عمر پوری ہوئے دو سال ہوگئے

qasi

MPA (400+ posts)
Abdullah-Tariq-Final.jpg
مولوی صاحب کے صاحبِ کشف ہونے کا اعتراف ایک دنیا کو ہے۔ ایسے برجستہ اور برموقع کشف تاریخ میں کم ہی کسی کو ہوا کرتے ہیں جتنے ان پر منکشف ہوئے ہیں۔مذاکرات کی پہلی شام مولوی صاحب کا پہلا مطالبہ تھا، روٹی دو،پانی دو۔ حکومت نے پانی بھجوا دیا لیکن جیسے ہی پانی پہنچا، مولوی صاحب پر کشف ہوا کہ اس میں تو ہیضہ اور نہ جانے کون کون سی بیماری پھیلانے والی دو املی ہوئی ہے۔ کشف نازل ہوتے ہوتے بہت سے افراد یہ پانی پی چکے تھے، بعد میں بھی کئی نے پیا لیکن کسی کو ہیضہ ہوا نہ کچھ اور۔ شاید مولوی صاحب نے غائبانہ دم کیا ہوگا جس کی برکت سے ہیضہ یا کوئی دوسری بیماری نہ پھیل سکی ورنہ حکومت نے اپنی طرف سے تو انقلاب مارچ کو ہیضہ مارچ بنا ہی دیا تھا۔
دھرنے میں کتنے لوگ ہیں؟ کوئی واضح گنتی نہیں ہے لیکن دارالحکومت کے اخبار نویسوں کا اتفاق ہے کہ جو30ہزار انقلاب مارچ میں آئے تھے، اب 18ہزار کے لگ بھگ رہ گئے ہیں۔جبکہ کپتان کے مارچ میں آنے والے بارہ چودہ ہزار پانچ سے چھ ہزار میں بدل گئے۔ گویا کل بائیس چوبیس ہزار۔ ریڈ زون میں آلودگی بلکہ فضلودگی پھیلانے کے لئے یہ بہت کافی تعداد ہے۔ جو بھی علاقے کے پاس سے گزرتا ہے، اسے سخت تعّفن کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کسی وزیر نے اس تعّفن کا ذکر اپنے بیان میں کر دیا تو مولوی صاحب برہم ہوگئے، کہا، یہاں کوئی تعّفن نہیں ہے۔ ان کا غصّہ بجا ہے۔ وزیر نے الفاظ کا انتخاب غلط کیا۔کہاں لکھا ہے کہ تعّفن کو تعّفن ہی کہا جائے، خوشبو بھی تو کہا جا سکتا ہے۔ وزیر صاحب چاہیں تو اس مضمون کا بیان دے کر مولوی صاحب کی معافی کے حق دار ہو سکتے ہیں کہ علاقے بھر میں جاں فزا خوشبو پھیلی ہوئی ہے۔ بادِ صبا کے دوش پراٹھلاتی ہوئی یہ خوشبو اسلام آباد کے دور دراز علاقوں میں پہنچتی ہے تو وہ بھی مہک اٹھتے ہیں۔
جو ایک کے لئے بدبو ہے وہ دوسرے کیلئے خوشبو ہو سکتی ہے۔ کسی نالی میں دو لال بیگناشتے کی تیاری کر رہے تھے۔ ایک نے اپنی رات کی کہانی سنائی۔ بولا، رات میں ایک ایسے گھر میں جا گھسا جہاں ہر شے شیشے کی طرح چمک رہی تھی۔ دیواروں پر صاف پینٹ تھا،فرنیچر، ساز و سامان ہر شے صاف ستھری تھی، گرد مٹّی میل داغ کا کوئی نشان تک نہ تھا۔ دوسرے لال بیگ نے ابکائی لے کر کہا، توبہ، اتنا بھی نہیں جانتے کہ کھانے کے وقت ایسی گندی باتیں نہیں کیا کرتے۔۔۔!
____________________________

جمعہ کو مولوی صاحب نے نماز جمعہ پڑھی اور اسے جمعۂ انقلاب کا خطاب دیا۔ مولوی صاحب کی ہر شے انقلاب ہے۔ یہ خیمۂ انقلاب گڑا ہے، وہ کنٹینرِ انقلاب کھڑا ہے، وہ گلاس انقلاب دھرا ہے، یہ دسترخوانِ انقلاب سجا ہے۔ یہ کلاہِ انقلاب ہے، یہ جوتائے انقلاب ہے۔ معاف کیجئے، آخری اصطلاح غلط ہوگئی، جوتا ہندی لفظ ہے، اضافت نہیں لگ سکتی، پاپوشِ انقلاب لکھنا چاہئے تھا۔
جب سے انقلابی دھرنا لگا ہے، کسی انقلابی کو نماز پڑھتے ہوئے نہیں دیکھا گیا۔ خود مولوی صاحب کو بھی کسی نے اس ادائیگی کا ارتکاب کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ شاید خفیہ ہی خفیہ پڑھتے ہوں۔ ایک مختصر ریش انقلابی سے پوچھا، یہاں کوئی بھی نماز پڑھتا نظر نہیں آیا۔ بولا، نماز دل کی ہوتی ہے، ہم سب دل کی نماز پڑھتے ہیں۔ متّھا ٹیکنے کو نماز نہیں کہتے۔اس کی فلسفیانہ بات پوری طرح سمجھ میں نہیں آئی تو دوسرے انقلابی سے کہ معقول حد تک دراز ریش تھا، رجوع کیا۔کہنے لگا، مرشد نے جماعت کے قائم الصف ہونے کو ایک کروڑ نمازیوں کے مجتمع ہونے کی شرط سے مشروط فرمایا ہے۔ جب تک اس تعدادِ مطلوب کا اجتماع مجتمع نہیں ہو جاتا،نماز کا حکم ساقط ہے۔ فی الحال تھوڑی کمی ہے۔ وہ پوری ہوتے ہی سقوط کا ادفاع ہو جائے گایعنی وجوبیّت بحال ہو جائے گی ۔ازاں بعد حضرت الامام جماعت کے ایستادہ ہونے کے حکم کو مشتہر کر دیں گے۔ پوچھا، فی الحال کتنے نمازی کم ہیں، بولا، بس یہی کوئی 99لاکھ 80 ہزار کی کمی درپیش ہے۔
____________________________
ایک فاضل تجزیہ نگار، کالم نویس نے لکھا ہے کہ آئس لینڈ میں پارلیمنٹ کے سامنے کل5ہزار افراد نے دھرنا دیا تھا اور وہ حکومت مستعفی ہوگئی تھی۔
مطلب یہ نکلا کہ اگر پانچ ہزار کا دھرنا اپنے مطالبات منوا سکتا ہے تو یہ اٹھارہ بیس ہزار کیوں نہیں منوا سکتے۔ دلیل بالکل ٹھیک ہے اگر بات یہی ہو۔
اسے چھوڑئیے کہ آئس لینڈ میں حالات کیا تھے، حکومت کی فوٹنگ کیسی تھی، اور پانچ ہزاری دھرنے کی بنیاد کیسی مضبوط تھی۔ صرف یہ دیکھئے کہ آئس لینڈ کی آبادی کتنی ہے !
یورپ کے شمال مغربی سمندروں میں آئس لینڈ ایک برفستانی جزیرہ ہے جس کی آبادی کل تین لاکھ ہے جو تیس لاکھ کا دسواں حصہ بنتی ہے۔ یعنی پنجاب کے ایک چھوٹے سے شہر اوکاڑہ کی آبادی سے کچھ ہی زیادہ۔ تو یوں سمجھئے کہ پانچ ہزار افراد اگر بلدیہ اوکاڑہ کا گھیراؤ کر لیں تو بے چاری بلدیہ کیا کرے گی۔
آئس لینڈ کے اس وقت کے حالات سے ایک بار پھر قطع نظر، اگر تین لاکھ کی آبادی پر5ہزار کا دھرنا ہی واجب التسلیم معیار بنایا جائے تو پاکستان کی بیس کروڑ کی آبادی میں تیس یا چالیس لاکھ کا دھرنا درکار ہوگا۔ یعنی اسلام آباد میں30یا40لاکھ افراد دھرنا دے کر بیٹھ جائیں تو یہ آئس لینڈ کے5ہزار کے دھرنے کے برابر ہوں گے۔
اسلام آباد میں دونوں دھرنوں کا حاصل جمع25ہزار کے لگ بھگ ہے۔ چلئے، فاضل کالم نویس کے اطمینان کے لئے اسے30ہزار کا مان لیتے ہیں۔ تو بھی یہ آئس لینڈ کے دھرنے سے29لاکھ70ہزار کم ہے۔
____________________________
کپتان خاں کو زکام ہوگیا۔ یہ خبر کی سرخی ہے۔ متن میں بتایا گیا ہے کہ تقریر کے دوران بار بار چھینکتے رہے۔
پتہ نہیں سرخی کے لفظ یوں کیوں نہیں تھے کہ عمران کو بھی زکام ہوگیا۔ لیکن نہیں، یہ سرخی پھربھی نامکمّل ہوتی۔ اسے مکمل کرنے کے لئے سرخی کے شروع میں بی کا لفظ بھی لگانا پڑتا اور سب کو پتہ ہے کہ عمران مشرف رہائی اتحاد کی بی ٹیم ضرور ہیں لیکن محاورے والی بی بہرحال نہیں ہیں۔ زکام ہوا کیوں؟ ایک اخبار نے چار کالمی تصویر چھاپی ہے جس میں وہ خالی کرسیوں سے خطاب کر رہے ہیں۔ خالی کرسیاں یعنی خلا، مطلب یہ کہ شاید اس خلا نے انہیں مبتلائے ابتلائے زکام کر دیا۔
بار بار چھینکنے سے ان کی تقریر بہت شاعرانہ ہوگئی۔ کچھ اس طرح کا خطاب ہوا: اوئے آچھی نواز۔ میں تمہیں آچھیں نہیں چھوڑوں گا۔ اوئے گیدڑے آچھیں اعظم، میں تجھے آچھیں سے پکڑوں گا۔ اور تیری آچھیں مروڑ دوں گا۔میرے سامنے یہ لاکھوں کاآچھیں ہے، اس میں آچھیں ڈبو دوں گا، تمہیں بھاگنے آچھیں نہیں دوں گا۔تمہارا آچھیں لے کر ہی ٹلوں گا ورنہ یہیں آچھیں دے دوں گا۔ایک سال تک آچھیں میں بیٹھوں گا۔ اوئے نوازے آچھیں۔ کل رات امپائر اپنی آچھیں کھڑی کر دے گا۔ پھر ساری رات آچھیں کا جشن منائیں گے۔
____________________________
محترم کالم نویس اثر چوہان بار بار اپنے کالموں میں حیرت سے لکھتے ہیں کہ مولوی صاحب کی عمرِمبارک ان پر نازل ہونے والی مبیّنہ بشارت کے مطابق63سال ہے اور اب جبکہ وہ 63سال 6مہینے کے ہو چکے ہیں، ابھی تک فوت کیوں نہیں ہوئے۔
ان کی حیرت زیر بحث نہیں، یہ بتلانا مقصود ہے کہ مولوی صاحب کی عمر اس وقت63سال چھ مہینے نہیں،65سال سے اوپر ہو چکی ہے۔ اس لئے کہ جس بشارت کا وہ دعویٰ کرتے ہیں، اس میں بتائی گئی عمر ہجری سال کے حساب سے ہے۔ چوہان صاحب یہ حساب عیسوی سن کے لحاظ سے کر رہے ہیں جو صحیح نہیں۔ مناسب سمجھیں تو وہ تصحیح فرمالیں، قارئین کو بھی معلوم ہو جائے گا کہ مولوی صاحب کو63سال کا ہوئے دو سال ہوگئے۔
____________________________
کپتان خان کہتے ہیں، انہوں نے زندگی میں ہمیشہ سچ ہی بولا ہے۔
سچ کہا، ان کے دھرنوں کی تقریریں گواہ ہیں۔ ایک سچ تو ان کا سرکاری ریکارڈ پر بھی ہے۔4اپریل 1987ء کو انہوں نے اس وقت کے وزیراعلیٰ پنجاب کو لکھا کہ میرا کوئی گھر نہیں ہے، گھر بنانا چاہتا ہوں، مجھے پلاٹ الاٹ کیا جائے۔ وزیراعلیٰ نے درخواست قبول کر لی اور فیصل ٹاؤن میں انہیں ایک کنال کاپلاٹ الاٹ کر دیا۔
عمران نے اس پلاٹ پر کبھی گھر نہیں بنایا بلکہ فوراً ہی اسے بیچ دیا۔
یہ سچ سرکاری ریکارڈ پر موجود ہے۔ جسے بھی کپتان کے دعوے پر شک ہو، اسے ملاحظہ کرکے ان کی سچّائی پر ایمان لا سکتا ہے
 
Last edited by a moderator:

hussainkk

Politcal Worker (100+ posts)
Iss begharat ko jhot lekhte hoye sharam nahi ati.. jis plot ka zekar kar raha hai wo sari team ko deye gaye the.. aur procedure k teht sare team se letter lekhwaye gaye the....
 

sensible

Chief Minister (5k+ posts)
یہ صاحب نوازشریف کی کرپشن کے اعداد و شمار نہیی کر سکتے نہ اس کے اس وقت کے ساتھیوں نہ اتحادیوں کی
کےتو بہتر سمجھا دھرنے کے لوگوں کی تعداد گنیں ان کو نواز شریف اور ان کے جھوٹ نظر نہیں آتے جس کا اعتراف نواز شریف نے الیکشن کے اگلے روز کیا کے وہ تو میں نے جھوٹ بولا تھا لوگو اگر تم نے یقین کیا ہماری باتوں پر تو تمہارا قصور تھا ہم اور بھی جھوٹ بولیں گے
ویسے یہ تو سچ ہی تھا
..
 

Back
Top