
عمران خان کا خاتون جج کو دھمکی آمیز بیان براہ راست توہین عدالت ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ نے خاتون جج کے خلاف بیان پر توہین عدالت کیس کی سماعت کا تحریری حکم نامہ جاری کردیا،چیئرمین پیمرا سے عمران خان کی ایف نائن پارک میں تقریر کا ٹرانسکرپٹ طلب کرلیا، اٹارنی جنرل کو معاونت کے لیے نوٹس جاری کیا گیا۔
تحریری حکم نامے میں کہا گیا کہ عمران خان کا بیان عدلیہ پر عوام کا اعتماد ختم کرنے کی کوشش ہے،براہ راست توہین عدالت کے زمرے میں آتا ہے، بادی النظر میں عمران خان کا جج سے متعلق توہین آمیز بیان انصاف کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش ہے۔عمران خان کا جج کو دھمکی دینےکا مقصد عوام کی نظر میں عدلیہ کے وقار اورساکھ کو مجروح کرنا ہے۔
حکم نامے میں کہا گیا کہ عمران خان 31 اگست کو پیش ہو کر بتائیں کہ ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کیوں نا کی جائے؟متعلقہ تھانے کا ایس ایچ او عمران خان کو نوٹس کی تعمیل کرائے،عدالت نے اٹارنی جنرل اور چیئرمین پیمرا کو بھی نوٹس جاری کر دیئے۔
اس سے قبل دوران سماعت جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے تھے کہ یہ صرف ماتحت عدلیہ کی ایک جج نہیں، پوری جوڈیشری کا معاملہ ہے، وزیراعظم رہنے والے لیڈر سے اس طرح کے بیان کی توقع نہیں کی جاسکتی، عام آدمی کو کس طرف لے جارہے ہیں، کہ وہ اٹھے اور اپنا انصاف خود شروع کردے۔
20 اگست کو پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے شہباز گل پر مبینہ تشدد کے خلاف آئی جی اور ڈی آئی جی اسلام آباد پرکیس کرنےکا اعلان کیا تھا اور دوران خطاب عمران خان نے شہباز گل کا ریمانڈ دینے والی خاتون جج زیبا چوہدری کو نام لےکر دھمکی بھی دی تھی۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ آئی جی، ڈی آئی جی اسلام آباد ہم تم کو نہیں چھوڑیں گے، تم پر کیس کریں گے اور مجسٹریٹ زیبا چوہدری آپ کو بھی ہم نے نہیں چھوڑنا، کیس کرنا ہے تم پر بھی، مجسٹریٹ کو پتہ تھا کہ شہباز پر تشدد ہوا پھر بھی ریمانڈ دے دیا۔