
رواں سال کے آغاز میں ایم کیو ایم نے بھی سابق آرمی چیف جنرل (ر) باجوہ سے رابطہ کیا تھا اور ان سے یہ رہنمائی چاہی تھی کہ سابق وزیراعظم عمران خان کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کیے جانے کی صورت میں پارٹی کو سیاسی لحاظ سے کس کا انتخاب کرنا ہے۔
صحافی انصار عباسی کا دعویٰ ہے کہ فروغ نسیم نے جنرل باجوہ سے رابطہ کرکے ان سے رہنمائی طلب کی تھی لیکن انہوں نے جواب دیا کہ اس بات کا فیصلہ آپ خود کریں کہ ایم کیو ایم اور اس کی سیاست کو کیا موزوں لگتا ہے۔
حال ہی میں ق لیگ کے رہنما اور وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی اور ا نکے بیٹے مونس الٰہی نے کہا تھا کہ انہوں نے سابق آرمی چیف سے عمران خان کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک کے معاملے پر رابطہ کیا تھا اور انہیں بتایا گیا کہ عمران خان اور پی ٹی آئی کا ساتھ دیں۔
سابق آرمی چیف کی جانب سے ق لیگ کی سینئر قیادت کی جانب سے کیے گئے دعوے کے بارے میں کوئی تردید جاری نہیں کی گئی حالانکہ ان کے کچھ قریبی ذر نے مونس الٰہی نے ہونے والی بات کو سیاق و سباق سے ہٹ کر کی گئی تشریح قرار دیا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ عمران خان نے بھی حالیہ مہینوں کے دوران متعدد مرتبہ کہا ہے کہ انہوں نے سابق آرمی چیف سے کہا تھا کہ اپوزیشن کی عدم اعتماد کی تحریک سے ان کی حکومت کو بچایا جائے۔ ق لیگ کے رہنماؤں کے دعوے کے حوالے سے خان نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا تھا کہ ق لیگ کے پرویز الٰہی کے دھڑے کو کہا گیا ہوگا کہ پی ٹی آئی کا ساتھ دیں جبکہ وہ سمجھتے ہیں کہ چوہدری شجاعت کی زیر قیادت دوسرے دھڑے سے کہا گیا ہوگا کہ مخالفین کا ساتھ دیں۔
چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے جنرل باجوہ پر ڈبل گیم کا الزام عائد کیا لیکن پرویز الٰہی کا اصرار ہے کہ سابق چیف نے ڈبل گیم نہیں کھیلی۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے کہا کہ باجوہ نے کبھی چوہدری شجاعت سے اُن دنوں میں رابطہ نہیں کیا تھا۔
بعد میں ایک ٹی وی ٹاک شو میں چوہدری شجاعت نے بھی تصدیق کی کہ ان سے جنرل (ر) باجوہ نے اُن دنوں میں کبھی رابطہ نہیں کیا۔
Last edited by a moderator: