کردیا۔[/FONT]
[FONT="]یہ تھے امام حسینؓ کے حوالے سے چند غیر مسلم مفکروں اور ادیبوں کے خیالات ایسے ہی دیگر بے شمار غیر مسلم دانشوروں نے واقعہ کربلا میں امام حسینؓ کی حقانیت کو تسلیم کرتے ہوئے اسے انسانی فلاح کا ضامن قرار دیا ہے۔ امام عالی مقام کی ذات ایک ایسی ذات ہے جن کے بارے میں بے شمار غیر مسلم شعرا نے سلام اور مرثیے بھی تخلیق کیے جن میں سے چند ایک نام یہ ہیں:[/FONT]
[FONT="]پنڈٹ ایسری پرشاد‘ پنڈت دہلوی‘ حکیم چھنو مل نافذ دہلوی‘ مہاراجہ بلوان سنگھ راجہ‘ چھنو لال دلگیر‘ دلو رام کوثری‘ رائے سندھ ناتھ فراقی‘ نتھونی لال دھون وحشی‘ کنور سین مضظر‘ بشیشو پرشادمنور لکھنوی‘ نانک چند کھتری نانک‘ روپ کماری کنور‘ لبھو رام جوش ملسیانی‘ گوپی ناتھ امن‘ باوا کرشن گوپال مغموم‘ نرائن داس طالب دہلوی‘ دگمبر پرشاد جین گوہر دہلوی‘ کنور مہندر سنگھ بیدی سحر‘ وشوناتھ پرشاد ماتھر لکھنوی‘ چند بہاری لال ماتھر‘ صبا جے پوری‘ گورو سرن لال‘ ادیب‘ پنڈت رگھو ناتھ سہائے امید‘ امر چند قیس‘ راجندر ناتھ شیدا‘ رام پرکاش ساحر‘ مہرلال سونی ضیا فتح آبادی‘ جاوید و ششت‘ رائے بہادر بابو اتاردین اور درشن سنگھ دُگل وغیرہ۔[/FONT]
[FONT="]یہاں ان میں سے چند ایک شعراء کے کلام سے اقتباس پیش کرتا ہوں:[/FONT]
[FONT="]معروف ہندو شاعر رام پرکاش ساحر کہتے ہیں:[/FONT]
[FONT="]ہے حق و صداقت مرا مسلک ساحر[/FONT][FONT="]ہندو بھی ہوں شبیر کا شیدائی بھی[/FONT]
[FONT="]اسی طرح رائے بہادر بابو اتاردین کی خیالات ملاحظہ کیجیے:[/FONT]
[FONT="]وہ دل ہو خاک نہ ہو جس میں اہل بیت کا غم[/FONT][FONT="]وہ پھوتے آنکھ جو روئی نہ ہو محرم میں[/FONT]
[FONT="]۱۹۱۸ء میں ہندو شاعر دلو رام کوثری نے ایک مرثیہ بعنوان ’’قرآن اور حسینؓ‘‘ کہا تھا‘ اس کے چند اشعار ملاحظہ ہوں:[/FONT]
[FONT="]قرآن اور حسینؓ برابر ہیں شان میں[/FONT][FONT="]دونوں کا رتبہ ایک ہے دونوں جہان میں[/FONT][FONT="]کیا وصف ان کا ہو کہ ہے لکنت زبان میں[/FONT][FONT="]پیہم صدا یہ غیب سے آتی ہے کان میں[/FONT][FONT="]قرآں کلام پاک ہے شبیرؓ نور ہے[/FONT][FONT="]دونوں جہاں میں دونوں کا یکساں ظہور ہے[/FONT]
[FONT="]پنڈت ایسری پرشاد پنڈت دہلوی کہتے ہیں![/FONT]
[FONT="]نکلیں جو غمِ شہ میں وہ آنسو اچھے[/FONT][FONT="]برہم ہوں جو اس غم میں وہ آنسو اچھے[/FONT][FONT="]رکھتے ہیں جو حسینؓ سے کاوش پنڈت[/FONT][FONT="]ایسے تو مسلمانوں سے ہندو اچھے[/FONT]
[FONT="]حکیم چھنومل دہلوی نے امام عالی مقامؓ کے حضور سلامِ عقیدت یوں پیش کیا ہے:[/FONT]
[FONT="]سلامی کیا کوئی بیکار ہے جی سے گزر جانا[/FONT][FONT="]حیاتِ جاوداں ہے شاہ کے ماتم میں مرجانا[/FONT][FONT="]نہ آتا جنہیں راہ حقیقت سے گزر جانا[/FONT][FONT="]حسینؓ ابن علیؓ سے سیکھ لیں وہ لوگ مرجانا[/FONT][FONT="]غم آل نبیؐ ممکن نہیں دل سے اتر جانا[/FONT][FONT="]نہ بھولیں گے کسی کا ہم جواں ہوتے ہی مرجانا[/FONT][FONT="]مٹانے سے کسی کے نام مٹ جائے ابھی کیونکر[/FONT][FONT="]ابھی تو رنگ لائے گا شہ بیکس کا مرجانا[/FONT]
[FONT="]سرکش پرشاد کے قلم سے حسین ابن علیؓ کے حضور سلام کا نذرانہ اس طرح تخلیق ہوا:[/FONT]
[FONT="]حسین ابن علیؓ ہیں فرد یکتا[/FONT][FONT="]کوئی مظلوم ایسا تھا نہ ہوگا[/FONT][FONT="]دیا سر آپ نے راہ خدا میں[/FONT][FONT="]کیا دین نبیؐ کو دین اپنا[/FONT][FONT="]جگر بند علیؓ و فاطمہؓ ہے[/FONT][FONT="]رسول اللہ کا پیارا نواسا[/FONT][FONT="]کیا آل نبیؐ کو قتل صد حیف[/FONT][FONT="]مسلمانو! کیا یہ ظلم کیسا؟[/FONT][FONT="]ولائے سبط پیغمبرؐ ہے نعمت[/FONT][FONT="]یہ نعمت ہو عطا ہر اک کو مولا[/FONT]
[FONT="]ایک اور ہندو شاعر منشی لچھمن داس مرثیہ گوئی میں منفرد مقام رکھتے ہیں ان کا ایک قطعہ ملاحظہ ہو:[/FONT]
[FONT="]کم جس کی خیالیں ہوں‘ وہ تنویر نہیں ہوں[/FONT][FONT="]بدعت سے جو مٹ جائے وہ تصویر نہیں ہوں[/FONT][FONT="]پابند شریعت نہ سہی گو لچھمن[/FONT][FONT="]ہندو ہوں مگر دشمن شبیرؓ نہیں ہوں[/FONT]
[FONT="]ان غیر مسلم مشاہیر اور شعرا کے افکار وتخلیقات سے یہ حقیقت روز ِروشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ حسینؓ ابن علی کا تعلق کسی خاص قوم یا کسی خاص فرقے سے نہیں بلکہ آپ کا تعلق دنیائے انسانیت سے ہے۔ اسی لیے شاعر انقلاب جوش ملیح آبادی فرماتے ہیں:[/FONT]
[FONT="]کیا صرف مسلمان کے پیارے ہیں حسینؓ[/FONT][FONT="]چرخ نوع بشر کے تارے ہیں حسینؓ[/FONT][FONT="]انسان کو بیدار تو ہو لینے دو[/FONT][FONT="]ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسینؓ[/FONT]
[FONT="]جب دنیا کی ہر قوم حسینؓ کی دعویدار بن جائے تو پھر اختلاف کس بات کا۔ لہٰذا علم و دانش اور عقل و آگہی کے اس روشن دور میں تمام عالم انسانیت کو چاہیے کہ وہ نہ صرف ’’ہمارے ہیں حسینؓ‘‘ کے دعوے تک محدود نہ رہے بلکہ فلسفۂ حسین کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرے۔ اس وقت مسلمانانِ عالم جن مصائب و آلام سے دوچار ہیں اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم بظاہر تو حسینی ہونے کا نعرہ لاتے ہیں لیکن حقیقت میں ہم حسینیت کی روح اور مفاہیم سے نابلد ہیں اور مسلمانوں کو حسینیت کے اصول و قواعد پر غور کرکے ان پر عمل کرنے او رایک پلیٹ فارم پر جمع ہونے کی جتنی ضرورت اب ہے کبھی نہ تھی۔[/FONT]
[FONT="]حسینؓ صرف ایک شخصیت کا نام نہیں ہے بلکہ ایک نظریے کا نام ہے‘ ایک اصول اور ایک نظامِ حیات کا نام ہے۔ حسینیت امن و سلامتی اور حق کی علامت ہے۔ حسینیت دینِ فطرت اور انسانیت کی اساس ہے‘ بقول خواجہ معین الدین چشتیؒ:[/FONT]
[FONT="]شاہ است حسینؓ بادشاہ است حسینؓ[/FONT][FONT="]دین است حسینؓ دین پناہ است حسینؓ[/FONT][FONT="]سرداد نہ داد دست در دست یزید[/FONT][FONT="]حقا کہ بنائے لا الہ است حسینؓ[/FONT]
[FONT="]میں اپنی معروضات کا اختتام ایک ممتاز سکھ شاعر کنور مہندر سنگھ بیدی سحر دہلوی کی ایک مسدس کے چند اشعار پر کرنا چاہتا ہوں۔ مہندر سنگھ بیدی کہتے ہیں:[/FONT]
[FONT="]گلشن صدق و صفا کا لالۂ رنگیں حسینؓ[/FONT][FONT="]شمع عالم‘ مشعلِ دنیا‘ چراغ دیں حسینؓ[/FONT][FONT="]سر سے پا تک سرخی افسانۂ خونیں حسینؓ[/FONT][FONT="]جس پہ شاہوں کی خوشی قربان وہ غمگیں حسینؓ[/FONT][FONT="]مطلع نور مہ و پرویں ہے پیشانی تری[/FONT][FONT="]باج لیتی ہے ہر اک مذہب سے قربانی تری[/FONT][FONT="]جادۂ عالم میں ہے رہبر ترا نقش قدم[/FONT][FONT="]سایۂ دامن ہے تیرا پرورش گاہ ارم[/FONT][FONT="]بادۂ ہستی کا ہستی سے تیری ہے کیف و کم[/FONT][FONT="]اٹھ نہیں سکتا تیرے آگے سرِ لوح و قلم[/FONT][FONT="]تو نے بخشی ہے وہ رفعت ایک مشت خاک کو[/FONT][FONT="]جو بایں سرکردگی حاصل نہیں افلاک کو[/FONT][FONT="]بارشِ رحمت کا مژدہ‘ باب حکمت کی کلید[/FONT][FONT="]روز روشن کی بشارت‘ صبح رنگیں کی نوید[/FONT][FONT="]ہر نظامِ کہنہ کو پیغام آئین جدید[/FONT][FONT="]اے کہ ہے تیری شہادت اصل میں مرگ یزید[/FONT][FONT="]تیری مظلومی نے ظالم کو کیا یوں بے نشاں[/FONT][FONT="]ڈھونڈتا پھرتا ہے اس کی ہڈیوں کو آسماں
[/FONT]
[/FONT]