حامد میر نے نجی اخبار میں ناقابل معافی کے عنوان سے ایک کالم لکھا ہے جس میں عمران خان کے عدالت میں دیئے گئے ایک جواب پر انہیں شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی شوکت خانم اسپتال کے پیسوں سے نجی کاروبار میں سرمایہ کاری غلط عمل اور ناقابل معافی ہے۔
حامد میر کی جانب سے کی گئی اس طرح کی تنقید سوشل میڈیا صارفین کو کچھ بھائی نہیں اور انہوں نے اعتراض کرتے ہوئے خوب لتے لیے ہیں کیونکہ حامد میر عمران خان کے علاوہ کسی دوسری سیاسی جماعت کے سربراہ سے متعلق بڑے کرپشن کیسز ہونے کے باوجود بھی کسی کے جرم کو ناقابل معافی نہیں کہتے اور نہ ہیں اس طرح تنقید کرتے ہیں۔
افضال نامی صارف نے حامد میر کے کالم کے جواب میں کہا کہ دنیا بھر میں فلاحی ادارے چندے کی آمدنی انویسٹ کرتے ہیں تاکہ چندہ کم ہو تو کام چلتا رہے۔ ایسی دانشوری کرنے کے بعد جب گالیاں پڑتی ہیں تو پھر روتے ہیں۔ بھائی خدا کے لئے اس عمر میں تو صحافت کر لو۔
ایک صارف نے کہا کہ یہ بندہ عرصہ دراز سے ایک دانشور اور محب وطن کے روپ میں ایک بہروپیا ہے۔ یہ ساری دنیا پر تنقید کرے گا۔ اپنے آپ کو بھی گالیاں دے لے گا مگر یہ کرپشن کی یونیورسٹی پیپلز پارٹی کے پے رول پر ایک تھرڈ گریڈ دانشور ہے جو اپنے آقا کے حکم پر کینسر جیسے مرض پر بھی بولنے کے لیے حاضر ہے۔
زمان بھٹی نے لکھا کہ پہلے توشہ خانہ والا ڈرامہ کیا گیا اور اب اپنی سیاست بچانے کیلئے شوکت خانم اسپتال کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
عبداللہ راجا کا کہنا ہے کہ شوکت خانم اسپتال کو سیاست سے دور رکھنے کے لیے میر صاحب کا 'غیر سیاسی' کالم۔
ندیم اسلم نے ردعمل میں کہا کہ بس اس کی کمی تھی۔
نعمان احمد نے کہا توشہ خانے کا سکینڈل زیادہ عرصہ چلا نہیں، رہی بات شوکت خانم کی تو دنیا کی ہر نان پرافٹ کی اپنی انویسٹمنٹ ہوتی ہیں تاکہ اس کے منافع سے وہ اپنا مشن چلا سکیں۔ آپ یہ باتیں کر کے عمران خان کو بدنام نہیں کر سکتے، پچھلے دنوں میں لوگ ایک خطیر رقم شوکت خانم کو ویسے ہی عطیہ کر چکے ہیں۔