ڈاکٹر اسرار اور اس کے پیروکار کا ٹھکانا وہی ہے جدھر آل امیہ موجود ہے اس وقت اسرار جس عذاب میں مبتلا ہے اگر وہ تم کو پتہ لگ جے تو تماری کریہ صورت پر مزید کراہت آ جاے گیعبداللہ ابن سبا کون تھا ؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اسے زندہ کیوں جلوایا ؟ ان سوالات کے جوابات جانیے ڈاکٹر اسرار احمد رحمۃ اللہ علیہ کی زبانی
مجھے یہ بتاؤ کے اس طرح عثمان کے قاتل ابن سبا اور اس کے پیروکار ٹھہرے ہیں اہلسنت کے نزدیک ؟شیعہ عبداللہ بن سبا کے وجود کے قائل ہیں اسی طرح جس طرح اہل سنہ
ملا مجلسی بحار الانوار میں لکہتا ہے
علامہ مجلسی لکھتے ہیں
وذكر بعض أهل العلم أن عبد الله بن سبا كان يهوديا فأسلم ووالى عليا عليه السلام وكان يقول وهو على يهوديته في يوشع بن نون وصي موسى بالغلو فقال في إسلامه بعد وفاة رسول الله صلى الله عليه وآله في علي عليه السلام مثل ذلك. وكان أول من أشهر بالقول بفرض إمامة علي عليه السلام وأظهر البراءة من أعدائه وكاشف مخالفيه وأكفرهم
بعض اہل علم نے ذکر کیا ہے کہ عبداللہ ابن سبا یہودی تھا اسلام لے آیا اور پھر حضرت علی کی ولایت کا قائل ہوا۔ اس پہلے جب یہ یہودی تھا تو حضرت یوشع کے بارے میں غلو کرتا تھا کہ وہ موسی کے وصی ہیں۔ اسلام لانے کے بعد اس قسم کی بات حضرت علی کے بارے میں کی۔ یہ سب سے پہلا شخص ہے جس نے حضرت علی کی امامت کا قائل ہونا فرض ہے اور ان کی دشمنوں پر اعلانیہ تبرا کیا۔اور مخالفوں کو کافر کہا
ہ(بحارالنوار صفحہ 287 جلد 25)۔ہ
عبداللہ بن سبا سے پہلے کے لوگ تقیہ سے کام لیتے تھے اور ان امور کو (وصایت ، امامت ، افضلیت علی رضہ ) کو اعلانیہ نہیں کہتے تھے لیکن اس نے تقیہ چھوڑ دیا اور ان باتوں کو اعلانیہ ذکر کرنا شروع کر دیا۔ مخالفین امامت کو کافر کہنا بھی پہلے اس نے شروع کیا۔
ہ( بحار النوار ص 287 جلد 25 حاشیہ)۔ہ
حضرت صادق رح اس کے بارے میں
فرماتے ہیں
رجال الكشي: محمد بن قولويه عن سعد عن ابن يزيد ومحمد بن عيسى عن علي بن مهزيار عن فضالة بن أيوب الأزدي عن أبان بن عثمان قال: سمعت أبا عبد الله عليه السلام يقول: لعن الله عبد الله بن سبا إنه ادعى الربوبية في أمير المؤمنين،
عبداللہ بن سبا پر اللہ کی لعنت ہو اس نے امیر المومنین کے بارے میں ربوبیت کا دعوی کیا۔
ہ(بحارالانوار جلد 25 ص 287)۔ہ
تاریخ کےمطابق عبداللہ ابن سباء تقریبا 35 یا 36 ھجری قمری کےزمانےمیں تھاابونعیم سیف بن عمر کا نام ضعفاء نامی کتاب میں لکھتاھے اور کہتاھے
اگر اس تاریخ کو دیکھاجائے تو طبری خود 310 ھجری میں فوت ھورہاھے
اور طبری نےاپنی تاریخ اپنی تفسیرلکھنےکےبعد لکھی جس کا وقت یاقوت حموی کےنذدیک 303 ھجری قمری تھا(معجم الادباءجلد 18 صفحہ 44 چاپ بیروت)
تو طبری اور ابن سباء کےزمانےمیں تقریبا 250 سے270 سال تک کا فاصلہ ھے
تولازمی ھےکہ طبری نےخود ابن سباء کو نہیں دیکھا بلکہ کسی سےاس واقعےکو نقل کیا
اور جس سےطبری نےاس واقعہ کو نقل کیا اس شخص کا نام ھے سیف بن عمر
اور سیف بن عمر کی وفات 170 قمری ھجری کوھوئی
یعنی طبری کےزمانےسےپھلےسیف بن عمر مرچکاتھا
جس سےطبری نے ابن سباء کی روایات کو نقل کیا
اب یہ بھی دیکھتےھیں کہ ابن سباء کی روایت کو نقل کرنےوالا راوی سیف بن عمر ضعیف تھا یا ثقہ تھا
یعنی اس کی روایت پر علماء اہلسنت اعتمادکرتےھیں یا نہیں؟
یہ ضعیف ھے دین بھی اس کا صحیح نہیں زندیق وغیرہ ساقط الحدیث ھے
اور اس کی حدیث کی کوئی حیثیت نہیںکتاب الضعفاء ج 1 ص 91
نیز مختصر کروں کہ اہلسنت علماء کےنذدیک سیف بن عمر کی روایت پر قطعا اعتماد نہیں کیاجاتا
تو ایک ضعیف راوی کی بناء پر آپ قرآن سےثابت شدہ عقیدہ امامت پر کیسے اعتراض کرسکتےھیں؟
شیعہ عبداللہ بن سبا کے وجود کے قائل ہیں اسی طرح جس طرح اہل سنہ
ملا مجلسی بحار الانوار میں لکہتا ہے
علامہ مجلسی لکھتے ہیں
وذكر بعض أهل العلم أن عبد الله بن سبا كان يهوديا فأسلم ووالى عليا عليه السلام وكان يقول وهو على يهوديته في يوشع بن نون وصي موسى بالغلو فقال في إسلامه بعد وفاة رسول الله صلى الله عليه وآله في علي عليه السلام مثل ذلك. وكان أول من أشهر بالقول بفرض إمامة علي عليه السلام وأظهر البراءة من أعدائه وكاشف مخالفيه وأكفرهم
بعض اہل علم نے ذکر کیا ہے کہ عبداللہ ابن سبا یہودی تھا اسلام لے آیا اور پھر حضرت علی کی ولایت کا قائل ہوا۔ اس پہلے جب یہ یہودی تھا تو حضرت یوشع کے بارے میں غلو کرتا تھا کہ وہ موسی کے وصی ہیں۔ اسلام لانے کے بعد اس قسم کی بات حضرت علی کے بارے میں کی۔ یہ سب سے پہلا شخص ہے جس نے حضرت علی کی امامت کا قائل ہونا فرض ہے اور ان کی دشمنوں پر اعلانیہ تبرا کیا۔اور مخالفوں کو کافر کہا
ہ(بحارالنوار صفحہ 287 جلد 25)۔ہ
عبداللہ بن سبا سے پہلے کے لوگ تقیہ سے کام لیتے تھے اور ان امور کو (وصایت ، امامت ، افضلیت علی رضہ ) کو اعلانیہ نہیں کہتے تھے لیکن اس نے تقیہ چھوڑ دیا اور ان باتوں کو اعلانیہ ذکر کرنا شروع کر دیا۔ مخالفین امامت کو کافر کہنا بھی پہلے اس نے شروع کیا۔
ہ( بحار النوار ص 287 جلد 25 حاشیہ)۔ہ
حضرت صادق رح اس کے بارے میں
فرماتے ہیں
رجال الكشي: محمد بن قولويه عن سعد عن ابن يزيد ومحمد بن عيسى عن علي بن مهزيار عن فضالة بن أيوب الأزدي عن أبان بن عثمان قال: سمعت أبا عبد الله عليه السلام يقول: لعن الله عبد الله بن سبا إنه ادعى الربوبية في أمير المؤمنين،
عبداللہ بن سبا پر اللہ کی لعنت ہو اس نے امیر المومنین کے بارے میں ربوبیت کا دعوی کیا۔
ہ(بحارالانوار جلد 25 ص 287)۔ہ
سیف بن عمر کے علاوہ بھی راویوں سے و
عبداللہ بن سبا سے متعلق روایات ہیں۔۔۔ملاحظہ ہوں
جاء في ( طوق الحمامة ) ليحيى بن حمزة الزبيدي عن سويد بن غفلة الجعفي الكوفي المتوفى عام (80هـ/699م) أنه دخل على علي-رضي الله عنه- في إمارته، فقال: إني مررت بنفر يذكرون أبا بكر و عمر بسوء، ويروون أنك تضمر لهما مثل ذلك، منهم عبد الله بن سبأ، فقال علي: مالي ولهذا الخبيث الأسود، ثم قال : معاذ الله أن أضمر لهما إلا الحسن الجميل، ثم أرسل إلى ابن سبأ فسيره إلى المدائن، ونهض إلى المنبر، حتى اجتمع الناس أثنى عليهما خيرا، ثم قال : إذا بلغني عن أحد أنه يفضلني عليهما جلدته حد المفتري –
ترجمہ: یحی بن حمزہ زبیدی سوید بن غفلہ ال جعفی سے روایت کرتا ہے کہ وہ علی رضہ کے پاس داخل ہوا اورا نہین کہا کہ میں کچھ لوگوں کے پاس سے گذرا جس میں عبداللہ بن سبا بھی تھا وہ ابی بکر رضہ و عمر رضہ کے بارے میں منفی باتیں کر رہے تھے اور کہ رہے تھے کہ آپ رضہ کے دل میں ان کے خلاف احساس پایا جاتا ہے تو آپ نے کہا کہ یہ خبیث کالا آدمی مجھ سے کیا چاہتا ہے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں ان کے خلاف دل میں بات رکہنے سے اور دونوں کے لئے ادب رکہتا ہوں اور آپ نے اس کو مدین کی طرف جلا وطن کردیا اور منبر پر تشریف لائے یہاں تک کہ لوگ جمع ہوگئے آپ نے ابی بکر رضہ و عمر رضہ کی تعریف کی اور کہا کہ اگر یہ بات مجھے پہنچی کہ مجھے ان دونوں پر فضلیت دی جاتی ہے تو میں اس کو کوڑے لگائوں گا جیسے وہ جھوٹوں کو لگاتے تھے۔
حقیقت میں یہ روایت مختلف سندوں سے بیان کی گئی ہے جو کہ صحیح ہیں جیسے
ابو اسحاق الفرازی سیرہ میں یہ روایت نقل کرتے ہیں شعبہ سے وہ سلمہ بن کھیل سے وہ ابو الزراہ سے وہ زید بن ھباب سے ۔ خطیب نے اس روایت کی تخریج الکفایہ ص 376 پر کی ہے اور کہا ہے کہ ابو عبداللہ البوشانجی نے اسے صحیح کہاہے ، ابو نصر محمد بن عبداللہ الامام نے اپنی شرح میں کہا ہے یہ روایت دوسری سندوں سے بھی ثبت ہے اور اس کا اخری حصہ ابو بکر رضہ اور عمر رضہ امت کے میں سب سے بہترین ہیں جو کہ خود علی رضہ نے کہا ہے یہ متواتر ہے۔
أخرج ابن عساكر عن زيد بن وهب الجهني الكوفي المتوفى عام (90هـ/709م) قال: (قال علي بن أبي طالب: مالي ولهذا الخبيث الأسود-يعني عبد الله بن سبأ- و كان يقع في أبي بكر و عمر
ابن عساكر، مختصر تاريخ دمشق، مرجع سابق، م 12، ص 222
زید بن وہب کہتے ہیں کہ علی ابن ابی طالب نے کہا کہ مجھے اس کالے خبیث کے ساتھ کیا کرنا چاہئے ان کا مطلب عبداللہ بن سبا تھا جو کہ ابی بکر و عمر کی برائی کرتا تھا۔
یہ روایت تاریخ ابن ابی خثیمہ میں بھی پائی جاتی ہے صحیح سند کے ساتھ
روایتیں اور بھی ہیں مگر غلط بیانی ظاہر کرنے کے لئے دو ہی کافی ہیں
یا شیخ انت رافضی و مجوسی؟ڈاکٹر اسرار اور اس کے پیروکار کا ٹھکانا وہی ہے جدھر آل امیہ موجود ہے اس وقت اسرار جس عذاب میں مبتلا ہے اگر وہ تم کو پتہ لگ جے تو تماری کریہ صورت پر مزید کراہت آ جاے گی
سکرین شارٹ دو ان حوالوں کے اگر ابن سبا کا وجود تھا میں نے ماں لیا ایک لمحے کے لئے کے بات کو آگے بڑھایا جاے ب تو کیا پھر عثمان کے قاتل بھی وہی ٹھہرے ابن سبا اور اس کے گروہ والے ؟ تو پھر صحابہ کدھر تھے ؟
رہی بات مولا علی کو خلیفہ ماننے والی تو وہ تو تماری کتب میں موجود ہے کے آپ فرما گئے کے میرے بعد خلیفہ علی ہو گا کیا تم ان کتابوں کا انکار کرو گے ؟
جس طرح تم نے شیعہ کتب کا حوالہ دیا اسی طرح سنی کتب میں موجود حوالوں کو بھی اسے ہی مانو گے ؟
مجھے اس حوالے کی اسناد بھی دو
میں نے جو سوال پوچھا ہے اس کے جوابات دو تو بات اگے بڑھے گی اس وقت میں کام سے نکل رہا ہوں چاہوں گا کے گھر پہنچوں تو تم ان کے جوابات دو
بحث کا سب سے بڑا اصول یہ ہوتا ہے کے جو حوالہ دیا جاے اور وہ رد کیا جا چکا ہو تو وہ کلیم ختم ہو جاتا ہے
Yeh baat tumko nepal walay babay ne batayi hai? Khabees insanڈاکٹر اسرار اور اس کے پیروکار کا ٹھکانا وہی ہے جدھر آل امیہ موجود ہے اس وقت اسرار جس عذاب میں مبتلا ہے اگر وہ تم کو پتہ لگ جے تو تماری کریہ صورت پر مزید کراہت آ جاے گی
یا شیخ انت رافضی و مجوسی؟
Yeh baat tumko nepal walay babay ne batayi hai? Khabees insan
Ok go beat yourself to deathاپنی اصل ای ڈی سے بات کرو be
نہیں یہ بات مجھے خواب میں آکر اس نے بتائی تھی جس کے لیے چار باپ مخصوس ہیں اور فیصلہ ہندہ نے دولت کی بنیاد پر ایک کے حق میں کیاتھا
:body:
جاو موج کرو۔۔۔ایک حوالے کا اسکرین شاٹ کافی ہے
![]()
نہج البلاغہ جس کی کوئی سند نہیں کو قرآن کے بعد زندہ جاوید کتاب اور کلام علی ماننے والے سند کا مطالبہ کریں تو تھوڑی حیرت ہوتی ہے۔۔۔بے سند کتابوں کو کلام علی کہنے والوں کے نزدیک سند کی کتنی اہمیت ہوگی سمجھ سکتے ہیں
تم بے سند نہج البلاغہ سے انکاری ہوجاو کہدو کہ نہج البلاغہ جھوٹی کتاب ہے تو پھر سند کا مطالبہ تمہارا منطقی مانا جائے گا
Ok go beat yourself to death
A must watch for all Muslims, especially Shia Brothers and Sisters, Insha'Allah. It's time to wake up to reality and come back to Allah and His Messenger (SAW) through the Quran and Sahih Sunnah, Insha'Allah. This video is not meant to hurt anyone, it is meant to wake people up and sometimes that can be painful, because fighting your desires, going against what you have been taught and facing reality is really difficult. But, we have to make the truth heard and make it plain...Please keep it civil.
Please share and help others. Jazakum'Allahu Khayran.
May Allah SWT guide us and help us to enjoin Good and repel falsehood, Ameen.
Bhai, he is giving references from your own books.اس نجس لا ولد مولوی کی بات میں سنوں ؟ کاپی پیسٹ کی بجاے مجھ سے بات کر تجھے تیرا مذھب دکھاتا ہوں لارنس آف عربیہ کی پیداوار یہودیوں کے ہاتھوں بنے ہوے ہمیں بتائیں گے ؟
© Copyrights 2008 - 2025 Siasat.pk - All Rights Reserved. Privacy Policy | Disclaimer|