عبداللہ ابن سبا کون تھا ؟

منتظر

Minister (2k+ posts)
تاریخ کےمطابق عبداللہ ابن سباء تقریبا 35 یا 36 ھجری قمری کےزمانےمیں تھا

اگر اس تاریخ کو دیکھاجائے تو طبری خود 310 ھجری میں فوت ھورہاھے
اور طبری نےاپنی تاریخ اپنی تفسیرلکھنےکےبعد لکھی جس کا وقت یاقوت حموی کےنذدیک 303 ھجری قمری تھا(معجم الادباءجلد 18 صفحہ 44 چاپ بیروت)

تو طبری اور ابن سباء کےزمانےمیں تقریبا 250 سے270 سال تک کا فاصلہ ھے
تولازمی ھےکہ طبری نےخود ابن سباء کو نہیں دیکھا بلکہ کسی سےاس واقعےکو نقل کیا
اور جس سےطبری نےاس واقعہ کو نقل کیا اس شخص کا نام ھے سیف بن عمر
اور سیف بن عمر کی وفات 170 قمری ھجری کوھوئی
یعنی طبری کےزمانےسےپھلےسیف بن عمر مرچکاتھا
جس سےطبری نے ابن سباء کی روایات کو نقل کیا
اب یہ بھی دیکھتےھیں کہ ابن سباء کی روایت کو نقل کرنےوالا راوی سیف بن عمر ضعیف تھا یا ثقہ تھا
یعنی اس کی روایت پر علماء اہلسنت اعتمادکرتےھیں یا نہیں؟

ابونعیم سیف بن عمر کا نام ضعفاء نامی کتاب میں لکھتاھے اور کہتاھے
یہ ضعیف ھے دین بھی اس کا صحیح نہیں زندیق وغیرہ ساقط الحدیث ھے
اور اس کی حدیث کی کوئی حیثیت نہیں​
کتاب الضعفاء ج 1 ص 91


یہ کتاب کا لنک ھے آن لائن جس نےپڑھنی ھو پڑھ سکتاھے
http://lib.efatwa.ir/40231/1/91/عمر_بن_سیف
نیز مختصر کروں کہ اہلسنت علماء کےنذدیک سیف بن عمر کی روایت پر قطعا اعتماد نہیں کیاجاتا

تو ایک ضعیف راوی کی بناء پر آپ قرآن سےثابت شدہ عقیدہ امامت پر کیسے اعتراض کرسکتےھیں؟

 

منتظر

Minister (2k+ posts)
عبداللہ ابن سبا کے متعلق شیعہ روایات


: عثمان کے قاتل "اہل تشیع" یا پھر "طلحہ/ زبیر/عائشہ"؟
ناصبی حضرات عبداللہ ابن سبا کے وجود اور اُس کے کردار کو ثابت کرنے کے لیے جن شیعہ روایات کو توڑ مڑوڑ کر پیش کرتے ہیں، اس کا کچھ تعارف ہم نے آپ کو حصہ اول میں کرا دیا ہے۔ مگر بہتر معلوم ہوتا ہے کہ یہاں پھر تفصیل سے ان روایات پر نظر ڈالیں تاکہ ناصبی حضرات کے اعتراضات اور مکر و فریب کا پردہ صحیح طریقے سے چاک ہو جائے۔ انشاء اللہ۔
جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا تھا، عبداللہ ابن سبا کے متعلق شیعہ روایات دو طرح کی ہیں۔

وہ روایات، جو بغیر کسی اسناد کے نقل ہوئی ہیں۔

وہ روایات جو کہ سلسلہ اسناد کے ساتھ نقل ہوئی ہیں (اور ایسا کرنے والا صرف ایک شیعہ مؤرخ ابن الکشی ہے)

بلا سلسلہ اسناد والی روایات کا تجزیہ

سب سے پہلے ہم اُن شیعہ روایات کا مطالعہ کرتے ہیں جو بغیر کسی سلسلہ اسناد کے نقل ہوئی ہیں اور النوبختی یا علامہ حلی نے صرف وہی کچھ بیان کیا ہے جس کا لوگوں میں عام چرچا ہو گیا تھا۔

پہلی روایت: ابو محمد الحسن بن موسیٰ النوبختی

عبداللہ ابن سبا ابو بکر، عمر اور عثمان کو بُرا بھلا کہا کرتا تھا اور صحابہ نے اُس سے بیزاری اختیار کر لی تھی۔ وہ کہا کرتا تھا کہ یہ علی (ابن ابی طالب ؑ) ہیں جس نے اُس کو ایسا کرنے کو کہا ہے۔ علی ؑ نے اُس کو گرفتار کر لیا، اور جب پوچھ گچھ کرنے پر اُس نے اس بات کا اقرار کیا تو علی نے اس کے قتل کا حکم جاری کیا۔اس پر لوگوں نے چیخنا شروع کر دیا: "یا امیر المومنین! کیا آپ اُس شخص کو قتل کروا رہے ہیں جو لوگوں کو آپ، اہلبیت اور آپکی بیعت و محبت کی طرف بلا رہا ہے اور آپ کے دشمنوں سے بیزار کر رہا ہے؟"
اس پر علی نے اُس کو مدائن کی طرف شہر بدر کر دیا۔
علی کے کچھ باعلم اصحاب بیان کرتے ہیں کہ عبداللہ ابن سبا ایک یہودی تھا جس نے اسلام قبول کر لیا تھا اور علی کے حمایتیوں میں سے تھا۔ اور جب وہ یہودی تھا، اُسوقت اُس کی رائے تھی کہ یوشع بن نون کا مرتبہ موسیٰ ؑ کے بعد سب سے بڑا ہے۔ اور اسلام قبول کر لینے کے بعد اور رسول (ص) کی وفات کے بعد، اُس نے اسی چیز کا دعویٰ علی ؑ کے لیے کیا۔ وہ وہ پہلا شخص تھا جس نے کھلے عام علی کی امامت کا دعویٰ کیا، اور اُس کے دشمنوں سے بیزاری اختیار کی اور اُن کے مخالفین سے بحثیں کیں۔۔۔ جب عبداللہ ابن سبا کو علی ؑ کی شہادت کی خبر ملی تو وہ اُس وقت شہربدری کی حالت میں مدائن میں تھا، اُس نے اس خبر کو پہنچانے والے سے کہا: "تم جھوٹ بول رہے ہو، اور اگر تم علی (ؑ) کا سر ستر بوریوں میں بھر کر بھی لا دو، اور ستر آدمی گواہی دینے کے لیے لے آؤ کہ علی مر گئے ہیں تو بھی ہم یہی کہیں گے کہ علی (ؑ) مرے نہیں ہیں اور نہ ہی قتل ہوئے ہیں۔ اور وہ (علی ؑ) اُس وقت تک نہیں مریں گے جبتک کی وہ دنیا پر حکمرانی نہ کر لیں۔
حوالہ: الفراق الشیعہ، نوبختی، صفحہ 43

یہ ناصبی حضرات کی سب سے زیادہ پسندیدہ روایت ہے۔ اس کی دو بڑی وجوہات ہیں:

پہلی یہ کہ یہ واحد شیعہ روایت ہے جس میں بیان کیا گیا ہے کہ مولا علی ؑ نے عبداللہ ابن سبا کو آگ میں نہیں جلوایا تھا، بلکہ مدائن کی طرف شہر بدر کر دیا تھا۔

اور دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ واحد شیعہ روایت ہے جس میں بیان کیا گیا ہے کہ عبداللہ ابن عمر نے مولا علی ؑ کی "خدائی" کا دعویٰ نہیں کیا تھا، بلکہ "ولایت" کا دعویٰ کیا تھا۔

ان دو نقاط کی ناصبی حضرات کے لیے جو اہمیت ہے، وہ ہم انشاء اللہ آگے تفصیل سے عرض کریں گے۔ فی الحال ہم ناصبی حضرات سے اس روایت کے حوالے سے، ذیل کے تین سوالات پوچھنا چاہتے ہیں۔

ناصبی حضرات کو پھر سے سب سے پہلا چیلنج تو یہ ہے کہ وہ ہمیں اس روایت کا سلسلہ اسناد دکھائیں۔
النوبختی (متوفی سن 310 ہجری) نے اپنی یہ کتاب سیف ابن عمر کذاب کے بہت بعد میں لکھی (جو کہ سن 160 میں فوت ہوا تھا)۔ اس وقت تک سیف ابن عمر کذاب کی اس دیومالائی کہانی کو پروپیگنڈہ کر کے اتنا پھیلا دیا گیا تھا اور یہ عوام میں اسقدر مقبول ہو چکی تھی کہ کوئی بھی اس قابل نہ تھا کہ اس دیومالائی کہانی کا آغاز تلاش کر کے حقیقت سمجھ سکے۔

ناصبی حضرات سے ہمارا دوسرا سوال یہ ہے کہ وہ “اتقان” اور “درِ منثور” کی کئی سو روایات (جو تحریفِ قران کو ثابت کرتی ہیں) کو صرف اس بنیاد پر ٹھکراتے ہیں کہ ان کا سلسلہ اسناد نہیں دیا گیا ہے۔
مگر کیا وجہ ہے کہ جب شیعہ حضرات کی باری آتی ہے تو اُن کے لیے ہر حربہ حلال ہو جاتا ہے؟؟؟؟

اس روایت کے حوالے سے اب دو ہی صورتیں ممکن ہیں۔ یا تو یہ روایت درست ہو گی، یا پھر گھڑی ہوئی۔ ناصبی حضرات کا دعویٰ ہے کہ یہ روایت سلسلہ اسناد نہ ہونے کے باوجود درست ہے اور حقیقت میں ایسا ہی ہوا تھا۔
تو ناصبی حضرات روایت کے اس حصہ کو دیکھیں:

“اس پر لوگوں نے چیخنا شروع کر دیا: "یا امیر المومنین! کیا آپ اُس شخص کو قتل کروا رہے ہیں جو لوگوں کو آپ، اہلبیت اور آپکی بیعت و محبت کی طرف بلا رہا ہے اور آپ کے دشمنوں سے بیزار کر رہا ہے؟"

کیا ناصبی حضرات ہمیں بتائیں گے کہ یہ "لوگ" کون تھے جنہوں نے اس بات پر چیخنا شروع کر دیا تھا؟ کیا یہ سنی تھے؟ اگر سنی تھے تو پھر ابو بکر، عمر و عثمان کو امیر المؤمنین ؑ کا دشمن کیوں کہہ رہے ہیں؟ یا پھر یہ لوگ شیعہ تھے؟ اگر شیعہ تھے تو بات ہی ختم ہو جاتی ہے اور پتا چل جاتا ہے کہ بلا شبہ شیعہ فرقہ کا وجود عبداللہ ابن سبا سے بہت قبل موجود تھا اور امیر المؤمنین علی ابن ابی طالب ؑ انہی کو اپنا سچا پیروکار، حامی و ناصر اور دینِ حق پر مانتے تھے۔

ہمارا تیسرا سوال یہی ہے کہ آپ ہمیں بتائیں کہ ان لوگوں کی آئیڈینٹیٹی کیا ہے؟

ان تین سوالات کے علاوہ بھی اس روایت پر ہمارے مزید اعتراضات ہیں، جو کہ بعد میں آ رہے ہیں۔

[نوٹ: اسی روایت کا ایک حصہ یہ ہے:

علی کے کچھ باعلم اصحاب بیان کرتے ہیں کہ عبداللہ ابن سبا ایک یہودی تھا جس نے اسلام قبول کر لیا تھا

اس حصہ کو نقل کر کے ناصبی حضرات یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ یہ سلسلہ اسناد ہے۔

تو ناصبی حضرات کی خدمت میں عرض ہے کہ یہ سلسلہ اسناد نہیں ہے۔ آخر ناصبی حضرات یہ خواب کیوں دیکھ رہے کہ النوبختی نے مولا علی ؑ کے ان "باعلم" اصحاب سے براہِ راست یہ بات سن لی ہے؟

کیا آپ نہیں جانتے کہ کہ سیف ابن عمر کذاب نے یہ تمام جھوٹ اُن اصحابِ رسول اور اصحابِ علی کے نام سے گھڑے تھے جو کہ مدینہ اور کوفہ و بصرہ اور مصر میں موجود تھے، تاکہ وہ اپنی روایات میں کچھ اہمیت پیدا کر سکے۔

واللہ! جب بات آتی ہے ناصبی روایات کی تو یہ لوگ گلا پھاڑ کر چلا رہے ہوتے ہیں۔۔ ضعیف حدیث۔۔۔کمزور حافظہ۔۔۔ شیعہ۔۔۔تدلیس ۔۔۔ مرفوع ۔۔۔وغیرہ وغیرہ۔ لیکن جب بات آتی ہے اہلِ تشیع کی۔۔۔۔ تو پھر یہی لوگ "سیف ابن عمر زندہ باد" کے نعرے لگا رہے ہوتے ہیں۔

منافقت؟؟؟

دوسری روایت: الحسن بن الحلی

یہ دوسری روایت بھی بغیر کسی اسناد کے ہے۔
عبداللہ ابن سبا ملحد ہو گیا تھا اور غلو کرنے لگا تھا۔ اُس نے اپنے لیے نبوت کا دعویٰ کیا تھا اور علی (ؑ) کو خدا کہنا شروع کر دیا تھا۔ اس پر علی (ؑ) نے تین دن تک اس کو مہلت دی کہ وہ توبہ کر لے، مگر اُس نے توبہ نہیں کی۔ اس پر علی ؑ نے اُسے زندہ آگ میں جلوا دیا اور اُس کے ہمراہ ستر مزید لوگوں کو بھی (آگ میں جلوا دیا)، جو کہ علی (ؑ) کی خدائی کا دعویٰ کر رہے تھے۔
حوالہ: کتاب الرجال الحلی، صفحۃ 469، طبع ایران۔
اس روایت کے متعلق نوٹ کریں، اور ذہن میں رکھیں:

پہلی بات یہ کہ اس میں سیف ابن عمر کذاب کے برعکس یہ بیان ہے کہ عبداللہ ابن عمر نے مولا علی ؑ کے لیے "ولایت" کا نہیں، بلکہ "خدائی" کا دعویٰ کیا تھا۔

دوسری بات یہ کہ اس میں سیف ابن عمر کذاب کے برخلاف یہ بیان ہے کہ مولا علی ؑ نے عبداللہ ابن سبا کو مدائن کی دوسری بات یہ کہ اس میں سیف ابن عمر کذاب کے برخلاف یہ بیان ہے کہ مولا علی ؑ نے عبداللہ ابن سبا کو مدائن کی طرف شہر بدر نہیں کیا، بلکہ “آگ میں زندہ جلوا دیا تھا۔”

ان دو روایات کے بعد، آئیے اب چلتے ہیں اُن شیعہ روایات پر، جو کہ سلسلہ اسناد کے ساتھ نقل ہوئی ہیں۔

تیسری روایت: ابو عمرو بن عبدالعزیز الکشی

شیعہ علماء میں صرف ایک الکشی ایسے گذرے ہیں جنہوں نے عبداللہ ابن عمر کے متعلق دونوں طرح کی روایات نقل کیں ہیں (یعنی کچھ روایات سلسلہ اسناد کے بغیر ہیں، اور کچھ سلسلہ اسناد کے ساتھ)۔ مگر یہ سلسلہ اسناد کے ساتھ نقل ہونے والی روایات بھی رجال کے معیار پر صحیح ثابت نہیں ہوتیں۔ (رواۃ کی تفصیل کے لیے علامہ العسکری کی کتاب کا مطالعہ کریں)۔ سلسلہ رواۃ کے بغیر جو پہلی روایت الکشی نے نقل کی ہے، وہ وہی "باعلم اصحاب" والی روایت ہے جو نوبختی نے "الفراق الشیعہ" میں نقل کی ہے۔ اور اس روایت کے متعلق ہم تفصیل سے اپنے سوالات پیش کر چکے ہیں۔

اس سے اگلی روایت سلسلہ اسناد کے ساتھ نقل ہوئی ہے، اور وہ یہ ہے:

3. ۔حدثنی محمد بن قولیہ القمی، قال حدثنی سعد بن عبداللہ ابن ابی خلف القمی، قال حدثنی محمد بن عثمان العبدی، عن یونس بن عبد الرحمن، عن عبداللہ بن سنان، قال حدثنی ابی، عن ابی جعفر (ع) ان عبد اللہ بن سبا کان یدعی النبوۃ و یزعم ان امیر المؤمنین (ع) ھو اللہ (تعالی عن ذلک) فبلغ ذلک امیر المؤمنین (ع) فدعاہ وسألہ ۔۔۔ و قال لعم انت حو و قد کان القی فی روعی انک انت اللہ و انی نبی۔ فقال لۃ امیر المؤمنین و یلک قد سخر منک الشیطان فارجع عن ھذا تکلتک امنک و تب! فابی فجسہ و استابہ ثلائۃ ایام فلم یتب، فاحرقۃ بالنار و قال ان الشیطان استھواء فکان یاتیہ و یلقی فی روعہ ذلک

محمد بن قولیہ القمی نے سعد بن عبد اللہ سے، انہوں نے محمد بن عثمان سے، انہوں نے یونس بن عبد الرحمن سے، انہوں نے عبداللہ ابن سنان سے، انہوں نے کہا کہ میرے باپ نے (امام) ابو جعفر (ؑ) سے روایت کیا ہے:
عبداللہ ابن سبا نے اپنے لیے نبوت کا دعویٰ کیا اور امیر المؤمنین (علی ؑ) کے لیے خدائی کا دعویٰ کیا۔ جب امیر المؤمنین ؑ کو نے یہ سنا تو آپ نے اسے بلایا اور پوچھا۔ اُس نے اس بات کو تسلیم کیا اور کہا: "ہاں! بے شک تم خدا ہو، مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ تم خدا ہو اور میں نبی ہوں۔"
اس پر امیر المؤمنین (ؑ) نے اُس سے کہا: "وائے ہو تم پر، شیطان نے تمہیں استعمال کیا ہے، تم اس سے باز آ جاؤ۔ تمہاری ماں تمہیں روئے، تم توبہ کرو۔" مگر جب اُس نے اِس بات سے توبہ کرنے سے انکار کر دیا تو علی (ؑ) اُسے آگ میں جلوا دیا اور کہا: "شیطان نے اس کے دماغ میں یہ باتیں ڈال کر اسے بہکایا ہے۔"

اور اس روایت سے اگلی روایت یہ ہے:

4. ۔ حدثنی محمد بن قولویہ، قال حدثنی سعد بن عبد اللہ، قال حدثنا یعقوب بن یزید و محمد بن عیسی، عن ابن ابی عمیر، عن ھشام بن سالم، قال سمت ابا عبد اللہ (ع)یقول و ھو یحدث اصحابہ یحدیث عبداللہ بن سبا وما ادعی من الربویتہ فی امیر المومنین علی بن ابی طالب، فقال انہ ادعی ذلک فیہ استتابہ امیر المومنین (ع) فابی ان یتوب فاحرقہ بالنار۔

محمد بن قولیہ القمی نے سعد بن عبداللہ سے روایت کی ہے، انہوں نے یعقوب بن یزید اور محمد بن عیسیٰ سے، انہوں نے ابن ابی عمیر سے، انہوں نے ہشام بن سلیم سے، جنہوں نے کہا کہ انھوں نے (امام) ابو عبداللہ (ؑ) کو فرماتے سنا ہے کہ جب وہ عبد اللہابن سبا کا تذکرہ کر رہے تھے اور اُس کے اس دعویٰ کا کہ (نعوذ باللہ)امیر المؤمنین علی ابن ابی طالب (ؑ) خدا ہیں۔ جب اُس نے یہ دعویٰ کیا تو امیر المؤمنین (ؑ) نے اُسے توبہ کرنے کا حکم دیا مگر اُس نے اِس سے انکار کر دیا۔ اس پر انہوں نے اُسے آگ میں جلوا دیا۔
ان دونوں روایات سے بھی سیف ابن عمر کذاب کے برعکس یہی پتا چل رہا ہے:

عبداللہ ابن سبا نے مولا علی ؑ کی “ولایت” کا نہیں، بلکہ “خدائی” کا دعویٰ کیا تھا۔

اور مولا علی ؑ نے اُس کو مدائن کی طرف شہر بدر نہیں، بلکہ ملحد ہونے پر “آگ میں زندہ جلوا دیا تھا۔”

اس سے اگلی روایت یہ ہے:

5. محمد بن قولویہ نے روایت کیا ہے سعد بن عبد اللہ سے، انہوں نے یعقوب بن یزید سے، انہوں نے محمد بن عیسی سے، انہوں نے علی سے، انہوں نے ابن ایوب سے، انہوں نے ابان بن عثمان سے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے سنا ہے امام ابو عبداللہ (ؑ) سے:
ترجمہ:
"اللہ لعنت کرے عبداللہ ابن سبا پر جس نے امیر المومنین علی ابن ابی طالب ؑ کی خدائی کا دعویٰ کیا تھا۔ خدا کی قسم! امیر المومنین (علی ؑ) تو اللہ کے بندے تھے۔ وائے ہو اُس پر کہ جو ہم پر جھوٹ باندھتا ہے، کیونکہ ایسے لوگ ہیں جو ہمارے متعلق وہ باتیں کہتے ہیں جو ہم نے نہیں کہی ہیں۔ اور ہم اپنے آپ کو ان باتوں سے الگ کرتے ہیں۔"
اس روایت سے بھی یہی پتا چلتا ہے کہ سیف ابن عمر کذاب کے برعکس عبداللہ ابن کذاب نے مولا علی ؑ کی “ولایت” کا نہیں، بلکہ “خدائی” کا دعویٰ کیا تھا۔ دوسری بات یہ کہ نہ اس میں شہر مدائن کی طرف ملک بدر کرنے کی بات ہے، اور نہ آگ میں جلوا دینے کی۔

اس سے اگلی روایت یہ ہے:

6. ۔ یعقوب بن یزید نے ابن ابی عمیر سے اور احمد بن محمد بن عیسیٰ سے، انہوں نے اپنے والد سے اور الحسین بن سعید سے، انہوں نے ہشام بن سلیم سے، انہوں نے ابو حمزہ الثمالی سے، وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے سنا امام علی ابن الحسین (ؑ)سے:

"اللہ ان پر لعنت کرے جو ہم پر جھوٹ باندھتے ہیں۔ میں نے عبد اللہ ابن سبا کا ذکر کیا اور میرے تن کے روئیں کھڑے ہو گئے۔ اللہ اُس پر لعنت کرے۔ باخدا! علی تو بس اللہ کے بندے تھے اور رسول کے بھائی تھے۔
اس روایت سے بھی سیف ابن عمر کذاب کے بیان کے برخلاف یہ ثابت ہو رہا ہے کہ عبداللہ ابن سبا نے مولا علی ؑ کی “ولایت” کا نہیں، بلکہ “خدائی” کا دعویٰ کیا تھا۔

اس سے اگلی روایت یہ ہے کہ:

7. ۔ محمد بن خالد نے ابن ابی نجران سے، انہوں نے عبداللہ بن سنان سے، انہوں نے امام ابو عبداللہ (ؑ) سے سنا:
"ہم سچوں کے خاندان سے ہیں، مگر ہم اس بات سے محفوظ نہیں ہیں کہ جھوٹے لوگ ہمارے اوپر جھوٹ باندھیں اور جھوٹ بول کر ہمیں لوگوں میں نیچا کریں۔ رسول اللہ (ص) لوگوں میں سب سے صادق تھے اور مسیلمہ نے اُن پر جھوٹ باندھا کرتا تھا۔ اور امیر المومنین (علی ؑ) اللہ کی مخلوقات میں رسول (ص) کی بعد سب سے صادق ہیں، اور وہ جو اُن پر جھوٹ باندھا کرتا تھا تاکہ لوگوں میں اُن کی صداقت کو نیچا کرے، وہ عبداللہ ابن سبا تھا۔"
اس روایت میں بھی سیف کذاب کے دعویٰ کے برعکس یہی ذکر ہے کہ عبداللہ ابن سبا نے مولا علی ؑ کی “ولایت” کا نہیں، بلکہ 'خدائی' کا دعویٰ کیا تھا۔
ان ساری روایات کا اگر نتیجہ نکالیں تو وہ ایسے نکل رہا ہے کہ:

صرف اور صرف النوبختی کی بغیر سند والی روایت وہ واحد روایت ہے جو پہلا دعویٰ یہ کرتی ہے کہ عبداللہ ابن سبا نے علی ؑ کی “ولایت کا دعویٰ کیا تھا۔ اور دوسرا یہ کہ انہوں نے اُسے شہر مدائن کی طرف ملک بدر کیا۔

النوبختی کی اس واحد (بلا اسناد والی) روایت کے مقابلے میں ہمارے پاس الکشی کی 6 روایات ایسی ہیں جن کا سلسلہ اسناد دیا گیا ہے، اور پہلی بات وہ یہ کہہ رہی ہیں کہ عبداللہ ابن سبا نے “ولایت” کا نہیں، بلکہ علیؑ کی 'خدائی' کا دعویٰ کیا تھا۔
اور دوسری سب سے اہم بات، النوبختی کی واحد (بلا اسناد) والی روایت کے مقابلے میں علامہ حلی کی (بلا سند والی) روایت، اور الکشی کی (اسناد والی)دو روایات اس بات کا دعویٰ کر رہی ہیں کہ مولا علی ؑ نے اُس کو شہر بدر نہیں، بلکہ زندہ آگ میں جلوا دیا تھا۔

پس، پہلی بات جو ثابت ہوئی وہ یہ ہے کہ سیف ابن عمر کذاب نے یہ کوشش کی کہ اہلِ تشیع حضرات کو عبداللہ ابن سبا کا پیروکار ثابت کرنے کے لیے اس کہانی کو جنم دے کہ وہ علی کی 'خدائی' کا نہیں، بلکہ 'ولایت' کا دعویٰ کرتا تھا۔ اور آج ناصبی حضرات بھی سیف ابن عمر کذاب کو اپنا امام و مرشد مان کر اس کی پیروی میں اس 'ولایت' والی کہانی کو پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جبکہ شیعہ حضرات عبداللہ ابن سبا کی 'خدائی' کے قول کے پیروکار نہیں ہیں، بلکہ وہ رسالتمآب (ص) کے اُس قول کے پیروکار ہیں جب آپ (ص) نے میدانِ خم میں ایک لاکھ سے زائد کے مجمع سے مخاطب ہو کر کہا تھا:

من کنت مولاہ فھذا علیا مولا
جس جس کا میں مولا، اُس اُس کا یہ علی مولا

اور دوسری بات یہ کہ النوبختی کی بغیر سند والی روایت سے کہیں زیادہ مستند شیعہ روایات یہی ثابت کر رہی ہیں کہ مولا علی ؑ نے عبداللہ ابن سبا کو شہر مدائن کی طرف ملک بدر نہیں کیا، بلکہ آگ میں زندہ جلا دیا تھا۔

اور یہی آگ میں جلانے والی بات ابن عساکر کی اسناد والی روایات میں ملتی ہے۔

مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ان روایات کو صحیح مان لیا جائے تو ناصبی حضرات پھر منافقت میں مبتلا نظر آتے ہیں۔

ناصبی حضرات کے فقہ میں کسی شخص کو بھی یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ سزا کے طور پر کسی دوسرے شخص کو (یا پھر حتی کی چیونٹی جیسے چھوٹے سے جانور کو) آگ میں جلا دے، کیونکہ آگ میں جلانے کا حق صرف اور صرف اللہ کو حاصل ہے۔
اس لیے اگر اب بھی ناصبی حضرات شیعہ روایات کی مدد سے عبداللہ ابن سبا کے وجود اور قتلِ عثمان میں کیے جانے والے کردار کو ثابت کرنا چاہتے ہیں، تو پہلے انہیں اپنے خلیفہ چہارم پر بدعتِ ضلالت کا فتویٰ لگانا ہو گا۔
(اور صرف خلیفہ چہارم پر ہی نہیں، بلکہ مدینہ کے اُن تمام ہزاروں صحابہ اور تابعین پر بھی بدعتِ ضلالت کا فتویٰ لگانا ہو گا جنہوں نے علی ابن ابی طالب کو آگ میں جلواتے ہوئے دیکھا اور خاموش کھڑے رہے۔
یہی مسئلہ ابن عساکر کی اسناد والی روایات کا بھی ہے۔
چنانچہ اب یہ ناصبی حضرات کی مرضی ہے کہ وہ الکشی اور ابن عساکر کی ان کمزور روایات کو صحیح ماننا چاہتے ہیں یا نہیں۔

ناصبی تابوت میں آخری کیل

پہلا سوال: اگر کوئی شخص مولا علی ؑ کو خدا کہے تو کیا وہ دائرہ اسلام میں رہ سکتا ہے؟

ناصبی جواب: نہیں، وہ مرتد ہے۔

دوسرا سوال: مرتد کی اسلام میں کیا سزا ہے۔

ناصبی جواب: مُرتد کی اسلام میں سزا قتل ہے۔

ہم نے ناصبی حضرات کے ایک منافقانہ فعل کا تذکرہ کیا تھا کہ وہ ابن عساکر اور الکشی کی اسناد والی روایات کو ٹھکرا دیتے ہیں، اور اس کے مقابلے میں اور زیادہ ضعیف روایات، جو کہ سیف ابن عمر کذاب یا بغیر کسی اسناد کے نقل ہوئی ہیں، انہیں بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔ اس کی وجہ بھی ہم نے بیان کی تھی کہ ابن عساکر اور الکشی کی اسناد والی روایات عبداللہ ابن سبا اور اُس کے ساتھیوں کو آگ میں جلوانے کی سزا تجویز کرتی ہیں، اور اگر ناصبی حضرات انہیں سچ مان کر پیش کریں تو پہلے انہیں اپنے خلیفہ چہارم اور دیگر صحابہ پر بدعتِ ضلالت کا فتویٰ لگانا پڑے گے۔

اس مصیبت سے نکلنے کے لیے، ناصبی حضرات نے مروجہ اصول کے خلاف سیف ابن عمر کذاب کی اور زیادہ ضعیف روایات کو قبول کر لیا ہے کیونکہ اُن روایات کے مطابق عبداللہ ابن سبا کو آگ میں نہیں جلوایا گیا تھا، بلکہ شہر مدائن کی طرف ملک بدر کر دیا گیا تھا۔

بالفرضِ محال چلیں ہم ناصبی حضرات کے اس منافقانہ دعوے کو مان لیتے ہیں۔ مگر اب ناصبی حضرات سے ہمارا سوال یہ ہے کہ آپ کے خلیفہ چہارم نے اُسے ملک بدر کیوں کیا؟ آخر مرتد کی سزا اسلام میں قتل ہے، ملک بدری نہیں۔ اب آپ اپنے خلیفہ چہارم کی اس بدعت (یعنی قتل کی جگہ ملک بدری) پر کیا فتویٰ دیتے ہیں؟

نوٹ: اور سوال یہ بھی ہے کہ یہ ایک "اجتماعی بدعت" ہے جس میں صرف آپ کا خلیفہ چہارم ہی نہیں بلکہ مدینہ کے ہزاروں صحابہ اور تابعین بھی شامل ہیں۔

تو اب کہاں ہے ناصبی فتویٰ اس اجتماعی بدعت کا ارتکاب کرنے والوں پر؟؟؟

بلا شبہ ناصبی حضرات منافقت کے اتنے گہرے گڑھوں میں پڑے ہوئے ہیں کہ جہاں سے اللہ ہی انہیں نکالے تو نکالے ورنہ کوئی اور انہیں راہِ ہدایت نہیں دکھا سکتا اور نہ ہی انہوں نے اپنے آپ کو اس قابل بنا رکھا ہے کہ ہدایت حاصل کر سکیں۔

 

such bolo

Chief Minister (5k+ posts)
شیعہ عبداللہ بن سبا کے وجود کے قائل ہیں اسی طرح جس طرح اہل سنہ

ملا مجلسی بحار الانوار میں لکہتا ہے
علامہ مجلسی لکھتے ہیں


وذكر بعض أهل العلم أن عبد الله بن سبا كان يهوديا فأسلم ووالى عليا عليه السلام وكان يقول وهو على يهوديته في يوشع بن نون وصي موسى بالغلو فقال في إسلامه بعد وفاة رسول الله صلى الله عليه وآله في علي عليه السلام مثل ذلك. وكان أول من أشهر بالقول بفرض إمامة علي عليه السلام وأظهر البراءة من أعدائه وكاشف مخالفيه وأكفرهم

بعض اہل علم نے ذکر کیا ہے کہ عبداللہ ابن سبا یہودی تھا اسلام لے آیا اور پھر حضرت علی کی ولایت کا قائل ہوا۔ اس پہلے جب یہ یہودی تھا تو حضرت یوشع کے بارے میں غلو کرتا تھا کہ وہ موسی کے وصی ہیں۔ اسلام لانے کے بعد اس قسم کی بات حضرت علی کے بارے میں کی۔ یہ سب سے پہلا شخص ہے جس نے حضرت علی کی امامت کا قائل ہونا فرض ہے اور ان کی دشمنوں پر اعلانیہ تبرا کیا۔اور مخالفوں کو کافر کہا

ہ(بحارالنوار صفحہ 287 جلد 25)۔ہ

عبداللہ بن سبا سے پہلے کے لوگ تقیہ سے کام لیتے تھے اور ان امور کو (وصایت ، امامت ، افضلیت علی رضہ ) کو اعلانیہ نہیں کہتے تھے لیکن اس نے تقیہ چھوڑ دیا اور ان باتوں کو اعلانیہ ذکر کرنا شروع کر دیا۔ مخالفین امامت کو کافر کہنا بھی پہلے اس نے شروع کیا۔

ہ( بحار النوار ص 287 جلد 25 حاشیہ)۔ہ

حضرت صادق رح اس کے بارے میں
فرماتے ہیں


رجال الكشي: محمد بن قولويه عن سعد عن ابن يزيد ومحمد بن عيسى عن علي بن مهزيار عن فضالة بن أيوب الأزدي عن أبان بن عثمان قال: سمعت أبا عبد الله عليه السلام يقول: لعن الله عبد الله بن سبا إنه ادعى الربوبية في أمير المؤمنين،

عبداللہ بن سبا پر اللہ کی لعنت ہو اس نے امیر المومنین کے بارے میں ربوبیت کا دعوی کیا۔

ہ(بحارالانوار جلد 25 ص 287)۔ہ
 

منتظر

Minister (2k+ posts)
عبداللہ ابن سبا کون تھا ؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اسے زندہ کیوں جلوایا ؟ ان سوالات کے جوابات جانیے ڈاکٹر اسرار احمد رحمۃ اللہ علیہ کی زبانی
ڈاکٹر اسرار اور اس کے پیروکار کا ٹھکانا وہی ہے جدھر آل امیہ موجود ہے اس وقت اسرار جس عذاب میں مبتلا ہے اگر وہ تم کو پتہ لگ جے تو تماری کریہ صورت پر مزید کراہت آ جاے گی
 

منتظر

Minister (2k+ posts)
شیعہ عبداللہ بن سبا کے وجود کے قائل ہیں اسی طرح جس طرح اہل سنہ

ملا مجلسی بحار الانوار میں لکہتا ہے
علامہ مجلسی لکھتے ہیں


وذكر بعض أهل العلم أن عبد الله بن سبا كان يهوديا فأسلم ووالى عليا عليه السلام وكان يقول وهو على يهوديته في يوشع بن نون وصي موسى بالغلو فقال في إسلامه بعد وفاة رسول الله صلى الله عليه وآله في علي عليه السلام مثل ذلك. وكان أول من أشهر بالقول بفرض إمامة علي عليه السلام وأظهر البراءة من أعدائه وكاشف مخالفيه وأكفرهم

بعض اہل علم نے ذکر کیا ہے کہ عبداللہ ابن سبا یہودی تھا اسلام لے آیا اور پھر حضرت علی کی ولایت کا قائل ہوا۔ اس پہلے جب یہ یہودی تھا تو حضرت یوشع کے بارے میں غلو کرتا تھا کہ وہ موسی کے وصی ہیں۔ اسلام لانے کے بعد اس قسم کی بات حضرت علی کے بارے میں کی۔ یہ سب سے پہلا شخص ہے جس نے حضرت علی کی امامت کا قائل ہونا فرض ہے اور ان کی دشمنوں پر اعلانیہ تبرا کیا۔اور مخالفوں کو کافر کہا

ہ(بحارالنوار صفحہ 287 جلد 25)۔ہ

عبداللہ بن سبا سے پہلے کے لوگ تقیہ سے کام لیتے تھے اور ان امور کو (وصایت ، امامت ، افضلیت علی رضہ ) کو اعلانیہ نہیں کہتے تھے لیکن اس نے تقیہ چھوڑ دیا اور ان باتوں کو اعلانیہ ذکر کرنا شروع کر دیا۔ مخالفین امامت کو کافر کہنا بھی پہلے اس نے شروع کیا۔

ہ( بحار النوار ص 287 جلد 25 حاشیہ)۔ہ

حضرت صادق رح اس کے بارے میں
فرماتے ہیں


رجال الكشي: محمد بن قولويه عن سعد عن ابن يزيد ومحمد بن عيسى عن علي بن مهزيار عن فضالة بن أيوب الأزدي عن أبان بن عثمان قال: سمعت أبا عبد الله عليه السلام يقول: لعن الله عبد الله بن سبا إنه ادعى الربوبية في أمير المؤمنين،

عبداللہ بن سبا پر اللہ کی لعنت ہو اس نے امیر المومنین کے بارے میں ربوبیت کا دعوی کیا۔

ہ(بحارالانوار جلد 25 ص 287)۔ہ
مجھے یہ بتاؤ کے اس طرح عثمان کے قاتل ابن سبا اور اس کے پیروکار ٹھہرے ہیں اہلسنت کے نزدیک ؟
 

such bolo

Chief Minister (5k+ posts)
تاریخ کےمطابق عبداللہ ابن سباء تقریبا 35 یا 36 ھجری قمری کےزمانےمیں تھا

اگر اس تاریخ کو دیکھاجائے تو طبری خود 310 ھجری میں فوت ھورہاھے
اور طبری نےاپنی تاریخ اپنی تفسیرلکھنےکےبعد لکھی جس کا وقت یاقوت حموی کےنذدیک 303 ھجری قمری تھا(معجم الادباءجلد 18 صفحہ 44 چاپ بیروت)


تو طبری اور ابن سباء کےزمانےمیں تقریبا 250 سے270 سال تک کا فاصلہ ھے
تولازمی ھےکہ طبری نےخود ابن سباء کو نہیں دیکھا بلکہ کسی سےاس واقعےکو نقل کیا
اور جس سےطبری نےاس واقعہ کو نقل کیا اس شخص کا نام ھے سیف بن عمر
اور سیف بن عمر کی وفات 170 قمری ھجری کوھوئی
یعنی طبری کےزمانےسےپھلےسیف بن عمر مرچکاتھا
جس سےطبری نے ابن سباء کی روایات کو نقل کیا
اب یہ بھی دیکھتےھیں کہ ابن سباء کی روایت کو نقل کرنےوالا راوی سیف بن عمر ضعیف تھا یا ثقہ تھا
یعنی اس کی روایت پر علماء اہلسنت اعتمادکرتےھیں یا نہیں؟


ابونعیم سیف بن عمر کا نام ضعفاء نامی کتاب میں لکھتاھے اور کہتاھے
یہ ضعیف ھے دین بھی اس کا صحیح نہیں زندیق وغیرہ ساقط الحدیث ھے

اور اس کی حدیث کی کوئی حیثیت نہیں
کتاب الضعفاء ج 1 ص 91

یہ کتاب کا لنک ھے آن لائن جس نےپڑھنی ھو پڑھ سکتاھے
http://lib.efatwa.ir/40231/1/91/عمر_بن_سیف

نیز مختصر کروں کہ اہلسنت علماء کےنذدیک سیف بن عمر کی روایت پر قطعا اعتماد نہیں کیاجاتا

تو ایک ضعیف راوی کی بناء پر آپ قرآن سےثابت شدہ عقیدہ امامت پر کیسے اعتراض کرسکتےھیں؟



سیف بن عمر کے علاوہ بھی راویوں سے عبداللہ بن سبا سے متعلق روایات ہیں۔۔۔ملاحظہ ہوں

جاء في ( طوق الحمامة ) ليحيى بن حمزة الزبيدي عن سويد بن غفلة الجعفي الكوفي المتوفى عام (80هـ/699م) أنه دخل على علي-رضي الله عنه- في إمارته، فقال: إني مررت بنفر يذكرون أبا بكر و عمر بسوء، ويروون أنك تضمر لهما مثل ذلك، منهم عبد الله بن سبأ، فقال علي: مالي ولهذا الخبيث الأسود، ثم قال : معاذ الله أن أضمر لهما إلا الحسن الجميل، ثم أرسل إلى ابن سبأ فسيره إلى المدائن، ونهض إلى المنبر، حتى اجتمع الناس أثنى عليهما خيرا، ثم قال : إذا بلغني عن أحد أنه يفضلني عليهما جلدته حد المفتري –

ترجمہ: یحی بن حمزہ زبیدی سوید بن غفلہ ال جعفی سے روایت کرتا ہے کہ وہ علی رضہ کے پاس داخل ہوا اورا نہین کہا کہ میں کچھ لوگوں کے پاس سے گذرا جس میں عبداللہ بن سبا بھی تھا وہ ابی بکر رضہ و عمر رضہ کے بارے میں منفی باتیں کر رہے تھے اور کہ رہے تھے کہ آپ رضہ کے دل میں ان کے خلاف احساس پایا جاتا ہے تو آپ نے کہا کہ یہ خبیث کالا آدمی مجھ سے کیا چاہتا ہے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں ان کے خلاف دل میں بات رکہنے سے اور دونوں کے لئے ادب رکہتا ہوں اور آپ نے اس کو مدین کی طرف جلا وطن کردیا اور منبر پر تشریف لائے یہاں تک کہ لوگ جمع ہوگئے آپ نے ابی بکر رضہ و عمر رضہ کی تعریف کی اور کہا کہ اگر یہ بات مجھے پہنچی کہ مجھے ان دونوں پر فضلیت دی جاتی ہے تو میں اس کو کوڑے لگائوں گا جیسے وہ جھوٹوں کو لگاتے تھے۔

حقیقت میں یہ روایت مختلف سندوں سے بیان کی گئی ہے جو کہ صحیح ہیں جیسے
ابو اسحاق الفرازی سیرہ میں یہ روایت نقل کرتے ہیں شعبہ سے وہ سلمہ بن کھیل سے وہ ابو الزراہ سے وہ زید بن ھباب سے ۔ خطیب نے اس روایت کی تخریج الکفایہ ص 376 پر کی ہے اور کہا ہے کہ ابو عبداللہ البوشانجی نے اسے صحیح کہاہے ، ابو نصر محمد بن عبداللہ الامام نے اپنی شرح میں کہا ہے یہ روایت دوسری سندوں سے بھی ثبت ہے اور اس کا اخری حصہ ابو بکر رضہ اور عمر رضہ امت کے میں سب سے بہترین ہیں جو کہ خود علی رضہ نے کہا ہے یہ متواتر ہے۔


أخرج ابن عساكر عن زيد بن وهب الجهني الكوفي المتوفى عام (90هـ/709م) قال: (قال علي بن أبي طالب: مالي ولهذا الخبيث الأسود-يعني عبد الله بن سبأ- و كان يقع في أبي بكر و عمر

ابن عساكر، مختصر تاريخ دمشق، مرجع سابق، م 12، ص 222

زید بن وہب کہتے ہیں کہ علی ابن ابی طالب نے کہا کہ مجھے اس کالے خبیث کے ساتھ کیا کرنا چاہئے ان کا مطلب عبداللہ بن سبا تھا جو کہ ابی بکر و عمر کی برائی کرتا تھا۔

یہ روایت تاریخ ابن ابی خثیمہ میں بھی پائی جاتی ہے صحیح سند کے ساتھ

روایتیں اور بھی ہیں مگر غلط بیانی ظاہر کرنے کے لئے دو ہی کافی ہیں
 

منتظر

Minister (2k+ posts)
شیعہ عبداللہ بن سبا کے وجود کے قائل ہیں اسی طرح جس طرح اہل سنہ

ملا مجلسی بحار الانوار میں لکہتا ہے
علامہ مجلسی لکھتے ہیں


وذكر بعض أهل العلم أن عبد الله بن سبا كان يهوديا فأسلم ووالى عليا عليه السلام وكان يقول وهو على يهوديته في يوشع بن نون وصي موسى بالغلو فقال في إسلامه بعد وفاة رسول الله صلى الله عليه وآله في علي عليه السلام مثل ذلك. وكان أول من أشهر بالقول بفرض إمامة علي عليه السلام وأظهر البراءة من أعدائه وكاشف مخالفيه وأكفرهم

بعض اہل علم نے ذکر کیا ہے کہ عبداللہ ابن سبا یہودی تھا اسلام لے آیا اور پھر حضرت علی کی ولایت کا قائل ہوا۔ اس پہلے جب یہ یہودی تھا تو حضرت یوشع کے بارے میں غلو کرتا تھا کہ وہ موسی کے وصی ہیں۔ اسلام لانے کے بعد اس قسم کی بات حضرت علی کے بارے میں کی۔ یہ سب سے پہلا شخص ہے جس نے حضرت علی کی امامت کا قائل ہونا فرض ہے اور ان کی دشمنوں پر اعلانیہ تبرا کیا۔اور مخالفوں کو کافر کہا

ہ(بحارالنوار صفحہ 287 جلد 25)۔ہ

عبداللہ بن سبا سے پہلے کے لوگ تقیہ سے کام لیتے تھے اور ان امور کو (وصایت ، امامت ، افضلیت علی رضہ ) کو اعلانیہ نہیں کہتے تھے لیکن اس نے تقیہ چھوڑ دیا اور ان باتوں کو اعلانیہ ذکر کرنا شروع کر دیا۔ مخالفین امامت کو کافر کہنا بھی پہلے اس نے شروع کیا۔

ہ( بحار النوار ص 287 جلد 25 حاشیہ)۔ہ

حضرت صادق رح اس کے بارے میں
فرماتے ہیں


رجال الكشي: محمد بن قولويه عن سعد عن ابن يزيد ومحمد بن عيسى عن علي بن مهزيار عن فضالة بن أيوب الأزدي عن أبان بن عثمان قال: سمعت أبا عبد الله عليه السلام يقول: لعن الله عبد الله بن سبا إنه ادعى الربوبية في أمير المؤمنين،

عبداللہ بن سبا پر اللہ کی لعنت ہو اس نے امیر المومنین کے بارے میں ربوبیت کا دعوی کیا۔

ہ(بحارالانوار جلد 25 ص 287)۔ہ
سکرین شارٹ دو ان حوالوں کے اگر ابن سبا کا وجود تھا میں نے ماں لیا ایک لمحے کے لئے کے بات کو آگے بڑھایا جاے ب تو کیا پھر عثمان کے قاتل بھی وہی ٹھہرے ابن سبا اور اس کے گروہ والے ؟ تو پھر صحابہ کدھر تھے ؟
رہی بات مولا علی کو خلیفہ ماننے والی تو وہ تو تماری کتب میں موجود ہے کے آپ فرما گئے کے میرے بعد خلیفہ علی ہو گا کیا تم ان کتابوں کا انکار کرو گے ؟
جس طرح تم نے شیعہ کتب کا حوالہ دیا اسی طرح سنی کتب میں موجود حوالوں کو بھی اسے ہی مانو گے ؟

مجھے اس حوالے کی اسناد بھی دو
 

منتظر

Minister (2k+ posts)
سیف بن عمر کے علاوہ بھی راویوں سے و
عبداللہ بن سبا سے متعلق روایات ہیں۔۔۔ملاحظہ ہوں


جاء في ( طوق الحمامة ) ليحيى بن حمزة الزبيدي عن سويد بن غفلة الجعفي الكوفي المتوفى عام (80هـ/699م) أنه دخل على علي-رضي الله عنه- في إمارته، فقال: إني مررت بنفر يذكرون أبا بكر و عمر بسوء، ويروون أنك تضمر لهما مثل ذلك، منهم عبد الله بن سبأ، فقال علي: مالي ولهذا الخبيث الأسود، ثم قال : معاذ الله أن أضمر لهما إلا الحسن الجميل، ثم أرسل إلى ابن سبأ فسيره إلى المدائن، ونهض إلى المنبر، حتى اجتمع الناس أثنى عليهما خيرا، ثم قال : إذا بلغني عن أحد أنه يفضلني عليهما جلدته حد المفتري –

ترجمہ: یحی بن حمزہ زبیدی سوید بن غفلہ ال جعفی سے روایت کرتا ہے کہ وہ علی رضہ کے پاس داخل ہوا اورا نہین کہا کہ میں کچھ لوگوں کے پاس سے گذرا جس میں عبداللہ بن سبا بھی تھا وہ ابی بکر رضہ و عمر رضہ کے بارے میں منفی باتیں کر رہے تھے اور کہ رہے تھے کہ آپ رضہ کے دل میں ان کے خلاف احساس پایا جاتا ہے تو آپ نے کہا کہ یہ خبیث کالا آدمی مجھ سے کیا چاہتا ہے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں ان کے خلاف دل میں بات رکہنے سے اور دونوں کے لئے ادب رکہتا ہوں اور آپ نے اس کو مدین کی طرف جلا وطن کردیا اور منبر پر تشریف لائے یہاں تک کہ لوگ جمع ہوگئے آپ نے ابی بکر رضہ و عمر رضہ کی تعریف کی اور کہا کہ اگر یہ بات مجھے پہنچی کہ مجھے ان دونوں پر فضلیت دی جاتی ہے تو میں اس کو کوڑے لگائوں گا جیسے وہ جھوٹوں کو لگاتے تھے۔

حقیقت میں یہ روایت مختلف سندوں سے بیان کی گئی ہے جو کہ صحیح ہیں جیسے
ابو اسحاق الفرازی سیرہ میں یہ روایت نقل کرتے ہیں شعبہ سے وہ سلمہ بن کھیل سے وہ ابو الزراہ سے وہ زید بن ھباب سے ۔ خطیب نے اس روایت کی تخریج الکفایہ ص 376 پر کی ہے اور کہا ہے کہ ابو عبداللہ البوشانجی نے اسے صحیح کہاہے ، ابو نصر محمد بن عبداللہ الامام نے اپنی شرح میں کہا ہے یہ روایت دوسری سندوں سے بھی ثبت ہے اور اس کا اخری حصہ ابو بکر رضہ اور عمر رضہ امت کے میں سب سے بہترین ہیں جو کہ خود علی رضہ نے کہا ہے یہ متواتر ہے۔


أخرج ابن عساكر عن زيد بن وهب الجهني الكوفي المتوفى عام (90هـ/709م) قال: (قال علي بن أبي طالب: مالي ولهذا الخبيث الأسود-يعني عبد الله بن سبأ- و كان يقع في أبي بكر و عمر

ابن عساكر، مختصر تاريخ دمشق، مرجع سابق، م 12، ص 222

زید بن وہب کہتے ہیں کہ علی ابن ابی طالب نے کہا کہ مجھے اس کالے خبیث کے ساتھ کیا کرنا چاہئے ان کا مطلب عبداللہ بن سبا تھا جو کہ ابی بکر و عمر کی برائی کرتا تھا۔

یہ روایت تاریخ ابن ابی خثیمہ میں بھی پائی جاتی ہے صحیح سند کے ساتھ

روایتیں اور بھی ہیں مگر غلط بیانی ظاہر کرنے کے لئے دو ہی کافی ہیں
میں نے جو سوال پوچھا ہے اس کے جوابات دو تو بات اگے بڑھے گی اس وقت میں کام سے نکل رہا ہوں چاہوں گا کے گھر پہنچوں تو تم ان کے جوابات دو
بحث کا سب سے بڑا اصول یہ ہوتا ہے کے جو حوالہ دیا جاے اور وہ رد کیا جا چکا ہو تو وہ کلیم ختم ہو جاتا ہے
 

such bolo

Chief Minister (5k+ posts)
سکرین شارٹ دو ان حوالوں کے اگر ابن سبا کا وجود تھا میں نے ماں لیا ایک لمحے کے لئے کے بات کو آگے بڑھایا جاے ب تو کیا پھر عثمان کے قاتل بھی وہی ٹھہرے ابن سبا اور اس کے گروہ والے ؟ تو پھر صحابہ کدھر تھے ؟
رہی بات مولا علی کو خلیفہ ماننے والی تو وہ تو تماری کتب میں موجود ہے کے آپ فرما گئے کے میرے بعد خلیفہ علی ہو گا کیا تم ان کتابوں کا انکار کرو گے ؟
جس طرح تم نے شیعہ کتب کا حوالہ دیا اسی طرح سنی کتب میں موجود حوالوں کو بھی اسے ہی مانو گے ؟

مجھے اس حوالے کی اسناد بھی دو

جاو موج کرو۔۔۔ایک حوالے کا اسکرین شاٹ کافی ہے

kishi2.gif


نہج البلاغہ جس کی کوئی سند نہیں کو قرآن کے بعد زندہ جاوید کتاب اور کلام علی ماننے والے سند کا مطالبہ کریں تو تھوڑی حیرت ہوتی ہے۔۔۔بے سند کتابوں کو کلام علی کہنے والوں کے نزدیک سند کی کتنی اہمیت ہوگی سمجھ سکتے ہیں

تم بے سند نہج البلاغہ سے انکاری ہوجاو کہدو کہ نہج البلاغہ جھوٹی کتاب ہے تو پھر سند کا مطالبہ تمہارا منطقی مانا جائے گا
 

The_Choice

Senator (1k+ posts)

A must watch for all Muslims, especially Shia Brothers and Sisters, Insha'Allah. It's time to wake up to reality and come back to Allah and His Messenger (SAW) through the Quran and Sahih Sunnah, Insha'Allah. This video is not meant to hurt anyone, it is meant to wake people up and sometimes that can be painful, because fighting your desires, going against what you have been taught and facing reality is really difficult. But, we have to make the truth heard and make it plain...Please keep it civil.

Please share and help others. Jazakum'Allahu Khayran.

May Allah SWT guide us and help us to enjoin Good and repel falsehood, Ameen.
 

such bolo

Chief Minister (5k+ posts)
میں نے جو سوال پوچھا ہے اس کے جوابات دو تو بات اگے بڑھے گی اس وقت میں کام سے نکل رہا ہوں چاہوں گا کے گھر پہنچوں تو تم ان کے جوابات دو
بحث کا سب سے بڑا اصول یہ ہوتا ہے کے جو حوالہ دیا جاے اور وہ رد کیا جا چکا ہو تو وہ کلیم ختم ہو جاتا ہے

میں بھی اس وقت اپنے گھر پر نہیں ہوں اور پندرہ دن بعد گھر اور کمپیوٹر میسر ہوگا۔۔۔اس وقت بات کرینگے۔۔سر دست جواب دینا ضروری سمجھا۔ ٹائپ کرنے میں مشکلات ہیں۔موبائل پر ٹائپ کرنا دشوار ہے
 

Dream Seller

Chief Minister (5k+ posts)
ڈاکٹر اسرار اور اس کے پیروکار کا ٹھکانا وہی ہے جدھر آل امیہ موجود ہے اس وقت اسرار جس عذاب میں مبتلا ہے اگر وہ تم کو پتہ لگ جے تو تماری کریہ صورت پر مزید کراہت آ جاے گی
Yeh baat tumko nepal walay babay ne batayi hai? Khabees insan
 

منتظر

Minister (2k+ posts)
یا شیخ انت رافضی و مجوسی؟
اپنی اصل ای ڈی سے آ کر بات کر ویسے اتنا بتا دیتا ہوں میں رافضی ضرور ہوں پر مجوسی تیرا امام حنیفہ اور بخاری مسلم غزالی ترمزی نسائی طبری یہ سب تھے یقین نہیں تو گوگل کر لے
Yeh baat tumko nepal walay babay ne batayi hai? Khabees insan
نہیں یہ بات مجھے خواب میں آکر اس نے بتائی تھی جس کے لیے چار باپ مخصوس ہیں اور فیصلہ ہندہ نے دولت کی بنیاد پر ایک کے حق میں کیاتھا
:body:

 
Last edited:

Dream Seller

Chief Minister (5k+ posts)
اپنی اصل ای ڈی سے بات کرو be

نہیں یہ بات مجھے خواب میں آکر اس نے بتائی تھی جس کے لیے چار باپ مخصوس ہیں اور فیصلہ ہندہ نے دولت کی بنیاد پر ایک کے حق میں کیاتھا
:body:

Ok go beat yourself to death
 

منتظر

Minister (2k+ posts)
جاو موج کرو۔۔۔ایک حوالے کا اسکرین شاٹ کافی ہے

kishi2.gif


نہج البلاغہ جس کی کوئی سند نہیں کو قرآن کے بعد زندہ جاوید کتاب اور کلام علی ماننے والے سند کا مطالبہ کریں تو تھوڑی حیرت ہوتی ہے۔۔۔بے سند کتابوں کو کلام علی کہنے والوں کے نزدیک سند کی کتنی اہمیت ہوگی سمجھ سکتے ہیں

تم بے سند نہج البلاغہ سے انکاری ہوجاو کہدو کہ نہج البلاغہ جھوٹی کتاب ہے تو پھر سند کا مطالبہ تمہارا منطقی مانا جائے گا
نہج البلاغہ کی اگر کوئی سند ہی نہیں تو پھر حوالہ کیوں دیا ؟ مجھے میرے سوالات کے جواب دو ساتھ میں تم اچھی طرح جانتے ہو اور میں تم کو کبھی بھی تم اپنی کتابوں کو نہیں مانتے ہو چاہے وہ نکھری ہوں یا مسلم مجھے جواب دو کے ابن سبا اگر تھا تو پھر اس کے قاتلین کون تھے ابن سبا کے پیروکار ہی ہوے نہ ؟
 

منتظر

Minister (2k+ posts)
Ok go beat yourself to death
کیوں اپنے باپ کو بھول گئے اپنے باپ کو تم جا کر خود کش حملے کرو میرے ننھے دہشتگرد پیٹا تو امی جان نے بھی تھا یہ حکم خالی میرے لیے ہے کیا ؟
 

منتظر

Minister (2k+ posts)

A must watch for all Muslims, especially Shia Brothers and Sisters, Insha'Allah. It's time to wake up to reality and come back to Allah and His Messenger (SAW) through the Quran and Sahih Sunnah, Insha'Allah. This video is not meant to hurt anyone, it is meant to wake people up and sometimes that can be painful, because fighting your desires, going against what you have been taught and facing reality is really difficult. But, we have to make the truth heard and make it plain...Please keep it civil.

Please share and help others. Jazakum'Allahu Khayran.

May Allah SWT guide us and help us to enjoin Good and repel falsehood, Ameen.
اس نجس لا ولد مولوی کی بات میں سنوں ؟ کاپی پیسٹ کی بجاے مجھ سے بات کر تجھے تیرا مذھب دکھاتا ہوں لارنس آف عربیہ کی پیداوار یہودیوں کے ہاتھوں بنے ہوے ہمیں بتائیں گے ؟
 

The_Choice

Senator (1k+ posts)
اس نجس لا ولد مولوی کی بات میں سنوں ؟ کاپی پیسٹ کی بجاے مجھ سے بات کر تجھے تیرا مذھب دکھاتا ہوں لارنس آف عربیہ کی پیداوار یہودیوں کے ہاتھوں بنے ہوے ہمیں بتائیں گے ؟
Bhai, he is giving references from your own books.
 

Back
Top